امر یکی صدر کا دورۂ یورپ ختم ہونے کو ہے اور اس وقت صدر ٹرمپ فن لینڈ کے دارالحکومت ہیلسنکی میں روسی صدر پیوٹن سے ملاقات کر چکے ہیں۔ دورے کا آغاز برسلز میں نیٹو سربراہ اجلاس سے ہوا، اور G-7 سربراہ اجلاس کی طرح اِس بار بھی انھیں بسورتے چہروں کا سامنا کرنا پڑا جہاں حاضرین کے ہونٹوں پر دفع بلیات کی دعائیں تھیں۔ نیٹو سربراہی اجلاس میں صدر ٹرمپ کے طرزعمل کے لیے امریکی اخبارات نے Skunk in a Garden Partyکی کہاوت استعمال کی تھی۔ Skunkگلہری سے ذرا بڑا ایک جانور ہے جو سبزی کے علاوہ حشرات الارض جیسے چھپکلی، چوہا، مکھی وغیرہ کھاتا ہے۔ بے چارے کے پاس اپنے دفاع کے لیے نہ تو خونخوار دانت ہیں، نہ نوکیلے پنجے… اور ہرن کی طرح یہ غریب تیز رفتار بھی نہیں، چنانچہ قدرت نے اس کے جسم میں ایسے غدود رکھ چھوڑے ہیں جن میں انتہائی متعفن مواد جمع رہتا ہے۔ حملے کی صورت میں اسکنک یہ مائع ایک تیز دھار کی صورت میں چھوڑتا ہے جس سے پورے علاقے میں انتہائی ناگوار بو پھیل جاتی ہے اور پریشان ہوکر حملہ آور جانور دُم دباکر بھاگ جاتا ہے۔ یہ بُو تین چار میل دور تک محسوس ہوتی ہے۔ امریکی بول چال میں اسکنک تعفن کا استعارہ ہے۔گارڈن پارٹی میں اسکنک اُس شخص کو کہا جاتا ہے جو اپنے گھسے پٹے لطائف، فتنہ جُو طبیعت، توہین آمیز گفتگو اور کم ظرفی سے مجلس کا مزا کرکرا کردینے کے لیے مشہور ہو، جس کی آمد پر اُس کی بدتمیزی و بدتہذہبی کے خوف سے لوگ محفل سے اٹھ کر چلے جائیں۔ یا یوں کہیے کہ دوستوں کی گل وگلزار محفل کو یہ شخص اپنی بدکلامی سے اجاڑنے پر تلا رہتا ہو۔ امریکی صدر کو اسکنک قراردینے کی بڑی وجہ اُن کی بد زبانی ہے۔ موصوف تکلیف دہ حد تک تعریف کے خوگر ہیں اور خلافِ مرضی بات پر بہت جلد مشتعل ہوجاتے ہں۔ جرمن چانسلر اور کینیڈین وزیراعظم سے لے کر لندن کے رئیسِ شہر (میئر) تک سبھی ان کی لسانی سنگ باری سے گھائل ہوچکے ہیں۔
روانگی سے پہلے ملک کے اندر صدر ٹرمپ کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ امریکی سینیٹ نے یکے بعد دیگرے دو قراردادیں منظور کرکے صدر ٹرمپ کی تجارتی اور خارجہ پالیسیوں پر عدم اعتماد کا اعلان کردیا۔ پہلے 2 کے مقابلے میں 97 ووٹوں سے ایک قرارداد منظور کی گئی جس میں نیٹو اتحاد سے مکمل یک جہتی کا اظہار کیا گیا، اور اس کے دوسرے دن منظور کی جانے والی ایک اور قرارداد میں صدر ٹرمپ پر زور دیا گیا کہ وہ قومی سلامتی کے تناظر میں درآمدات پر اضافی محصولات عائد کرنے سے پہلے کانگریس سے اجازت حاصل کریں۔ یہ تحریک 11 کے مقابلے میں 88 ووٹوں سے منظور ہوئی۔ امریکی صدر ان قراردادوں پر عمل درآمد کے پابند نہیں جسے پارلیمانی اصطلاح میں non- binding resolutionکہا جاتا ہے، تاہم اس قسم کی تحریکیں امریکی سینیٹ کی امنگوں کی ترجمان سمجھی جاتی ہیں۔ تجارتی قرارداد کے محرک ری پبلکن پارٹی کے سینیٹر جان فلیک نے کہا کہ قرارداد پیش کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آرہی ہے کہ صدر ٹرمپ کے غیر ذمے دارانہ تبصرے پڑوسیوں سے ہمارے تعلقات کو خراب کرسکتے ہیں۔ میکسیکو اور کینیڈا سے درآمد ہونے والے المونیم اور فولاد پر جو اضافی محصولات عائد کیے گئے ہیں اُس کا جواز پیش کرتے ہوئے جناب ٹرمپ نے کہا تھا کہ یہ امریکی سلامتی کے لیے بے حد ضروری ہے۔ صدر ٹرمپ کے ان الفاظ پر کینیڈا کے وزیراعظم ٹروڈو نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر امریکہ کینیڈا کو جو نیٹوکا سرگرم رکن ہے، اپنی سلامتی کے لیے خطرہ محسوس کرتا ہے تو پھر اس عسکری اتحاد کی ضرورت ہی کیا ہے! سینیٹ سے قرارداد کی منظوری کے بعد سینیٹر جان فلیک نے کہا کہ اس قرارداد کا ایک مقصد صدر کی ملامت و تادیب یا Rebukeہے تو دوسری طرف امریکی عوام کے نمائندہ ادارے کی حیثیت سے اپنے دوستوں اور اتحادیوں کو یہ یقین دلانا ہے کہ ہماری دوستی سیاست اور شخصیات سے بالاتر ہے اور امریکی عوام اپنے دوستوں کے وفادار ہیں۔
برسلز میں کشیدگی کا آغاز نیٹو کے سیکریٹری جنرل جینس اسٹولٹنبرگ (Jens Stoltenberg)کی جانب سے دیئے گئے ناشتے پر ہوا، جہاں صدر ٹرمپ نے جرمن روس گیس معاہدے پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جرمن چانسلر مرکل نے توانائی کی ضرورت کے لیے روس پر انحصار کرکے نیٹو چارٹر کی خلاف ورزی کی ہے اور معاہدے کے نتیجے میں جرمنی روس کا یرغمالی بن گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے اتحاد کا کیا فائدہ جب جرمنی توانائی کے لیے اربوں ڈالر روس کو دے رہا ہے! امریکہ کو ترکی و روس کے مابین میزائل شکن نظام کے معاہدے پر بھی تشویش ہے جس کے تحت روس کے تعاون سے یہ جدید ترین میزائل شکن ہتھیار ترکی میں تیار کیے جارہے ہیں۔ تاہم صدر اردوان کے بگڑے تیور دیکھ کر صدرٹرمپ کی گل افشانی جرمن رہنما تک محدود رہی۔ صدر ٹرمپ کا یہ بیان اس اعتبار سے شدید بدتہذیبی سمجھا گیا کہ ناشتے کی میز پر انجیلامرکل موجود نہیں تھیں اور گفتگو ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ذریعے ساری دنیا میں براہِ راست دکھائی جارہی تھی۔ سیاسی غیبت سفارتی نقطہ نظر سے بہت معیوب سمجھی جاتی ہے۔
جرمن رہنماپر تنقید کرنے کے ساتھ صدر ٹرمپ نے نیٹو کے اُن ارکان کی بھی خبر لی جو دفاع کے بارے میں اپنی مالی ذمے داری پوری نہیں کررہے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے انھیں نادہندہ (delinquent) قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی وجہ سے نیٹو اخراجات کا بڑا حصہ امریکی ٹیکس دہندگان کو برداشت کرنا پڑرہا ہے۔ امریکی صدر نے کہا کہ نیٹو کے 29 ارکان میں سے صرف 5 ممالک دفاعی اخراجات کے حوالے سے اپنی ذمے داریاں پوری کررہے ہیں۔ امریکہ یورپ کے دفاع کا سارا خرچ اٹھا رہا ہے اور تجارت میں اربوں ڈالر کا نقصان اس کے علاوہ ہے۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ تمام نیٹو ممالک اپنی قومی پیداوار یا GDPکا کم ازکم 2 فیصد فوری طور پر دفاع کے لیے مختص کرنے کا اعلان کریں۔ اس کے ساتھ ہی وہ یہ دھمکی بھی دے گئے کہ اگر نیٹو ارکان نے اپنی مالی ذمے داریاں پوری نہ کیں تو امریکہ اس معاہدے سے علیحدہ ہونے سے گریز نہیں کرے گا۔ پھر مزید فرمایا کہ علیحدگی کے فیصلے سے پہلے انھیں امریکی کانگریس کی منظوری یا توثیق کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ غالباً نیٹو کے تعلق سے امریکی سینیٹ کی قرارداد کی طرف اشارہ تھا جس کا ذکر ہم نے اوپر کیا ہے۔
