پاکستان کدھر جارہا ہے…؟۔

میاں نوازشریف اور اُن کی دخترِ نیک اختر مریم نواز کا لندن سے لاہور واپسی پر جو ’’استقبال‘‘ ہوا ہے اُسے دیکھ کر ایک شعر یاد آگیا:

بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اِک قطرۂ خوں نہ نکلا

یہاں میاں نوازشریف اور اُن کی بیٹی کی آمد کو ایک شعر پر ٹرخانا ٹھیک نہیں۔ اس سلسلے میں نثر کا ایک فقرہ بھی چشم کشا ہے۔ فقرہ یہ ہے: ’’وہ آئے، انھوں نے دیکھا اور فتح کرلیا‘‘۔ نوازشریف اور ان کی بیٹی کی آمد کے تناظر میں اس فقرے کو Re-write کرنا ہو تو کہا جائے گا ’’وہ آئے، انھوں نے دیکھا اور جیل چلے گئے‘‘۔ ہم نے گزشتہ ہفتے انہی کالموں میں عرض کیا تھا کہ میاں صاحب خود کو، اپنے خاندان کو اور نوازلیگ کو ’’سیاسی موت‘‘ سے بچانے کے لیے پاکستان آرہے ہیں۔ مگر اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ انہیں ’’کسی جانب سے‘‘ پاکستان جانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ مگر میاں صاحب کے استقبال کا منظر بتارہا ہے کہ میاں صاحب کا ہدایت کار بھی فی الحال اُن کے کام نہیں آسکا ہے۔ میاں صاحب نے پاکستان روانگی سے قبل لندن میں جو گفتگو کی تھی اُس کا مقصد فوج کے نظم و ضبط پر اثرانداز ہونا تھا، اور ہم گزشتہ کالم میں عرض کرچکے تھے کہ میاں صاحب جنرل پرویز کے مارشل لا کے وقت فوج کا ڈسپلن توڑنے میں اس حد تک کامیاب رہے تھے کہ جنرل ضیا الدین بٹ فوج کی ہائی کمان سے الگ ہوکر میاں صاحب کے ساتھ آکھڑے ہوئے تھے، اور میاں صاحب نے جنرل پرویزمشرف کو برطرف کرکے جنرل ضیا الدین بٹ کو برّی فوج کا سربراہ بنا دیا تھا۔ میاں صاحب نے اِس بار بھی فوج کے ڈسپلن پر اثرانداز ہونے کی کوشش تو کی، مگر یہ کوشش ابھی تک کامیاب نہیں ہوئی۔
میاں صاحب کے برادرِ خورد اور پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ میاں شہبازشریف نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میاں صاحب کی آمد کے موقع پر’’عوام کا سمندر‘‘ سڑکوں پر آگیا تھا۔ اُن کے بقول اس موقع پر نواز لیگ نے جو ریلی نکالی، شہباز شریف نے زندگی میں اس سے بڑی ریلی نہیں دیکھی۔‘‘ (روزنامہ دنیا، کراچی۔ 14 جولائی 2018ء)
میاں شہبازشریف یہ بیان دے کر جھوٹوں کے سردار کے منصب سے بلند ہوکر جھوٹوں کے بادشاہ بن گئے ہیں۔ اس کے بغیر وہ عوام کے ’’سوئمنگ پول‘‘ کو عوام کا ’’سمندر‘‘ قرار نہیں دے سکتے تھے۔ یہاں سوئمنگ پول کی اصطلاح بھی ہم نے شریفوں کی دل جوئی کی خاطر وضع کی ہے، ورنہ لاہور میں نواز لیگ کی ریلی چائے کی پیالی میں اٹھنے والے طوفان سے زیادہ کچھ نہ تھی۔ روزنامہ جنگ میاں نوازشریف کا صحافتی ترجمان ہے۔ اُس نے لاہور میں نواز لیگ کی ریلی کے حوالے سے جو خبر صفحۂ اوّل پر شائع کی ہے اُس میں دعویٰ کیا ہے کہ گرفتاریوں اور رکاوٹوں کے باوجود نون لیگ ’’پاور شو‘‘ کرنے میں کامیاب رہی (روزنامہ جنگ کراچی۔ 14 جولائی 2018ء)۔ پاور کا مسئلہ یہ ہے کہ پاور کے اعتبار سے ایک زیرو واٹ کا بلب ہوتا ہے، ایک سوواٹ کا بلب ہوتا ہے، ایک ہزار واٹ کا بلب ہوتا ہے۔ ایک سورج اور اس کی پاور ہوتی ہے۔ میاں نوازشریف کا دعویٰ ہے کہ وہ ملک کے سب سے بڑے رہنما اور ان کی جماعت ملک کی سب سے بڑی جماعت ہے۔ میاں صاحب تین بار وزیراعظم رہ چکے ہیں۔ شہبازشریف 10 سال تک پنجاب کے وزیراعلیٰ رہے ہیں، اور کوئی شخص اگر یہ کہے کہ میاں صاحب پنجاب میں مشہور یا مقبول نہیں تو وہ جھوٹا ہے۔ اس تناظر میں نوازلیگ کی قیادت میاں صاحب کے حوالے سے جو کچھ کہہ رہی تھی اس کا مطلب یہ تھا کہ میاں صاحب کی لاہور آمد کے موقع پر سورج طلوع ہونے والا ہے۔ مگر میاں صاحب رات کو پونے نو بجے لاہور پہنچے تو دنیا نے دیکھا کہ نواز لیگ کی ریلی کی حیثیت سوواٹ کے بلب سے زیادہ نہ تھی۔ 100 واٹ کا بلب بھی اگر Power کا مظہر ہے تو پھر خدا ہر سیاسی جماعت کو ایسی پاور اور اس کے ’’شو‘‘ سے محفوظ رکھے۔ بلاشبہ اگر کوئی نئی نویلی سیاسی جماعت نوازلیگ کی سطح کی ریلی نکالتی تو اس کی ہر کوئی تعریف کرتا، لیکن اگر ’’بھاری مینڈیٹ‘‘ کی حامل نواز لیگ لاہور کی سڑکوں پر دس پندرہ ہزار لوگوں کو نکال لائے تو اسے ’’شرمناک‘‘ ہی کہا جاسکتا ہے۔ لیکن میاں شہبازشریف اپنی شرمناک کارکردگی کو ’’سمندر‘‘ اور روزنامہ جنگ ایک معمولی سی ریلی کو ’’پاور شو‘‘ قرار دے رہا ہے۔ بلاشبہ جنگ نے نواز لیگ کی ریلی کو پاور شو قرار دیا مگر اُسے یہ جرأت نہ ہوسکی کہ وہ ریلی کے شرکاء کی تعداد بتاتا، حالانکہ اخبارات کے لیے یہ معمول کی بات ہے۔ جلسے جلوس ہوتے ہیں تو ان کے شرکاء کی تعداد کو اہمیت دی جاتی ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ جلسے یا جلوس میں ایک لاکھ لوگ تھے، کوئی کہتا ہے پچاس ہزار لوگ تھے، کوئی کہتا ہے صرف پچیس ہزار تھے، مگر جنگ نواز لیگ کے ’’تاریخ ساز‘‘ موقع پر نکلنے والی ریلی کے شرکاء کی تعداد پر بات نہ کرسکا۔ اس لیے کہ بات ہوتی تو جھوٹے دعوے کی دھجیاں اڑ جاتیں۔ روزنامہ ڈان جنگ کی طرح میاں صاحب کا ترجمان تو نہیں البتہ وہ میاں صاحب کے لیے نرم گوشہ رکھتا ہے۔ مگر ڈان نے ریلی کے سلسلے میں شہبازشریف کا فقرہ کوٹ کرنے پر اکتفا کیا۔ ڈان کو خود ریلی کو بڑا کہنے کی جرأت نہ ہوئی۔ ڈان نے یہ تو بتایا کہ ریلی کے موقع پر 15000 پولیس والے سڑکوں پر موجود تھے، مگر وہ یہ نہیں کہہ سکا کہ لاہور کی سڑکوں پر میاں صاحب کے استقبال کے لیے ایک لاکھ لوگ موجود تھے یا پندرہ ہزار۔ ڈان ایک لاکھ کہتا تو لوگ شہادت طلب کرتے، پندرہ ہزار کہتا تو نواز لیگ کی بھد اڑتی۔ چنانچہ ڈان نے شہبازشریف کے ’’سمندر‘‘ کے بارے میں خاموش رہنے ہی میں بہتری جانی۔ ہم نے اس موقع پر میاں صاحب کے ترجمان اور محافظ جیو نیوز کی نشریات بھی غور سے دیکھیں۔ کسی موقع پر بھی جیو نے ریلی کا ’’فضائی جائزہ‘‘ یا Aerial View دکھانے کی ہمت نہ کی۔ جیو ایسا کرتا تو معلوم ہوجاتا کہ ریلی کے شرکاء کی تعداد 10 سے 15ہزار کے درمیان ہے۔ چنانچہ جیو ریلی کے Close Shot ہی دکھاتا رہا۔ ان Shots سے معلوم ہی نہیں ہوتا کہ سامنے پانچ لوگ ہیں یا پچاس لوگ، یا پچاس ہزار لوگ۔ اس پر میاں شہبازشریف نے 14 جولائی 2018ء کے روز نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شکایت کی ہے کہ ذرائع ابلاغ نے ’’تاریخی ریلی‘‘ کا بائیکاٹ کیا۔ ضرب المثل ہے ’’کھسیانی بلی کھمبا نوچے‘‘۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو کھسیانے میاں شہبازشریف ذرائع ابلاغ کو نوچ رہے ہیں۔ یہاں میاں شہبازشریف کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ جب بے نظیر لاہور میں ’’نازل‘‘ ہوئی تھیں تو اُن کے حامی کہہ رہے تھے کہ ان کے استقبال کے لیے بیس لاکھ لوگ سڑکوں پر آگئے ہیں۔ بے نظیر اور پیپلزپارٹی کے بدترین حریف کہہ رہے تھے کہ استقبال کرنے والوں کی تعداد دو لاکھ سے زیادہ نہیں۔ مطلب یہ کہ جب بڑا جلسہ یا بڑی ریلی ہوتی ہے تو ریلی کے شرکاء کی تعداد ضرور زیربحث آتی ہے خواہ شرکاء کی تعداد کوئی بیس لاکھ قرار دے یا دو لاکھ۔ مگر نواز لیگ کی ریلی اتنی معمولی تھی کہ حامیوں نے تعداد پر بات ہی نہیں کی، اور حریفوں نے ریلی کے شرکاء کی تعداد بتانے کے قابل ہی نہیں سمجھا۔ میاں شہبازشریف اگر لوگوں کے سوئمنگ پول کو سمندر نہ کہتے تو ہم اس موضوع پر ہرگز بھی اتنی طویل گفتگو نہ کرتے۔ لیکن مسئلہ صرف اتنا سا نہیں ہے۔
میاں نوازشریف گزشتہ دس بارہ ماہ میں کئی مرتبہ خود کو ’’نظریاتی‘‘ قرار دے چکے ہیں۔ ظاہر ہے کہ پارٹی کا قائد نظریاتی ہے تو یہی سمجھا جائے گا کہ اُس کے خاندان کے اراکین اور اُس کی پارٹی بھی کچھ نہ کچھ ’’نظریاتی‘‘ ہوگئی ہوگی۔ مگر جو کچھ ہورہا ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔ میاں نوازشریف لندن سے لاہور پہنچ گئے مگر میاں شہبازشریف، ان کے فرزند حمزہ شہبازشریف اور نواز لیگ کے بڑے بڑے رہنما میاں نوازشریف اور مریم نواز کے استقبال کے لیے اپنے گھروں سے ہوائی اڈے نہ پہنچ سکے۔ بلاشبہ اُن کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں، مگر سیاست میں یہ تو ہوتا ہی ہے۔ اصل مسئلہ آپ کی نیت اور عزم کا ہوتا ہے۔ نیت صاف اور عزم مستحکم ہو تو کوئی رکاوٹ انسان کی راہ نہیں روک پاتی۔ جماعت اسلامی نے اسلام آباد میں بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف دھرنا دیا تو حکومت نے پورا سلام آباد Seal کردیا، مگر جماعت اسلامی کے کارکنان قاضی حسین احمد اور مولانا نورانی کی قیادت میں پورے دن جاری رہنے والے لاٹھی چارج، آنسو گیس کے طوفان اور فائرنگ کے واقعات کے باوجود بالآخر تیسرے پہر پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ قاضی صاحب نے ہمیں خود بتایا کہ ایک موقع پر ایک ڈی ایس پی نے ان پر پستول تان لیا اور کہا کہ اگر آپ آگے بڑھے تو میں گولی ماردوں گا۔ ایسی فضا میںکچھ بھی ہوسکتا تھا، مگر قاضی صاحب اور مولانا نورانی نے پیش قدمی جاری رکھی۔ مولانا نورانی ضعیف العمر تھے، قاضی صاحب نے دیکھا کہ آنسو گیس کی فضا میں سانس لیتے لیتے مولانا نورانی کی حالت غیر ہورہی ہے چنانچہ انہوں نے مولانا سے کہا کہ وہ کہیں محفوظ مقام پر کچھ دیر آرام کرلیں، مگر مولانا نورانی نے فرمایا کہ میں آپ کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتا اور مقصد کے حصول تک میدان میں ڈٹا رہوں گا۔ ایسے ہوتے ہیں ’’نظریاتی لوگ‘‘، ایسی ہوتی ہے ’’نظریاتی جدوجہد‘‘۔ مگر میاں شہبازشریف اور نواز لیگ کے بڑے بڑے رہنما آخری وقت تک میاں صاحب کے استقبال کے لیے ہوائی اڈے تک نہ پہنچ سکے۔ خواجہ سعد رفیق کہتے ہیں کہ ہم لوہے کے چنے ہیں، مگر آزمائش سے معلوم ہوا کہ نواز لیگ کے رہنما اور کارکنان تو آئس کریم سے بھی گئے گزرے ہیں۔ چنانچہ اسٹیبلشمنٹ انھیں مزے لے لے کر کھاتی رہی۔ اگر خدانخواستہ مارشل لا لگ گیا ہوتا اور سڑکوں پر ٹینک گشت کررہے ہوتے تو پوری نون لیگ کسی تہ خانے میں جا چھپی ہوتی۔ تحریک انصاف کے رہنما فواد چودھری فضول گوئی میں یدِطولیٰ رکھتے ہیں، مگر نواز لیگ بالخصوص نواز لیگ کے ایک درجن سے زیادہ بڑے رہنمائوں نے میاں صاحب کے استقبال کے حوالے سے جو کچھ کیا ہے اُس کی وجہ سے فواد چودھری کو یہ کہنے کا موقع ملا کہ ’’قائد تیرے جاں نثار، سب فرار‘‘۔
بدقسمتی سے نواز لیگ اس تبصرے پر فواد چودھری کو گالیاں تو دے سکتی ہے مگر وہ اُن کے الزام کی مدلل تردید نہیں کرسکتی۔ اس سلسلے میں نواز لیگ کی کمزوری کا یہ عالم ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی زبان بولنے والے پیپلزپارٹی کے رہنما اعتزاز احسن نے یہ کہنے کی جرأت کی کہ میاں شہبازشریف اور نواز لیگ کے دوسرے رہنمائوں نے میاں نوازشریف اور مریم نواز کے ساتھ بہت ہی بڑا دھوکا کیا ہے۔ اعتزاز احسن کے بقول میاں شہبازشریف نے میاں نوازشریف اور مریم سے کہا کہ آپ آئیں، لاہور میں لاکھوں لوگ آپ کا والہانہ استقبال کریں گے۔ مگر جب میاں صاحب اور مریم آئیں تو کوئی بھی ان کے استقبال کے لیے ہوائی اڈے نہ پہنچا۔ خواجہ سعد رفیق نے اس سلسلے میں اعتزازاحسن پر حسد کرنے کا الزام لگایا ہے۔ ہوسکتا ہے خواجہ سعد رفیق کی بات درست ہو، مگر ان کا تبصرہ اعتزازاحسن کے ’’مدلل الزام‘‘ کا ’’مدلل جواب‘‘ نہیں ہے۔ سعد رفیق کے ردعمل میں جذباتیت ہی جذباتیت ہے۔ اس میں نہ کوئی دلیل ہے، نہ اطلاع ہے، نہ علم ہے۔ نواز لیگ نے دس لاکھ کیا پانچ لاکھ لوگ بھی جمع کرلیے ہوتے تو سعد رفیق اعتزازاحسن کے الزام کے جواب میں ریلی کے شرکا کی تعداد بتاتے، کوئی ایسی فلم یا تصویر دکھاتے جس سے ظاہر ہوتا کہ ریلی واقعتا بڑی تھی۔ ہوائی اڈے تک پہنچنے کی جدوجہد میں نواز لیگ کا کوئی رہنما جاں بحق یا زخمی ہوتا تو اس کی مثال دی جاتی اور کہا جاتا کہ مقابلہ تو دلِِ ناتواں نے خوب کیا۔ مگر نواز لیگ کے پاس ان چیزوں میں سے کچھ بھی نہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی شخص یا جماعت نعرہ لگانے سے نظریاتی نہیں ہوتی۔ نظریاتی ہونے کے لیے کسی نہ کسی درجے پر نظریے کو بسر کرکے دکھانا پڑتا ہے، نظریے کے لیے قربانی دینی پڑتی ہے۔ بہرحال نواز لیگ کے رہنمائوں نے جو کچھ کیا اُس کے تین ہی معنی ہیں: یا تو نواز لیگ کے تمام رہنمائوں کو اسٹیبلشمنٹ نے “Manage” کرلیا ہے، یا نواز لیگ کے رہنما میاں نوازشریف کو اس قابل ہی نہیں سمجھتے کہ ان کے لیے مار کھائیں، جان کو خطرے میں ڈالیں یا زخمی ہی ہوجائیں۔ اس صورتِ حال کا تیسرا مفہوم یہ ہے کہ نواز لیگ 25 سال بعد بھی صرف ایک ہجوم ہے، اس میں سیاسی جماعت والی بنیادی خوبیاں بھی موجود نہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسی جماعت نظریاتی سیاست کیونکر کرسکتی ہے؟
