نام کتاب: باتیں مشفق خواجہ کی
(مکتوبات مشفق خواجہ بنام تحسین فراقی)
مرتب: ڈاکٹر حمیرا ارشاد
صفحات: 360روپے قیمت 600 روپے
ناشر: رنگِ ادب پبلی کیشنز۔ آفس نمبر 5 ،کتاب مارکیٹ اردو بازار۔ کراچی
فون: 021-32761100
0345-2610434
ای میل: rangeadab@yahoo.com
www.facebook.com/rangeadab
ڈاکٹر تحسین فراقی کے نام جناب مشفق خواجہ کے 202 خطوط اس کتاب میں جمع کردیے گئے ہیں، اور یہ کام ڈاکٹر صاحب کی ایک شاگرد ڈاکٹر حمیرا ارشاد صاحبہ صدر شعبہ اردو لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی کے ہاتھوں مکمل ہوا۔
ڈاکٹر حمیرا ارشاد صاحبہ تحریر فرماتی ہیں:
’’جولائی، دسمبر2016ء کے ’’صحیفہ‘‘ کا مکاتیب نمبر پڑھنے کا اتفاق ہوا، جس میں اردو کی نامور شخصیات کے خطوط مختلف مکتوب الیہم کے نام تھے۔ تمام مکاتیب معلومات کا خزانہ لیے ہوئے تھے۔ انہی مکاتیب میں مشفق خواجہ کے خطوط بھی شامل تھے، جو مختلف شخصیات کے نام لکھے گئے تھے۔ ان مکتوب الیہم میں ڈاکٹر تحسین فراقی بھی شامل تھے۔
عجیب بات ہے کہ استاد کا نام جہاں آتا ہے، نگاہ ادب سے جھک جاتی ہے اور شاگرد کی دل چسپی ہر اُس بات میں بڑھ جاتی ہے جو استاد کی شخصیت سے جڑی ہوتی ہے، چونکہ مجھے بھی ڈاکٹر تحسین فراقی کی شاگردی کا شرف حاصل ہے، لہٰذا ان کے نام لکھے گئے خطوط زیادہ دلچسپی سے پڑھے۔ یہ مکاتیب بہت دلچسپ اور معلومات افزا ہونے کے ساتھ ساتھ ادبی چاشنی کے بھی حامل تھے۔ ان کے مطالعے سے پتا چلا کہ خطوط کی تین اقساط اس سے قبل مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہوچکی ہیں۔ تجسس اور دل چسپی کے باعث وہ بھی پڑھ ڈالے، دل میں خیال پیدا ہوا کہ انہیں کتابی صورت میں یک جا کردیا جائے۔ لہٰذا استادِ محترم کی رضامندی سے انہیں کتابی صورت میں یک جا کرکے قارئینِ ادب کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔
یہ مکاتیب کتابی صورت میں پیش کرنے کے لیے ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی یہ بات بھی مہمیز ثابت ہوئی جو انہوں نے ’’مکاتیبِ مشفق خواجہ بنام ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی‘‘ کے ’’حرفِ اول‘‘ میں لکھی تھی کہ:
’’خطوط کسی شخص کو سمجھنے کے لیے کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ اسی لیے مشفق خواجہ سے قربت و محبت اور ’’باما آشنا بود‘‘ کا دعویٰ رکھنے والے احباب اور دوستوں سے گزارش ہے کہ مرحوم سے ہماری محبت اور تعلقِ خاطر کا ادنیٰ تقاضا ہے کہ ہم اپنے اپنے نام اُن کے مکاتیب شائع کردیں‘‘ (ص 18)
