سعودی عرب کے شہر جدہ میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے زیراہتمام افغانستان میں امن واستحکام کے موضوع پر منعقدہ علماء کی بین الاقوامی کانفرنس کے شرکاء نے افغان علماء پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے ملک میں متحارب فریقوں کے درمیان جاری موجودہ تنازع کا کوئی حل تلاش کریں تاکہ ملک میں امن واستحکام لایا جاسکے۔ کانفرنس میں شریک اسلامی اسکالروں اور علماء کے ایک وفد نے جدہ میں شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے بھی ملاقات کی۔ خادم الحرمین الشریفین نے ان کا خیرمقدم کیا اور کانفرنس کے انعقاد پر او آئی سی کو سراہا۔ انھوں نے علماء کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’آپ بہترین لوگ ہیں جو اسلام اور مسلمانوں کے لیے خدمات انجام دے رہے ہیں، ان کی صفوں میں اتحاد پیدا کررہے ہیں اور اسلامی دنیا کو جنگوں، بحرانوں، انتہاپسندی اور دہشت گردی کی لعنتوں سے نکال رہے ہیں‘‘۔ شاہ سلمان نے کہا کہ ’’سعودی عرب افغان عوام کو اُن کے بحرانوں اور پھر اس کے نتیجے میں خانہ جنگی کے آغاز کے بعد سے انسانی اور مالی امداد مہیا کررہا ہے، اور وہ افغان عوام کے مختلف دھڑوں کے درمیان اختلافات اور تقسیم کے خاتمے کے لیے مسلسل مربوط سیاسی کوششیں بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔‘‘ انھوں نے کہا:’’آج ہمیں امید ہے کہ آپ (علماء) کی کوششوں کے نتیجے میں افغانستان میں ماضی کا صفحہ بند کرنے اور ایک نیا صفحہ کھولنے میں مدد ملے گی۔ اس سے افغان عوام کی ملک میں سلامتی اور استحکام کے لیے امنگوں کو پورا کرنے کی راہ ہموار ہوگی۔ اس کے لیے ہمارے دینِ اسلام کی تعلیمات کے مطابق مکالمے، مصالحت اور رواداری کی اقدار کو اپنانے کی ضرورت ہے‘‘۔ خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے کہا کہ ’’آپ حضرات اسلام اور اس کے پیروکاروں کے بہترین خدمت گار ہیں۔ اہلِ اسلام کے درمیان اتحاد، پراگندہ شیرازہ جمع کرنے، مسلم دنیا میں ہونے والی جنگوں اور بحرانوں کے خاتمے، دہشت گردی اور انتہاپسندی جیسی آفتوں سے اسلامی دنیا کو نجات دلانے میں آپ کا کردار غیر معمولی ہے‘‘۔ شاہ سلمان نے مسلم علماء کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ کانفرنس کے انعقاد پر ہم اسلامی تعاون تنظیم او آئی سی اور آپ کے تئیں قدر و منزلت کے جذبات رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے سعودی عرب کو حرمین شریفین کی خدمت کا اعزاز بخشا ہے۔ اپنے والد کے عہد سے لے کر آج تک حرمین کی خدمت کی ہے، اب بھی کررہے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔ شاہ سلمان نے کہاکہ افغانستان کے بحران کے آغاز سے لے کر اب تک سعودی عرب نے افغان عوام کے دکھ درد کو اپنے دکھ درد کے طور پر لیا ہے۔ افغان بحران سے جنم لینے والی خانہ جنگی کی مشکلات کو ہم نے محسوس کیا ہے۔ اسی سے متاثر ہوکر سعودی عرب نے انسانی اوراقتصادی تعاون پیش کیا اور افغان بھائیوں کے مختلف گروپوں کے درمیان اختلافات، تفرقہ و انتشار سے نجات حاصل کرنے کے لیے انتھک سیاسی جدوجہد بھی کی۔ شاہ سلمان نے کہاکہ آج ہم پُرامید ہیں، لگتا ہے کہ ماضی کا دکھ بھرا باب لپیٹنے اور افغانستان میں نیا باب شروع کرنے کے حوالے سے آپ حضرات کی مساعی بار آور ثابت ہوگی۔ افغان عوام آپ لوگوں کی طرف امن و استحکام کے قیام کے حوالے سے امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ افغان عوام کی یہ آرزو مکالمے، مصالحت اور دین اسلام کی طے کردہ رواداری اپنا کر ہی پوری ہوسکے گی۔ شاہ سلمان نے بہترین مساعی صرف کرنے پر علماء کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ افغان بھائیوں کو ہر اچھے اور بھلے کام کی توفیق عطا فرمائے۔
اس موقع پر اسلامی تعاون تنظیم کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر یوسف العثیمین نے او آئی سی اور شریک علماء کی نیابت کرتے ہوئے شاہ سلمان کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہاکہ مملکت میں کانفرنس کی میزبانی اور خانہ کعبہ کے پہلو میں اس کے انعقاد کی ہدایت پر ہم سب آپ کے ممنون ہیں۔ اس کانفرنس کی بدولت افغان بحران پر شرعی نکتہ نظر سے علماء کو اظہارِ خیال کا پلیٹ فارم مہیا ہوا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ اعلانِ مکہ افغانستان میں پُرامن حل کے حوالے سے شرعی روڈ میپ ثابت ہوگا۔
جدہ میں منعقد ہونے والی اس کانفرنس کے پہلے سیشن کا عنوان ’’اسلام میں مصالحت، افغانستان میں امن واستحکام میں علماء کا کردار‘‘ تھا۔ اس کے منتظم شاہی دیوان کے مشیر اور مسجد الحرام کے امام اور خطیب ڈاکٹر صالح بن حمید تھے۔ انھوں نے اپنی تقریر میں گزشتہ ماہ رمضان المبارک میں افغان علماء کے جاری کردہ ایک فتوے کا حوالہ دیا اور کہا کہ اس میں افغانستان میں افغان حکومت کے خلاف جنگ کو غیر قانونی قرار دیا گیا تھا۔ اس سیشن میں افغانستان میں رونما ہونے والے واقعات اور افغان عوام کے خلاف دہشت گردی کی جنگ اور اس کے خاتمے میں علماء کا کردار مرکزی موضوع تھا۔ اس سیشن میں علماء نے افغان مسئلے کے حل کے لیے مختلف تجاویز پیش کیں۔ واضح رہے کہ افغانستان میں قیام امن کا مطالبہ عوامی منصوبے کی شکل اختیار کرچکا ہے اور علماء متفقہ طور پر اس منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔ اس ضمن میں سہ فریقی علماء کا ایک اہم اجلاس حال ہی میں انڈونیشیا میں بھی منعقد ہوچکا ہے جس میں افغانی، پاکستانی اور انڈونیشی علماء نے شرکت کی۔ یہ سہ فریقی اجلاس امن منصوبے کی ایک کڑی تھی۔ اس کے بعد کابل میں بھی 3 ہزار کے قریب علماء کا اجلاس منعقد کیا گیا جسے ’’فتویٰ الصلح‘‘ کا عنوان دیا گیا تھا۔ اس اجلاس کا مقصد افغانستان کے طول و عرض میں جاری جنگ و جدل کو ختم کرنا اور امن کا قیام تھا۔ علماء کی جانب سے افغان صدر اشرف غنی کو پیش کی جانے والی قراردادوں کو سراہا گیا تھا جن میں ان نکات کو پیش کیا گیا تھا جن کی بنیاد پر مصالحتی عمل کو مکمل کرنا تھا۔ اس موقع پر طالبان کے کردار کو بھی سراہا گیا جنہوں نے عیدالفطر کے موقع پر 3 دن کے لیے جنگ بندی کو قبول کرتے ہوئے افغان عوام کو بے خوف ہوکر عید کی خوشیاں منانے کا موقع فراہم کیا۔ افغان عوام کی یہ شدید خواہش ہے کہ یہ عارضی جنگ بندی مستقل صورت اختیار کرجائے اور افغانستان میں مستقل بنیادوں پر امن قائم ہو۔ اس تین روزہ جنگ بندی نے یہ ثابت کردیا کہ افغان حکومت، عوام اور طالبان قیام امن کے نہ صرف شدید خواہش مند ہیں بلکہ وہ اس ضمن میں ہر ممکن سنجیدہ اقدامات اٹھانے کے لیے بھی تیار ہیں۔ افغان علماء کونسل کے سربراہ مولوی قیام الدین کشف نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ افغان علماء کونسل کو صدر اشرف غنی کی جانب سے افغانستان میں قیام امن کے لیے تمام اختیارات حاصل ہیں اور افغان ملت کی نظریں اس کانفرنس کے نتائج پر لگی ہوئی ہیں۔ مولوی کشف نے 6 نکاتی ایجنڈا پیش کیا جسے افغان علماء نے مشترکہ طور پر منظور کرلیا تھا، اس میں کانفرنس کے شرکاء سے یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ افغانستان میں فریقین سے مطالبہ کریں کہ فوری جنگ بندی کرکے مذاکرات کا آغاز کیا جائے۔ طالبان سے براہِ راست مذاکرات کرنے کے لیے کانفرنس میں شریک افراد پر مشتمل وفد کا تعین کیا جائے۔ او آئی سی اپنے رکن ممالک کے علماء کا اجلاس افغانستان میں منعقد کرے تاکہ افغانستان میں قیام امن کی راہیں تلاش کرکے ان پر عمل کو یقینی بنایا جاسکے۔ خادم حرمین شریفین سے درخواست ہے کہ وہ طالبان لیڈروں کو حرمین شریفین میں مدعو کرکے انہیں براہِ راست مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ او آئی سی کے پلیٹ فارم سے افغانستان کی میزبانی میں ایک اور علماء کانفرنس منعقد کی جائے۔ چھٹے نکتے میں کہا گیا ہے کہ ہم او آئی سی کے رکن ممالک اور عالم اسلام کے علماء سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ افغانستان میں جاری جنگ کے حوالے سے اپنے مؤقف کی وضاحت کریں۔
کانفرنس کے پہلے افتتاحی اجلاس سے علماء کمیٹی کے سربراہ شیخ ڈاکٹر صالح بن عبداللہ حمید نے بھی خطاب کیا اور قیام امن کے لیے علماء کے کردار کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ درحقیقت اسلام امن و سلامتی کا دین ہے۔ اسلام میں دہشت گردی کا کوئی وجود نہیں۔ کسی بھی معاشرے کی تعمیر و ترقی کے لیے قیام امن کو کسی طرح نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ شیخ صالح نے مزید کہا کہ باہمی رنجشیں اور اختلافات، جنگ کی آگ بھڑکانے کا باعث بنتے ہیں۔ رنجشوں کو ختم کرکے اختلافات کو دور کرنا چاہیے۔ کسی بھی معاشرے میں بہتری لانے کے لیے ضروری ہے کہ عفو اور درگزر کی صفت کو اپنایا جائے اور باہمی مصالحت کو ہمیشہ مقدم رکھتے ہوئے قومی و ملّی منفعت کے لیے کام کیا جائے۔
کانفرنس کے دو کھلے اجلاس ہوئے جن میں سے ایک کا موضوع ’’اسلام میں مصالحت، افغانستان میں امن واستحکام سے متعلق علماء کا کردار‘‘، اور دوسرے اجلاس کا عنوان ’’دہشت گردی اور انتہا پسندی سے متعلق اسلام کا مؤقف‘‘ تھا، جب کہ کانفرنس کا اختتامی اجلاس مکہ مکرمہ کے قصر الضیافہ میں ہوا۔