اب آیئے میاں نوازشریف اور مریم نواز کی ’’نظریاتی شخصیت‘‘ کا تجزیہ کرتے ہیں۔ میاں نوازشریف اور مریم نواز لندن سے پاکستان اس لیے آئے ہیںکہ وہ یہاں انقلاب برپا کرسکیں، اسٹیبلشمنٹ کی بالادستی کو چیلنج کرسکیں، عوام کو انقلابیت کا درس دے سکیں اور انہیں سول بالادستی کے لیے متحرک کرسکیں۔ مگر روزنامہ نوائے وقت لاہور کی خبر کے مطابق مریم نواز ابوظہبی کے ہوائی اڈے پر کچھ دیر ٹھیریں تو انھیں ہوائی اڈے کی ’’دکان‘‘ پر میک اَپ کا سامان خریدتے ہوئے پایا گیا۔ نوائے وقت کے مطابق اس موقع پر لی گئی مریم کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔ (روزنامہ نوائے وقت لاہور، 14 جولائی 2018ء)
عام حالات میں اس خبر کی کوئی بھی اہمیت نہ ہوتی، مگر جب نظریاتی اور انقلابی قائدین اپنے ملک میں انقلاب لانے کے لیے جا رہے ہوں تو اُن کے ذہن میں ’’میک اَپ‘‘ کا سامان خریدنے کا خیال بھی نہیں آسکتا۔ ایسا رہنما سوچ رہا ہوگا تو یہ کہ ہمیں سیاسی معرکہ کس طرح سر کرنا ہے، کس طرح عوام کو متحرک اور بروئے کار لانا ہے، حریفوں کو کس طرح شکست سے دوچار کرنا ہے۔
روزنامہ ڈان کراچی کی زہرہ مظہر میاں نوازشریف اور مریم نواز کے طیارے میں سفر کررہی تھیں۔ انھوں نے لکھا ہے کہ سفر کے دوران مریم مسکرا رہی تھیں مگر میاں نوازشریف کے چہرے پر اضطراب تھا۔ وہ “Anxious” نظر آرہے تھے، یہاںتک کہ ابوظہبی میں گرجنے والے نوازشریف کے چہرے پر پاکستان میںSurrender کے بعد ’’بے یقینی‘‘ نمودار ہوچکی تھی۔ (رپورٹ: زہرہ مظہر، ڈان کراچی۔ 14 جولائی 2018ء)
میاں نوازشریف اور مریم نواز لاہور پہنچے تو کیا ہوا؟ روزنامہ دنیا کے نمائندے محمد حسن رضا کی زبانی سنیے۔ محمد حسن رضا کے بقول لاہور پہنچنے کے بعد میاں صاحب کارکنوں سے خطاب کے لیے بے چین تھے۔ طیارہ لاہور کے ہوائی اڈے پر اترا تو میاں صاحب کچھ پڑھ رہے تھے اور مریم نواز پریشان تھیں۔ نوازشریف ماتھے سے مسلسل پسینہ صاف کررہے تھے، وہ اپنی قمیص کو جھاڑتے رہے اور مسلسل سوالات کرتے رہے۔ ذرائع کے مطابق میاں صاحب نے اہلکاروں کی منت سماجت کی کہ انہیں کارکنوں سے خطاب کرنے دیا جائے۔ (روزنامہ دنیا، کراچی، 14 جولائی 2018ء)
ان اطلاعات کو ایک تناظر میں دیکھا جائے تو اس تجزیے کو تقویت ملتی ہے کہ میاں صاحب کسی کے حکم یا اشارے پر پاکستان آئے اور انہیں کسی نے یقین دلایا تھا کہ ان کا زبردست استقبال ہوگا اور کوئی ’’انہونی‘‘ بھی ہوسکتی ہے۔ مگر جب میاں صاحب نے دیکھا کہ ہوائی اڈے پر کارکنان تو کیا اُن کا چھوٹا بھائی میاں شہبازشریف، بھتیجا حمزہ شہباز شریف، شاہد خاقان عباسی، خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق، طلال چودھری، دانیال عزیز اور احسن اقبال بھی موجود نہیں تو میاں صاحب کی نظریاتی شخصیت اچانک صرف ’’نظر آتی شخصیت‘‘ میں ڈھل گئی اور وہ کھیلنے کے لیے چاند مانگتے نظر آئے۔ لیکن جب ’’ایک خطاب کا سوال ہے بابا‘‘ کی اپیل پر کسی نے توجہ نہ دی تو میاں صاحب کو معلوم ہوگیا کہ وہ نئی مشکل میں گھر چکے ہیں۔ چنانچہ وہ پسینہ پسینہ ہوگئے اور کسی نفسیاتی عارضے میں مبتلا شخص کی طرح وہ تواتر کے ساتھ اپنی قمیص جھاڑتے رہے۔ مریم بی بی کیمروں کے سامنے تو اپنے مضبوط ہونے کی اداکاری کرتی رہیں، مگر کیمروں کی زد سے نکلیں تو پریشانی اُن کے چہرے پر براجمان ہوگئی۔
