نوازشریف کی سزا،کیا بلاتفریق احتساب ہوسکے گا؟۔

پاکستان میں احتساب کا عمل ہمیشہ سے کمزور اور متنازع رہا ہے۔ اوّل، یہاں احتساب کے نام پر مختلف فریقین کے درمیان سودے بازی کی سیاست کا غلبہ نظر آیا ہے۔ دوئم، اگر کسی نے احتساب کا عمل شروع بھی کیا تو اس میں شفافیت کم اور سیاسی مخالفین پر دبائوکا عمل زیادہ غالب نظر آیا۔ سوئم، جب حکمران طبقہ اداروں کی خودمختاری اور بالادستی کو چیلنج کرکے اسے اپنے ذاتی مفادات کے تحت یرغمال بنالے تو عملاً احتساب کا عمل بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔ چہارم، مجموعی طور پر ہماری سیاسی اور فوجی حکمرانی نے جمہوریت، قانون کی حکمرانی اور شفافیت کے نام پر احتساب کو ’’ہتھیار‘‘ کے طور پر استعمال کرکے نقصان پہنچایا ہے۔
اس وقت بھی پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں احتساب کی بحث شدت سے جاری ہے۔ احتساب کی حمایت و مخالفت کے دونوں نکتہ نظر سننے کو مل رہے ہیں۔ اب بھی ایک حلقے کا خیال ہے کہ احتساب کا عمل منصفانہ اور شفاف نہیں بلکہ اس کو بطور ہتھیار مخالفین کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) سمیت بہت سی سیاسی جماعتوں کو احتساب کے موجودہ عمل پر شدید تحفظات ہیں۔ قومی احتساب بیورو یعنی نیب پر شدید تنقید کی جارہی ہے کہ اس کا عمل شفافیت پر مبنی نہیں۔ یہ الزام بھی سننے کو مل رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ گٹھ جوڑ نے احتساب کے نام پرسیاست دانوں کو کمزور کیا ہے، اور اس کے پیچھے جمہوریت مخالف قوت ہے۔
اگرچہ پاکستان میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو کرپشن پر مبنی سیاست کو کوئی بڑا مسئلہ نہیں سمجھتے، اور ان کی دلیل ہوتی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں کرپشن کے بغیر معاشی ترقی کا عمل آگے نہیں بڑھ سکتا۔ لیکن یہاں ہمیں خاص طور پر تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کو داد دینا ہوگی جنہوں نے ملک میں تسلسل کے ساتھ کرپشن کی سیاست کے خلاف جہاد کیا اور اس ملک میں کرپشن کو واقعی ایک بڑا سیاسی مسئلہ بنایا ہے۔ اِس وقت بھی انتخابات 2018ء پر نظر ڈالیں تو صاف نظر آتا ہے کہ کرپشن کا مسئلہ اہم ہے اور پوری سیاست اِس وقت اسی کے گرد گھوم رہی ہے۔ کچھ عرصے سے نیب اور عدالتوں نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ کرپشن کا خاتمہ چاہتے ہیں اورکرپٹ عناصر کو کسی بھی صورت نہیں چھوڑا جائے گا۔ سوشل میڈیا میں بھی کرپشن کی سیاست کے خلاف ایک بڑی جنگ دیکھنے کو ملتی ہے، اور لگتا ہے کہ نئی نسل میں بھی یہ احساس موجود ہے کہ کرپشن کو ختم کیے بغیر جمہوریت کا سفر آگے نہیں بڑھ سکتا۔
اس وقت نوازشریف اور اُن کا خاندان نیب کے مختلف مقدمات سے گزر رہا ہے۔ ایون فیلڈ فلیٹس کے مقدمے میں سابق وزیراعظم نوازشریف، ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن(ر) صفدر کو سزا سنادی گئی ہے۔ یہ لوگ اب جیل میں ہیں۔ نوازشریف کے دو بیٹوں حسین اور حسن کو اشتہاری قرار دے دیا گیا ہے۔ نوازشریف کے خلاف دیگر مقدمات بھی جاری ہیں اور ان کی کارروائی اب اڈیالہ جیل ہی میںہوگی۔ نوازشریف اور ان کے حامی اس سزا کو انتقامی عمل، جبکہ مخالفین قانون کی حکمرانی قرار دے رہے ہیں۔ اس ساری بحث میں قانونی پہلوئوں کو کمزور کرکے سیاسی مباحث کو زیادہ شدت دی جارہی ہے۔ پہلے ہی پاکستان میں سیاسی تقسیم خاصی گہری ہے۔ اس مقدمے کے فیصلے نے اس تقسیم کو مزید گہرا کردیا ہے۔ اب نوازشریف اور مریم نواز جیل میں ہیں تو اُن کو مظلوم بناکر پیش کیا جارہا ہے ۔ اگرچہ نیب کی جانب سے جاری مقدمات کا تعلق محض شریف خاندان سے نہیں ہے۔ اس میں دیگر سیاسی جماعتوں سمیت مختلف فریقین کے خلاف بھی مقدمات کا عمل چل رہا ہے۔ لیکن نوازشریف اور ان کا حمایتی طبقہ اس نکتے پر زور دیتا ہے کہ یہاں احتساب کا عمل یک طرفہ ہے اور اس کا ٹارگٹ محض نوازشریف اور ان کا خاندان ہے، جبکہ دیگر لوگوں کو جان بوجھ کر احتساب کے عمل سے دور رکھا جارہا ہے۔ ایک عجیب و غریب منطق یہ پیش کی جاتی ہے کہ اگر میں کرپٹ ہوں تو وہ دوسرا بھی تو کرپٹ ہے، اس کو کیوں نشانہ نہیں بنایا جاتا اور صرف مجھے ہی کیوں! ایک تنقیدی نکتہ نظر یہ بھی ہے کہ عدلیہ یا اسٹیبلشمنٹ احتساب کے پیچھے کھڑی ہوکر اداروں کو استعمال کرتی ہے۔ اداروں کو خود آزادی اور خودمختاری سے کام کیوں نہیں کرنے دیا جاتا؟
یہ جو نیب پر تنقید ہے، ممکن ہے اس میں وزن بھی ہو۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی جو پچھلے دس برسوں سے پانچ پانچ برس اقتدار میں رہیں، دونوں میں مختلف امور پر مفاہمت بھی تھی، یہ دونوں اگر واقعی احتساب کے عمل میں سنجیدہ تھیں تو کیوں نیب کو ختم کرکے ایک آزادانہ اور منصفانہ احتساب ادارے کی تشکیل نہیں کرسکیں؟ کیوں دونوں جماعتوں نے سیاسی سودے بازی کی بنیاد پر ایک دوسرے کی کرپشن کو تحفظ دے کر لوٹ مار کی سیاست کی؟ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ لوٹ مار کی سیاست محض سیاست دانوں تک محدود نہیں، اور یقینی طور پر ان پر زیادہ تنقید کی جاتی ہے۔ بیوروکریسی، عدلیہ، فوج،کاروباری طبقے اور میڈیا سمیت مختلف فریقین کرپشن میں ملوث ہیں۔ لیکن بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ جب خود حکمران طبقہ کرپشن اور بدعنوانی کی سیاست کرے گا تو دیگر طبقات کا احتساب کیونکر ممکن ہوگا!
یہاں احتساب کے بارے میں ایک فکری مغالطہ یہ پھیلایا جاتا ہے کہ اگر ہم نے اس وقت احتساب کے عمل کو آگے بڑھایا تو اس سے جمہوری نظام کو خطرات لاحق ہوں گے۔ کئی سنجیدہ طرزفکر کے حامل افراد بھی اس بحث میں الجھ کر عملی طور پر کرپشن پر مبنی سیاست کو ہی تحفظ دیتے ہیں۔ یہ بھی دنیا میں صرف پاکستان میں ہوتا ہوگا کہ سیاست دان مجموعی طور پر یہ مطالبہ کریں کہ انتخابات سے قبل کسی کا احتساب نہ ہو، اور نہ ہی کسی کو گرفتار کیا جائے۔ اس پر نیب کا گرفتاری نہ کرنے کا فیصلہ بھی لوگوں کے لیے حیران کن ہے اور نیب کے کمزور ہونے کی دلیل پیش کرتا ہے۔ دراصل پاکستان کا حکمران بالادست طبقہ ملک میں احتساب کا کبھی بھی حامی نہیں رہا، اور اس نے کرپشن کو عملی طور پر تحفظ فراہم کیا ہے جو مہلک مرض کی طرح ملک سے چمٹ چکی ہے۔
بنیادی خرابی یہ ہے کہ ہماری سیاسی قیادتیں جمہوریت اور سیاسی جماعتوں کو اپنی ذاتی کرپشن چھپانے کے لیے اپنے حق میں استعمال کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر پاناما کا مقدمہ حکومت یا مسلم لیگ (ن) پر نہیں تھا۔ یہ مقدمہ براہِ راست شریف خاندان پر تھا۔ شریف خاندان کو اس مقدمے میں اپنی صفائی پیش کرنا تھی، مگر اس خاندان نے پوری طاقت سے اپنے حق میں حکومتی مشینری اور سیاسی جماعت کو استعمال کرکے اپنی ڈھال بناکر خود کو بچانے کی کوشش کی۔ اسی طرح کے الزامات آصف علی زرداری پر ہیں، جبکہ پیپلز پارٹی بطور جماعت ایک خاندان کے تحفظ کے لیے کھڑی ہے۔ یہی حال باقی جماعتوں کا ہے جن کی قیادتیں اپنے کارکنوںکو اپنی کرپشن کی سیاست کو تحفظ دینے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ سیاسی کارکن خود بھی سمجھیں کہ وہ کب تک اپنی اپنی جماعتوں میں اپنی کرپٹ قیادت کو تحفظ دیتے رہیں گے۔ یہی وقت ہے کہ سیاسی نظام میں رہتے ہوئے اپنی اپنی سیاسی قیادت سے سوال پوچھا جائے کہ ان کا ذریعہ آمدن کیا ہے اور اثاثے کہاں سے آئے ہیں؟ تاکہ سیاسی جماعتوں میں بھی داخلی احتساب کا عمل آگے بڑھ سکے۔
یہ اچھی بات ہے کہ پاکستان میں اس وقت طاقت ور طبقات کے خلاف احتساب کا عمل شروع ہوا ہے۔ ابھی اس کی ابتدا ہے، اور اس میں بہت کچھ ہونا باقی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ احتساب کا عمل اوپر سے شروع ہوا ہے، وگرنہ یہاں تو کمزور لوگوں کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا تھا اور طاقت ور لوگ اپنی حکمرانی، دولت اور اختیارات کی بنیاد پر بچ جاتے تھے۔ یہ جو نکتہ ہے اپنی آمدن سے زیادہ اثاثے بنانے کا، اس کا آڈٹ ہونا ہر طبقے کی سطح پر ضروری ہے۔ صرف سیاست دان ہی نہیں، بلکہ ہر طبقے میں ایسے لوگوں کی تعداد تسلسل کے ساتھ بڑھتی جارہی ہے جو اپنی آمدن سے زیادہ اثاثے رکھتے ہیں اور ان کو ثابت کرنے کے لیے اُن کے پاس شفاف شواہد موجود نہیں۔ اس لیے ملک میں ہر سطح پر ایک بڑے احتساب کی سیاست کو فروغ دینا ہوگا، اور جو بھی احتساب کی جانب بڑھے اس کی ہر سطح پر حمایت کی جانی چاہیے۔ کیونکہ کڑا احتساب اس وقت ملک کی ضرورت ہے۔
سب جانتے ہیں کہ یہاں ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت اداروں کو کمزور اور یرغمال رکھا گیا ہے۔ اس لیے کوئی بھی ان موجودہ اداروں سے ان کی حیثیت کے مطابق شفاف احتساب کی توقع نہیں رکھتا۔ اداروں کی سطح پر خلا کو پُر کرنے میں چیف جسٹس اور عدلیہ کا کردار ہے، اس کو مزید طاقت ملنی چاہیے۔ لیکن یہ جو مخالفین کی بحث ہے کہ احتساب کا عمل یک طرفہ ہے، یا ایک خاندان کے خلاف ہے، اس سے ہر سطح پر نمٹا جائے، اور اس کا واحد طریقہ یہی ہے کہ ملک میں احتساب کا عمل منصفانہ، شفاف اور بلاتفریق ہو، اور یہ تاثر قائم نہ ہو کہ کچھ لوگوں کو سیاسی مفاد کے تحت احتساب کے دائرۂ کار سے باہر رکھا جاتا ہے۔
پاکستان اس وقت جن بڑے مسائل سے دو چار ہے اُن میں ایک مسئلہ احتساب کا بھی ہے۔ اس وقت جو اچھا موقع اور ماحول بن رہا ہے اس کو نہ صرف منظم کیا جائے بلکہ اس میں اور زیادہ طاقت ڈالی جائے۔ لوگوں میں اس بنیادی شعور کو اجاگر کیا جائے کہ ہمیں ہر سطح سے یعنی اوپر سے نیچے تک احتساب کے عمل کو فروغ دینا ہے۔ اس کی بنیادی کنجی اداروں کو خودمختاری دینا اور سیاست سے پاک کرنا ہے۔ یہ عمل انتخابات کے بعد بھی جاری رہنا چاہیے، جو بھی نئی حکومت آئے اُس کی بنیادی ترجیحات میں احتساب اور اس سے جڑے اداروں کی بالادستی ہونی چاہیے۔ نئی حکومت اور عدلیہ سمیت احتساب کے ادارے باہمی تعاون سے اس بڑے مرض سے نمٹ سکتے ہیں۔
یہ جو جمہوریت، قانون کی حکمرانی اور سیاسی نظام کی بالادستی کی جنگ ہے اس کا ایک بنیادی نکتہ منصفانہ، شفاف جواب دہی یعنی احتساب کا نظام ہے۔ احتساب کو طاقت دیے بغیر نہ تو جمہوریت قائم رہ سکے گی اور نہ ہی قانون کی حکمرانی کا نظام اپنی افادیت قائم رکھ سکے گا۔