خوف اور دباؤ کے سائے میں انتخابات کا انعقاد

مستونگ، پشاور اور بنوں دھماکوں میں دوسو کے قریب بے گناہ افراد کی شہادتوں پر ملک بھر میں سوگ کی کیفیت کے تناظر میں 25 جولائی کو منعقد ہونے والے گیارہویں عام انتخابات کے حوالے سے ملک کے طول وعرض میں طرح طرح کی چہ میگوئیاں جاری ہیں۔ عام انتخابات کے شفاف انعقاد اور تمام جماعتوں کو بلاتفریق انتخابی مہم چلانے کے لیے سازگار ماحول کی فراہمی بنیادی طور پر عبوری حکومت کی ذمے داری ہونے کے باوجود اس بنیادی نکتے کے حوالے سے تادم تحریر نگراں حکومت بہت حد تک تہی دامن نظر آتی ہے، رہی سہی کسر الیکشن کمیشن اور اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے انتظامی امور میں بے جا اور غیر ضروری مداخلت کے واقعات اور احکامات سے پوری کی جارہی ہے۔ ایسے میں اگر ملک کی تمام قابلِ ذکر سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کی جانب سے انتخابی ماحول کو مشکوک قرار دیتے ہوئے ان کے ہاتھ پائوں باندھنے کے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں تو اسے آئندہ عام انتخابات اور اس کے نتائج کے حوالے سے خوش آئند ہرگز قرار نہیں دیا جا سکتا۔
انتخابی مہم میں مشکلات اور اس ضمن میں امن وامان کی صورتِ حال پر ملک کے دیگر حصوں کی طرح سب سے زیادہ تشویش کا اظہار خیبر پختون خوا میں کیا جارہا ہے، جہاں بنوں میں دہشت گردی کے دو الگ الگ واقعات کے علاوہ پشاور میں اے این پی کے جلسہ عام میں کھلی دہشت گردی کے نتیجے میں اے این پی کے امیدوار اور صوبائی راہنما ہارون بلور کی شہادت نے تمام جماعتوں کے لیے انتخابی مہم کو ایک سخت ٹاسک بنادیا ہے۔
امن و امان کی مخدوش صورتِ حال کے حوالے سے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ملاکنڈ میں اپنی انتخابی مہم کے سلسلے میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ خیبرپختون خوا حکومت کی طرف سے الیکشن مہم پر پابندی نہیں مانتے، اس ملک کے شہری ہیں اور الیکشن مہم چلانا ہمارا بنیادی حق ہے۔ چیف جسٹس کی نیت پر شک نہیں مگر ڈیمز بنانا اور فنڈ اکٹھا کرنا عدلیہ کا کام نہیں، جس طرح میں اپنی والدہ بے نظیر بھٹو اور نانا ذوالفقار علی بھٹو کے کیسز میں انصاف کا منتظر ہوں اسی طرح ہزاروں لاکھوں افراد عدالتوں سے انصاف کے منتظر ہیں۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ ملاکنڈ کا جلسہ اور ریلی بلوچستان سانحے پر اظہارِ یک جہتی کے لیے منسوخ کی گئی تھی مگر اس کے باوجود فیصلے کے مطابق میں نے ملاکنڈ کا دورہ کیا، ملاکنڈ کے عوام کا مشکور ہوں کہ انہوںنے جلسہ منسوخ ہونے کے باوجود محبت کا اظہار کرکے شاندار استقبال کیا، بلوچستان واقعے کی مذمت کرتا ہوں، پارلیمان میں دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے ماحول پیدا کرنے کی صلاحیت صرف پیپلز پارٹی میں ہے، ہم شروع سے نیشنل ایکشن پلان پر درست طریقے سے عمل کرانے کی یاد دہانی کراتے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گرد چاہتے ہیں کہ خوف کی فضا میں ہماری جمہوریت اور آزادی کو متاثر کرسکیں، مگر وہ اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ الیکشن وقت پر ہوں، اور امید ہے کہ وقت پر ہوں گے، مگر اس کے لیے غیر جانب دار صورتِ حال کی ضرورت ہے، مگر ہماری پارٹی کے علاوہ دیگر پارٹیوں کی طرف سے یہ شکایات آرہی ہیں کہ ایک خاص پارٹی کو سپورٹ کیا جارہا ہے، ہم نے اپنی شکایات جمع کرائی ہیں اور اس پر سینیٹ میں بھی بحث کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ فری اینڈ فیئر الیکشن ہمارا حق ہے، اس کے بغیر متنازع پارلیمنٹ عوامی مسائل حل کرنے کے لیے کمزور ہوگی۔