میاں نوازشریف 13 جولائی کی رات کو جیل پہنچے مگر 14 جولائی کو شام 7 بجے کے بلیٹن میں میاں صاحب کے ترجمان جیو نیوز نے میاں صاحب کے وکلا کے حوالے سے میاں صاحب کی یہ شکایت قوم تک پہنچائی کہ جیل کے اندر مجھے جس کمرے میں رکھا گیا ہے اس میں ائر کنڈیشنر (AC) نہیں ہے۔ اس میں صرف ایک پنکھا ہے اور ایک گدا ہے، اور میرے کمرے کا واش روم گندا ہے۔ ہم نے یہ خبر سنی تو گمان گزرا کہ کہیں یہ اسٹیبلشمنٹ کی “Planted” کی ہوئی خبر تو نہیں! مگر جیو نے رات 12 بجے کے بلیٹن میں میاں صاحب کے فرزند کے سوشل میڈیا پر موجود بیان کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ میاں صاحب کو جیل میں واقعتا کچھ مشکلات درپیش ہیں۔ میاں صاحب کے اپنے دعوے کے مطابق وہ ایک نظریاتی شخصیت ہیں، ان کے اپنے دعوے کے مطابق وہ آئندہ نسلوں کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ان کے اپنے اعلان کے مطابق وہ سول بالادستی کے علَم بردار ہیں، ان کے اپنے دعوے کے مطابق وہ ووٹ کو صاحبِِ عزت بنانے کی جدوجہد کررہے ہیں، ان کے اپنے دعوے کے مطابق وہ جمہوریت کی علامت ہیں، ان کے اپنے دعوے کے مطابق وہ ملک کو روشن خیال اور معتدل بنانا چاہتے ہیں، مگر ان سے جیل کی صرف ایک رات بھی برداشت نہ ہوئی، اور صرف ایک رات نے ان کی ’’نظریاتی شخصیت‘‘ کے پرخچے اڑا کر ان کو ’’نظر آتی شخصیت‘‘ اور ان کی سیاست کو نظر آتی سیاست بناکر کھڑا کردیا ہے۔ میاں صاحب کی ’’شکایات‘‘ کو دیکھا جائے تو میاں صاحب کی شخصیت ہی نہیں اُن کی سیاست اور جدوجہد بھی ’’فائیواسٹار‘‘ نظر آتی ہے۔ میاں صاحب فائیو اسٹار ہیں مگر وہ سیاست غریبوں کی کرتے ہیں۔ میاں صاحب اگر ایک ڈیڑھ سال جیل کاٹنے کے بعد شکایت کرتے کہ انھیں جیل کی مشکلات کا سامنا ہے تو ان کے حریف بھی کہتے کہ ’’بادشاہ سلامت‘‘ کی بات توجہ سے سنو۔ مگر عصرِ حاضر کا ’’داراشکوہ‘‘ جیل کے 24 گھنٹے بھی صبر و استقامت سے نہ جھیل سکا اور چیخ پڑا۔ کیا نظریاتی شخصیات ایسی ہی ہوتی ہیں؟ کیا ایسے ہی لوگ ’’اقتدار‘‘ کے بجائے ’’اقدار‘‘ کی سیاست کرتے ہیں؟ کیا ایسے لوگوں کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی تقدیر کا مالک ہونا چاہیے؟ ایسے لوگوں کو امریکہ کیا اگر بھارت بھی جان و مال کے نقصان کی دھمکی دے دے تو وہ امریکہ اور بھارت کے جوتے چاٹنے لگیں۔ نہ جانے وہ کون لوگ ہیں جو میاں نوازشریف یا شریف خاندان اور نواز لیگ سے کسی خیر کی توقع رکھتے ہیں! یہاں ہمیں یاد آیا کہ یہ میاں صاحب کی تاریخ ہے کہ وہ جیل کی سختی نہیں جھیل سکتے۔ جب میاں صاحب جنرل پرویز کے زمانے میں جیل گئے تھے تو انھوں نے شکایت کی تھی کہ انہیں میکڈونلڈ کے برگر کھائے عرصہ ہوگیا ہے۔ کیا نواز لیگ میں کوئی شخص ایسا ہے جو میاں صاحب کو بتائے کہ انھیں اس وقت جیل میں جو سہولتیں دستیاب ہیں پاکستان کے چھے سات کروڑ لوگوں کو وہ سہولتیں اپنے گھروں میں بھی میسر نہیں، مگر ان میں سے کوئی میاں صاحب کی طرح نہیں چیختا۔ میاں صاحب کے صحافتی عاشق عطا الحق قاسمی نے اپنے ایک کالم میں حسرت موہانی کو اپنا پسندیدہ سیاست دان قرار دیا تھا۔ ذرا سوچیے تو وہ دل کیسا دل ہوگا جس میں میاں نوازشریف اور حسرت موہانی ایک ساتھ تشریف فرما ہوں گے! حسرت موہانی آئے دن جیل جاتے رہتے تھے اور قیدِ بامشقت کے اصول کے تحت وہ ہاتھ کی چکی سے روزانہ 40 کلو گندم پیستے تھے، مگر انہیں ایک بار بھی چکی کی مشقت کی شکایت کرتے نہیں دیکھا گیا۔ میاں صاحب کو اگر ایک دن بھی جیل میں 40 کلو گندم چکی پر پیسنا پڑ جائے تو میاں صاحب کا ہارٹ اٹیک سے انتقال ہوجائے گا۔ اس لیے کہ میاں صاحب جو جیل کاٹ رہے ہیں وہ حسرت موہانی کی جیل کے مقابلے میں فائیو اسٹار ہے۔ میاں صاحب کو ایک الگ کمرہ ملا ہوا ہے، ایک عدد مشقتی فراہم ہے، ایک عدد میٹریس انہیں مہیا ہے، کمرے میں بجلی کا پنکھا موجود ہے، ان کا واش روم بھی صرف انہی کا ہے۔ میاں صاحب کو غذا بھی صاف ستھری مل رہی ہے۔ مگر وہ ایک ہی رات میں چیخ پڑے ہیں اور ان کے فرزند نے فرمایا ہے کہ میاں صاحب کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے وہ ’’انسانی حقوق‘‘ کی پامالی ہے۔
