غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی،نئی حکومت کا سب سے بڑا چیلنج۔۔۔

ملک میں ہونے والے حالیہ عام انتخابات گیارہویں انتخابات ہیں، متعدد بار جمہوری حکومت اور پارلیمنٹ نے اپنی مدت پوری کی مگر پاکستان نہیں بدل سکا۔ سیاست دانوں کے ہاتھوں ووٹ کو عزت نہیں مل سکی، عوامی مینڈیٹ کی توہین پارلیمنٹ میں ہوئی، حکومت کے ایوانوں میں خواب بکھرے، ہر حکومت عوام کے طرزِ زندگی میں کوئی تبدیلی لائے بغیر چلتی بنی۔ عوام ماضی میں شاطرانہ چالوں کا شکار ہوئے، لیکن حالیہ انتخابات ایک امتحان بھی ہیں اور ایک قومی و ملّی ذمے داری بھی۔ دس کروڑ ووٹرز اپنے فیصلے کے ذریعے قابلِِ ستائش پارلیمنٹ منتخب کرسکتے ہیں۔ کتنے ہیں جو اس اعلیٰ و ارفع مقصد کے لیے خود کو تیار کرچکے ہیں؟ اور کتنے ہیں جن کا ووٹ متحدہ مجلس عمل کی قوت بنے گا؟ دس کروڑ میں کتنے ہیں جو 25 جولائی کو سراب کے پیچھے بھاگنے والوں میں شمار ہوں گے؟ ملکی تاریخ کے یہ پہلے انتخابات ہیں جن کے متوقع نتائج بھی معلوم ہیں اور نومنتخب حکومت کے سربراہ کے نام کا بھی فیصلہ ہوچکا ہے۔ انتخابی عمل اور سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم کا جائزہ لینے سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ انتخابات کے بعد نومنتخب پارلیمنٹ میں پہلا بڑا فیصلہ یہی ہونا ہے کہ وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر کون بیٹھے گا۔ اگرچہ انتخابات میں تحریک انصاف، مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی اس دعوے کے ساتھ شریک ہیں کہ یہ منصب انہیں ملنے والا ہے۔ خبر یہ ہے کہ جیکب آباد سندھ کے حلقہ 196 سے تحریک انصاف کے امیدوار محمد میاں سومرو کامیاب ہوگئے تو وزارتِ عظمیٰ کا منصب انہیں ملے گا۔
اب ملکی سیاسی صورتِ حال پر بات کرنے کے لیے آگے بڑھتے ہیں۔سابق وزیراعظم نوازشریف اور مریم نواز احتساب عدالت سے سزا یافتہ ہونے پر قانون کے سامنے سرنڈر ہوچکے ہیں اور ان دنوں اڈیالہ جیل میں ہیں۔ ان کے وکلاء نے احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کردی ہے، اپیل کی سماعت چیف جسٹس ہائی کورٹ سے ہدایت ملنے کے بعد جسٹس اختر کیانی اور جسٹس گل حسن اورنگ زیب کریں گے۔ جسٹس گل حسن اورنگ زیب، گوہر ایوب خان کے بھانجے ہیں۔ اپیل کی سماعت انتخابات کے بعد تک جاری رہے گی۔ آج سے پانچ روز بعد تو ملک میں نئی پارلیمنٹ کی تشکیل کے لیے انتخابات ہونے والے ہیں، اس اپیل کی سماعت اور اس پر جب بھی فیصلہ ہوگا، اُس وقت تک ملک میں انتخابات کے بعد نئی پارلیمنٹ اور حکومت بن چکی ہوگی، اور نگران حکومت کے ذمے دار بھی سُکھ کا سانس لے رہے ہوں گے۔ ملک میں ہونے والے عام انتخابات اور اُن کے متوقع نتائج ملک کی سیاسی بساط پر اپنا رنگ چھوڑ رہے ہیں، لیکن نگران حکومت، اُس کے اقدامات اور فیصلوں کے میرٹ پر لازمی بحث ہونی چاہیے۔
