جاوید چوہدری
’’ہم میاں نوازشریف کے استقبال کے لیے ائیرپورٹ جانا چاہتے ہیں لیکن آپ دیکھیے پولیس ہمارے ساتھ کیا سلوک کررہی ہے!‘‘ نوجوان نے رخ موڑا ’’میاں دے نعرے وجن گے‘‘ کا نعرہ لگایا اور پتھر پولیس کی طرف اچھال دیا۔ پولیس کی طرف سے بھی جوابی پتھر آنا شروع ہوگئے۔ میں نے گاڑی کے پیچھے پناہ لے لی۔ یہ 13 جولائی 2018ء کی رات تھی، دس بج چکے تھے، میاں نوازشریف کو لاہور ائیرپورٹ سے اسلام آباد منتقل کیا جارہا تھا، میں اسٹوڈیو سے اٹھ کر ہجوم میں آگیا۔ لاہور چیئرنگ کراس پر لوگ جمع تھے، پولیس کے دستے ہاتھوں میں ڈنڈے اور لوہے کے حفاظتی تختے اٹھاکر سامنے کھڑے تھے، ان کے پیچھے آنسو گیس کا اسکواڈ تھا اور اس کے پیچھے مسلح پولیس۔ میاں شہبازشریف کا کاروان ابھی پیچھے تھا، چیئرنگ کراس سے نہر کے پل تک نوجوانوں کی چھوٹی چھوٹی ٹولیاں جمع تھیں۔
یہ بھی پولیس کے ساتھ آنکھ مچولی کھیل رہی تھیں۔ ’’کیا لاہور میاں نوازشریف کے استقبال کے لیے نہیں نکلا؟‘‘ میں یہ سوال بار بار اپنے آپ سے پوچھ رہا تھا لیکن مجھے کوئی تسلی بخش جواب نہیں مل رہا تھا۔ لاہور کی کُل آبادی ایک کروڑ11 لاکھ ہے، یہاں قومی اسمبلی کے 14 اور صوبائی اسمبلی کے 30 حلقے ہیں۔ لاہور میاں نوازشریف کا بیس تھا اور آج بھی ہے۔ یہ 44 امیدوار اگر پانچ پانچ ہزار لوگ بھی باہر لے آتے تو دو لاکھ بیس ہزار لوگ سڑکوں پر ہوتے۔ لیکن اتنے لوگ نہیں تھے، تاہم ملتان، سیالکوٹ، نارووال، شیخوپورہ، گوجرانوالہ، فیصل آباد، راولپنڈی، جہلم اور گجرات سے قافلے نکلے تھے مگر یہ راستے میں روک لیے گئے۔
پولیس اگر ان تمام لوگوں کو آنے کی اجازت دے دیتی تو پنجاب کی نگران حکومت کا خیال درست ثابت ہوجاتا، ائیرپورٹ پر واقعی بارہ لاکھ لوگ جمع ہوجاتے۔ لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ نوازشریف کا طیارہ تین گھنٹے کی تاخیر سے لاہور پہنچا مگر ’’قدم بڑھاؤ نوازشریف ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘ کے نعرے لگانے والے مال روڈ کراس نہ کرسکے۔ میں نے 18مئی 2018ء کو اپنے کالم’’سچا ہونا کافی نہیںہوتا‘‘ میں عرض کیا تھا کہ پنجاب کمزور کے ساتھ کھڑا نہیں ہوتا، ہم پنجابی اپنی ذات میں کوفی ہیں۔ میرے احباب نے اُس وقت میری آبزرویشن پر بہت احتجاج کیا تھا، لیکن 13 جولائی نے ثابت کردیا کہ اگر اس دن لاہور ہی میاں نوازشریف کے ساتھ کھڑا ہوجاتا تو آج صورت حال مختلف ہوتی۔
میاں نوازشریف 13 جولائی کو عوامی مقدمہ ہار گئے، لیکن ہمیں یہ بھی ماننا ہوگا کہ میاں نوازشریف کی واپسی، پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی وزیراعظم کا بیٹی اور داماد کے ساتھ جیل جانا، اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کمپیئن سے نون لیگ کے ہمدردی کے ووٹ میں اضافہ ہوا، لوگ اب محسوس کررہے ہیں کہ میاںنوازشریف کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے، چنانچہ 13 جولائی نے نوازشریف کے ووٹ بینک میں بھی اضافہ کیا اور میاں صاحبان کے گرتے ہوئے گراف کو بھی سنبھالا دیا۔ تاہم یہ حقیقت بھی ماننا ہوگی کہ الیکشن میں ووٹ ڈالنے والے اتنے اہم نہیں ہوتے، جتنے گننے والے ہوتے ہیں۔ اور ووٹ گننے والے میاں نوازشریف کو پسند نہیں کرتے۔ لہٰذا ہمدردی کے یہ ووٹ بھی میاں برادران کو اقتدار میں واپس نہیں لاسکیں گے، یہ پنجاب میں بھی حکومت نہیں بنا سکیں گے۔
