بلوچستان ابھی تک قبائلی نظام کی گرفت میں ہے اور اس کے مضمحل ہونے کے آثار شروع ہوچکے ہیں۔ ایک دور تھا جب قبائلی سربراہان جناح روڈ پر گھومتے اور عام ہوٹلوں میں زندگی کے پُرسکون لمحات سے لطف اندوز ہوتے تھے اور ان کے ساتھ باڈی گارڈ نہ ہوتے تھے۔ نواب خیر بخش خان اپنی جیپ میں 303 رائفل رکھتے تھے، اور قندھاری بازار میں ملک صادق کاسی شہید سے ایک میڈیکل اسٹور میں ملاقات روز کا معمول تھا۔ نواب بگٹی جناح روڈ کے میڈیکل اسٹور میں کافی سے لطف اندوز ہونے کے لیے روزانہ آتے، یہ ان کا معمول تھا۔ عبدالصمد خان شہید جناح روڈ پر پیدل سرشام ٹہلتے تھے اور ریگل ہوٹل میں چائے پیتے تھے۔ نیپ کے قائدین اسی ہوٹل میں محفل جماتے۔ غوث بخش بزنجو، گل خان نصیر اور دیگر زعماء ان کے ساتھ ہوتے۔ ملک صادق کاسی شہید شام ڈھلے کیفے بلدیہ میں محفل جماتے تھے، اور ڈان ہوٹل تو سیاسی لیڈروں اور صحافیوں کی آماج گاہ تھی۔ کاسی قبیلے کے نواب شام ڈھلنے سے کچھ دیر پہلے اپنی پیلی گاڑی میں میکانگی روڈ سے کینٹ جاتے نظر آتے۔ کوئٹہ کے مختلف ہوٹلوں میں شہری لطف اندوز ہوتے۔ کوئی نوگوایریا نہ تھا۔ نہ نفرتوں کے الائو تھے، نہ فرقہ واریت تھی۔ محرم کے جلوس محبتوں اور احترام کا حسین امتزاج تھے۔ تھڑوں پر محفلیں جمتی تھیں۔ کوئی مسلح گروہ نہ تھے۔ پولیس بھی مسلح نہ تھی۔ کوئی قتل ہوتا تو پورا شہر افسردہ ہوجاتا ۔ خدائیداد روڈ پر ایک گھڑی ساز قتل ہوا تو پورا شہر اداس تھا، حالانکہ وہ نہ پشتون تھا نہ بلوچ… لیکن اُس کا درد ہر ایک کو اپنا درد محسوس ہورہا تھا۔ ایک عام انسان کا قتل پورے شہر کو ہلاکر رکھ دیتا تھا۔
پھر اس دلکش اور سحر انگیز شہر کو کسی کی نظر لگ گئی۔ کوئٹہ کا یہ نقشہ 1970ء سے پہلے کا تھا۔ پھر سیاست کا دور شروع ہوا تو اس کا آغاز سیاست دانوں کے قتل سے ہوا۔ اس کا پہلا نشانہ ملک صادق کاسی بنے۔ یوں یہ سحر انگیز اور پرکشش شہر صادق کے خون سے سرخ ہونا شروع ہوا۔ پھر یہ خون آلود دور رکا نہیں۔ انسانوں کی لاشیں گرنا شروع ہوئیں اور دستِ قاتل عام لوگوں کو نظرانداز کرتے ہوئے بڑے لوگوں کی طرف مڑ گیا۔ حاجی مراد کو دن دہاڑے جمعہ کی نماز کی ادائیگی کے لیے جاتے ہوئے قتل کردیا گیا، اس نے بلوچ معاشرے کو دہلاکر رکھ دیا۔ بلوچ زعماء نے اجلاس بلا لیا کہ ایک عام آدمی کے قتل کے جواب میں ایک معزز شخصیت کو کیوں قتل کیا گیا۔ بلوچی جرگہ منعقد ہوا۔ نواب بگٹی سے ملاقات ہوئی تو وہ بھی بہت پریشان تھے کہ یہ تو بلوچی روایات کے خلاف واقعہ ہوا ہے، ایک معزز شخصیت کو بے گناہ قتل کیا گیا جبکہ وہ اس میں ملوث نہ تھا۔ اس طرح صادق کاسی کا قتل بھی ایسا ہی تھا۔ پھر 1973ء میں خان عبدالصمد خان کو قتل کیا گیا۔ مولوی شمس الدین قتل ہوئے۔ پھر اس کے منہ کو خون لگ گیا اور خفیہ ہاتھ تیزی سے گردش کرتا رہا اور گھروں کو اجاڑتا رہا۔ مختلف چھوٹے چھوٹے واقعات نے بڑے لوگوں کو خاک و خون میں تڑپا دیا۔ لوکل باڈیز کے ایک عام الیکشن نے نواب غوث بخش رئیسانی کی زندگی کا چراغ گل کردیا۔ یوں ایک قتل مختلف قبائل کے درمیان خونریز تصادم کا سبب بن گیا۔ نواب خیر بخش خان مری جب کابل سے لوٹے تو بغیر مسلح گارڈ کے کوئٹہ میں گھومتے تھے۔ پھر ایک اور تصادم ہوا جس میں نواب بگٹی کا پوتا اور دو نواسے قبائلی تصادم کی بھینٹ چڑھ گئے۔ نواب رئیسانی کا بیٹا اسماعیل تصادم میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ چاکر خان کے دوبیٹے مارے گئے۔ پھر ہم نے دیکھا کہ دن دہاڑے نواب بگٹی کے بیٹے کو جناح روڈ پر قتل کردیا گیا ۔ جسٹس نواز مری کو قتل کردیا گیا۔ نواب مری کا بیٹا پاک افغان بارڈر پر قتل ہوگیا، یہ بالاچ مری تھا۔ نواب بگٹی کا بہیمانہ قتل بلوچستان کی تاریخ کا سیاہ باب تھا جس کو جنرل پرویزمشرف نے تحریر کیا۔ اس کے بعد بلوچستان بے گناہ انسانوں کی قتل گاہ بن گیا۔ ریڑی والا، پکوڑے والا، دکاندار، ماسٹر، پروفیسر، ڈاکٹر، پولیس، صحافی جو سامنے آیا اس کی زندگی کا چراغ گل ہوگیا۔ اس کے بعد خودکش دھماکوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ فاٹا آپریشن اور جنرل پرویزمشرف کا نیٹو کو افغانستان میں حملے کے لیے بلوچستان اور جیکب آباد ایئرپورٹ فراہم کرنا اس کا سبب بنے۔ پھر بلوچستان اور صوبہ خیبر پختون خوا خون میں نہا گئے اور دوسرے شہر بھی اس کی زد میں آگئے۔ پولیس ٹریننگ اسکول پر حملہ ہوا، وکلا کو قتل کیا گیا۔ یہ بلوچستان کا نقشہ ہے جس کے ہم سب گواہ اور شاہد ہیں۔ اور اب نواب غوث بخش رئیسانی کے بیٹے نواب زادہ سراج رئیسانی کو نشانہ بنایا گیا اور اس حادثے میں ڈیڑھ سو کے لگ بھگ انسانوں کی زندگی کا چراغ گل ہوگیا۔ سراج رئیسانی کے ساتھ ایک گھر نہیں، کئی گھروں کے چراغ گل ہوگئے۔ عام اور غریب لوگ مارے گئے۔ ان کی زندگی میں پہلے بھی خوشیاں نہ تھیں، سونا اگلتی ہوئی زمین کے باسی محروم زندگی گزار رہے ہیں، لیکن کچھ لوگوں نے سونا اگلتی ہوئی زمین کو بے دریغ لوٹا ہے اور ارب پتی بن گئے ہیں۔ سراج رئیسانی کا بھی المیہ ہے کہ پہلے جوان بیٹا حملے میں مارا گیا، اب اس دھماکے میں ان کی زندگی کا چراغ گل ہوگیا۔ رئیسانی خاندان سوگوار ہے۔ نواب ثناء اللہ بھی ایسے ہی حادثے کا شکار ہوئے ہیں۔ بیٹا اور دیگر عزیز دہشت گردی کا شکار ہوئے ہیں اور اب بلوچستان کا کوئی بلوچ سردار اور نواب سرعام گھومنے پھرنے سے رہ گیا ہے۔ اب ان کا دائرۂ زندگی بہت محدود ہوگیا ہے۔ زندگی پر ہر لمحہ خطرے کے سائے نظر آرہے ہیں۔ نہ جانے وہ خوبصورت بلوچستان کہاں کھوگیا! کیا بلوچستان میں ماضی کے حسین لمحات دوبارہ آسکیں گے؟ سراج رئیسانی ایک دلیر انسان تھے، چودہ اگست کو پاکستان کا طویل سبز پرچم سریاب سے جناح روڈ تک انہوں نے لہرایا جو یادگا رہے گا۔ انہیں فوجی اعزاز کے ساتھ رخصت کیا گیا اور جنرل قمر جاوید باجوہ نے انہیں پاکستان کا سپاہی قرار دیا اور ان کے جنازے میں شریک ہوئے۔ یہ سراج رئیسانی کی پاکستان سے محبت کا خراج تھا جو جنرل باجوہ اور اعلیٰ حکام نے دیا۔ لیکن سراج رئیسانی کا صدمہ اور زخم رئیسانی قبیلے کے لیے بڑا گہرا ہے جو فراموش نہ ہوسکے گا۔ دعا ہے کہ بلوچستان اس خون آلود دور سے نکل جائے اور محبت و آشتی کے دور میں لوٹ جائے۔