مسلمان کہاں ہیں

پیشکش: ابو سعدی
بے پڑھے لکھے مسلمانوں میں نہیں، ایسے پڑھے لکھے مسلمانوں میں جنہوں نے سینکڑوں کتابیں پڑھی ہوں گی اور دو چار شاید لکھی بھی ہوں گی، اس وقت شاید ایک فی صد بھی نہیں ہیں جو یہ دعویٰ کرسکیں کہ ہم نے کبھی قرآن مجید کو اوّل تا آخرسمجھ کر پڑھا ہے۔ جنہیں دین سے لگائو نہیں ہے ان کا تو کیا کہنا… دین دار قسم کے مسلمان ایک فی صد بمشکل نکلیں گے۔ میرا اندازہ غلط ہے تو متنبہ کردیجیے، لیکن ذرا سا غور کرنے کے بعد خدا کرے آپ ایک فی صد ہی میں ہوں، اپنے گردوپیش نظر ڈالیے۔ دوستوں اور عزیزوں سے دریافت کیجیے کہ انہوں نے پورا قرآن کتنی دفعہ سمجھ کر پڑھا ہے۔
یہ برا تجسس نہیں ہے، نیک نیتی کی جستجو ہے۔ اس جستجو سے آپ اس مرض کی تشخیص کرسکیں گے جس میں دنیا بھر کے مسلمان مبتلا ہیں۔ اکبر الہٰ آبادی نے کہا تھا:
اک شور ہے بپا کہ مسلمان ہیں تباہ
میں تم سے پوچھتا ہوں مسلمان ہیں کہاں
[تاثرات: ملاواحدی]

نظام آب رسانی

عہدِ عالمگیری میں اورنگ آباد میں آب رسانی کا جو حیرت انگیز نظام جاری کیا گیا تھا اور جو آج تک جاری ہے اس میں زمین کے اندر سے بڑے بڑے نالے بناکر میٹھا پانی پہنچانے کا انتظام کیا گیا تھا۔ اس کی تفصیل یوں ہے: شہر کے باہر ایک عمیق کنواں ہے جس میں جھانکنے سے چشمے کا جھرا یا سوتا سا نظر آتا ہے۔ یہیں سے ایک گہرا پختہ نالہ بہنا شروع ہوتا ہے اور جوں جوں شہر کی طرف یہ نالہ بڑھتا ہے اس میں الغاروں پانی نمودار ہوتا جاتا ہے۔ شہر کے قریب جاکر اس میں سے پختہ نالیاں نکالی گئی ہیں۔ ڈھائی سو برس کے بعد آج بھی انہی نالیوں سے شہر کو پانی ملتا ہے۔ لیکن اس کی مرمت و صفائی کرنے میں اس زمانے کے انجینئر بہت دشواری محسوس کرتے ہیں۔ اسٹون برج صاحب نے جو سلطنتِ حیدرآباد دکن (1924ء) میں واٹر ورکس کے انجینئر تھے، بیان کیا کہ اگر آج ہم اس سے بہتر پانی لیول نکالنا چاہیں تو وہ مشکل ہے۔ اورنگ آباد کے لیے اس سے بہتر واٹر ورکس کا انتظام کرنا اس زمانے میں بھی دشوار ہے۔
(’’ہندو عہد اورنگ زیب میں‘‘ 71۔782، از مرزا یار جنگ سمیع اللہ بیگ چیف جسٹس حیدرآباد)

چار چیزوں سے بچو

امام غزالیؒ (1111ء) نے ایک وعظ میں فرمایا:
’’چار چیزوں سے اجتناب چار مصیبتوں سے بچاتا ہے:
1۔ حسد سے اجتناب جلن سے۔
2۔ صحبت بد سے اجتناب ملامت سے۔
3۔ گناہوں سے اجتناب جہنم سے۔
4۔ زراندوزی سے اجتناب غریبوں کی عداوت سے۔‘‘