ہم اب پنجاب پولیس کے رویّے کی طرف آتے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا ہماری تاریخ میں 17 جون کا ایک سیاہ دن بھی آیا تھا، پنجاب پولیس نے 17 جون 2014ء کو ادارہ منہاج القرآن کے سامنے سے ناجائز تجاوزات اٹھانے کے لیے دھاوا بول دیا تھا، پولیس نے مظاہرین پر اندھا دھند فائرنگ کی جس میں 14لوگ شہید اور 100زخمی ہوگئے۔ پنجاب پولیس کی نظر میں اُس وقت میاں برادران محب وطن اور علامہ طاہرالقادری دہشت گرد تھے۔ عمران خان اور علامہ طاہرالقادری 14 اگست 2014ء کو جب دھرنے کے لیے لاہور سے نکلے تھے تو پولیس نے اُس وقت بھی ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جو ریاست دہشت گردوں کے ساتھ کرتی ہے۔
قافلے بھی روکے گئے، لوگوں کو 16 ایم پی او کے تحت گھروں سے بھی اٹھایا گیا، اندھا دھند گرفتاریاں بھی ہوئیں اور گاڑیاں اور ٹرک بھی ضبط کیے گئے۔ دھرنے کے 126 دنوں میں بھی پنجاب پولیس اسلام آباد پولیس کی مدد کرتی رہی، پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے ’’دہشت گردوں‘‘ کے خلاف اس دوران دہشت گردی کے پرچے بھی درج ہوئے۔ آپ وقت کا جبر ملاحظہ کیجیے، 13 جولائی کو تاریخ کا پہیہ بدل گیا، اس دن پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائدین عمران خان اور طاہرالقادری کی جگہ کھڑے ہوگئے اور ان کے کارکنان پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے مقام پر آگئے، اور وہ پولیس جس نے 17 جون 2014ء کو ماڈل ٹاؤن میں 14 لوگوں کو گولیوں سے بھون دیا تھا اور جو 30اگست 2014ء کو پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے سامنے کھڑی ہوگئی تھی، وہ کیل کانٹے سے لیس ہوکر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سامنے صف آراء ہوگئی۔
وہ پولیس اہلکار جنہوں نے 2014ء میں نون لیگ کے سیاسی مخالفوں پر ڈنڈے برسائے تھے، وہ اب اسی طاقت کے ساتھ نون لیگ کے حامیوں پر پتھر، ڈنڈے اور لاٹھیاں توڑنے لگے۔ وہ پنجاب پولیس جس نے 2014ء کے جون، جولائی اور اگست میں پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے لیڈروں اور کارکنوں کے خلاف دہشت گردی کے مقدمے درج کیے تھے اسی پولیس نے 13جولائی 2018ء کی رات میاں شہبازشریف، حمزہ شہباز، خواجہ حسان، خواجہ سعد رفیق، مریم اورنگزیب، شاہد خاقان عباسی، عظمیٰ بخاری، خواجہ سلمان، سائرہ افضل تارڑ، راجا ظفرالحق، مشاہد حسین سید، جاوید ہاشمی اور کامران مائیکل کے خلاف دہشت گردی، کارِ سرکار میں مداخلت، توڑپھوڑ، سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے، پولیس اہلکاروں پر تشدد اور دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر ایف آئی آر درج کردیں، اور یوں اب میاں برادران بھی علامہ طاہرالقادری اور عمران خان کی طرح ’’دہشت گرد‘‘ اور ریاست اور قانون کے مجرم ہیں۔ آپ ملاحظہ کیجیے وقت کس تیزی سے تبدیل ہوتا ہے۔
عمران خان اور علامہ صاحب 2014ء میں پولیس کو دھمکیاں دے رہے تھے ’’ہمارا وقت آیا تو ہم تمہیں نہیں چھوڑیں گے، ہم تم سے ایک ایک ڈنڈے، ایک ایک تھپڑ اور آنسو گیس کے ایک ایک شیل کا بدلہ لیں گے‘‘… اور 12 جولائی کو میاں شہبازشریف بھی بھری پریس کانفرنس میں فرما رہے تھے ’’وقت کبھی ایک جیسا نہیں رہتا، جن تھانوں میں آج آپ معصوم لوگوں کو بند کررہے ہیں اُن تھانوں میں کل آپ ہوں گے‘‘۔ عمران خان 2014ء میں وزیرقانون رانا ثناء اللہ کو دھمکیاں دے رہے تھے اور 2018ء میں میاں شہبازشریف نگران وزیرداخلہ شوکت جاوید کو انجام سے ڈرا رہے تھے۔ آپ ایک اور منظر بھی ملاحظہ کیجیے، میاں نوازشریف وزیراعظم تھے تو یہ خصوصی طیارے میں سفر کرتے تھے، فوج، رینجرز اور پولیس انھیں پروٹوکول اور سیکورٹی دیتی تھی، یہ 13 جولائی کو لاہور ائیرپورٹ پر اترے تو وہی پولیس، وہی رینجرز اور وہی فوج ان کی گرفتاری کے لیے کھڑی تھی اور یہ اسی خصوصی طیارے پر مجرم کی حیثیت سے اسلام آباد لائے گئے۔ یہ کیا ہے؟ یہ کیا دو خوفناک حقیقتیں ہیں۔
