ہفت روزہ ’’فرائیڈے اسپیشل‘‘ کے شمارہ نمبر 27 (6 جولائی تا 12 جولائی 2018ء) میں بین الاقوامی شہرت یافتہ، عالمِ اسلام کے معروف مسلمان ترک محقق ڈاکٹر فواد سیزگین (پیدائش 1924ء… وفات 30 جون 2018ء) کے تعارف اور علمی کارناموں کے حوالے سے ڈاکٹر محمد سہیل شفیق کا لکھا ہوا مضمون پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ڈاکٹر محمد سہیل شفیق اور ادارہ ’’فرائیڈے اسپیشل‘‘ مبارک باد اور تحسین کے مستحق ہیں کہ ایسی گراں قدر اور اعلیٰ پایہ کی علمی شخصیت کا تعارف (چند سو، غالباً پانچ سو کی تعداد کے لگ بھگ چھپنے والے، محدود تحقیقی جرائد اور مجلّوں میں چھَپنے بلکہ چھُپنے والے اور گوشۂ گمنامی میں پوشیدہ ہونے کے بجائے) ایک کثیرالاشاعت، ہفت روزہ کے صفحات پر شائع کرتے ہوئے اسے عام اردو قارئین تک پہنچا دیا۔
ڈاکٹر فواد سیزگین، مثنوی روم کے شاعر اور حضرت علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ کے معنوی مرشد مولانا جلال الدین رومیؒ (پیدائش 1207ء… وفات 1273ء) اور عالم اسلام کی دینی و علمی شخصیات کے انسائیکلو پیڈیا ’’کشف الظنون‘‘ کے مصنف حاجی خلیفہ چلپی (پیدائش 1608ء… وفات 1657ء) کے ہم وطن تھے۔علاوہ ازیں، آج سے سولہ سال قبل 2002ء میں وفات پانے والے عالمی شہرت یافتہ اسلامی محقق اور اسکالر ڈاکٹر حمیداللہ (پیدائش 1908ء) کی ہم پایہ علمی شخصیت اور اعلیٰ درجے کے اسکالر تھے۔عجیب حسنِ اتفاق ہے کہ ڈاکٹر فواد سیزگین اور ڈاکٹر حمید اللہ نے 94 سال کی عمر پائی۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ دونوں مرحومین کے درجات بلند کرے اور انہیں جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ (آمین)
میں آخر میں دوبارہ ڈاکٹر محمد سہیل شفیق اور ادارہ ’’فرائیڈے اسپیشل‘‘ کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے درخواست کرتا ہوں کہ ایسے مضامین کی اشاعت اور شخصیات کے تعارف کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے کہ ہم اور نسلِ نو اپنی کھوئی ہوئی علمی میراث کو پانے کا عزم اور جذبہ حاصل کرتے ہوئے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی منزل حاصل کرسکیں۔ بقول اقبال ؎
کس طرح ہوا کند تِرا نشترِ تحقیق؟
ہوتے نہیں کیوں تجھ سے ستاروں کے جگر چاک؟
نشانِ راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کو
ترس گئے ہیں کسی مردِ راہ داں کے لیے
پروفیسر محمد اسلم اعوان
سابق صدر شعبۂ اردو زبان و ادب۔ گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ اسلامیہ کالج گوجرانوالہ
سوشل میڈیا پر فحش اشتہارات اور جنسی کھلونوں کی تشہیر!
ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی نے سوشل میڈیا کو ہماری زندگی کا لازمی حصہ بنادیا ہے۔ یہ اب کوئی تفریح نہیں بلکہ ضرورت بنتا جارہا ہے۔کاروبار، معلومات، حتیٰ کہ بعض ادارے اپنی آفیشل سرگرمیاں سوشل میڈیا کی زینت بناتے ہیں۔ سیاسی اور دینی جماعتیں سرگرم سوشل میڈیا نیٹ ورکس بنا چکی ہیں، ہر شعبۂ زندگی کی شخصیات اب سوشل میڈیا کے ذریعے بڑے پیمانے پر لوگوں سے رابطے کی کوشش کرتی ہیں۔ یقینا اس میں ہر ایک کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور ہے۔ دینی معلومات، کاروباری مقاصد، روزگار کا حصول اور اپنے نظریات کا پھیلاؤ۔ سوشل میڈیا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے کہ جہاں آپ ہر نظریے اور سوچ کے تحت ایڈجسٹ ہوسکتے ہیں، اپنی مرضی کے فوائد حاصل کرسکتے ہیں۔ اب ہمیں اس کے ساتھ چلنا ہے، اس سے چھٹکارا ممکن نہیں، اس سے دور نہیں رہا جاسکتا۔ میرا موضوع سوشل میڈیا پر ہماری مرضی کے بغیر آجانے والے اشتہارات ہیں۔ دو بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز فیس بک، یو ٹیوب کے علاوہ دیگر ویب سائٹس اور نیٹ ورکس پر فحش ترین اشتہارات کی بھرمار ہے۔ مختلف تجارتی ادارے ان سوشل میڈیا ویب سائٹس کو رقم ادا کرکے اپنے اشتہارات دیتے ہیں۔ دراصل ان کا مقصد لوگوں کو اپنی مخصوص ویب سائٹ کی طرف لانا ہوتا ہے جہاں آن لائن چیزوں کی خریدو فروخت کی جاتی ہے۔ اس حوالے سے جو انتہائی گھٹیا حرکت کی جاتی ہے وہ خواتین کی فحش تصاویر کے ساتھ ان سے متعلقہ کسی چیز کا اشتہار ہوتا ہے۔ آپ فیس بک استعمال کرتے ہیں تو ٹائم لائن پر چند پوسٹوں کے بعد آپ کے سامنے ایسے اشتہارات ضرور آجاتے ہیں، حتیٰ کہ جنسی کھلونوں کے اشتہارات کی بہتات ہے۔ آپ یقین نہیں کریں گے لیکن ایک افریقی ملک نے باقاعدہ اس حوالے سے قانون سازی کی ہے،کیونکہ اُن کے ہاں یہ کھلونے اس قدر مقبول ہوچکے ہیں کہ کوئی بھی نوجوان شادی کرنے کو تیار نہیں، یا شاید اس قابل نہیں۔ یہ اب بآسانی دستیاب ہیں اور اکثر اشتہارات ہی ان کے ہوتے ہیں۔ ان کی واضح اور نمایاں تصاویر کے ساتھ اشتہارات دئیے جاتے ہیں۔کوئی بھی باشعور انسان اندازہ کرسکتا ہے کہ اس رجحان کے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ ہمارے ہاں کچھ عرصہ قبل تک اس قسم کی خریدوفروخت کا تصور بھی نہ تھا، لیکن آن لائن شاپنگ نے اس کو انتہائی آسان بنادیا ہے۔ فحش تصاویر کے ساتھ ان کے اشتہارات سوشل میڈیا ویب سائٹس پر دستیاب ہیں۔ جنسی صحت سے متعلق ادویہ بغیر کسی قانون و ضابطے کے فروخت ہورہی ہیں۔ کسی بھی ادارے کے چیک اینڈ بیلنس کے بغیر ان ادویہ کے استعمال سے کتنے ہی انسان موذی بیماریوں کا شکار بننے کے ساتھ ساتھ بہت سے جان کی بازی ہار رہے ہیں۔ وسائل کے ضیاع اور انسانی جانوں کے اس قتل عام کے بارے میں کسی کو احساس تک نہیں ہے۔ اسی طرح جنسی کھلونوں کی مقبولیت آنے والے عرصے میں کیا گل کھلائے گی، کوئی بھی اس بارے میں سوچ نہیں رہا۔ یہ ایک خاموش زہر ہے جو کہ انجانے میں پھیلایا جا رہا ہے۔ صرف کلک حاصل کرنے کے لیے ہر چیز کے اشتہار کو فحش سے فحش ترین بنایا جاتا ہے تاکہ نوجوان نسل کو مائل کیا جاسکے۔ اس سارے معاملے کا ایک پہلو ملکی زرمبادلہ کی بیرونِ ملک منتقلی بھی ہے۔ اکثر ویب سائٹس غیر ملکی ہیں، یا ملکی ویب سائٹس کو بھی خرید لیا گیا ہے۔ اس طرح تمام تر آمدن ملک سے باہر جا رہی ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی آن لائن شاپنگ ویب سائٹ بھی فروخت ہوچکی ہے۔ اس سے ملکی کاروباری حضرات اور صنعت کاروں کا بھی نقصان ہورہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آن لائن شاپنگ کو بھی قواعد و ضوابط کا پابند بنایا جائے۔ حکومت اس بات کا اہتمام کرے کہ آن لائن خریدو فروخت ملکی روایات اور معاشرے کے لیے مثبت ہوں۔ اگر کچھ چیزوں کی خریدو فروخت اخلاقیات کو متاثر کررہی ہے، کوئی ادارہ اپنی پراڈکٹس فروخت کرنے کے لیے فحش اشتہارات کا سہارا لے رہا ہے، جنسی کھلونوں اور ادویہ کے ذریعے بے راہ روی کا شکار بنارہا ہے، یا کوئی بھی ایسی سرگرمی جو کہ ہماری معاشرتی روایات کے منافی ہے اُس پر پابندی ہونی چاہیے۔ پی ٹی اے کو ایسے اشتہارات روکنے کے لیے اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ سوشل میڈیا کو کاروباری مقاصدکے لیے ضرور استعمال کیا جائے لیکن اس سے اخلاقیات کا جنازہ نہ نکالا جائے۔ جن ممالک میں یہ سب ہوا ہے وہاں پر شدید قسم کے مسائل بھی پیدا ہوئے ہیں۔ ضروری نہیں کہ تباہی کا شکار ہوکر ہی واپس پلٹا جائے۔ کچھ فیصلے بروقت بھی کرلینے چاہئیں۔ معاشرے کے تمام طبقات کو چاہیے کہ اس بارے میں سنجیدگی سے غور کریں۔سوشل میڈیا اب زندگی کا حصہ ہے، اس کو مفید بنانے کی ضرورت ہے، نہ کہ یہ معاشرتی بگاڑ کا ہتھیار ہو اور نوجوان نسل کی تباہی کا باعث بن جائے۔
محمد عاصم حفیظ… شیخوپورہ