لہٰذا یہ مجموعہ ترتیب دینے کا ارادہ مزید پختہ ہوگیا۔ اب یہ مجموعہ نذرِ قارئین ہے۔ ڈاکٹر تحسین فراقی کے نام مشفق خواجہ کے مکاتیب کا پہلا حصہ کراچی سے شائع ہونے والے معروف جریدے ’’مکالمہ‘‘ میں شائع ہوا، جس میں مکاتیب کی تعداد نوّے (90) ہے۔ یہ مکاتیب مکالمہ کے پندرھویں شمارے (2005ء/2006ء) میں شائع ہوئے۔ دوسرا حصہ، جس میں مکتوبات کی تعداد اکتالیس (41) ہے، ’’مباحث‘‘ لاہور کے پہلے شمارے میں 2012ء میں شائع ہوا۔ تیسرا حصہ سہ ماہی ’’غالب‘‘ کراچی (شمارہ 21) 2013ء میں چھپا جس میں مکتوبات کی تعداد تئیس (23) ہے، جبکہ ان مکتوبات کا آخری حصہ سہ ماہی ’’صحیفہ‘‘ کے مکاتیب نمبر حصہ اوّل، شمارہ نمبر 226/227 جولائی۔ دسمبر 2016ء میں شائع ہوا، اس میں مکتوبات کی تعداد باون (52) ہے۔ اس طرح چاروں جرائد میں شائع ہونے والے مکتوبات کی تعداد 206 ہے۔ ان میں سے چار مکتوب ایسے ہیں جو مذکورہ جرائد میں بارِ دگر شائع ہوئے ہیں۔ انہیں حذف کردیا گیا ہے۔ اس طرح شامل اشاعت خطوط کی مجموعی تعداد 202 ہے۔ چاروں جرائد میں خطوط سے پہلے ایک ایک تعارفی شذرہ دیا گیا ہے، سب سے طویل شذرہ مباحث میں چھپنے والے خطوط کے آغاز میں دیا گیا ہے، جبکہ آخری شذرہ صحیفہ میں لکھا گیا ہے۔
مشفق خواجہ کی شخصیت قارئین کے لیے کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ وہ اردو کے نامور ادیب، محقق اور مدون ہیں۔ اپنے عہد کے نامور ادیبوں، شاعروں، محققوں اور مدونین سے ان کے گہرے تعلقات تھے۔ وہ نام و نمود سے بیگانہ، دیوانہ وار اپنے کام میں منہمک رہتے تھے۔ ان کے علمی و ادبی اور تحقیقی کارنامے شعر و ادب کے حلقوں سے داد و تحسین وصول کرچکے ہیں، کررہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ ان کے تدوینی کارناموں میں ’’تذکرۂ خوش معرکۂ زیبا‘‘ جلد اول اور دوم تو معرکے کی چیز ہے۔ اس کے علاوہ کلیاتِ یگانہ کی تدوین بھی ان کا ایک یگانۂ روزگار کارنامہ ہے جو انہیں اردو ادب میں دائمی زندگی دینے کے لیے کافی ہے۔ جائزۂ مخطوطاتِ اردو جلد اول بھی ان کے کارہائے نمایاں میں ایک غیر معمولی تحقیقی کاوش کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان کی خدمات یقینا ناقابلِ فراموش ہیں۔
مشفق خواجہ کی اپنے عہد کے نامور ادیبوں، شاعروں اور محققین سے مراسلت رہی۔ ان کی توضیح مبسوط حواشی کے ذریعے کردی ہے کہ کہیں تشنگی کا احساس باقی نہیں رہا۔
