دنیا کی تقدیر کا مالک اور آقا بننے سے پہلے اسلامی عناصر کو کئی پلِ صراط عبور کرنے ہوںگے اور ہر طرح کی آزمائشوں میں سرخروئی حاصل کرنی ہوگی۔ یہ آزمائش صرف ایمان کی نہیں ہوگی، اُن کی دانش اور حکمت کی بھی ہوگی۔ اس لحاظ سے ہمیں سوچنا چاہیے کہ اسلامی تحریکوں کے لیے آئندہ کے امکانات کیا ہیں اور خطرات کیا ہیں۔ کامیابی کا امکان یقینا موجود ہے، مگر امکان کو ایک واقعہ میں تبدیل کرنے کے لیے ایک طرف اپنے ایمان کو کامل بنانا ہوگا، دوسری طرف ان ایمانی تقاضوں کے مطابق حکمت عملی اختیار کرنی ہوگی۔ غیر اسلامی انقلاب کے علَم برداروں کے نزدیک اس بات کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے کہ اپنی کامیابی کے لیے طریقِ کار کیا ہو۔ وہ ہر اُس راستے پر چل سکتے ہیں جس میں انہیں کامیابی کے حصول کی امید ہو۔ صحیح یا غلط اُن کے نزدیک اضافی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ حق و باطل کے مستقل معیارات کے قائل ہی نہیں، اس لیے جو چیز انہیں اپنے مفاد میں نظر آئے یا جس کو وہ پسند کریں، اختیار کرسکتے ہیں۔ لیکن اسلامی تحریکوں کا طریق کار اس نوعیت کا نہیں ہوسکتا۔ انہیں ہر حالت میں ایک اخلاقی ضابطے کا پابند رہنا ہے۔ اس گروہ کی خصوصیت مولانا مودودیؒ نے ’’تحریکِ اسلامی کی اخلاقی بنیادیں‘‘ کے عنوان سے یہ بتائی ہے:
’’کشمکش میں جتنی شدت بڑھتی جاتی ہے یہ گروہ اپنے مخالفوں کے مقابلے میں اتنے ہی زیادہ افضل و اشرف اخلاق کا ثبوت دیتا چلا جاتا ہے۔ وہ اپنے طرزِعمل سے ثابت کردیتا ہے کہ واقعی وہ اللہ کی بھلائی کے سوا کوئی دوسری غرض پیش نظر نہیں رکھتا، اس کی دشمنی اپنے مخالفوں کی ذات یا قومیت سے نہیں بلکہ صرف اُن کی ضلالت و گمراہی سے ہے، جسے وہ چھوڑ دیں تو وہ اپنے خون کے پیاسے دشمن کو بھی سینے سے لگا سکتا ہے۔ اسے لالچ ان کے مال و دولت یا ان کی صنعت و تجارت کا نہیں ہے بلکہ خود انہی کی روحانی، اخلاقی فلاح کا ہے جو حاصل ہوجائے تو ان کی دولت انہی کو مبارک ہو۔ وہ سخت سے سخت آزمائشوں میں بھی جھوٹ و فریب سے کام نہیں لیتا، ٹیڑھی چالوں کا جواب بھی سیدھی تدبیروں سے دیتا ہے۔ انتقام کے جوش میں ظلم و زیادتی پر آمادہ نہیں ہوتا، جنگ کے سخت لمحوں میں بھی اپنے اصولوں کی پیروی نہیں چھوڑتا۔ اس کا جوہرِ انسانیت تاریک ماحول میں اور زیادہ چمک اٹھتا ہے‘‘۔تحریکِ اسلامی کی، مقابل تحریکوں پر یہ اخلاقی برتری ہی اصل انقلاب انگیز چیز ہے، اور چونکہ ہمارا مقصد ایک اخلاقی انقلاب برپا کرنا ہے اور دنیا کو اخلاقیات کی بنیادوں پر قائم کرنا ہے، اس لیے اس اخلاقی برتری کا مظاہرہ قدم قدم پر ہونا چاہیے، اور یہی وہ چیز ہے جو آگے چل کر فاتح عالم ہوگی۔
اسلامی تحریکوں کی کامیابی کے وسیع امکانات کے ساتھ ایک خطرہ یہ ہے کہ کہیں ان تحریکوں کے علَم بردار قوم پرستی کی دلدل میں نہ دھنس جائیں۔ قوم پرستی ابتدا میں بہت حق بہ جانب اور معصوم نظر آتی ہے، لیکن اس کا ہر پیراہن مذہب اور اخلاق کا کفن ہے۔ وطنی اور لسانی قوم پرستی کی طرح مسلم قوم پرستی بھی ایک فاسد شے ہے۔ اسلامی تحریک قوم اور حُبِّ وطن کے باوجود ایک عالمی اور حیاتی نقطہ نظر اپناتی ہے۔ اس کا خطاب کُل انسانیت سے ہوتا ہے۔ وہ دل میں غلبہ و استیلا کی کوئی خواہش نہیں رکھتی، اس کا مقصد دنیا میں صرف ایک نظام خیر و فلاح تعمیر کرنا ہے اور تمام بندگانِ خدا تک اپنی دعوت کو اس طرح پہنچانا ہے کہ اس میں کسی قومی عداوت کا شائبہ نظر نہ آئے۔ قومی کشمکش کے لیے بہت سے گروہ ہیں اور وہ عرصے سے دنیا کو طرح طرح کی کشمکش کا اکھاڑہ بنائے ہوئے ہیں۔ ہماری تحریک اس نوعیت کی کشمکش کے لیے نہیں ہے۔