اے این پی کے بزرگ راہنما اور این اے31 پشاور سے قومی اسمبلی کے امیدوار حاجی غلام احمد بلور کا امن وامان کے حوالے سے کہنا ہے کہ ان کے بھتیجے ہارون بلورکو طالبان نے نہیں بلکہ ہمارے اپنوں نے شہید کیا ہے جس کی معلومات حاصل کرلی ہیں۔ غلام احمد بلور نے ایک نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کالعدم تحریک طالبان نے بیان دیا ہے کہ انہوں نے ہارون بلور کو شہید کیا ہے، لیکن معاملہ اس کے برعکس ہے، ہمارے پاس ثبوت موجود ہیں کہ ہارون بلور کے قتل میں طالبان نہیں ہمارے اپنے لوگ ملوث ہیں۔ غلام احمد بلور نے شعر سناتے ہوئے کہا کہ ’’دیکھا جو تیر کھا کے کمین گاہ کی طرف، اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی‘‘، ہمیں ایسی معلومات ملی ہیں کہ اس واقعے میں اپنوں کا ہاتھ ہے۔ غلام احمد بلور کا کہنا تھا کہ ہارون بلور کے قتل میں وہ لوگ ملوث ہیں جن کو اس واقعے سے فائدہ پہنچا، سانحے سے طالبان کو تو کوئی فائدہ نہیں ہونا تھا، ہمارے مخالفین سمجھتے ہیں کہ ہم ڈر جائیں گے، لیکن ہم الیکشن سے بھاگنے والے نہیں، اور ان کی یہ خواہش پوری نہیں ہوگی، دشمن ہمیں مارتے جائیں گے اور ہم لڑتے جائیں گے لیکن ہم پیچھے ہٹنے والے نہیں۔ قومی اور صوبائی اسمبلی کے لیے میدان میں اتریں گے اور پی کے 78 میرے بیٹے شہید ہارون بلور کی نشست ہے، وہاں ایسا امیدوار لائیں گے جو جیتے گا۔
قومی وطن پارٹی کے مرکزی چیئرمین آفتاب احمد خان شیرپائو نے کہا ہے کہ ملک میں جاری معاشی مسائل اور دہشت گردی کے پے در پے واقعات پائی جانے والی تشویش کو بڑھا رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ الیکشن چند دن کی دوری پر ہے، حکومت کو چاہیے کہ سیاسی لیڈروں اور امیدواروں کو فول پروف سیکورٹی فراہم کرے تاکہ وہ صحیح معنوں میں عوام کے سامنے اپنا منشور پیش کرسکیں۔ آفتاب شیرپائو نے کہا کہ مختلف سیاسی جماعتوں نے اعتراض کیا ہے کہ نگران حکومت مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے، اور ایک لیڈر جلسے کرنے میں آزاد اور دوسروں کو اجازت نہ ہو یہ تاثر عام انتخابات کے نتائج کے لیے زہر قاتل ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس طرح کے منفی تاثرات سے نگران حکومت کی ساکھ متاثر ہورہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ سیاسی لیڈروں اور امیدواروں کو فول پروف سیکورٹی فراہم کرنا حکام کا کام ہے اور ان کو چاہیے کہ اس کو یقینی بنائیں۔ آفتاب شیرپائو نے کہاکہ مرکزی سطح پر سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر الزامات لگا رہی ہیں جبکہ معیشت کی بہتری کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا جا رہا جوکہ ایک افسوسناک امر ہے۔
جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ اور متحدہ مجلس عمل کے صدر مولانا فضل الرحمن نے صوبہ خیبر پختون خوا کے سابق وزیراعلیٰ اکرم خان درانی کے قافلے پر بم دھماکے اور مستونگ میں سراج رئیسانی کے جلسے میں دھماکے کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی اور کہاکہ پشاور کے بعد بنوں اور مستونگ کا سانحہ عوام کو خوفزدہ کرنے کی سازش ہے۔ اپنے ایک بیان میں مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ ہارون بلور کے جلسے میں خودکش دھماکے کے بعد اکرم خان درانی کے قافلے پر حملہ اورمستونگ میں انتخابی جلسے میں ہولناک دھماکا حالات کی سنگینی بتارہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ نگران حکومت اپنی آئینی ذمے داریاں پوری کرتے ہوئے امیدواروں اور عوام کے تحفظ کے لیے فوری اور ہنگامی اقدامات کرے۔ مولانا فضل الرحمن نے ان واقعات میں شہید ہونے والوں کے درجات کی بلندی اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعا کی۔ اس موقع پر ایم ایم اے کے مرکزی راہنمائوں مولانا عبدالغفور حیدری، حافظ حسین احمد، مولانا فیض محمد اور ملک سکندرخان ایڈووکیٹ نے بھی سانحہ مستونگ اور بنوں میں متحدہ مجلس عمل کے امیدوار اکرم خان درانی کے قافلے پر بم دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہاکہ یہ حملہ نگران حکومت کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ گزشتہ روز پشاور میں اے این پی کے ر ہنما ہارون بلور کے انتخابی جلسے میں دہشت گردی کا واقعہ پیش آیا اور اس کے بعد مستونگ اور بنوں میں انتخابی پروگرام کو نشانہ بنایا گیا ہے، نگران حکومت امن کے قیام میں ناکام ہورہی ہے، اگر حالات یہی رہے تو خوف بڑھتا جائے گا اور اس طرح 25جولائی کو لوگ ووٹ ڈالنے کے لیے گھروں سے نہیں نکلیں گے جو جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کا باعث بن سکتا ہے، جس کی ہر سطح پر مزاحمت کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ حالات کی خرابی کی وجہ سے امیدواران کے لیے انتخابی مہم چلانا مشکل ہوتا جارہا ہے جسے آئندہ انتخابات کے لیے نیک شگون ہرگز قرار نہیں دیا جاسکتا۔
اے این پی کے مرکزی صدر اسفند یار ولی خان نے صوبے میں امن وامان کی دگرگوں صورت حال کے حوالے سے کہا ہے کہ 2013ء اور 2018ء میں زمین آسمان کا فرق ہے، گزشتہ انتخابات میں صرف اے این پی ٹارگٹ تھی، اب سب جماعتیں ٹارگٹ ہیں، دہشت گری کے حالیہ واقعات الیکشن کو سبوتاژ کرنے کی سازش ہے، عمران خان میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں کہ وہ غلام احمد بلور سے تعزیت ہی کرلیتے، طالبان کے ڈر سے عمران خان آج بھی دہشت گردی کے واقعات پر خاموش ہیں۔ تمام سیاسی پارٹیوں کو سیاسی اسکورنگ سے بالاتر ہوکر دہشت گردی کے خلاف اقدامات کرنے ہوں گے، دہشت گردی کے پے درپے واقعات نے مثالی پولیس کو بھی پوری دنیا میں ظاہر کردیا ہے، پیٹھ پر وار بزدل کرتے ہیں، دشمن میں غیرت ہے تو سامنے آکر وار کرے، ہم بھی بھرپور جواب دیںگے، سیاسی سرگرمیاں شروع کرلی ہیں، جمہوریت دشمن قوتوں کو جو کرنا ہے کریں، ہم اپنا پُرامن مشن جاری رکھیں گے۔
دریں اثناء انتخابات کے سیکورٹی معاملات کا جائزہ لینے کے لیے پشاور میں ہونے والے ایک حالیہ اجلاس میں بتایا گیا ہے کہ کئی اہم رہنمائوں کو کالعدم تحریک طالبان اور جماعت الاحرار سے خطرہ ہے۔ 13 جولائی کو ہونے والے اس اجلاس میں اعلیٰ فوجی اور سول حکام نے شرکت کی جس میں ایک فہرست پیش کی گئی، فہرست میں اُن رہنمائوں کے نام بتائے گئے جن کو دہشت گرد تنظیموں سے خطرہ ہے۔ ان رہنمائوں اور انتخابی امیدواروں میں اسفند یار ولی خان، عمران خان، مولانا فضل الرحمن، آفتاب شیرپائو، اکرم خان درانی، امیر حیدر خان ہوتی، سابق رکن قومی اسمبلی بلال الرحمن، باجوڑ سے سابق ایم این اے شہاب الدین خان، بنوں سے پیپلز پارٹی کے سابق صوبائی وزیر شیراعظم خان وزیر، بنوں میں جے یو آئی کے امیدوار ملک شیریں وزیر، بنوں میں پی ٹی آئی کے رہنما شاہ محمد وزیر، بنوں کے عدنان وزیر، کرم ضلع کے حبیب نور، اورکزئی ضلع کے قاسم نور، اورکزئی کے گل محمد، اورکزئی کے جلال حسین، دیر بالا کے باچا صالح، ملاکنڈ میں پیپلز پارٹی کے محمد علی شاہ باچا اور مردان کی مقامی سیاسی قیادت شامل ہے۔ اجلاس کو بریفنگ کے دوران بتایا گیا کہ ان رہنمائوں کو کارنر میٹنگز اور نقل و حرکت کے دوران خطرہ ہوسکتا ہے۔ جن رہنمائوں اور امیدواروں کا ذکر فہرست میں کیا گیا ہے حکومت نے ان کی سیکورٹی بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ انٹیلی جنس ایجنسیوں نے بتایا ہے کہ ٹی ٹی پی اور جماعت الاحرار نے حملوں کے لیے کئی فدائین کی خدمات حاصل کی ہیں اور ان کی کارروائیاں ضلع پشاور، جنوبی وزیرستان، ڈیرہ اسماعیل خان، شمالی وزیرستان، صوابی، بنوں، مردان، اورکزئی اور ملاکنڈکے مختلف علاقوں میں ہوسکتی ہیں۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ممکنہ دہشت گرد کارروائیوں کو ناکام بنانے کے لیے معلومات تمام ایجنسیوں اور مقامی پولیس کے ساتھ شیئر کی جائیں گی۔ اجلاس میں مشکوک افراد پر نظر رکھنے کے لیے ہوٹلوں، سرائوں اور کرائے پر حالیہ دنوں میں دیئے جانے والے گھروں کی مسلسل نگرانی کا فیصلہ بھی کیا گیا۔ اسی اثناء نگران وزیراعظم جسٹس (ر) ناصر الملک نے خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات کی شدید مذمت کرتے ہوئے متعلقہ اداروں کو ہدایت کی ہے کہ انتخابی امیدواروں اور سیاسی ریلیوں اور کارنر میٹنگز میں شرکت کرنے والے لوگوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے تمام سیکورٹی اقدامات اور ہر ممکن حفاظتی انتظامات کو یقینی بنایا جائے۔ وزیراعظم نے سلامتی سے متعلق انتظامات کے بارے میں سیاسی قیادت سے مشاورت اور کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچنے کے لیے ان کا تعاون حاصل کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت اور معاونت سے عوامی شعور اجاگر کرنے کے لیے فوری مہم بھی شروع کرنی چاہیے تاکہ عام لوگوں کو سیکورٹی سے متعلق معیاری طریقہ ہائے کار (ایس او پیز) کے بارے میں معلومات مل سکیں اور لوگ اس پر عمل کرسکیں۔
اس تمام تر صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ کچھ خفیہ قوتیں نہ صرف 25 جولائی کو منعقد ہونے والے عام انتخابات کو لہو رنگ کرکے متنازع بنانا چاہتی ہیں بلکہ یہ پاکستان دشمن قوتیں اپنے مذموم عزائم کے ذریعے وطن عزیز میں پورے جمہوری عمل کو بھی بریک لگانے کی آرزومند ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ حالیہ انتخابات کو شروع دن سے اگر ایک جانب متنازع بنانے کے لیے مختلف حیلے بہانے اور ہتھکنڈے آزمائے جا رہے ہیں تو دوسری طرف مستحکم روایتی سیاسی جماعتوں کو بدنام کرنے اور ان کی راہ میں طرح طرح کی رکاوٹیں کھڑی کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا جا رہا ہے، جس کا اندازہ متعلقہ جماعتوں کے رہنمائوں کے مندرجہ بالا گلے شکووں سے بآسانی لگایا جا سکتا ہے۔ آزاد امیدواران کی پذیرائی، بعض جماعتوں کو دیوار سے لگانے کی حکمت عملی اور کچھ کو کھلے عام نوازنے جیسے برملا اقدامات سے جہاں پورا انتخابی عمل شکوک وشبہات کا شکار ہورہا ہے، وہیں اس طرح کے منفی اور خودغرضانہ اقدامات کی فصل نہ صرف سانحہ مشرقی پاکستان کی صورت میں کاٹ چکے ہیں بلکہ ان اقدامات کے کچھ بھیانک مظاہر ہم کراچی اور بلوچستان میں بھی شدید ترین بدامنی اور اقتصادی بدحالی کی شکل میں دیکھ اور بھگت چکے ہیں۔ لہٰذا تمام ریاستی اداروں کو 25 جولائی کے انتخابات کے حوالے سے ایک صفحے پر آکر ملک و قوم اور جمہوریت کے مستقبل کے لیے مل جل کر، ذاتی پسند و ناپسند پر مبنی قومی مفاد کے خودساختہ مفروضے سے بالاتر ہوکر ایسا آزادانہ اور سازگار ماحول فراہم کرنا چاہیے جس کے نتیجے میں پوری قوم اپنی مرضی کے نمائندوں کا آزادانہ انتخاب کر سکے۔ یہی جمہوریت کا حسن ہے اور یہی قومی یک جہتی اور پاکستان کے بہتر ومحفوظ مستقبل کی ضمانت ہے۔