ان مکتوبات کا اسلوب اور موضوعات بجائے خود تفصیلی مطالعے کے متقاضی ہیں، لیکن یہاں اس سے گریز کیا گیا ہے تاکہ ان مکاتیب کے مطالعے سے قاری مشفق خواجہ کی شخصیت کے مختلف رنگوں سے براہِ راست لطف اندوز ہوسکے۔ ڈاکٹر تحسین فراقی نے مشفق خواجہ کے انتقال پر ایک تاثراتی مضمون بعنوان ’’اک مدت تک یاد رہیں گی باتیں مشفق خواجہ کی‘‘ تحریر کیا تھا، اسے بھی شاملِ کتاب کیا گیا ہے۔ یہ مضمون سب سے پہلے مکالمہ کے جون 2006ء کے شمارہ نمبر 15میں جس کا ذکر قبل ازیں ہوچکا ہے، شائع ہوا تھا۔ بعدازاں ڈاکٹر نعمان الحق کی مرتب کردہ کتاب ’’مشفق خواجہ: ادارہ، فرد، نابغہ‘‘ میں بھی مصنف کی نظرثانی کے بعد شامل کیا گیا، جہاں اس کا عنوان ’’باتیں مشفق خواجہ کی‘‘ ہے۔ مکاتیب کے اس مجموعے میں بھی یہ مضمون شامل کیا گیا ہے تاکہ قاری مکتوب نگار اور مکتوب الیہ کے مابین تعلقات کی گہرائی اور قربت سے بخوبی واقف ہوسکے اور جان سکے کہ ایک نکتہ پرور ادیب نے ایک نابغہ کی پرکھ اور پرداخت کیسے کی۔
کتاب کے آخر میں تمام خطوط کا اشاریہ مرتب کیا گیا ہے جس میں شخصیات، اماکن، کتب، رسائل و اخبارات، ادارے اور ذخیرے کے عنوانات کے تحت ان خطوط میں مذکور شخصیات، شہروں، کتابوں، اداروں، رسائل و اخبارات اور کتب کے ذخیروں کی الف بائی ترتیب ملحوظ رکھی گئی ہے۔ یہ اشاریہ یقینا قاری کے لیے بہت مفید ثابت ہوگا۔‘‘
مولانا ابوسلمان شاہجہاں پوری سے خواجہ صاحب بہت محبت کرتے تھے، ان کا ذکر بہت پُرلطف انداز میں کرتے تھے، ایک مرتبہ میری موجودگی میں ایک صاحب نے ابو سلمان صاحب کی مولانا ابوالکلام آزاد پر ایک کتاب لاکر دی۔ خواجہ صاحب نے دیکھ کر فرمایا ’’مولانا ابوالکلام کی قسمت۔‘‘
خواجہ صاحب بہترین فوٹو گرافر بھی تھے، ان کے پاس بے شمار فوٹو تھے۔ ایک دن ایک تصویر مجھے دی اور فرمایا ’’پہچانیں کون صاحب ہیں‘‘۔ میں نے دیکھا تو شکل کچھ جانی پہچانی لگ رہی تھی، تصویر جوانی کی تھی۔ میں نے غور وفکر کے بعد کہا ’’اگر اس فوٹو میں داڑھی بڑھا دی جائے تو شباہت مولانا ابوسلمان کی بنتی ہے‘‘۔ ہنستے ہوئے فرمایا ’’انہی کی ہے۔ ایک سلسلے میں شہنشاہِ جذبات بن کر داڑھی منڈوا دی، میں نے تصویر کھینچ لی، اس سلسلے میں ناکامی سے دوچار ہوکر صدمے میں دوبارہ رکھ لی۔‘‘
خواجہ صاحب ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں:
’’مولانا ابو سلمان صاحب سے آپ کی ملاقات ہوئی ہوگی۔ وہ آج کل آپ ہی کے شہر میں ہیں۔ آپ ایک تولیہ بھول گئے تھے۔ یہ میں نے مولانا صاحب کے حوالے کردیا تھا۔ امید ہے مل گیا ہوگا۔ اگر نہ ملا ہو تو مانگ لیجیے۔ کہیں وہ اسے مولانا ابوالکلام آزاد کا تولیہ سمجھ کر اپنے استعمال میں نہ لے آئیں۔‘‘
ایک اور خط میں خواجہ صاحب لکھتے ہیں:
’’مولانا ابوسلمان صاحب آج کل لاہور میں ہیں۔ معلوم نہیں آپ سے ملاقات ہوئی یا نہیں۔ وہ لاہور میں کسی مسجد یا مقبرے میں قیام فرماتے ہیں۔ مسجد میں اس لیے کہ فرشتے غلطی سے دوسروں کی عبادت ان کے نام لکھ دیں، اور مقبرے میں اس لیے کہ کوئی مر کر بھی آرام سے کیوں رہے‘‘۔
