اللہ کے حوالے

ہارون رشید
نہیں، اس کتاب کے بارے میں مَیں کچھ نہیں لکھنا چاہتا اور نہ اس خاتون کے باب میں۔ خود ہی اپنا نامۂ اعمال اس نے مرتب کردیا ہے۔ جزا و سزا کا تعین کرنے والے کارکنانِِ قضا و قدر کا کام اس نے سہل کردیا۔ اللہ کے حوالے۔
یہ مکافاتِ عمل کی دنیا ہے۔ جو کچھ کسی نے بویا ہے، خود کاٹنا ہوتا ہے۔ اس لیے بھی نہیں لکھنا چاہتا کہ جس لرزا دینے والی بے باکی سے خلوت کی کہانیاں بیان کی گئی ہیں، کوئی بڑا ہی دلاور لکھاری اس پہ بات کرسکتا ہے۔ اپنے بس کی بات نہیں۔
پنجاب کے وزیراعلیٰ جناب شہبازشریف، ان کے فرزندِ ارجمند حمزہ شہباز اور حمزہ شہباز کے تایا جان میاں محمد نوازشریف کے حوالے سے کتنی ہی کہانیاں گردش میں رہتی ہیں۔ خاص طور پہ عصرِ حاضر کے شیرشاہ سوری کی تگ و تاز کچھ اس قدر سنسنی خیز ہیں کہ ہالی وڈ نہیں تو ممبئی میں ایک عدد فلم ضرور بن سکتی ہے کم از کم سو کروڑ روپے کا جو کاروبار کرسکے۔ عشروں تک جس کی یاد باقی رہے۔ ناظرین ماتھوں سے پسینہ پونچھتے رہیں۔ جو طویل عمر وہ پائیں، داستان آنے والی نسلوں کو سنا سکیں۔
کیا عجب کہ مستقبل کا کوئی شاعر انہیں منظوم کرے۔ غیر معمولی قوتِ متخیلہ کا کوئی لکھاری، ناول لکھ ڈالے۔ پڑوسی ممالک ایران، افغانستان اور بھارت کی سات درجن زبانوں میں جس کے تراجم ہوں، ممکن ہے کہ ان سے پرے ترکی، چین اور وسطی ایشیا میں بھی۔
جب سے آدمی اس دنیا میں آیا ہے، کہانی سے بڑھ کر شاید ہی کسی چیز نے اسے لبھایا ہو۔ کون جانتا ہے کہ سرزمین شام کی طرح، داستان گوئوں کا دور کبھی پھر سے لوٹ آئے۔ پشاور کا قصّہ خوانی بازار یا ایسا ہی کوئی دوسرا قریہ، دریائے آمو کے اُس پار سے، اِس دیار میں اترنے والے مسافروں کے لیے عہدِ رفتہ کے مناظر اور فنون زندہ کرنے کی کوئی کوشش کرے۔ کون جانتا ہے۔
چھے برس ہوتے ہیں، شریف خاندان کی ایک مبینہ بہو کا قصّہ اچھل رہا تھا۔ بعض نے اِس ناچیز سے بھی رابطہ کیا۔ ایک آدھ دوست مُصر رہے کہ ان محترمہ کے آلام کی تفصیل سن لی جائے۔ ’’اس میں حرج ہی کیا ہے‘‘۔ اس نے کہا۔ ’’کوئی حرج نہیں‘‘ میں نے کہا ’’مگر اس کے بعد کروں گا کیا‘‘۔ ایسی کچھ چیزیں بھی ہوتی ہیں جو لکھی نہیں جا سکتیں، اگرچہ خلقِ خدا کتنی ہی آرزومند ہو۔ قلب و دماغ خواہ کتنے ہی بے تاب ہوں۔ کتنے بے شمار سامعین اور قاری میسر ہوں۔ بے شرم لوگوں کی فہرست میں شمولیت پر جو آمادہ ہو اُس کی بات دوسری ہے، وگرنہ حیا بھی ایک چیز ہوتی ہے، احساس باقی ہو تو بڑی چیز۔ شرفا میں گنے جانے کا جو آرزومند ہو، خواہ فقط آرزومند ہی، اسے تو بہرحال اجتناب کرنا ہوتا ہے۔ اسے بھاگ جانا چاہیے، پنڈ چھڑا لینا چاہیے۔ فرمان یہ ہے کہ دوسروں کے عیوب کی جو پردہ پوشی کرتا ہے، اس کے اپنے عیب چھپے رہتے ہیں۔ دوسروں کو جو رسوا کرے گا، خود بھی رسوائی سے بچ نہ سکے گا۔ دوسروں کی جو توہین کرے گا، تحقیر اور ذلت کے سوا آخرکار اُس کے ہاتھ بھی کچھ نہ آئے گا۔