جینسن اسٹولٹنبرگ نے تو جرمنی کے دفاع میں محض یہی کہنے پر اکتفا کیا کہ نیٹو ارکان اقتصادی اور تجارتی فیصلوں میں آزاد ہیں۔ صدر ٹرمپ کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے نیٹو کے سیکریٹری جنرل نے مزیدکہا کہ اختلافات کے باوجود نیٹو ارکان اپنے اس نصب العین پر یکسو ہیں کہ جنگ اور جارحیت کے موقع پر ہمیں ایک دوسر ے کی پشت پناہی کرنی ہے۔ یہ مقدس مقصد ہمارے اتحاد کی بنیاد ہے اور یک جہتی ہی ہماری قوت ہے۔ تاہم صدر ٹرمپ کی گفتگو سن کر نیٹو ارکان مبہوت رہ گئے۔ ایک یورپی سفارت کار نے کہا کہ انھیں اب تک یقین نہیں آرہا کہ امریکی صدر ایسی بات بھی کرسکتا ہے! نام خفیہ رکھنے کی شرط پر نیٹو کے ایک اعلیٰ افسر نے کہا کہ صدر کی گفتگو سن کر ہمیں تو ایسا لگا کہ صدر ٹرمپ نیٹو اتحاد ختم کردینا چاہتے ہیں۔ جرمن روس تجارتی تعلقات پر امریکی صدر کے اشتعال کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ایک ایسا شخص جو روس کی حمایت سے امریکہ کا صدر بنا ہو اُس کے منہ سے روس جرمن تجارتی معاہدے پر تنقید اچھی نہیں لگتی۔ نیٹو افسر نے کہا کہ نیٹو اخراجات کا احسان جتانے والے امریکی صدر کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ 9/11کے بعد نیٹو کے تمام اتحادیوں نے امریکیوں کے شانہ بشانہ افغانستان میں جنگ لڑی اور سینکڑوں جانیں قربان کیں۔
میڈیا ویسے ہی رائی کا پہاڑ بنادینے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا، جبکہ یہاں تو صدر ٹرمپ کی اس گفتگو نے سنسنی بلکہ نیٹو حکام کے الفاظ میں سفارت کاروں کے رونگٹے کھڑے کردیئے تھے، چنانچہ ریٹنگ کی دوڑ میں صحافیوں کی رپورٹوں، تبصروں اور انٹرویو سے سارے امریکہ اور یورپ میں ہیجانی کیفیت طاری رہی۔ CNNکے سینئر صحافی وولف بلٹزر(Wolfe Blitzer) نے امریکہ میں جرمنی کی سفیر محترمہ ایملی ہیبر (Emily Haber) کا ایک خصوصی انٹرویو لیا۔ صدر ٹرمپ کی گفتگو اور ان کے طنزیہ ٹوئٹ کے ناگوار اثرات محترمہ کے چہرے پر عیاں تھے اور مسٹر بلٹزر سوال بھی خاصے چبھتے ہوئے پوچھ رہے تھے۔ نیٹو چارٹر کی دفعہ 5 کے تحت اگر نیٹو کا کوئی بھی رکن جارحیت کا شکار ہو تو یہ تمام ارکان پر حملہ تصور ہوتا ہے اور پورے اتحاد کے لیے مل کر متاثرہ رکن کا دفاع ضروری ہے۔ اسی کلیے کے تحت 9/11کے بعد ترکی سمیت نیٹو کے تمام ارکان نے چچا سام کی نصرت کے لیے اپنی فوج افغانستان بھیجی تھی۔ مسٹر بلٹزر نے جب جرمن سفیر سے پوچھا کہ اگر نیٹو کے کسی رکن ملک کو بیرونی جارحیت کا سامنا ہو تو کیا وہ دفعہ 5 کے مطابق امریکہ سے مدد کی توقع رکھتی ہیں؟ تو جرمن سفیر نے جواب گول کردیا۔ صحافی نے جب یہ سوال دہرایا تب بھی ہاں کہنے کے بجائے سفیر صاحبہ بولیں کہ چارٹر کی دفعہ پانچ نیٹو اتحاد کی بنیاد ہے جس کے ہم سب پابند ہیں۔ جب بلٹزر نے اپنے سوال کو تیسری بار دہراتے ہوئے زور دے کر سفیر صاحبہ سے پوچھا کہ محترمہ آپ ہاں اور نا میں بتائیے کہ حملے کی صورت میں آپ کو امریکہ کی جانب سے دفعہ 5 کی پاسداری کی توقع ہے؟ تب انھوں نے اپنے سر کو اثبات میں ہلایا، تاہم ان کے چہرے پر غیر یقینی کے اثرات بہت صاف دکھائی دے رہے تھے۔