یہ ضروری ہے کہ دنیا کی اسلامی تحریکیں کسی بھی طرح کی قوم پرستی کو قبول نہ کریں، کیوں کہ اگر وہ اس کا شکار ہوگئیں تو صرف غیر قوموں سے نہیں مسلمان قوموں سے بھی اُن کی قومی جنگیں ہونے لگیں گی، ہر ملک کی اسلامی تحریک کا قبلہ الگ الگ ہوجائے گا۔ اس لیے نیشنلزم کی غلاظت سے اپنے آپ کوپاک صاف رکھنا ہوگا اور حقیقت میں دنیا کو دوزخ ہی نیشنلزم نے بنایا، اور ہمارا نصب العین اس کی جگہ ایک صحت مند بین الاقوامیت کو فروغ دینا ہے۔ آج کے ملٹی نیشنل چاہتے ہیں کہ اکیسویں صدی کی یہ بین الاقوامیت ہمارے لادینی نظریات اور مفاداتِ فاسدہ کے تحت ہو، جبکہ ہماری خواہش اور کوشش یہ ہے کہ نئی بین الاقوامیت کا ظہور اسلامی، اخلاقی اور استحصال سے پاک بنیادوں پر ہو۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے کہ نیشنلزم کے تعصبات اکیسویں صدی کو ہولناک خانہ جنگی کا میدان بنا سکتے ہیں، لیکن خدا جو بنائو چاہتا ہے، اس نیشنلزم کو مزید بگاڑ پیدا کرنے کا موقع نہیں دے گا اور ایک نئی بین الاقوامیت یا عالمگیریت ظہور کرے گی۔ سوال صرف یہ ہے کہ یہ کس کی ہوگی؟ ہماری، جو ایمان اور اخلاق کی زندگی چاہتے ہیں۔ یا اُن کی جو انسانیت کو اس سرمائے سے محروم کرنا چاہتے ہیں؟ اگر عالمِ اسلام کی اسلامی تحریکیں باہمی رابطے کے ساتھ کام کریں اور اخلاقی راہ سے انحراف نہ کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ دنیا ان کو چھوڑ کر ملٹی نیشنلز کے اس جہانی غلبے کو قبول کرے جس میں ان کی قومی خودداری کے لیے تازیانے ہیں، اقتصادی مصائب ہیں اور اخلاقیات کا جنازہ ہے۔ یہ بات ہمیں اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اب کوئی قوم یا اس کا قومی سامراج نہیں چلے گا، نہ نئے عالمی سامراج سے بچنے کے لیے محض قومی سطح پر جدوجہد کافی ہوگی۔ اب اسلامی تحریکوں کو اپنی کامیابی کے لیے عالمی تحریک کی شکل اختیار کرنی ہوگی اور اس کے مطابق طور طریقے اپنانے ہوں گے۔
پروفیسررشید احمد انگوی
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں
ذرا روحِ محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو
فکرِ عرب کو دے کے فرنگی تخیلات
اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو
’’ضرب ِکلیم‘‘ کی ایک نظم کا عنوان ہے ’’ابلیس کا پیغام اپنے سیاسی فرزندوں کے نام‘‘۔ چھے اشعار کی اس نظم کا دوسرا اور تیسرا شعر آپ کے سامنے ہے۔ یوں لگتا ہے کہ علامہ نے اپنی خداداد بصیرت کے تحت دنیائے سیاست میں ابلیس کی کارستانیوں کے بارے میں جو کچھ تصور کیا، کل سے بڑھ کر آج کا عالمی سیاسی پیش منظر اس کی حرف بحرف تائید و تصدیق کررہا ہے۔ بھارت میں مسلمان دشمنی کی سیاست عروج پر ہے۔ ہمارے اپنے وطنِ پاک میں دل و دماغ سے اسلام کی جڑیں اکھاڑ کر تہذیب و سیاست میں مغرب پرستی عروج پر ہے، بلکہ حکمران خانوادے مغرب کو اپنی محبتوں کے مقام بنا چکے ہیں اور نوبت یہ آچکی ہے کہ ملک میں ووٹوں سے چُنا ہوا لیڈر سال بھر میں اپنی پارلیمنٹ میں چار پانچ مرتبہ مگر لندن یاترا پر بتیس مرتبہ جاتا ہے۔ نظم میں عالم عرب پر شیطانی پالیسی کا اظہار ہوا کہ عربوں کو مغربی فکر و ثقافت کا دل دادہ بناکر حجاز و یمن تک سے اسلام کو رخصت کرنے کی راہ دکھائو۔ نیز سرزمین افغانستان کے اصل رہبر یعنی علمائے اسلام کو نظروں سے گرا دو، کہ ان کے چہروں پر سنتِ رسولؐ کی قابل صد افتخار علامت پر دہشت گردی کی تہمت دھر دو، اور خود اقبال کی شاعری چونکہ نوجوانانِ ملت کو اسلامی جذبوں سے سرشار کررہی ہے تو اسے بھی ’دیس نکالا‘ دے دو۔ اور آج ایک مسلمان وزیراعظم نے 9 نومبر کو منایا جانے والا سالانہ ’’یوم اقبال‘‘ قانوناً جرم قرار دے کر ابلیس کے فرمان کی تکمیل کر ڈالی، اور کتنی ہی پالیسیاں مسلمانوں کو جہاد ترک کرکے مغربی ثقافت اپنانے کے لیے زیر عمل ہیں۔