معین قریشی، بلخ شیر مزاری، غلام مصطفی جتوئی، معراج خالد، محمد میاں سومرو اور نبی بخش کھوسو کی سربراہی میں اب تک نگران حکومتیں بنی ہیںلیکن یہ عجیب معاملہ ہے کہ نگران حکومت جو بھی کرے، جیسے بھی فیصلے کرے اس پر کبھی کوئی گرفت نہیں ہوتی، حالیہ نگران حکومت جسٹس(ر) ناصرالملک کی سربراہی میں قائم ہوئی، مرکز اور چاروں صوبائی حکومتوں میں وزراء کی تقرریاں میرٹ پر نہیں بلکہ دوستی، واقفیت اور سفارش پر ہوئی ہیں۔ کے پی کے میں نگران وزیر اطلاعات اقبال بنگش پی ٹی وی میں ملازم رہے ہیں اور نگران وزیراعلیٰ کے قریبی عزیز ہیں۔ اسی طرح نگران وزیر فضل الٰہی بھی ایک سابق چیف جسٹس کے قریبی عزیز ہیں۔ وفاق میں نگران وزیر میاں مصباح الرحمن بھی سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم اور ملک کی ایک اعلیٰ ترین عدالتی شخصیت کے قریبی عزیز ہیں۔ نگران حکومتوں میں مرکز اور صوبوں میں انجم نثار اور نوید جمیل سمیت پانچ وزراء ایسے ہیں جنہیں تجارتی اور کاروباری حلقوں سے لیا گیا ہے۔ نگران وزیر کے لیے ایس ایم منیر گروپ کے طفیل باجوہ کا نام لیا گیا تھا، مگر اُن کی جگہ میاں مصباح الرحمن وزیر بنائے گئے۔ یہ نگران حکومت ملک میں عام انتخابات کرا رہی ہے، اس نگران حکومت کی جانب سے کیے جانے والے فیصلوں میں ملکی معیشت، خارجہ امور، داخلہ اور سی پیک کے علاوہ آئی ایم ایف کے ساتھ کیے جانے والے معاہدے اگلی حکومت کے لیے دردِ سر بنے رہیں گے۔ نگران حکومت نے جو فیصلے اب تک کیے ہیں یہ سب متحدہ مجلس عمل سمیت انتخابات میں شریک دیگر سیاسی جماعتوں اور اتحادوں کے منشور پر عمل درآمد کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بن کر کھڑے ہوں گے۔ حالیہ نگران حکومت اب تک 12 کھرب کا قرض لے چکی ہے، ریکارڈ نوٹ چھاپے ہیں جس سے افراط زر میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے اور ڈالر روپے کے مقابلے میں129 روپے کی ریکارڈ سطح پر جا کھڑا ہوا ہے اور قوم بیٹھے بٹھائے ہی آٹھ سو ارب کی مقروض ہوچکی ہے۔ عوام پر مہنگائی کا اتنا بوجھ ڈال دیا گیا ہے کہ عملاًان کی چیخیں نکل گئی ہیں۔ انتخابات میں منتخب ہونے والی پارلیمنٹ اور حکومت نگرانوں کے فیصلوں کا بوجھ اٹھاکر اگلے پانچ سال گزاریں گی۔ نگران حکومت چونکہ کسی کو جواب دہ نہیں لہٰذا اُس نے منصفانہ انتخابات کا چیلنج قبول کرنے کے بجائے وہ سب کام کیے جو اُس کا مینڈیٹ ہرگز نہیں تھے، اس لیے اب اگلی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی ہوگی۔
سرکاری دستاویزات کے مطابق اس وقت نگران حکومت کے فیصلوں کے باعث پاکستان کے ذمے اندرونی اور بیرونی قرضوں کا حجم 24.5 ٹریلین روپے ہوچکا ہے۔ 30 جون2018ء تک پاکستان کے قرضے جی ڈی پی کے 72 فیصد تک پہنچ چکے تھے، جب کہ قانون کے مطابق قرضوں کا حجم جی ڈی پی کے 60 فیصد تک ہونا چاہیے، لیکن ان کا حجم قانونی حد سے 12 سے 14 فیصد زیادہ ہوچکا ہے۔ حقائق یہ ہیں کہ بیرونی قرضوں اور واجبات کا حجم 92.2 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ عالمی سطح پر شرح سود بڑھ چکی ہے، پاکستان کو بیرونی قرضے سود کی اسی شرح کے ساتھ واپس کرنا ہوں گے۔ نئی حکومت کے لیے اب مشکلات ہی مشکلات ہیں۔ حال ہی میں وزیر خزانہ گرے لسٹ کے معاملے میں عالمی کانفرنس میں شرکت کے لیے گئی تھیں، گرے لسٹ کے معاملے پر جو فیصلہ ہوا، وہ سامنے آچکا ہے، تاہم آئی ایم ایف نے مزید قرضوں کے لیے کیا شرائط رکھی ہیں امریکی لابی کے قریب سمجھی جانے والی وزیر خزانہ نے اس کی ہوا تک نہیں لگنے دی۔ یہ سوال حکومت کے لیے ہے کہ آئی ایم ایف نے نئے قرضوں کے لیے سی پیک کی کیا کیا تفصیلات مانگی ہیں؟ اور کیا حکومتِ پاکستان یہ تفصیلات فراہم کرنے کو تیار ہے؟ اور نگران وزیر خزانہ اس حوالے سے کیا فیصلہ کرکے آئی ہیں؟ نگران حکومت کی تشکیل اور اس کے اقدامات کن کی نظروں میں ہیں؟ صدرِ پاکستان بطور سربراہِ ریاست نگرانوں کے حالیہ فیصلوں سے کس قدر آگاہ ہیں اور کیا وہ ان فیصلوں سے متفق ہیں؟
گزشتہ ہفتے ایک نیا مقدمہ سپریم کورٹ میں پہنچا ہے۔ سپریم کورٹ نے نیب کے خلاف عالمی فرم ایل ایل سی براڈشیٹ کے معاوضے کی درخواست پر رجسٹرار دفتر کے اعتراضات کے خلاف اپیل کھلی عدالت میں سماعت کے لیے منظور کرلی ہے۔ عالمی فرم نے نیب کو 500 ملین ڈالر کے ہرجانے کا نوٹس بھیجا ہے، فرم نے نیب کو خدمات فراہم کی تھیں۔ ایل ایل سی براڈ شیٹ نے جے آئی ٹی کے والیم ٹین کی فراہمی کی درخواست بھی کی ہے اور کہا ہے کہ اس میں جو معلومات فراہم کی گئی ہیں وہ ہماری خدمات کے معاوضے کے تعین کے لیے عالمی ثالث کو پیش کرنا ضروری ہیں۔ عالمی فرم نے نیب سے ہرجانہ وصولی کے لیے عالمی ثالث سے رجوع کیا تھا اور کہا تھا کہ نیب نے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔ عالمی ثالث نے فرم ایل ایل سی براڈ شیٹ سے کہا تھا کہ وہ نیب کو فراہم کی گئی خدمات کی دستاویزات پیش کرے۔ سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے عالمی فرم کی درخواست پر اعتراضات کیے تھے۔ رجسٹرار کے اعتراضات کے خلاف اپیل جسٹس عظمت سعید شیخ نے چیمبر میں کی، اگر یہ فرم مقدمہ جیت جاتی ہے تو نوازشریف کے خلاف جے آئی ٹی رپورٹ کے والیم ٹین کے ذریعے ملنے والے ثبوت اور ریکارڈ واپس لے جانے کی اہل ہوجائے گی۔ نوازشریف کے خلاف مقدمے کا کیا اثر پڑے گا اہم سوال ہے۔
مرکز میں حکومت کے لیے 342 کے ایوان میں کسی بھی سیاسی جماعت یا مخلوط اتحاد کو کم ازکم 172 ارکان کی حمایت چاہیے۔ اندازہ ہے کہ تمام اقدامات اٹھائے جانے کے باوجود تحریک انصاف کو ایوان میں سادہ اکثریت نہیں مل سکتی، اسے حکومت سازی کے لیے شیخ رشید کی عوامی مسلم لیگ، بلوچستان عوامی پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ، جی ڈی اے، مسلم لیگ (ق) کے علاوہ جیپ اور مٹکا کے نشان پر کامیاب ہونے والے آزاد امیدواروں کی حمایت سے حکومت تشکیل دینا ہوگی۔ پارلیمنٹ کی دوسری بڑی جماعتوں میں مسلم لیگ(ن)، پیپلزپارٹی، مجلس عمل، عوامی نیشنل پارٹی، قاف لیگ، اور دیگر جماعتیں شامل ہوں گی۔ تحریک انصاف اور اس کی حمایت میں اکٹھی کی جانے والی جماعتوں کے مقابلے میں پارلیمنٹ میں آنے والی سیاسی جماعتوں کی عددی قوت کیا ہوگی؟ مرکز میں حکومت سازی کے لیے 172 ووٹ چاہئیں پھر کہیں جاکر ایک ووٹ کی برتری سے حکومت بنتی ہے۔ اعدادو شمار کی یہ خلیج عبور کرنے کے لیے جہاں بھی یہ جمع تفریق ہورہی ہے وہاں یہ بات یقین سے سوچی اور سمجھی جارہی ہے کہ کیا عمران خان سیاسی قیادت کے قابل ہیں؟ اس سوال کا جواب ملنے کے بعد ہی حکومت سازی کے لیے نومنتخب پارلیمنٹ کا اجلاس بلایا جائے گا۔ ماضی میں جب ایک گٹھری میں بند کرکے پارلیمنٹ میں جنرل پرویزمشرف کی حامی جماعتوں کو لایا گیا تو اُس وقت میر ظفر اللہ جمالی حکومت ایک ووٹ کی برتری کے ساتھ تشکیل پاسکی تھی۔ اس بحث میں پڑے بغیر کہ کس جماعت کو کتنی نشستیں ملیں گی، اگلی پارلیمنٹ کا خاکہ بنانے کا کام اپنے قاری پر چھوڑ دیتے ہیں، کیونکہ انتخابی نتائج کیا ہونگے اس بارے میں ہم تو لاعلم ہیں، البتہ یہ تجزیہ ضرور ہے کہ اسکرپٹ لکھنے والوں کا اسکرپٹ کاغذ کی حد تک تو اچھا ہے، مگر عملی طور پر اس میں سیاسی نقصان کے سوا کچھ نہیں ہے، کیونکہ ایک سال کے دوران نوازشریف کے جی ٹی روڈ سے لاہور اور لندن سے لاہور کے سفر نے بہت کچھ بدل کر رکھ دیا ہے۔ اب پرانے اسکرپٹ کی جگہ نیا اسکرپٹ لائے بغیر کام نہیں چلے گا۔ اب نئی پارلیمنٹ میں اپوزیشن جماعتوں کا بھی امتحان ہوگا، اور مجلس عمل بھی ایک بار پھر امتحان سے گزرے گی۔ اس امتحان میں اسے کوئی مضبوط بیانیہ اختیار کرنا ہوگا کیونکہ اس کے ووٹ حکومت سازی کے لیے اہم ہوں گے، فیصلہ کرنا ہوگا کہ واضح بیانیہ کے ساتھ اپوزیشن میں بیٹھنا ہے یاحکومت میں شامل ہونا ہے۔

۔ 85سے زائد حلقوں کے عدالتی مقدمات

ملک میں 25 جولائی کو عام انتخابات ہونے والے ہیں، لیکن جو سوالات اور ابہام موجود ہیں ان کا جواب کوئی نہیں دے رہا۔ قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کی کُل 728 نشستوں پر براہِ راست انتخاب ہونا ہے اور پیپلزپارٹی کے منظور وسان اور نثار کھوڑو سمیت اس وقت ایک سو سے زائد امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی کی منظوری کے مقدمات سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں زیر التوا ہیں، ان میں 81 مقدمات صرف سندھ سے ہیں، جب کہ سندھ ہائی کورٹ میں 37 اور بلوچستان ہائی کورٹ میں 5 ایسے مقدمات زیر التواء ہیں۔ سولہ حلقے ایسے ہیں جہاں امیدواروں کی حتمی فہرست شائع ہوجانے کے بعد عدالتی فیصلوں کے نتیجے میں تبدیلیاں ہوئی ہیں جس کے باعث بیلٹ پیپر دوبارہ چھاپنا پڑے ہیں۔ مریم نواز اور کیپٹن(ر) صفدر کے حلقوں میں بیلٹ پیپر دوبارہ چھاپے گئے ہیں۔ مریم نواز کے حلقے میں متبادل امیدوار کو مسلم لیگ(ن) کا انتخابی نشان دے دیا گیا لیکن کیپٹن(ر) صفدر کے بھائی سجاد اعوان کو مسلم لیگ(ن) کا ٹکٹ ملنے کے باوجود مسلم لیگ (ن) کا انتخابی نشان الاٹ نہیں کیا گیا۔ چیف الیکشن کمشنر اس ساری صورتِ حال سے آگاہ ہیں، انہیں اس بات کا بھی علم ہے کہ پچاسی سے زائد حلقوں کے لیے عدالتی مقدمات کے باعث بیلٹ پیپرز کی چھپائی کا عمل رکا ہوا ہے۔ بہت سے مقدمات کے لیے عدالتی تاریخ 20 جولائی مقرر ہے اور لاڑکانہ میں ایک مقدمہ ایسا بھی ہے جس کے لیے عدالت نے 24 جولائی کی تاریخ مقرر کررکھی ہے اور 25 جولائی کو پولنگ ہے۔ یہ صورتِ حال بتارہی ہے کہ فیصلہ ساز قوتوں نے وزیراعظم کا فیصلہ تو کرلیا ہے، تاہم جن لوگوں کو پارلیمنٹ میں وزیراعظم کے لیے ووٹ دینا ہے، کانٹ چھانٹ کر ان کی صف بندی کی جارہی ہے۔