اچھا بادشاہ

ایک دفعہ انوشیروان (579ء) نے دانشورانِ ملک کو طلب کیا اور پوچھا کہ اچھے بادشاہ کی علامت کیا ہے؟ ایک نے کہا:
’’اچھا بادشاہ وہ ہے جو ہاتھ کا کھلا، غصے میں معتدل، معاملات میں عادل، غریبوں کا ہمدرد، خوش کلام، خدا ترس اور علم نواز ہو۔‘‘
یہ سن کر فرمایا:
’’میری نجات کے لیے یہ کافی ہے۔‘‘

درباری لباس

امام غزالیؒ (1111ء) ایک امیر کے ہاں گئے، دیکھا کہ وہ غلاموں پر برس رہا ہے، بیٹوں سے الجھ رہا ہے اور بیوی سے جھگڑ رہا ہے کہ فلاں کمر بند کہاں گیا؟ تلوار پر زنگ کیوں ہے؟ کہنے لگا: فلاں عطر کیوں نہیں منگوایا؟ وقس علیٰ ہذا۔ امام نے پوچھا: یہ کیا ہنگامہ ہے؟ کہنے لگا: مجھے آج خلیفہ نے یاد فرمایا ہے اور میں مناسب ساز و لباس کی تلاش میں ہوں۔ فرمایا: تمہیں بہت جلد اللہ بھی یاد کرنے والا ہے، کیاں اس کے دربار کا ساز و سامان تار کر لیا ہے؟

ایک سورما کے نام

احمد جاوید

آنے والے دن کے آخر پر
سورج ٹوٹی ہوئی ڈھال کی طرح
افق پر چسپاں ایک حنوط کیا ہوا سر
کسی سورما کا
جو وقت سے ہار گیا!
بگولے ایسی ہوا اور ایک رنگا ہوا گھوڑا
لہولہان دل ہمیشہ گھڑ لیتا ہے ایک دنیا اپنے لیے
محبت کہیں زیادہ سفاک ہے نفرت سے
کیوں کہ یہ اچھوتی اور اجلی ہے
اس ستارے کی طرح
جو کندہ ہے ایک مقدس قرباں گاہ کی چھت پر
زندگی! ہشت!
ہاں مگر موت ایک پل ہے شکستہ اور چرچراتا
ابدیت کے بوجھ تلے
کہاں ہے تمہارا رتھ جو
تاریخ سے زیادہ تیز چلتا ہے
اور کہاں ہے تمہارا جھنڈا
جس کا سایہ اس
زمین پر نہیں پڑتا

حکایت

ایک بارہ سنگھے نے چشمۂ آب میں اپنا عکس دیکھا تو اپنے سینگوں کی شان اور خوبصورتی دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ لیکن جب اس کی نظر پتلی پتلی ٹانگوں پر پڑی تو کہنے لگا کہ ’’صافع قدرت نے یہ کیسی بے جوڑ ٹانگیں مجھ کو بخشی ہیں۔ جو میرے سینگوں کی خوبصورتی کو بھی عیب لگاتی ہیں‘‘۔
یہ دل میں سوچ رہا تھا۔ کہ اتنے میں کوئی شکاری آپہنچا۔ بارہ سنگھا ایسا تیز بھاگا کہ شکاری کو اس کے ہاتھ آنے کی امید نہ رہی۔ لیکن تھوڑی دور جا کر جنگل کی جاڑی میں سینگ اٹک گئے اور پکڑا گیا۔ تب کہنے لگا۔ ’’ہائے میری پر عقلی! سینگوں سے میں خوش تھا وہی میری ہلاکت کا سبب ہوئے۔ اور ٹانگوں کو میں برا جانتا تھا۔ انہوں نے مجھے موت سے بچانے میں کچھ کمی نہ کی۔
حاصل۔ جو چیز وقت پر کام آنے والی ہو اسی کو عزیز رکھنا چاہیے۔ گو وہ خوشنما نہ ہو۔