تیس برس ہوتے ہیں، کپتان کے اس ممتاز ترین مخالف کو، پو پھٹنے سے پہلے کسی نے لاہور کے ایک چمن زار میں داخل ہوتے دیکھا۔ ایک رنگین پیرہن کی جھلک بھی نظر آئی۔ اس قہرمان کے کچھ اور قصّے بھی معتبر لوگوں سے سنے تھے۔ ادھورے سے، بے دلی کے ساتھ کہ اخبار نویس کا یہ موضوع نہیں ہوتے۔ اخبارات اس لیے نہیں ہوتے کہ ذاتی زندگی کے خفیہ گوشوں کی کہانیاں چھاپیں۔ گندگی پر بیٹھنے والی مکھی کی مانند، اس طرح کے موضوعات میں جو الجھ جاتے ہیں، پرواز کرنا بھول جاتے ہیں، پھولوں اورشگوفوں کا، انار، آلوچے کے شگوفوں کا رس وہ نہیں چوس سکتے۔ فرشِ خاک پہ پھر وہ رینگتے رہتے ہیں۔ شہد میں ڈھلنے والی خوشبو اور رنگ، ان کے نصیب میں نہیں ہوتے۔
ایسی کتابیں بھی جن مصنفین نے لکھیں، نچلے درجے میں وہ جا گرے اور پھر وہیں پڑے رہے۔ بالیدگی انہیں کبھی نصیب نہ ہوسکی۔ تکریم سے کبھی ان کا نام نہ لیا گیا۔ اصول شاید وہ بھی ہے جو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام سے منسوب ہے: پہلا پتھر وہ مارے، جس نے کبھی گناہ کا ارتکاب نہ کیا ہو۔ وادیٔ ناران کی ایک شام، لاہور اور بلوچستان کے درمیان ایک ٹیلی فون کال، ہچکیاں اور خوف سے کانپتی آواز۔ مظفرآباد کے ہیلی پیڈ کا ایک منظر… بھلا دینا چاہیے، ان سب چیزوں کو بھلا دینا چاہیے۔ اس نادرِ روزگار شاعر فردوسی نے کہا تھا: اپنے زخم جو یاد رکھتا ہے، عمر بھر اس کے زخم ہرے رہتے ہیں۔ اتنا ہی بڑا سچ شاید یہ ہے کہ عیب جوئی کو جو شعار کرلے، عمر بھر عیب جوئی ہی کرتا رہے گا۔ پھر اغلباً یہ اس کی فطرتِ ثانیہ ہوجائے گی۔ پھر شاید کبھی وہ چھٹکارا نہ پا سکے، حتیٰ کہ زندگی پہ شام اتر آئے… کیا حاصل ہوا، اسے پھر کیا حاصل ہوا۔
انتقام کا جذبہ کبھی جاگ بھی اٹھتا ہے۔ بدلہ چکانے کی خو کبھی بھڑک اٹھتی ہے اور شعلے کی طرح تمام خرمن کو جو جلا دینا چاہتی ہے۔ خود کو بھی، دوسروں کو بھی، شاخ در شاخ، شجر در شجر۔ ’’1993ء اور پھر 1999ء میں تمہیں ٹھوکروں پہ رکھنے کے انہوں نے منصوبے بنائے‘‘۔ خیرخواہی کرنے پر تلے اس آدمی نے کہا ’’ان پر عمل تو نہ ہوا، جو خطا سر زد ہی نہ ہوئی، اس کا مذکور ہی کیا۔ اس کا جواب کیا‘‘؟