ہم پہلی حقیقت کو مکافاتِ عمل کہتے ہیں۔ وقت کسی کا غلام نہیں ہوتا، وقت کا دوسرا نام گردش ہوتا ہے۔ یہ ایک سے دوسرے ہاتھ میں منتقل ہوتا رہتا ہے۔ آپ اگر آج تخت پر بیٹھے ہیں تو آپ پلے باندھ لیں آپ کبھی نہ کبھی بطور مجرم اس تخت کے سامنے کھڑے ہوں گے، آپ کے ساتھ وہی سلوک ہوگا جو آپ دوسروں کے ساتھ کرتے رہے۔ حضرت سلیمانؑ کا تخت دنیا کا متبرک اور عظیم ترین تخت تھا، وہ تخت بھی ختم ہوگیا، حضرت داؤدؑ کا تخت اس وقت لندن میں برٹش پارلیمنٹ کے قریب چرچ میں پڑا ہے، اور دنیا کا مہنگا ترین تخت طاؤس تھا، نادر شاہ درانی اسے خچر پر لاد کر ایران لے گیا تھا۔ بادشاہت صرف اور صرف اللہ کی ہے۔
خدا لوگوں کو آزمانے کے لیے انھیں چند دنوں کا بادشاہ بناتا ہے اور پھر اپنا تخت واپس لے کر اس پر کسی دوسرے کو بٹھا دیتا ہے۔ میاں نوازشریف آج قیدی کی زندگی گزار رہے ہیں، اب عمران خان وزیراعظم بنیں گے لیکن آپ انھیں بھی جلد کھلی آنکھوں سے جیلوں، عدالتوں اور سڑکوں پر دھکے کھاتے دیکھیں گے، یہ بھی پولیس کے ڈنڈے اور ٹھڈے کھا رہے ہوں گے۔ وقت بہت ظالم ہے، اس کے ہاتھوں اگر حضرت داؤدؑ اور حضرت سلیمانؑ جیسے بادشاہوں کے تخت نہیں بچے تو میاں نوازشریف اور عمران خان کیا چیز ہیں؟ دوسری حقیقت پولیس ہے، انگریز نے یہ پولیس 1852ء میں ہندوستان پر اپنا اقتدار برقرار رکھنے کے لیے بنائی تھی۔
یہ پولیس 165 برسوں سے صرف برسراقتدار لوگوں کی پولیس ہے، یہ صرف اور صرف حاکموں کا حکم مانتی ہے، اس کی نظر میں حاکم بادشاہ اور عوام غلام ہیں۔ یہ آج بھی اُس شخص کو سرعام ذلیل کرتی ہے جس کے ٹیکس پر یہ پل رہی ہے، اور اُس کو سیلوٹ کرتی ہے جس کے ہاتھ میں نگرانی کے نام پر ہی سہی لیکن اقتدارہوتا ہے۔ یہ قانون، قاعدے اور انصاف کی پولیس نہیں، یہ صرف اور صرف حکم کی پولیس ہے۔ آپ برسر اقتدار ہیں تو یہ آپ کے حکم پر علامہ طاہرالقادری کے کارکنوں پر گولی چلا دے گی، اور اگر حسن عسکری وزیراعلیٰ ہیں تو یہ اُن کے حکم پر آپ پر ڈنڈے اور پتھر برسا دے گی۔ یہ آپ کے خلاف دہشت گردی کی ایف آئی آر کاٹ دے گی۔ چنانچہ آپ اگر چاہتے ہیں کہ جب عام شہری بنیں تو آپ کے ساتھ انصاف ہو، کوئی پولیس اہلکار آپ کی طرف ٹیڑھی آنکھ سے نہ دیکھے، یہ آپ کی عزتِ نفس اور آپ کے بنیادی حقوق کا احترام کرے تو پھر آپ کو حاکموں کی پولیس کو غلاموں کی پولیس بنانا ہوگا، آپ کو اسے وہی اختیار اور وہی ٹریننگ دینا ہوگی جو لندن میں ایون فیلڈ کے سامنے کھڑے پولیس اہلکاروں کو حاصل ہے۔ برطانیہ کی ملکہ ہو یا وزیراعظم، کوئی پولیس کو روک سکتا ہے اور نہ حکم دے سکتا ہے۔ آپ نے اگر یہ نہ کیا تو آپ کے ساتھ وہی ہوتا رہے گا جو 13 جولائی کو ہوا۔ آپ جب بھی عوام بنیں گے حاکموں کی پولیس آپ کے ساتھ غلاموں جیسا سلوک کرے گی، آپ پھر ائیرپورٹ نہیں پہنچ سکیں گے۔ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔
( ایکسپریس، منگل 17 جولائی2018)