دریں اثناء علماء کانفرنس کے اختتامی اجلاس میں جاری مشترکہ بیان میں سعودی عرب کی جانب سے افغانستان میں بحالی امن کی کوششوں کو سراہتے ہوئے خادم حرمین شریفین کی جانب سے افغانستان میں مسلسل قیام امن اور جنگ بندی کے لیے کی جانے والی کوششوں کی تعریف کی گئی۔ اختتامی بیان او آئی سی کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر یوسف العثیمین نے پڑھا۔ قبل ازیں افغان علماء کونسل کے سربراہ مولوی قیام الدین کشف نے خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود اور ولی عہدِ مملکت شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز آل سعود کی کاوشوںکو سراہتے ہوئے اُن کا شکریہ ادا کیا۔ اختتامی بیان میں کہا گیاکہ ہم علماء جو آج یہاں جمع ہیں افغانستان میں فریقین سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ مکہ اعلامیہ کا احترام کریں جو حرم شریف کے سائے میں جاری کیا گیا ہے۔ رب کریم سے دعاگو ہیں کہ وہ ملتِ اسلامیہ کی وحدت کی حفاظت فرمائے اور مملکت و تمام اسلامی ممالک کو مستقل طور پر امن و سلامتی کے سائے میں رکھے۔ افغان عوام کے لیے بھی دعاگو ہیں کہ ان کی مشکلات ختم ہوں جن سے وہ گزشتہ 10 دہائیوں سے گزر رہے ہیں۔ ساتھ ہی مملکت کی قیادت اور او آئی سی کے علاوہ ملتِ اسلامیہ کے علماء و مشائخ سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ مظلوم اور بے بس افغان عوام کے ساتھ رہیں۔ کانفرنس کے اختتامی اعلامیے میں 7 نکاتی بیان جاری کیا گیا جسے او آئی سی کے سیکریٹری جنرل نے پڑھا۔ مکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان اسلامی ملک ہے جہاں کے مظلوم مسلمان عوام پر ظلم جاری ہے، وہاں قتل و خون کا بازار گرم ہے جو اسلامی قوانین اور ضوابط کے مکمل خلاف ہے۔ افغان عوام کی مشکلات کو ختم کرنے اور وہاں جاری جنگ و جدل کو روکنے کے لیے ملتِ اسلامیہ کو اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔ اسلامی سوسائٹی اور تنظیموں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ افغانستان میں مسقل بنیادوں پر قیام امن کے لیے اثررسوخ استعمال کرتے ہوئے اپنا فعال کردار ادا کریں تاکہ افغانستان میں امن قائم ہو اور وہاں معصوم لوگ آزادی اور سکون سے زندگی گزار سکیں۔ دوسرے نکتے میں کہا گیا کہ اسلام رحمت کا دین ہے، مومن ایک دوسرے کے ساتھ اخوت و بھائی چارے کے جذبے کے ساتھ رہتے ہیں، ان پر ایک دوسرے کا خون بہانا حرام ہے، خودکش دھماکے جس میں خونِ ناحق بہے، کسی طور جائز نہیں۔ افغانستان میں جاری کشت و خون کی بھرپور مذمت کرتے ہیں اور متنازع فریقوں کو اس امر کی دعوت دیتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی کرتے ہوئے قتل و خون بند کرکے باہمی مصالحت کو فروغ دیتے ہوئے فتنہ و فساد کی آگ بجھائیں۔ افغان حکومت اور طالبان سے بھی اس امر کا مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ جنگ بندی کو ہر صورت میں قبول کرتے ہوئے سیزفائر کرکے مذاکرات کو کامیاب بنانے کا آغاز کریں۔ تیسرے نکتے میں کہا گیا کہ مسلمانوں کے مقاتل گروہوں کے مابین صلح کرانا بہت بڑی نیکی اور اجر کا باعث ہے۔ خونِ مسلم کو بہانا کبائر میں شامل ہے جس سے مسلمانوں کی صفوں میں انتشار اور افتراق پیدا ہوتا ہے۔ باہمی افتراق و انتشار وحدتِ ملّتِ اسلامیہ کے لیے زہر قاتل ہے۔ اس صورتِ حال میں عامہ المسلمین اور علماء کو بالخصوص اس امر کی دعوت دیتے ہیں کہ وہ وحدتِ ملّت کے لیے اپنا کردار ادا کرتے ہوئے اس کے لیے ٹھوس اور جامع انداز میں کام کریں۔ اعلامیے کے چوتھے نکتے میں کہا گیا کہ افغان حکومت اور طالبان کے مابین جاری جنگ کو روکنے اور افغان عوام کو اس کشت و خون سے نجات دلانے کے لیے انہیں مذاکرات کی میز پر لانا انتہائی ضروری ہے۔ مذاکرات کے اس اہم اقدام کو تمام علمائے کرام قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ افغان صدر اشرف غنی کی ان کوششوں کو بھی سراہتے ہیں جن کے ذریعے مذاکرات کے عمل میں پیش رفت کا کسی قدر امکان پیدا ہوا ہے اور صدرِ جمہوریہ کی جانب سے طالبان کو غیر مشرو ط مذاکرات کی پیشکش کی گئی، اس کے ساتھ افغان حکومت کی جانب سے طالبان کو ایک سیاسی جماعت کے طور پر بھی تسلیم کرنے پر رضامندی ظاہر کی گئی تاکہ وہ مذاکرات کی میز پر آسکیں اور افغانستان میں جاری جنگ و جدل بند ہوسکے۔ افغان حکومت کے اقدام کے بعد طالبان کو چاہیے کہ وہ اس پیشکش کا کھلے دل سے مثبت جواب دیں اور مذاکرات کے عمل کو قبول کرتے ہوئے جنگ وجدل کا راستہ ترک کریں تاکہ افغانستان کے عوام کو محفوظ مستقبل دیا جاسکے۔ مکہ اعلامیے کے پانچویں نکتے میں کہا گیا کہ علماء کانفرنس کے شرکاء خادم حرمین شریفین شاہ سلمان اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے دنیا بھر کے مسلمانوں کے مسائل کو خلوصِ نیت اور بہترین انداز میں حل کرنے اور اس کے لیے ہر ممکن وسائل فراہم کرنے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ اوآئی سی کے زیراہتمام کانفرنس کا انعقاد مستحسن اقدام ہے جس پر او آئی سی کے شکر گزار ہیں۔ اس پلیٹ فارم سے مخلصانہ کوششوں کو مستقبل میں بھی جاری رہنا چاہیے۔ افغان مسئلے کے مثبت اور ٹھوس حل تک او آئی سی کا یہ کردار جاری رہنا چاہیے تاکہ وہاں کے عوام کو مستقل بنیادوں پر پُرامن ماحول مہیا کیا جاسکے۔ اعلامیے کے ساتویں نکتے میں کہا گیا کہ تمام شرکاء او آئی سی کے سیکریٹری جنرل سے ملتمس ہیں کہ خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے اس کانفرنس کے انعقاد کی مثالی کاوش پر انہیں شکریے کا خصوصی پیغام ارسال کریں۔ افغانستان کے لیے ان کی مخلصانہ کوششوں کو افغان عوام اور خواص انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
جہاد کو فساد کہنے کا اختیار کسی کو نہیں، ترجمان افغان طالبان
افغان طالبان نے مکہ اعلامیہ مسترد کرتے ہوئے سعودی حکومت سے کہا ہے کہ وہ ایک اسلامی ملک اور ان کے علما سے یہ توقع نہیں رکھتے کہ کفر اور اسلام کی جنگ میں وہ امر یکا جیسے حملہ آور کا ساتھ دے گا۔افغانستان کے مسائل سے متعلق سعودی عرب میں ہونے والی امن کانفرنس سے ہمیں خدشہ ہے کہ افغان طالبان کا لڑائی کو جہاد قرار دینے کا جواز چھین لیا جائیگااور یہ ہمارے لیے یقیناً اب تک کا سب سے بڑا نقصان ہوگا۔کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ ان کے ’جہاد‘ کو فساد کے الفاظ سے پکارے اور نہ ہم ایسا کسی کو کرنے دیں گے۔ اسلامی کانفرنس کو ان کی ’جائز جدوجہد‘ کی حمایت کرنی چاہیے۔