’’تم نے دکھ جھیلے ہیں‘‘ بہت دن بعد، ایک بار کسی نے کہا ’’تمہیں گالی بکی گئی، ہر روز بہت بار‘‘۔ اس پر ہنسی چھوٹ گئی، عرض کیا: گالی دیئے بغیر، زبان اور دہن آلودہ کیے بغیر، ہر بار ان کا قرض چکا دیا گیا۔ پھر قدرت کا اپنا قانون ہے، مکافاتِ عمل کا۔ رہی اس آدمی کی بات، دراصل جو کتاب کا نشانہ ہے، جواب اگر دینا ہے تو خود اسی کو دینا چاہیے، یہ اس کی اپنی ذمے داری ہے، دوسروں کی نہیں، دوستوں کی بھی نہیں۔ کچھ چیزیں خالصتاً ذاتی ہوا کرتی ہیں۔ دوسروں کو حجاب ہی لازم ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ جوہڑ میں اتر کر، اگر کوئی کیچڑ اچھالے تو جواب دینے والا کیا اسی جوہڑ میں اترجائے؟ دوسروں کا پیرہن آلودہ ہو یا نہ ہو، انتقام لینے والے کا ضرور ہوجائے گا۔ یہی طرزِعمل اگر باقی و برقرار رہے تو مستقل بھی ہوسکتا ہے۔ آدمی پھر خاک بسر ہوتا ہے ، فقط برہمی باقی رہ جاتی ہے۔ ’’اشتعال ایک کتا ہے‘‘، عارف نے کہا تھا۔ ’’شکار کھیلنے کا ارادہ ہو تو سگ پہ اختیار آدمی کا ہونا چاہیے، کتے کا آدمی پر نہیں‘‘… عمر بھر انتقام کی آگ میں جلتے رہنا بجائے خود ایک عذاب ہے، ’’ربنا وقنا عذاب النّار‘‘۔ اے ہمارے رب،آگ کے عذاب سے ہمیں محفوظ رکھنا۔
خیر اندیش نے کہا: تمہارے دوست کے ضمن میں، ایک واقعے میں تمہارا ذکر بھی اس نے کیا ہے۔صحافت کی تاریخ کا حصّہ بن سکتا ہے۔ ہمیشہ کا الزام ، لوگ تمہیں چڑاتے رہیں گے، تمہارا مذاق اڑاتے رہیں گے۔
’’تم کبھی ایک سیانے آدمی تھے، میرے پیارے۔ فرض کیجیے روایت درست بھی ہے، تو بھی غوروفکر کی ضرورت ہوتی ہے۔ دو عشروں تک جس کی رفاقت میں آپ رہے ہوں، اس کے مزاج، انداز اور شخصیت کو آپ سمجھتے ہوں۔ گالی دینے والا وہ ہے، نہیں، ان گنت شاموں کی رفاقت، باہم بے تکلفی کے ماحول میں کتنے ہی طویل سفر، کتنی بے شمار شخصیات اور کرداروں کا تذکرہ، بے وفائی پہ اترنے والے رفقا، دھوکا دینے والے اور عقب سے حملہ کرنے والوں کا۔ اگر ان میں سے کبھی کسی کو اس نے گالی نہ دی تو مجھے کیوں دے گا؟ بالفرضِ محال، بالفرضِ محال، جنون کی کسی ساعت میں، اگر حماقت کا ارتکاب اس نے کیا بھی ہو تو قصوروار کون ہے؟رفقاء اور دوستوں کے درمیان، آشنائوں، پڑوسیوں اور رشتہ داروں کے درمیان نفرت کی آگ بھڑکانے والے فتنہ گر یا محض لاابالی پن کا مرتکب؟ ’’بے شک فتنہ قتل سے بھی بڑا جرم ہے‘‘… اور کیا اس نے یہ نہیں لکھا کہ آمنا سامنا جب بھی تھا، نہایت احترام کے ساتھ اس نے بات کی، بہرحال احترام۔ باہمی مراسم میں اس سے بڑھ کر کیا؟
نہیں اس کتاب کے بارے میں، میں کچھ نہیں لکھنا چاہتا اور نہ اس خاتون کے باب میں۔ خود ہی اپنا نامۂ اعمال اس نے مرتب کردیا ہے، جزا و سزا کا تعین کرنے والے کارکنانِِ قضا و قدر کا کام اس نے سہل کردیا۔ اللہ کے حوالے۔
(بہ شکریہ: روزنامہ دنیا16 جولائی 2018)