انتخابات اور غیر ملکی مبصرین

عام انتخابات 2018ء کے مشاہدے کے لیے غیر ملکی مبصرین کی ٹیمیں پاکستان پہنچنا شروع ہوگئی ہیں۔ یورپین یونین کے بعد دولتِ مشترکہ کی مبصر ٹیم بھی آج پاکستان پہنچ رہی ہے۔ الیکشن کمیشن کے ترجمان الطاف خان کے مطابق غیر ملکی مبصر 22 جولائی تک پاکستان کے مختلف شہروں میں انتخابات کے مشاہدے کے لیے تعینات کیے جائیں گے، اور ملک بھر میں متعین مبصرین 26 جولائی کو واپس اسلام آباد پہنچیں گے۔ دولت مشترکہ مبصر مشن 30 جولائی کو واپس روانہ ہوگا۔ دولت مشترکہ مبصر مشن، دولتِ مشترکہ کے سیکریٹری جنرل کو اپنی رپورٹ پیش کرے گا۔ دولت مشترکہ، سیکریٹری جنرل رپورٹ پاکستانی حکومت، الیکشن کمیشن اور سیاسی جماعتوں کو بھیجے گا۔ دولتِ مشترکہ پاکستان سے متعلق رپورٹ رکن ممالک کو بھی ارسال کرے گا۔ یہ رپورٹ منظرعام پر بھی لائی جائے گی۔ مبصر مشن انتخابی عمل پر اثرانداز ہونے والے عوامل کا جائزہ لے گا اور انتخابات کے جمہوری انداز اور عالمی معیارات کے مطابق انعقاد کو بھی دیکھے گا۔ مبصر مشن کی سیکریٹری جنرل پیٹریشیا کے مطابق پاکستان کے انتخابی عمل کو دولتِ مشترکہ چارٹر اور پاکستانی انتخابی قوانین کے تناظر میں دیکھا جائے گا، اسی طرح پاکستانی انتخابی عمل کا بین الاقوامی معاہدات کی رو سے بھی جائزہ لیا جائے گا، اور یہ مشن آزادانہ اور غیر جانب دارانہ انتخابی مشاہدہ کرنے کے بعد انتخابی عمل سے متعلق اپنی سفارشات بھی فراہم کرے گا۔

انتخابات اور غیر ملکی مبصرین

عام انتخابات 2018ء کے مشاہدے کے لیے غیر ملکی مبصرین کی ٹیمیں پاکستان پہنچنا شروع ہوگئی ہیں۔ یورپین یونین کے بعد دولتِ مشترکہ کی مبصر ٹیم بھی آج پاکستان پہنچ رہی ہے۔ الیکشن کمیشن کے ترجمان الطاف خان کے مطابق غیر ملکی مبصر 22 جولائی تک پاکستان کے مختلف شہروں میں انتخابات کے مشاہدے کے لیے تعینات کیے جائیں گے، اور ملک بھر میں متعین مبصرین 26 جولائی کو واپس اسلام آباد پہنچیں گے۔ دولت مشترکہ مبصر مشن 30 جولائی کو واپس روانہ ہوگا۔ دولت مشترکہ مبصر مشن، دولتِ مشترکہ کے سیکریٹری جنرل کو اپنی رپورٹ پیش کرے گا۔ دولت مشترکہ، سیکریٹری جنرل رپورٹ پاکستانی حکومت، الیکشن کمیشن اور سیاسی جماعتوں کو بھیجے گا۔ دولتِ مشترکہ پاکستان سے متعلق رپورٹ رکن ممالک کو بھی ارسال کرے گا۔ یہ رپورٹ منظرعام پر بھی لائی جائے گی۔ مبصر مشن انتخابی عمل پر اثرانداز ہونے والے عوامل کا جائزہ لے گا اور انتخابات کے جمہوری انداز اور عالمی معیارات کے مطابق انعقاد کو بھی دیکھے گا۔ مبصر مشن کی سیکریٹری جنرل پیٹریشیا کے مطابق پاکستان کے انتخابی عمل کو دولتِ مشترکہ چارٹر اور پاکستانی انتخابی قوانین کے تناظر میں دیکھا جائے گا، اسی طرح پاکستانی انتخابی عمل کا بین الاقوامی معاہدات کی رو سے بھی جائزہ لیا جائے گا، اور یہ مشن آزادانہ اور غیر جانب دارانہ انتخابی مشاہدہ کرنے کے بعد انتخابی عمل سے متعلق اپنی سفارشات بھی فراہم کرے گا۔