صدر ٹرمپ کے اس رویّے پر ان کی پارٹی کی جانب سے بھی شدید ردعمل سامنے آیا۔ امریکی سینیٹ کی مجلس قائمہ برائے خارجہ امور کے سربراہ سینیٹر باب کورکر (Bob Corker) نے کہا کہ صدر ٹرمپ نے ایک انتہائی مخلص اتحادی (جرمنی) کی ناک پر گھونسہ رسید کردیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ نیٹو ارکان سے دفاع کے لیے مزید رقم مختص کرنے کی درخواست درست ہے لیکن اس ضمن میں صدر کے اندازِ بیان سے اتحاد اور امریکہ کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ کانگریس کے اسپیکر پال رائن نے کہا کہ صدر پر اس وقت تنقید جب وہ غیر ملکی دورے پر ہو، کسی طور مناسب نہیں لیکن نیٹو اتحاد امریکہ کے لیے ناگزیر ہے۔
سربراہ اجلاس کے دوران بھی صدر ٹرمپ نیٹو ارکان کو عار دلانے کے انداز میں دفاعی اخراجات میں اضافے پر زور دیتے رہے۔ نیٹو سربراہ کانفرنس کی تفصیلات پریس کو جاری نہیں کی جاتیں، چنانچہ حالیہ اجلاس کے بعد مشترکہ اعلامیے کا انداز روایتی تھا، یعنی باہمی دفاع کو مربوط و مضبوط بنانے پر سیر حاصل گفتگو ہوئی اور تمام اہم امور پر کامل اتفاق پایا گیا۔ اعلامیے کا سب سے اہم نکتہ ارکان کا یہ عزم تھا کہ تمام ممالک 2024ء تک اپنے GDPکا کم ازکم 2 فیصد دفاع کے لیے مختص کریں گے۔ صدر ٹرمپ چاہتے تھے کہ فوری طور پر 2 فیصد اور 2024ء تک اس تناسب کو 4 فیصد کردیا جائے۔ فرانسیسی صدر نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ 2 فیصد کا ہدف 2024ء تک حاصل ہوگا۔ اسی کے ساتھ کریمیا پر قبضے کے خاتمے تک روس پر پابندیاں برقرار رکھنے اور سفارتی سطح پر ماسکو کو تنہا کرنے کی کوششیں جاری رکھنے پر اتفاقِ رائے پایا گیا۔ اجلاس میں موجود کچھ افسران نے بعد میں بتایا کہ نیٹو کو اعتماد میں لیے بغیر روسی صدر پیوٹن سے امریکی صدر کی مجوزہ ملاقات پر بعض ملکوں نے تحفظات کا اظہار کیا جس کی وضاحت کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ ملاقات کسی ایجنڈے کے بغیر ہورہی ہے اور اس کا مقصد باہمی دلچسپی کے امور پر صدر پیوٹن کی رائے معلوم کرنا ہے۔ امریکی صدر نے کہا کہ وہ روس کو نہ تو دوست سمجھتے ہیں اور نہ دشمن۔ صدر ٹرمپ کے اس جملے کو اکثر نیٹو سربراہوں نے مناسب نہیں سمجھا کہ کریمیا پر قبضے، امریکی اور یورپی انتخابات میں روس کی مبینہ مداخلت کی بنا پر نیٹو روس کو اگر دشمن نہیں تو مخالف و حریف ضرور سمجھتا ہے۔
اجلاس کے بعد اپنے پُرجوش خطاب میں صدر ٹرمپ نے نیٹو اتحاد کو امنِ عامہ اور سلامتی کے لیے لازمی قرار دیتے ہوئے امریکہ کی جانب سے مکمل وفاداری و پاسداری کا اعلان کیا۔ حسبِ توقع GDPکا 2 فیصد دفاع کے لیے مختص کرنے کے فیصلے پر سربراہان کا شکریہ ادا کرنے کے بجائے اس ’’کامیابی‘‘ کا سہرا اپنے سر باندھتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پچھلے 25 برسوں میں نیٹو ممالک نے اپنے دفاعی اخراجات میں اتنا اضافہ نہیں کیا جتنا میرے ڈیڑھ سالہ دورِ حکومت میں ہوا ہے، جو میری مستقل مزاجی اور غیر لچک دار مؤقف کا نتیجہ ہے۔
کانفرنس پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک یورپی سفارت کار نے کہا کہ اختتام پر کامل اتفاقِ رائے، عزم اور یک جہتی کے باوجود صدر ٹرمپ کی تلخ و ترش باتوں سے نیٹو کے بارے میں ایک مربوط و یکجان اتحاد کے بجائے منقسم و منتشر ادارے کا تاثر ابھرا ہے جس کی بنا پر روسی صدر سے ملاقات کے دوران جناب ٹرمپ مدافعانہ رویہ اختیار کرنے پر مجبور ہوسکتے ہیں۔