جمعرات کو ساڑھے اٹھ سو الفاظ پر مشتمل اپنے طویل بیان میں افغان طالبان نے افغانستان میں جاری 17 سالہ مزاحمت کو ’جہاد‘ سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب ایک اسلامی ملک ہے ان کے علما سے یہ توقع نہیں رکھتے کہ کفر اور اسلام کی جنگ میں وہ امریکا جیسے حملہ آور کا ساتھ دے گا۔افغانستان کے مسائل سے متعلق سعودی عرب میں ہونےوالی امن کانفرنس سے ہمیں خدشہ ہے کہ افغان طالبان کا لڑائی کو جہاد قرار دینے کا جواز چھین لیا جائیگااور یہ ہمارے لیے یقیناً اب تک کا سب سے بڑا نقصان ہوگا۔کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ ان کے ’جہاد‘ کو فساد کے الفاظ سے پکارے اور نہ ہم ایسا کسی کو کرنے دیں گے۔ اسلامی کانفرنس کو ان کی ’جائز جدوجہد‘ کی حمایت کرنی چاہیے۔ (ٓن لائن)
امریکہ، طالبان سے براہ راست مذاکرات پر تیار
امریکا کے مو¿قر روزنامے نیویارک ٹائمز نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلیٰ امریکی سفارت کاروں کو طالبان کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کرنے کی ہدایت کر دی ہے۔ نیویارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ٹرمپ کی جانب سے دی جانے والی یہ ہدایت افغانستان سے متعلق امریکی پالیسی میں بنیادی تبدیلی کا مظہر ہے۔اخبار کے مطابق امریکی پالیسی میں آنے والی اس تبدیلی کی کئی اعلیٰ امریکی اور افغان حکام نے بھی تصدیق کردی ہے۔نیویارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ اعلیٰ امریکی سفارت کاروں نے حال ہی میں براہِ راست مذاکرات کی تیاری کے سلسلے میں افغانستان اور پاکستان کے دورے کیے جہاں افغان تنازع کے اہم فریقوں سے اس معاملے پر بات چیت کی گئی۔ رپورٹ کے مطابق امریکی اور افغان حکام کا اتفاق ہے کہ افغان عمل میں تیزی اور افغانستان سے امریکا کے انخلا کا واحد راستہ یہ ہے کہ امریکا طالبان کے ساتھ مذاکرات میں براہِ راست حصہ دار بنے۔ طالبان افغان حکومت کو غیر ملکی کٹھ پتلی قرار دیتے ہوئے اس کے ساتھ مذاکرات کے امکان کو مسترد کرتے آئے ہیں اور ان کا مو¿قف رہا ہے کہ افغانستان میں لڑائی روکنے اور قیامِ امن کے لیے وہ صرف امریکا اور اس کے ناٹو اتحادیوں سے ہی بات چیت کریں گے۔امریکی اخبار لکھتا ہے کہ تاحال ان براہِ راست مذاکرات کے لیے کسی تاریخ کا تعین نہیں کیا گیا ہے اور یہ خدشہ بھی موجود ہے کہ طالبان کے ساتھ بات چیت پر امریکا کی آمادگی کے باوجود یہ بیل منڈھے نہ چڑھے لیکن اخبار کے بقول امریکی حکومت کی 17سال بعد طالبان کے ساتھ مذاکرات پر آمادگی یہ ظاہر کرتی ہے کہ ٹرمپ حکومت افغانستان کی صورت حال میں کسی جوہری تبدیلی کی خواہش مند ہے۔پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں نے باضابطہ طور پر نیویارک ٹائمزکی اس رپورٹ پر کسی ردِ عمل کا اظہار نہیں کیا ہے۔بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکااور طالبان کے درمیان براہِ راست بات چیت ہونے کی صورت میں پاکستان کے اوپر سے دبا و¿کم تو ہو جائے گا لیکن پاکستان سے پھر بھی توقع ہو گی کہ وہ طالبان کو اس بات پر راضی کرے کہ وہ مذاکرات کے دوران کوئی نئی شرائط عاید نہ کریں۔