ایک خط میں یہ گل فشانی ہے:
’’ابوسلمان صاحب آج کل اپنے اعزاز میں جلسے منعقد کرانے میں مصروف ہیں۔ پچھلے دنوں ایک بڑے ہوٹل میں شان دار تقریب ہوئی تھی۔ تمام مقررین کی تقریریں انہی کو لکھنی پڑیں اور اب تمام اخباروں میں رودادیں لکھنے اور چھپوانے کا کام جاری ہے۔ ایسی مصروفیت میں وہ بھلا خط کا جواب کیوں دینے لگے! آج کل تو وہ بات کا جواب بھی مشکل سے دیتے ہیں۔ ایوب قادری صاحب کی طرف سے خط کا جواب اسی صورت میں مل سکتا ہے کہ آپ جوابی لفافہ بھیجیں۔ ویسے قادری صاحب بھی مولانا ابوسلمان جیسی تقاریب کا ہدف ہیں۔ ان دونوں کی پی ایچ ڈی کی ڈگریاں ان کے نیازمندوں کے حق میں عدالت کی ڈگری ثابت ہورہی ہے۔ دعا کیجیے کہ ان دونوں کا سلسلۂ تعلیم بند ہوجائے اور یہ اب اپنے بچوں کی تعلیم کی طرف توجہ دیں۔ ڈر ہے کہ کہیں ان کے حصے کی تعلیم بھی یہ خود ہی حاصل نہ کرلیں۔‘‘
ایک اور خط میں یہ اطلاع ہے:
’’ہمارے مولانا ابوسلمان شاہجہاں پوری نے بھی ساری عمر جمع و ترتیب کا کام کیا، پچھلے دنوں انہوں نے اپنی تازہ مرتبہ کتاب دی جو مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی کے بارے میں ہے، یہ ان کی پچاسویں کتاب ہے۔ میں نے انہیں اس ریکارڈ پر مبارک باد دی اور کہا کہ کیا ہی اچھا ہو کہ اب آپ ایسی بھی کوئی کتاب لائیں جو شروع سے آخر تک آپ کی اپنی لکھی ہوئی ہو۔ انہوں نے جواب میں فرمایا: جسے شروع سے آخر تک کسی کتاب کو پڑھنے کا تجربہ نہ ہو وہ کسی کتاب کو شروع سے آخر تک کیا لکھے گا۔ یہ سن کر میں شرمندہ ہوا کہ ان کے ارشاد کے بعد میں یہی کرسکتا تھا۔‘‘
ایک اور خط میں تحریر فرماتے ہیں:
’’مولانا ابو سلمان صاحب کا نسخہ ان کو بھجوا دیا ہے لیکن مولانا کو کتابیں پڑھنے سے نہیں، لکھنے سے دلچسپی ہے۔ جتنی دیر میں وہ آپ کی کتاب پڑھیں گے اتنی دیر میں وہ اسی ضخامت کی دو کتابیں لکھ لیں گے۔ بہرحال مولانا اُن لوگوں سے بدرجہا بہتر ہیں جو کچھ نہیں کرتے۔‘‘
مولانا ابوسلمان صاحب علیل ہیں، ان کی صحت یابی کے لیے دعا کی درخواست ہے۔
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کا اس کتاب میں ستّر دفعہ ذکر آیا ہے۔ اردو کے مکاتیبی ادب میں وقیع اضافہ ہے۔ علمی، ادبی، تحقیقی فوائد مزید ہیں۔
کتاب سفید کاغذ پر عمدہ طبع ہوئی ہے، مجلّد ہے، رنگین سرورق سے مزین ہے۔
ڈاکٹر تحسین فراقی صاحب کے دورِ نظامت میں مجلس ترقی ادب میں ان کی جتنی بھی تصانیف چھپی ہیں وہ دوسرے مکتبوں سے شائع ہوئی ہیں۔ ہمارے معاشرے کی پست حالت کے پیش نظر یہی مناسب ہے۔
………٭٭٭………