میاں شہبازشریف اور نواز لیگ کے کئی رہنمائوں نے تاثر دیا ہے کہ انہیں 13 جولائی کو ریاستی جبر و تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ریاستی جبر و تشدد؟ اس کا تو شریفوں اور اُن کی جماعت کو کوئی تجربہ ہی نہیں۔ ہمیں یاد ہے کہ میاں صاحب واجپائی کو لاہور لائے تو جماعت اسلامی نے لاہور میں بہت چھوٹا سا، معصوم سا پُرامن مظاہرہ کیا۔ ایسا کرنا جماعت اسلامی کا نظریاتی، آئینی، جمہوری اور سیاسی حق تھا، اور اس حق کے استعمال سے شریفوں کو کوئی خطرہ لاحق نہ تھا۔ مگر میاں نوازشریف اور شہبازشریف نے اس مظاہرے کو برداشت نہ کیا۔ انھوں نے والٹن روڈ پر واقع جماعت اسلامی کے دفتر کو گھیر لیا۔ اُس وقت جماعت کی قیادت وہاں موجود تھی اور بہت سے کارکنان بھی۔ شریفوں نے دفتر پر اتنی آنسو گیس پھنکوائی کہ قاضی حسین احمد اور سید منورحسن نے ہمیں بتایا کہ اگر آنسو گیس کے شیل مزید پندرہ بیس منٹ جماعت کے دفتر کے احاطے میں گرتے رہتے تو دفتر میں موجود تمام لوگ دم گھٹنے سے مر جاتے۔ شریفوں نے صرف یہی نہیں کیا، انھوں نے شیلنگ رکوا کر پولیس کو جماعت کے کارکنوں پر چھوڑ دیا۔ پنجاب پولیس نے جماعت کے ساٹھ اور ستّر سال کے بوڑھوں کو بھی بدترین تشدد کا نشانہ بنایا۔ کسی نے اس تشدد کی ویڈیو بنا لی جو مہینوں تک مختلف جگہوں پر دکھائی جاتی رہی۔ یہ تو کل ہی کی بات ہے، شریفوں نے ڈاکٹر طاہرالقادری کے کارکنوں پر حملہ کرکے 18 کارکنوں کو شہید اور درجنوں کو زخمی کردیا۔ یہ ہوتا ہے ریاستی جبر و تشدد۔ نواز لیگ بتائے تو کہ شریفوں کو کب دَم گھونٹ کر مارنے کی سازش ہوئی اور کب نواز لیگ کے 18 کارکن شہید اور درجنوں شدید زخمی ہوئے؟
نظریاتی حوالے سے میاں صاحب کی شخصیت اور سیاست کا ایک اور اہم پہلو مسلسل ان کے تعاقب میں ہے، اور اس کا ذمے دار بھی کوئی اور نہیں خود میاں صاحب، میاں صاحب کے صحافتی وکیل اور میاں صاحب کی پارٹی کے رہنما ہیں۔ ہمیں یاد ہے کہ میاں صاحب نے آئی جے آئی کی سیاست کے دوران پنجاب میں سیاسی کامیابی حاصل کرنے کے لیے ’’جاگ پنجابی جاگ‘‘ کا نعرہ لگایا۔ انسان غلطی کرتا ہے اور پھرغلطی سے رجوع کرتا ہے، چنانچہ میاں صاحب کے بارے میں یہ خیال کیا گیا کہ اُن سے ایک بار غلطی ہوئی اور اب وہ اس غلطی کو پھلانگ کر کھڑے ہوگئے ہیں۔ مگر 2017ء میں میاں صاحب اور اسٹیبلشمنٹ کی کشمکش شروع ہوئی تو میاں صاحب کی صحافتی فوج کے سپاہی اور میاں شہبازشریف کے قریبی دوست حذیفہ رحمن نے اپنے کالم میں لکھا:
’’پاکستانی سیاست میں پہلی مرتبہ ’’پنجابی سیاست دان‘‘ اور متحرک قوتوں کا آمنا سامنا ہوا ہے۔ اِس مرتبہ اکھاڑہ پنجاب ہے۔ پنجابی سیاست دان کو مائنس کرنا اتنا آسان نہیں جتنا سمجھا جارہا تھا۔‘‘ (روزنامہ جنگ۔ 5 اکتوبر 2017ء)
روزنامہ جنگ کے کالم نگار محمد سعید اظہر اگرچہ پیپلزپارٹی کی حمایت کے لیے مشہور یا بدنام ہیں مگر وہ کئی برسوں سے میاں نوازشریف اور ان کی سیاست پر فریفتہ ہیں۔ انہیں ایسا کرنے کا پورا حق حاصل ہے، مگر وہ اپنے کالموں میں میاں صاحب اور نواز لیگ کی حمایت جس پس منظر میں کررہے ہیں خود انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔ انھوں نے ’’نواز شریف۔ آئینی منزل کا دوراہا‘‘ کے عنوان سے اپنے کالم میں لکھا:
پہلا اقتباس: ’’پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار پنجابی قومیت کے آج کے مقبول ترین قومی اور بین الاقوامی لیڈر نے ان تمام قوتوں کو آئین کی بالادستی، ووٹ کی حرمت اور جمہوری تسلسل کے آگے سرِتسلیم خم کرنے کا چیلنج دے دیا ہے۔‘‘
دوسرا اقتباس: ’’یہ نوازشریف ہے، پنجاب کا مقبول ترین قومی اور بین الاقوامی لیڈر۔ نوازشریف کے پس منظر میں تاریخ نے غالباً فتح و شکست کے لیے پنجاب کے سیاسی میدان کے گرد ہی اپنا دائرہ بنا لیا ہے اور مخالف قوتوں کو خود ’’اپنے لیڈر‘‘ سے جوڑ پڑنا ہے۔ ہوسکتا ہے اِس بار پنجابی قومیت ان طاقت ور ریاستی اور غیر ریاستی طاقتوں کی صف سے الگ ہوجانے والے ’’نواز سیاسی لشکر‘‘ سے مزاحمت میں دانتوں کو پسینہ آجائے اور وہ پسینہ نواز کی جیت اور مخالفین کی شکست مکمل کیے بغیر بہنے سے باز آنے پر آمادہ نہ ہو۔‘‘
