مقبوضہ کشمیر، انسانی قتل گاہ

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل مسٹر انٹونیو گوئٹرس نے کشمیر میں انسانی حقوق کے حوالے عالمی ادارے کی 49 صفحات پر مشتمل چشم کشا رپورٹ پر بھارت کا اعتراض مسترد کردیا ہے۔ بھارت نے اس رپورٹ کو متعصبانہ قرار دیا تھا۔ اس کی وجہ رپورٹ تیار کرنے والے کمشنر برائے انسانی حقوق زید رعدالحسین کا مسلمان ہونا تھا۔ زید رعدالحسین اردن کے شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک کیریئر ڈپلومیٹ ہیں، جو اپنی مختلف سفارتی حیثیتوں میں کام کرتے چلے آرہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے بھارت کے اعتراض کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی ذمے داری اور مینڈیٹ ہے کہ وہ دیکھے دنیا میں کہیں انسانی حقوق کی پامالی تو نہیں ہورہی۔ انہوں نے کہا کہ کسی علاقے کی سیاسی صورتِ حال اور وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہونا دو الگ معاملات ہیں۔ عالمی ادارہ کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالیوں پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
اقوام متحدہ نے کشمیر کے حوالے سے 49 صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ میں کہا تھاکہ عالمی ادارہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کی جامع بین الاقوامی تحقیقات کے لیے کمیشن کے قیام پر غور کررہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق زید رعدالحسین کی جاری کردہ اس رپورٹ میں جولائی 2016ء سے2018ء تک کشمیر میں پیش آنے والے واقعات کا جائزہ لیا گیا تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ کشمیر سات دہائیوں سے انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کا شکار رہا ہے۔ وادی میں لوگوں کے خلاف پیلٹ گن کا خطرناک ہتھیار استعمال کیا گیا جس کی وجہ سے بہت سے کشمیری بینائی سے محروم ہوگئے۔ جولائی 2016ء سے 2018ء تک 145افراد شہید ہوچکے ہیں۔ کشمیر میں اٹھائیس سال سے خصوصی آرمڈ فورسز ایکٹ نافذ ہے۔ رپورٹ میں زور دیا گیا تھا کہ کشمیر کے دونوں حصوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا خاتمہ کیا جائے اورتمام لوگوں کو انصاف فراہم کیا جائے تاکہ اُن لوگوں کو ریلیف مل سکے جو ستّر برس سے اس تنازعے کا سامنا کررہے ہیں، ایسا تنازع جس نے علاقے کے لوگوں کی زندگیوں کو برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ رپورٹ میں فوج یا عسکریت پسندوں کے ہاتھوں قتل ہونے والے افراد کے کیسز کی ازسرنو تحقیقات پر زور دیا گیا تھا۔ رپورٹ میں قتل اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث فوجی و نیم فوجی اہلکاروں کے مقامی مواخذے میں حائل فوجی قوانین کے خاتمے کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا۔ رپورٹ میں مقبوضہ کشمیر کے ساتھ ساتھ آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کے حوالے سے کئی باتیں کی گئی تھیں جن میں ان علاقوں کی آئینی حیثیت اور مرکز کی گرفت سمیت کئی امور شامل ہیں۔
اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کو بھارت نے یکسر مسترد کیا تھا اور اسے ایک مخصوص بیانیہ کی حمایت سے تعبیر کیا تھا، جبکہ پاکستان نے اس رپورٹ کا خیرمقدم کیا تھا اوراسے مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے اپنے مؤقف کی تائید قرار دیا تھا، تاہم آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے حوالے سے رپورٹ کے مندرجات پر دفتر خارجہ کے ترجمان نے یہ تبصرہ کیا تھا کہ آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کے حالات کا مقبوضہ کشمیر سے کوئی موازنہ ہی نہیں کیا جا سکتا۔ اقوام متحدہ کی یہ رپورٹ اور تحقیقاتی کمیشن کے قیام کی بات درحقیقت کشمیری عوام کے لہو اور قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ یہ اُن مظالم کا فطری جواب ہے جو بھارت نے کشمیریوں کی آواز کو وادی کے قید خانے اور ٹارچر سیل میں دبانے کی غرض سے ڈھائے ہیں۔ بھارت نے دنیا میں اپنا امیج اچھا بنائے رکھنے کے لیے کشمیرکو آہنی پردوں میں مستور اور آہنی حصاروں کے پیچھے چھپائے رکھا۔ آزاد بین الاقوامی میڈیا اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے زندہ ضمیر انسانوں اور تنظیموں کے وادی میں داخلے پر پابندی عائد کیے رکھی۔ ایک دو نہیں برس، مدتیں اسی کیفیت میں گزر گئیں۔ بھارت اپنے ہاتھوں اور دامن سے کشمیریوں کا لہو دھو ڈالنے کے لیے پانی کے بجائے مزید خون کا استعمال کرکے حماقتوں کی دلدل میں دھنستا چلا گیا، مگر ظلم کی ایک حد ہوتی ہے اور خدا کی بے آواز لاٹھی کبھی نہ کبھی حرکت میں ضرور آتی ہے۔ اقوام متحدہ جیسے معتبر عالمی ادارے کی نظریں آخرکار آہنی پردوں کے پیچھے دیکھنے میں کامیاب ہوگئیں۔ رپورٹ پر پاکستان اور بھارت کا مختلف انداز سے ردعمل یہ بتا رہا تھا کہ بھارت کے پاس مقبوضہ کشمیر میں چھپانے کو بہت کچھ ہے جبکہ پاکستان کے پاس آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں چھپانے کو کچھ نہیں۔ گلگت بلتستان اور آزادکشمیر میں گورننس کی کمزوریاں ہوسکتی ہیں، آئینی معاملات میں سقم ہوسکتا ہے، مرکزیت میں عدم توازن ہوسکتا ہے، مگر مقبوضہ کشمیر تو انسانی قتل گاہ ہے، جہاں انسانی زندگی سب سے حقیر اور کم قیمت شے کی حیثیت اختیار کرگئی ہے۔ اس لیے اقوام متحدہ کو آگے بڑھ کر پاکستان اور بھارت کی مشترکہ دعوت کا انتظار کرنے کے بجائے یک طرفہ طور پر مجوزہ بین الاقوامی تحقیقاتی کمیشن کے قیام کا اعلان کردینا چاہیے، اور سلامتی کونسل کے رکن ملکوں کی ذمے داری لگانی چاہیے کہ وہ اس کمیشن کے ساتھ تعاون پر بھارت کو آمادہ کریں۔