اللہ تعالیٰ نے ہم پر کوئی عبادت ایسی فرض نہیں فرمائی ہے جس میں بے شمار روحانی، اخلاقی، اجتماعی، تمدنی اور مادی فوائد نہ ہوں۔ ظاہری بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنی ذات کے لیے تو کسی کی عبادت کی کوئی حاجت نہیں ہے۔ اُس نے جو عبادت بھی بندوں پر فرض کی ہے وہ خود بندوں کی بھلائی کے لیے ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات ہر احتیاج سے بالاتر اور ہر نفع اور فائدے کی ضرورت سے بلند تر ہے۔ لیکن جتنی عبادتیں بھی اُس نے فرض کی ہیں اُن کا ایک تو مقصدِ اصلی ہے جس کے لیے وہ فرض کی گئی ہیں، اور اس کے علاوہ بے شمار ضمنی فائدے ہیں جو ان عبادات کے انجام دینے سے آپ سے آپ حاصل ہوتے ہیں۔ اب اگر کوئی شخص نادانی سے ان ضمنی فائدوں ہی کو اصل مقصد قرار دے بیٹھے اور اُس غایتِ اصلی کو فوت کردے جس کے لیے وہ عبادات مقرر کی گئی ہیں تو حقیقت میں وہ اپنی عبادات کو ضائع کرتا ہے۔ اس کی عبادت سرے سے عبادت ہی نہیں رہتی۔
روزے کے بے شمار اخلاقی، روحانی اور جسمانی فوائد ہیں لیکن اگر کوئی شخص روزہ اس لیے رکھے کہ اس کی صحت اچھی ہوجائے گی تو حقیقت میں وہ کوئی عبادت نہیں کرتا۔ وہ تو بس ایک فاقہ کرتا ہے جو صحت درست کرنے کے لیے ڈاکٹر کی تجویز سے یا خود اپنی رائے سے اُس نے کرنا شروع کردیاہے۔ اس طرح اگر کوئی شخص نماز پڑھتا ہے اور اس میں اُس کے پیش نظر یہ بات ہوتی ہے کہ اس کی عادات میں باقاعدگی پیدا ہوجائے گی، اس کے اوقات میں نظم و ضبط پیدا ہوجائے گا، یا اسی طرح کوئی اور فائدہ اس کی نگاہ میں ہے، تو حقیقت میں وہ کوئی عبادت نہیں کرتا۔ جس فائدے کو اس نے نگاہ میں رکھا ہے وہ چاہے اس کو حاصل ہو بھی جائے لیکن عبادات کا کوئی اجر اس کو نہیں پہنچتا۔ ایسا ہی معاملہ حج کا بھی ہے۔ اس کے جو اخلاقی، روحانی، اجتماعی، تمدنی اور مادی فوائد ہیں، اگر کوئی شخص ان میں سے کسی فائدے ہی کو اپنا مقصود قرار دیتا ہے تو حقیقت میں وہ کوئی حج کرتا ہی نہیں ہے۔ اس کی یہ عبادت سرے سے عبادت ہی نہیں ہے۔ تمام عبادتوں کا مقصودِ اصلی تو اللہ تعالیٰ کے حضور میں اپنی بندگی پیش کرنا ہے۔ اس کی رضا حاصل کرنا ہے۔ اگر بندے کو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوجائے تو اس کی عبادت کا اصل مقصد پورا ہوگیا۔ لیکن اگر وہ عبادات میں اپنی ساری دوڑ دھوپ کے باوجود اللہ کی رضا پانے سے محروم رہ گیا تو حقیقت میں اس کی ساری محنت ہی اکارت گئی۔ اس نے عبادت کے حقیقی مقصد اور اصلی فائدے کو ضائع کردیا۔ اس لیے یاد رکھیے کہ عبادات سے ضمنی فوائد کا حاصل ہونا یا نہ ہونا بجائے خود مقصود نہیں ہے۔ سب سے پہلا کام یہ ہے کہ… ہر شخص حج اپنی نیت کو خالص اور پاک کرکے صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کو مقصود سمجھتے ہوئے انجام دے۔ اگر کسی شخص نے نیت کے اخلاص اور ارادے کی درستی کے ساتھ حج کیا اور کوئی بڑا اجر نہیں، صرف اپنی مغفرت ہی حاصل کر لے گیا تو حقیقت میں وہ کامیاب ہے۔ اس کے آگے یہ سراسر اللہ کا فضل و احسان ہے کہ وہ کسی آدمی کو اس پر مزید اجر اور بلند مراتب سے بھی نواز دے۔ بہرحال ایک آدمی کا جج کے ذریعے سے اللہ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرلینا ہی بہت بڑی کامیابی ہے۔
آج کل حج کے بارے میں نئے نئے فلسفے پیش کیے جارہے ہیں۔ کچھ لوگوں کے خیال میں حج اس لیے فرض کیا گیا ہے کہ اس سے دراصل مسلمانوں کی ایک بین الاقوامی سالانہ کانفرنس کرانا مقصود ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کی ایک سالانہ کانفرنس کے جو کچھ فوائد بھی کوئی شخص اپنے ذہن میں سوچ سکتا ہے، اس سے ہزار گنے زیادہ فوائد حج سے عملاً حاصل ہوتے ہیں۔ لیکن ایسی کوئی کانفرنس دراصل حج کا حقیقی مقصود نہیں ہے۔
اسی طرح اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ حج کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ آدمی کو عرب کی سیاحت کرنے کا، اس کے تاریخی مقامات دیکھنے کا، اور اس کی تہذیبی اور تمدنی زندگی کا مطالعہ کرنے کا موقع ملتا ہے تو حقیقت میں وہ اپنے حج کو ضائع کرتا ہے۔ اگر اس کے دل میں حج کے مقصد کی حیثیت سے ایسی کوئی غرض اور نیت شامل ہوجائے تو فی الحقیقت اس کی یہ عبادت سرے سے عبادت ہی نہیں رہے گی۔ اپنے ذہن میں اس خیال کو بٹھایئے کہ ہمارا اصل مقصود اللہ کے رضا حاصل کرنا اور اس کے حضور اپنے جذبۂ عبودیت کو پیش کرنا ہے۔
(خطباتِ حرم، اگست 2000ء، ص 39-37)