تیسرا اقتباس: ’’کالم کے اختتام پر پنجابی قومیت کی اس باہمی سیاسی رزم آرائی کے سلسلے میں اب تک کے شائع شدہ تجزیوں میں سب سے حیرت انگیز اور منطقی قیاس آرائی کی چند سطریں پیش ہیں۔‘‘
چوتھا اقتباس: ’’بیان کردہ فارمولے کی روشنی میں پاکستان کے قلب پنجاب کی سرزمین پر پہلی بار ’’پنجابی قومیت‘‘ کی اس ’’باہمی سیاسی لڑائی‘‘ کا کینوس قومی تاریخ ہے جس کے دھارے میں کوئی چودھری نثار، کوئی عمران خان اور ’’اپنی صفوں‘‘ سے نکل کر اپنی آبادیوں میں جانے والے معدوم ہوجایا کرتے ہیں۔‘‘
(ان اقتباس کے لیے دیکھیے محمد سعید اظہر کا کالم۔ روزنامہ جنگ کراچی۔ 19 مئی 2018ء)
حذیفہ رحمن اور محمد سعید اظہر میاں نوازشریف اور ان کی جماعت کے ’’صحافتی مجاہد‘‘ ہیں، مگر ایاز صادق میاں نوازشریف کے قریبی ساتھی ہیں، وہ قومی اسمبلی کے اسپیکر رہے ہیں، ان کا شمار نواز لیگ کے ممتاز اور مرکزی رہنمائوں میں ہوتا ہے۔ میاں صاحب کے ترجمان جیو نیوز کی ایک خبر کے مطابق ایاز صادق نے اپنے خطاب میں کہا:
’’عمران خان نے پنجابیوں کو گدھا کہا ہے، پنجابی 25 جولائی (2018) کو انہیں بتائیں گے کہ وہ کیا ہیں۔‘‘
عمران خان کا بیان ریکارڈ پر موجود ہے، انہوں نے میاں صاحب کا استقبال کرنے والوں کو گدھا کہا ہے۔ اس بیان کی اور بیان دینے والے کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کی جاسکتی ہے، لیکن عمران خان کے منہ میں اپنے الفاظ نہیں ڈالے جاسکتے۔ بدقسمتی سے میاں نوازشریف کے قریب ترین ساتھی نے نہ صرف یہ کہ عمران خان کے منہ میں اپنے الفاظ ڈالے بلکہ انھوں نے یہ کہنے کی کوشش کی کہ میاں صاحب پنجابیوں کے رہنما ہیں اور عمران خان نہ پنجابیوں کے رہنما ہیں نہ انہیں پنجابیوں کا رہنما ہونا چاہیے۔ ایاز صادق کی بات اس لیے بھی محل نظر ہے کہ میاں نوازشریف کے استقبال کے لیے خیبر پختون خوا کے لوگ بھی امیرمقام کی قیادت میں آرہے تھے۔ ممکن ہوتا تو شاید بلوچستان، کراچی اور دیہی سندھ سے بھی کچھ نہ کچھ لوگ آجاتے، مگر ایاز صادق نے جو کچھ کہا اس کا مفہوم یہ ہے کہ میاں صاحب صرف پنجابیوں کے رہنما ہیں۔ یہ وہی ذہنیت ہے جو آدھا پاکستان نگل چکی ہے۔ میاں صاحب، ان کا خاندان اور ان کی جماعت ’’جاگ پنجابی جاگ‘‘ کی سیاست کررہے ہیں۔ کراچی میں ایم کیو ایم ’’جاگ مہاجر جاگ‘‘ کا نعرہ لگا رہی ہے۔ بلوچستان کے علاقے مستونگ میں دھماکے سے جو 149 افراد شہید اور 300 زخمی ہوئے ہیں اُن کے پس منظر میں کہیں جاگ بلوچی جاگ کا کھیل موجود ہے۔ آپ آصف علی زرداری اور پیپلزپارٹی کو ذرا سا دبائو میں لائیں گے تو دیہی سندھ میں سندھی قوم پرستی جاگ اٹھے گی، خیبر پختون خوا میں منظور پشتین جاگ پشتون جاگ کا کھیل کھیل رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس منظرنامے میں بے چارہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کہاں جائے گا؟
اس سوال کے جواب کی طرف جنرل اسد درانی نے اپنی کتاب Spy Chronicles میں واضح اشارہ کیا ہے۔ اس کتاب کے باب 32 کا عنوان ہے Akhand Bharat confederation Doctrine ۔اس باب میں جنرل درانی نے را کے سابق سربراہ اے ایس دولت سے گفتگو کرتے ہوئے کیا فرمایا، انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے:
“Sub-regionalization means giving autonomy to the two punjabs, the two khashmirs, etc. Apas main cricket, hockey Khelni hai,even across the LOC pupup a net and play volleyball. People are capable of coming up with things like his, Once they do,confidence comes and the say,we can live like this too.
But no one wants even that about Gujral’s sub-regionalization any more. Your Maharaja (Amarindersingh) and Shahbaz Sharif were for a time doing the two Punjab thing without realizing Gujral has suggested.”
