تقریب اجراء بنگلہ دیش کی تخلیق فسانے اور حقائق

ڈاکٹر جنید احمد پاکستان کے معروف تجربہ کار ماہر تعلیم، محقق اور ممتاز انتظامی مشیر ہیں۔ انہوں نے مانٹریال کینیڈا میں کنکورڈیا یونیورسٹی اور میک گل یونیورسٹی سے بیچلرز، مالیات اور پالیسی میں ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی اسناد حاصل کیں۔ انہیں کینیڈا اور پاکستان میں درس و تدریس کا وسیع تجربہ ہے۔ وہ گزشتہ 32برسوں سے نیشنل مینجمنٹ کنسلٹنٹ کے چیئرمین ہیں جو پیشہ ور مشاورتی کمپنی ہے۔ آپ نے 1400سے زیادہ مطالعاتی موضوعاتی مقالوں اور پیشہ ورانہ مشاورتی کاموں کی تکمیل کے لیے نگران کے فرائض انجام دیے ہیں۔ آپ نے حال ہی میں تجارت اور معاشیاتِ پاکستان کے مضامین پر دو درسی کتابیں تصنیف کی ہیں۔ آپ خارجہ تعلقات کے ادارے کے بورڈ آف گورنر کے رکن اور خارجہ تعلقات کی کراچی کونسل کے تاحیات رکن بھی ہیں۔
ڈاکٹر جنید احمد ’’تمہید‘‘ میں لکھتے ہیں ’’اس تصنیف کے ذریعے ہماری یہ کوشش ہوگی کہ پاکستان کی تقسیم اور بنگلہ دیش کے قیام کے بارے میں ایک جامع اور متوازن تصویر دنیا کے سامنے آئے۔‘‘
یہ کتاب مشرقی پاکستان کے سقوط اور بنگلہ دیش کے جنم کے پس پردہ اصل حقائق کے انکشافات کے ساتھ ساتھ نئے معروضی اور تحقیقی پہلوؤں اور زاویوں کو سامنے لائی۔ کتاب کا نہایت سلیس اور رواں ترجمہ معروف محقق، مصنف، شاعر اور مترجم محمود عالم صدیقی نے کیا ہے جو علمی، ادبی حلقوں میں احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ ترجمے کی یہ خوبی ہے کہ اس پر اصل تحریر کا گمان ہوتا ہے۔ کتاب نے بنگلہ دیش کے قیام کے بارے میں حیران کن طریقے سے کھرا سچ عیاں کردیا۔
گزشتہ دنوں پاکستان امریکن کلچرل سینٹر میں اس کتاب کی تقریبِ اجرا کا اہتمام ریڈرز کلب کے تعاون سے کیاگیا۔ ریڈرز کلب کی چیئر پرسن صبوحہ خان نے ابتدائی گفتگو میں کہا کہ ریڈرز کلب کے زیراہتمام ہم ہر ہفتے ایک کتاب پر گفتگو کرتے ہیں اور اس طرح اب تک ہم 700۔800 کتابوں پر گفتگو کرچکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج ہم ایک اہم کتاب کے بارے میں گفتگو کرنے کے لیے یہاں جمع ہوئے ہیں جس پر میں تمام شرکا شکریہ ادا کرتی ہوں۔ریٹائرڈ کموڈور سدید ملک نے کہا کہ ہمیں جو زخم 1971ء میں لگے تھے آج اِس کتاب کو دیکھ کر دوبارہ ہرے ہوگئے ہیں۔ اس کتاب میں ڈاکٹر جنید تحقیق کرکے جو حقائق ہمارے سامنے لائے ہیں وہ چونکا دینے والے ہیں۔ بنگلہ دیش اس وقت انڈیا کے مکمل اثر میں ہے۔ جون ایلیا نے کہا تھا کہ ہم ایک ہزار سال سے تاریخ کے دسترخوان پر حرام خوری کررہے ہیں۔ اور یہاں ہم ستّر سال سے بھی ایسا ہی کررہے ہیں۔ تحقیق اور تحریر کے بغیر قومیں آگے نہیں بڑھتیں۔ اس کتاب کو ہمیں بنگلہ دیش ضرور بھجوانا چاہیے۔ تقریب کے مہمانِ خصوصی جاوید جبار نے کہا کہ ڈاکٹر جنید احمد ایک جوشیلے انسان ہیں، اور ان کا جوش اس کتاب میں بھی نمایاں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے 1971ء میں جو غلط فیصلے کیے، قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کیا اس سے شکوک و شبہات پیدا ہوئے اور مشرقی پاکستان میں انتقامی صورت حال پیدا ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر جنید نے بڑا کام کیا ہے اور اسے اچھی طرح کراس چیک کیا۔ کتاب کے 8 ابواب ہیں جو سب کے سب اہم ہیں۔ بنگلہ دیش اور پاکستان میں ہر سطح پر مذاکرات وقت کی اہم ضرورت ہیں۔ صدرِ تقریب میجر جنرل(ر) سکندر حیات نے کہا کہ جاوید جبار نے اپنے انگریزی خطاب میں کتاب پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ حقائق اور افسانے کی بات میں سچائی کی بات بھی بہت ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1971ء میں لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں شکست ہوئی۔ بھائی یہ جنگ تو تھی ہی نہیں۔93ہزار فوجیوں کے اعدادوشمار بالکل غلط ہیں۔20ہزار فوج وہاں تھی۔ کتاب بہت سی غلط فہمیوں کو دور کرے گی۔
ڈاکٹر جنید احمد نے کہا کہ افسوس ہے کہ پچھلے 45 برسوں سے پاکستان پر الزامات لگائے جاتے رہے ہیں مگر ہم نے کوئی جواب یا بیانیہ نہیں دیا۔ ہمارے حکمرانوں نے صرف معافی مانگنے کی کوشش کی ہے۔ میں نے اس سے قبل 50 سے زائد کتابیں لکھی ہیں اور اس کتاب میں تحقیق کرکے ایک بیانیہ دیا ہے۔ یہ میری ذمے داری تھی کہ میں 20کروڑ لوگوں کی جانب سے جواب دوں۔ میں نے اس کتاب کی 200کاپیاں بنگلہ دیش بھجوائیں جہاں مارچ2017ء میں پارلیمنٹ میں اس پر بحث ہوئی۔ میں اس کتاب کا بنگالی اور ہندی میں بھی ترجمہ کراؤں گا۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے اچھے تعلقات ہونے چاہئیں۔
اس موقع پر ریڈرز کلب کی چیئر پرسن صبوحہ خان نے مہمانوں کو نشانِ سپاس پیش کیے۔ تقریب کی خوبصورت نظامت شکیل حیدر نے کی، جبکہ حاضرین نے اس موقع پر اپنے سوالات اور آراء بھی پیش کیں۔ ایک مہمان نے کہا کہ ڈاکٹر جنید احمد کو اس کاوش پر تمغا حسن کارکردگی دیا جائے۔ اس موقع پر شہر کی علمی وادبی شخصیات نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ میری نشست کے ساتھ معروف صحافی جلیس سلاسل، تحریک نفاذِ اردو کے نسیم احمد شاہ، اکادمی ادبیات پاکستان کے ریذیڈنٹ ڈائریکٹر قادر بخش سومرو بھی موجود تھے۔ بعد ازیں مہمانوں کی پُرتکلف ریفریشمنٹ سے تواضع کی گئی۔
کتاب کے مترجم محمود عالم صدیقی آخر تک سامعین کی نششتوں پر بیٹھے رہے، انتظامیہ کو توجہ دلانے پر آخر میں انہیں اسٹیج پر بلایاگیا جو کہ مناسب نہیں تھا۔