کراچی اور اہلِ کراچی کے لیے یہ انتخاب بہت اہم ہے۔ کراچی میں امن وامان کی صورتِ حال میں بہتری کے بعد یہ امید ہوچلی ہے کہ اِس بار کراچی کے انتخابات میں کھلے عام ٹھپے نہیں لگیں گے، اور بہت حد تک سیاسی جماعتیں اپنی انتخابی سرگرمیاں بھی آزادانہ کررہی ہیں۔ جلسے، جلوس ہورہے ہیں اور امیدواران گھر گھر جاکر اپنے ووٹروں کو ووٹ دینے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ گو کہ ان انتخابات میں بھی مخصوص سیاسی بندوبست کی کوششیں جاری ہیں، لیکن انتخابی گہماگہمی اب آخری مراحل میں داخل ہوچکی ہے۔ خیبر پختون خوا اور مستونگ دھماکوں نے بھی اس پر اثر ڈالا ہے اور سیاسی جماعتیں بڑے جلسے کرنے سے گریز کررہی ہیں، لیکن متحدہ مجلس عمل نے اپنے طے شدہ پروگرام کے مطابق کراچی میں فقیدالمثال جلسہ کرکے کراچی میں ماضی کے انتخابی جلسوں کی یاد تازہ کردی ہے، اور جس کے بعد پورے شہر میں مجلس عمل موضوع گفتگو ہے جس کا مقابلہ بیک وقت ایم کیو ایم کی مختلف عنوانات سے موجود باقیات سے بھی ہے اور پی ٹی آئی بھی اس کے سامنے ایک اہم فریق کی حیثیت سے موجود ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ کراچی کا یہ جلسہ عام مجلس عمل کا زبردست پاور شو بھی ثابت ہوا اور اس سے کراچی میں مجلس عمل نے اپنی ساکھ اور سیاسی حیثیت کو بھی منوایا ہے۔
مجلس عمل کا یہ جلسہ کراچی کی تاریخ کا طویل دورانیے کا جلسہ تھا، جس میں لوگ شام چھے بجے سے رات ایک بجے جلسے کے اختتام تک موجود رہے۔ جلسے سے درجنوں مقررین نے خطاب کیا۔
اس عظیم الشان جلسہ عام میں نوجوان، بزرگ، بچے، علماء کرام، اساتذہ کرام، طلبہ، وکلا، ڈاکٹروں، انجینئروں، تاجروں، مزدوروں سمیت مختلف طبقات اور شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ افراد شامل تھے۔ متحدہ مجلس عمل کے رہنماؤں نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان کو اسلامی اور خوشحال پاکستان بنائیں گے، پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کی جدوجہد جاری رہے گی، کراچی میں امن لائیں گے، ریاست کو سیکولر و لبرل نہیں بننے دیں گے۔ جلسے میں ایک اہم بات کا مقررین نے مختلف الفاظ میں اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایم ایم اے کے مینڈیٹ کو چور ی کیا گیا تو پھر دمادم مست قلندر ہوگا۔ کراچی میں منعقد ہونے والے اس سب سے بڑے انتخابی جلسے سے متحدہ مجلس عمل پاکستان کے صدر مولانا فضل الرحمن نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان 70 برسوں سے مذہب بیزار طبقے کے قبضے میں ہے، ملک کا سیاسی و معاشی نظام مذہب بیزار طبقے کے ہاتھ میں رہا ہے، عوام کو ایک بار پھر موقع مل رہا ہے کہ اپنے اور ملک کے مستقبل کی بہتری کے لیے ایسی قیادت کو ووٹ دیں جو ملک میں اسلامی نظام نافذ کرے اور عوام کو مسائل سے نجات دلائے۔ انہوں نے کہا کہ آج کی جنگ تلواروں سے نہیں ووٹ کی پرچی سے لڑی جارہی ہے، آج اسے حق کے لیے استعمال کیا گیا تو حق جیت جائے گا۔ ووٹ کی پرچی سے ملک کا نظام اور اقتدار تبدیل ہوسکتا ہے۔ ماضی میں ملک پر مسلط رہنے والے عوام کو کچھ نہیں د ے سکے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو کبھی منظور نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہاکہ آج ملک کے اندر عوام کی جان اور مال محفوظ نہیں ہے، جو ریاست کی ذمے داری ہے۔ 70 برسوں میں جو عوام کو حقوق اور تحفظ نہیں دے سکا، اب اس طبقے اور ٹولے کو اقتدار میں رہنے کا کوئی حق نہیں۔ آج عوام کی عدالت لگی ہوئی ہے اور عوام اپنی عدالت میں ان حکمرانوں اور ٹولے کو دوبارہ مسلط نہ ہونے دینے کا فیصلہ دیں۔ انہوں نے کہاکہ آج ملک قرضوں میں جکڑا ہوا ہے اور ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی ہدایت پر ہمارا بجٹ بنتا ہے۔ مجلس عمل کی جب خیبر پختون خوا میں حکمرانی تھی تو صوبے پر 80 ارب روپے کا قرضہ تھا، لیکن آج وہ صوبہ 350 ارب روپے کا مقروض ہے۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان کے بانی نے ملک کی معیشت قرآن و سنت پر رکھی تھی، لیکن حکمرانوں نے قائداعظم کے فرمان اور قرآن کے خلاف ملک کی معیشت سودی بنادی۔ آج ملک کے اندر پانی کا بحران ہے، پاکستان کی زراعت کی حالت بہت خراب ہے، حکمران ملک کے دریاؤں اور زراعت کا تحفظ نہیں کرسکے۔ انہوں نے کہاکہ پارلیمنٹ کے اندر ایک جماعت نے مذہب اور سیاست کو الگ الگ کرنے کی بات کی، ہم نے اس کا مقابلہ کیا۔ ایک جماعت نے قراردادِ مقاصد کو آئین سے نکالنے کا کہا، ہم نے اس کی مخالفت کی۔ انہوں نے کہاکہ کراچی میں لسانیت، علاقائیت اور قومیت کے نام پر عوام کو لڑایا گیا اور لوگوں کا قتلِ عام کیا گیا۔ ملک کی سیاست سے لسانیت، قومیت اور تعصبات کو ختم ہونا چاہیے۔ اسلام ہی ان خرابیوں کو دور کرسکتا ہے اور ہر طرح کے تعصبات سے بالاتر ہوکر ملک کو آگے لے کر چل سکتا ہے۔ اسلام کی قوت اور طاقت سے مغربی، یہودی اور سیکولر لابی کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ آج مجلس عمل کی صورت میں عوام کے لیے امید کی ایک کرن موجود ہے اور علماء کرام کی قیادت میں ملک کی کشتی کو بھنور سے اور قوم کو بحران سے نجات دلائی جاسکتی ہے۔ ملک کے نظام کو تبدیل کرنا ہے تو ان قوتوں کو ہٹانا ہوگا جو بے حیائی اور فحاشی کو فروغ دے رہی ہیں۔ علماء اگر نوجوان نسل کو برداشت کا درس نہ دیتے تو آج پاکستان کا نقشہ کچھ اور ہوتا۔
مجلس عمل کے سینئر نائب صدر سینیٹر سراج الحق نے اپنے اہم خطاب میں کہاکہ پاکستان کو اسلامی اور خوشحال پاکستان بنائیں گے، قائداعظم کی وفات کے بعد ملک پر جو قیادت قابض ہوئی اُس نے ملک کو قائد کے وژن سے دور کردیا۔ پاکستان کا آئین ایک اسلامی آئین ہے اور ہم اس آئین کے مطابق اس ملک کو اسلامی مملکت بنانا چاہتے ہیں، ہم خون کے آخری قطرے تک ملک کے اندر اسلامی نظام اور شریعتِ محمدیؐ کے نفاذ کی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ ہمیں حکومت ملی تو شریعت نافذ کریں گے، عشر و زکوٰۃ کا نظام لائیں گے، سودی نظام معیشت کا خاتمہ کریں گے، زمین کی پیداوار اور کارخانے کی آمدنی میں مزدور کا حصہ ہوگا، عدالت کے اندر فیصلہ قرآن کے مطابق ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ ملک کے اندر کرپشن سے پاک نظام صرف اسلام کے عادلانہ اصولوں پر عمل کرکے ہی نافذ کیا جاسکتا ہے۔ انسانوں کے دل تبدیل کیے بغیر، کردار سازی کیے بغیر رشوت، جھوٹ اور کرپشن کا خاتمہ نہیں کیا جاسکتا۔ آج ملک و قوم کو ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو امریکہ اور مغرب کی طرف دیکھنے والی نہ ہو بلکہ مکہ اور مدینہ والی قیادت ہو، جو جرأت مندی اور بہادری کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرسکے۔ انہوں نے کہاکہ ووٹ دینا ایک دینی فریضہ ہے، اس ووٹ کی پرچی سے عوام اپنے اوپر مسلط رہنے والوں کو مسترد کرکے نئی اور ایمان دار قیادت لاسکتے ہیں۔ عوام کے پاس 25 جولائی کو بہترین موقع ہے کہ اپنے ووٹ کی طاقت سے ماضی کے حکمرانوں سے انتقام لیں اور ان کا احتساب کریں۔ حکمرانوں نے ملک و قوم کو ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کا مقروض بنادیا ہے۔ قومی بجٹ کا بڑا حصہ سودی قرضے کی ادائیگی پر صرف ہوجاتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ مجلس عمل کے پاس ایک متبادل نظام ہے۔ ہمارے ساتھ کوئی ایسا نہیں جس کا نام پاناما لیکس میں ہو، جو قرضے ہڑپ کرنے والا ہو۔ ہم ملک کے دفاع کے بعد سب سے زیادہ خرچ تعلیم پر کریں گے اور تعلیم کو مفت اور عام کریں گے۔ انہوں نے کہاکہ ووٹ کو عزت تب ملے گی جب شریعت کو عزت ملے گی، اسلام کو عزت ملے گی، خواتین اور بچوں کو عزت ملے گی۔ جب کراچی میں لاشیں گررہی تھیں تو یہ لوگ کہاں تھے جو آج الیکشن لڑنے کراچی آگئے ہیں؟ جبر و تشدد اور خوف و دہشت کے ماحول میں ہم ہی تھے جو کھڑے ہوئے تھے اور امن واخوت اور محبت کی بات کررہے تھے۔ انقلاب اور تبدیلی صرف کتاب ہی لاسکتی ہے۔ ہم کراچی کو ایسا شہر بنائیں گے جس کی مقامی حکومت کے ماتحت تمام ادارے ہوں اور کراچی کے مسائل حل ہوں۔ ہم پانی کے مسئلے کے حل کے لیے پانی کے تمام منصوبے مکمل کریں گے۔
جلسے سے جمعیت علماء پاکستان کے سربراہ اور مجلس عمل کے مرکزی نائب صدر علامہ صاحبزادہ اویس نورانی نے بھی خطاب کیا اور کہاکہ 25جولائی کا سورج مجلس عمل کی کامیابی کا پیغام لے کر طلوع ہوگا۔ جنرل پرویزمشرف نے امریکہ کو پاکستان کے اندر کھلی آزادی دے کر ملک کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں۔ کراچی میں ایم کیوایم کی سرپرستی کی گئی اور عوام کو دہشت گردوں، بھتہ خوروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا، کراچی کو لاشوں کا تحفہ دیا گیا۔ 26 سال تک شہر کا مینڈیٹ چوری کیا گیا۔ کراچی میں ہم نے حالات کے جبر کا مقابلہ کیا اور اپنے بزرگوں کے پیغام کو پھیلاتے رہے۔ ان تمام حالات کی ذمے داری آمروں پر عائد ہوتی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ حالات تبدیل کریں، اب بلٹ سے نہیں بیلٹ سے فیصلہ ہوگا اور کراچی کے عوام کتاب کے نشان پر مہر لگاکر مجلس عمل کی قیادت کو کامیاب بنائیں گے اور امریکہ کے غلاموں اور را کے ایجنٹوں کو مسترد کردیں گے۔ مرکزی سیکریٹری جنرل اسلامی تحریک اور مجلس عمل کے مرکزی رہنما عارف حسین واحدی نے کہاکہ مجلس عمل کے آج کے جلسے نے سیکولر اور لبرل قوتوں کو مایوس اور ناامید کردیا ہے، آج مزارِ قائد کے پہلو میں عہد کرتے ہیں کہ اس ملک کو قائداعظم کے مشن اور وژن کے مطابق لا الٰہ الا اللہ کی بنیاد پر تعمیر کریں گے اور وطنِ عزیز کو اسلام کا قلعہ بنائیں گے۔ ملک کے اندر سے سودی نظام معیشت اور کرپشن کا خاتمہ کریں گے۔ کشمیر و فلسطین کی آزادی کی جدوجہد میں آگے بڑھ کر اُن کا ساتھ دیں گے اور پورے ملک کے مسائل پر آواز اٹھائیں گے۔ مجلس عمل کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل مولانا غفور حیدری نے کہا کہ آج کراچی کے عوام نے مجلس عمل کے منشور اور پروگرام پر اعتماد کا بھرپور اظہار کردیا ہے۔ ہمارا عزم ہے کہ ملک کو اسلامی فلاحی ریاست بنائیں گے، سب کے ساتھ انصاف ہوگا، ہم ملک میں ایسا نظام لائیں گے جس میں عوام کے مسائل حل ہوں گے۔ عوام ختم نبوت کے حلف نامے میں ترمیم کرانے کی کوشش کرنے والوں کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ مجلس عمل اور مرکزی جمعیت اہلحدیث کے مرکزی رہنما علامہ علی محمد ابو تراب نے کہا کہ ہمارا مقصد اور منشور ملک میں نظام مصطفی کا قیام ہے، 25 جولائی کا دن کتاب کی فتح کا دن ہوگا، مجلس عمل کا سفید پرچم امن و محبت اور ایمان اور قرآن کی علامت ہے۔ ملک کے اندر دہشت گردی کے واقعات ملک کو کمزور کرنے کی سازش ہیں، ہمیں ان سازشوں کو ناکام اور ملک کو محفوظ اور مستحکم بنانا ہے۔ مجلس عمل سندھ کے صدر مولانا راشد سومرو نے کہا کہ آج کراچی میں عظیم الشان جلسہ عام پر مجلس عمل کراچی کے صدر حافظ نعیم الرحمن کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ مجلس عمل کی قیادت کراچی اور سندھ کے مسائل سے واقف ہے، اور یہ قیادت ہی عوام کے مسائل حل کرا سکتی ہے۔ عوام 25 جولائی کو کتاب کے نشان پر مہر لگاکر سندھ کے جاگیرداروں، وڈیروں اور کراچی میں قابض ٹولے سے نجات حاصل کریں گے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت سے ہمارا سوال ہے کہ ان کی حکومت اپنی قائد بے نظیر کے قاتلوں کو گرفتار نہ کرا سکی تو وہ سندھ کے عوام کے مسائل کس طرح حل کرے گی؟ وہ پہلے بھی حکومت کرچکی ہے، اب پھر حکومت مل گئی توکیا کرے گی؟ مجلس عمل سندھ کے سینئر نائب صدر ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی نے کہا کہ آج 15 جولائی کو شہر کراچی نے 25 جولائی کا فیصلہ دے دیا ہے، اور یہ فیصلہ کراچی کی تعمیر و ترقی کا فیصلہ ہے، مجلس عمل کی کامیابی کا اعلان ہے۔ اب لوٹوں کی بارات واپس جائے گی، لوٹوں کا حکومت کرنے کا خواب کبھی پورا نہیں ہوگا۔ متحدہ مجلس عمل کراچی کے صدر حافظ نعیم الرحمن نے کراچی کے لیے جماعت اسلامی کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ آج ملک میں خوف کی فضا کے باوجود ایک تاریخی جلسہ عام نے ثابت کردیا ہے کہ کراچی کو روشنیوں کا شہر بنایا جائے گا۔ 25 جولائی کا دن شہر کے اندر سے تاریکیوں کے خاتمے کا دن ثابت ہوگا۔ کراچی کا گزشتہ 30 سال کا دور انتہائی اندوہناک اور بدترین رہا ہے۔ لسانیت وعصبیت کی بنیاد پر عوام کو تقسیم کیا گیا اور قتل عام کروایا گیا، جن لوگوں نے حقوق دلوانے کا وعدہ اور نعرہ دیا انہی لوگوں نے عوام کو دھوکا دیا، عوام کے میندیٹ کو یرغمال بنایا گیا اور اسے وڈیروں اور جاگیرداروں کے ہاتھوں فروخت کردیا گیا۔ انہوں نے کہاکہ آج جو لوگ باہر سے آکر کراچی کے عوام کو حقوق دلوانے کی بات کررہے ہیں ان کو کراچی کے مسائل کا کچھ پتا ہی نہیں ہے۔ صرف الیکشن لڑنے کے لیے کراچی آکر کراچی کے حقوق نہیں دلوائے جاسکتے۔ کراچی کے اندر اصل متبادل قوت مجلس عمل ہی ہے۔ آج کراچی میں پانی کا شدید بحران ہے۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے یہ مسئلہ حل نہیں کیا، آج یہ دونوں جماعتیں کس منہ سے کراچی کے عوام سے ووٹ مانگ رہی ہیں! ان کو شرم آنا چاہیے۔ انہوں نے کہاکہ ہم نے کراچی کے عوام کو کے الیکٹرک اور نادرا کے مظالم سے نجات دلوائی۔ عوامی جدوجہد کے باعث آج کے الیکٹرک کے نرخوں میں اضافے کی درخواست کو نیپرا نے مستردکردیا ہے۔ ہم نے نادرا کے ایس او پی میں تبدیلی کرائی ہے جس سے کراچی کے لاکھوں افراد کو فائدہ ہوا۔ ہم ہی کراچی کے عوام کو بجلی، پانی اور ٹرانسپورٹ سمیت دیگر مسائل سے نجات دلائیں گے۔ جلسے سے سابق رکن قومی اسمبلی اور مجلس عمل کے مرکزی رہنما اسد اللہ بھٹو، مرکزی جمعیت اہلحدیث کے مرکزی نائب صدر اور مجلس عمل سندھ کے نائب صدر مولانا محمد یوسف قصوری، اسلامی تحریک سندھ کے صدر اور مجلس عمل سندھ کے جنرل سیکریٹری مولانا ناظر عباس تقوی، جمعیت علماء اسلام اور مجلس عمل کے مرکزی رہنما محمد اسلم غوری، جمعیت علماء پاکستان کے رہنما انجینئر سلیم احمد، مجلس عمل کراچی کے نائب صدر سید عامر نجیب، مجلس عمل کے نائب صدر اور اسلامی تحریک کے رہنما مولانا غلام محمد کراروی، مجلس عمل کے رہنما قاری عثمان، جمعیت علماء پاکستان اور مجلس عمل کے رہنما مفتی غوث صابر ی، مجلس عمل کے سابق صوبائی پارلیمانی لیڈر مولانا عمر صادق نے بھی خطاب کیا۔ میزبانی کے فرائض این اے 244 کے امیدوار ڈاکٹر اسامہ رضی نے انجام دیے۔ اجتماع میں NA-245کے امیدوار سیف الدین ایڈووکیٹ نے مارٹن کوارٹر کے مکینوں کے ملکیتی حقوق دلوانے کے حوالے سے قرارداد بھی پیش کی۔
کراچی میں مجلس عمل کا جلسہ ایک طرح سے کراچی کے لوگوں کی قبل از وقت رائے کا بھی اظہار ہے، اور جماعت اسلامی کی کراچی اور کراچی کے لوگوں کے لیے خدمات کی روشنی میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ 25 جولائی کے انتخاب میں مجلس عمل کا اہم کردار ہوگا، اور اس کو ایک بار پھر کراچی میں نمایاں کامیابیاں حاصل ہوں گی۔