ترجمہ: ’’(علاقے کو) ذیلی تنظیم میں ڈھالنے کا مطلب دونوں پنجابوں (یعنی پاکستانی پنجاب اور بھارتی پنجاب) کو خود مختاری دینا ہے۔ دونوں کشمیروں کو خودمختاری مہیا کرنا ہے۔ آپس میں کرکٹ، ہاکی کھیلنی ہے۔ حتیٰ کہ سرحد پر نیٹ لگاکر والی بال کھیلی جائے۔ لوگ اس طرح کی چیزیں کرنے کے قابل ہیں۔ جب وہ یہ کریں گے تو اعتماد آئے گا اور وہ کہیں گے کہ اس طرح بھی رہا جاسکتا ہے۔
مگر اب (بھارت کے سابق وزیراعظم اندرکمار)گجرال کی ذیلی تنظیمات کے بارے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتا۔ آپ کے مہاراجا (امریندر سنگھ) اور شہبازشریف ایک وقت میں دونوں پنجابوں کو ایک کرنے کے تصور پر کام کررہے تھے۔ یہ اور بات کہ انھیں معلوم نہیں تھا کہ اس تصور کے خالق گجرال تھے۔‘‘
کیا یہ محض اتفاق ہے کہ جنرل درانی کی کتاب پاکستان کے ذرائع ابلاغ میں ایک دو دن زیر بحث رہی اور اس کے ’’ہولناک مواد‘‘ پر نہ کوئی ٹاک شو ہوا، نہ کوئی کالم لکھا گیا، نہ اس پر کسی سیاسی جماعت کے رہنما نے بیان دیا۔ بلاشبہ جی ایچ کیو نے جنرل درانی کو طلب کیا اور ان کا نام ای سی ایل پر ڈالا گیا، مگر اس کے بعد سے اسٹیبلشمنٹ بھی اس حوالے سے خاموش ہے۔ ظاہر ہے اس خاموشی کا کوئی نہ کوئی مفہوم ہوگا۔ کیا؟ کسی کو معلوم نہیں۔ میاں نوازشریف کے کیمپ کی ’’قوم پرستی‘‘ اتنی وسیع البنیاد ہوگئی ہے کہ میاں صاحب اور ان کی دخترِ نیک اختر کی لاہور آمد پر روزنامہ ڈان کراچی نے اپنے صفحۂ اوّل پر Asha’ar Rehman کی جو طویل رپورٹ شائع کی ہے اس میں میاں نوازشریف اور مریم نواز کو “Two of the most famous Punjabi Prisoners” یعنی تاریخ کے سب سے مشہور ’’دو پنجابی قیدی‘‘ قرار دے کر قوم پرستی کے جذبے کو ابھارنے کی کوشش کی گئی ہے۔ تو کیا اب پاکستان میں قیدی بھی پنجابی، مہاجر، سندھی، بلوچی اور پشتون ہوا کریں گے؟ (حوالے کے لیے دیکھیے روزنامہ ڈان کراچی۔ 15 جولائی 2018ء)
ان حقائق کے تناظر میں دیکھا جائے تو میاں نوازشریف اور ان کی دختر نیک اختر پاکستان آگئے ہیں اور دونوں جیل میں ہیں، تو کیا اسٹیبلشمنٹ اور میاں نوازشریف کی ’’لڑائی‘‘ ختم ہوگئی؟ اور کسی ایک انجام کی طرف بڑھ گئی؟
اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں معروف صحافی انصار عباسی کے دی نیوز میں 12 جولائی 2018ء کو شائع ہونے والے کالم سے رجوع کرنا ہوگا۔ انصار عباسی کا کالم جنگ میں بھی شائع ہوتا ہے مگر یہ کالم صرف دی نیوز میں شائع ہوا ہے جس کا عنوان ہے “A message that Nawaz Sharif Ignored” اس کالم میں انصار عباسی نے انکشاف کیا ہے کہ چند روز پیشتر مریم نواز کی بیٹی کے سسر چودھری منیر کے پاس ایک ’’بن بلایا مہمان‘‘ آیا۔ مہمان نے چودھری منیر کو نوازشریف کے لیے ایک پیغام دیا۔ پیغام یہ تھا کہ میاں صاحب اور مریم نواز لندن میں اپنے قیام کو طویل کردیں اور صرف اُس وقت واپس آئیں جب اُن کے لیے حالات سازگار ہو چکے ہوں۔ چودھری منیر نے ’’بن بلائے مہمان‘‘ کا پیغام تحمل سے سنا اور ’’مہمان‘‘ کے جانے کے بعد انھوں نے میاں صاحب سے رابطہ کیا اور اُن تک پیغام پہنچایا۔ ’’بن بلائے مہمان‘‘ کی آمد کے دو دن بعد میاں صاحب نے اعلان کردیا کہ وہ اور مریم نواز ملک واپس جا رہے ہیں۔
چونکہ اسٹیبلشمنٹ نے اس ’’انکشاف‘‘ کی تردید نہیں کی، اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ’’بھائیوں‘‘ یا ’’فریقین‘‘ کے درمیان گفت و شنید کے امکانات ابھی تک معدوم نہیں ہوئے ہیں۔ مذکورہ حقائق کی روشنی میں ہمیں اسٹیبلشمنٹ اور میاں صاحب کے تعلقات کے حوالے سے اپنے دو شعر یاد آگئے۔ پہلا شعر ہے:

اک ویران سڑک پر ہم
اک دوجے سے خوف زدہ

دو سرا شعر ہم نے اُس وقت کہا تھاجب انٹر فرسٹ ائر کے طالب علم تھے۔ یہ شعر علامہ جمیل مظہر کے مصرع طرح پر کہی گئی ایک غزل کا حصہ ہے، شعر یہ ہے:

ہمیں بھی ڈر لگ رہا ہے تم سے، تمہیں بھی ڈر لگ رہا ہے ہم سے
تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم تو جواز رکھتے ہیں دوستی کا

یہ شعر اسٹیبلشمنٹ کے ’’نظریاتی احتساب‘‘ اور میاں صاحب کی ’’نظریاتی شخصیت‘‘ کے نام۔ سوال یہ ہے کہ کیا نظریاتی احتساب اور نظریاتی شخصیت میں ’’وصال‘‘ کا کوئی امکان ہے؟ پاکستان میں کچھ بھی ممکن ہے۔ فی الحال نظریاتی احتساب اور نظریاتی شخصیت کی یکجائی میں مشکلات زیادہ ہیں، آسانیاں کم۔