پنجاب کے دارالحکومت لاہور کو پاکستان کی سیاست میں ہمیشہ بہت زیادہ اہمیت حاصل رہی ہے، اور خطے میں اٹھنے والی ہر تحریک کو لاہور میں حاصل تحرک اس کی کامیابی کا ضامن قرار پایا ہے۔ چنانچہ بانیٔ پاکستان اور ان کے ساتھیوں نے جب برصغیر میں مسلمانوں کو اپنے دین کے عطا کردہ نظام کے تحت زندگی بسر کرنے کے لیے الگ اسلامی مملکت کے قیام کی جدوجہد شروع کرنے کا فیصلہ کیا تو اس جدوجہد کا آغاز بھی پورے ہندوستان سے مسلمانوں نے لاہور کی تاریخی بادشاہی مسجد کے میناروں کے زیرسایہ اقبال پارک جو اُس وقت منٹو پارک کہلاتا تھا، میں جمع ہوکر 23 مارچ 1940ء کو ’’قرارداد لاہور‘‘ جو بعد میں ’’قرار دادِ پاکستان‘‘ قرار پائی، منظور کرکے کیا۔ اس قرارداد کی منظوری کے محض سات سال بعد پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک نئی اسلامی مملکت اور زندۂ جاوید حقیقت کی صورت میں نمودار ہوچکا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد بھی سیاست و ریاست میں لاہور کی اس اہم حیثیت میں کمی نہیں آئی، بلکہ کسی بھی تحریک کی کامیابی کے لیے زندہ دلانِ لاہور کی اس میں بھرپور شرکت شرطِ لازم قرار پائی۔ تحریکِ قیام پاکستان کے بعد تحریکِ ختم نبوت، تحریکِ نظام مصطفی ؐ اور تحریکِ بحالیٔ جمہوریت اس کی نمایاں مثالیں ہیں، ان کے علاوہ بھی متعدد چھوٹی بڑی تحریکوں میں لاہور کو مرکزی حیثیت حاصل رہی۔
لاہور کی اس اہمیت کے پیش نظر انتخابی تاریخ میں بھی قومی سیاست میں کامیابی کے لیے بڑی بڑی سیاسی شخصیات نے لاہور کی انتخابی معرکہ آرائی میں حصہ لینا ضروری سمجھا۔ چنانچہ ملکی تاریخ کے اہم ترین انتخابات جو 1970ء میں منعقد ہوئے، ان میں پیپلزپارٹی کے بانی سربراہ ذوالفقار علی بھٹو نے لاڑکانہ اور بعض دیگر حلقوں کے علاوہ لاہور چھائونی کے حلقے سے بھی انتخاب میں حصہ لیا۔ شاعرِ مشرق مصورِ پاکستان علامہ اقبال کے فرزند جاوید اقبال کونسل مسلم لیگ کے ٹکٹ اور جماعت اسلامی کی حمایت سے اُن کے مقابلے کے لیے میدان میں اترے، جب کہ 1965ء کی جنگ میں شہرت حاصل کرنے والے جنرل سرفراز نواب زادہ نصر اللہ خان مرحوم کی پاکستان جمہوری پارٹی کے امیدوار کے طور پر سامنے آئے۔ کامیابی بھٹو کے حصے میں آئی، جن کی جانب سے یہ نشست بعد ازاں خالی کیے جانے پر میاں خورشید محمود قصوری کے والد ممتاز قانون دان میاں محمود علی قصوری ضمنی انتخاب میں یہاں سے کامیاب ہوکر بھٹو کابینہ میں وزیر قانون بنے۔ جماعت اسلامی کے سابق امیر میاں طفیل محمد نے بھی ان انتخابات میں اچھرہ کے انتخابی حلقے سے حصہ لیا، ان کے مقابلے میں بابائے سوشلزم کہلانے والے شیخ رشید پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے۔ اسی طرح ان انتخابات میں ملک معراج خالد، ڈاکٹر مبشر حسن، حنیف رامے اور بہت سی دیگر اہم شخصیات نے لاہور سے کامیابی حاصل کی اور اسپیکر قومی اسمبلی، وزیر اعلیٰ پنجاب اور وفاقی و صوبائی وزارتوں کے قلم دان سنبھالے۔ بعد کے انتخابی معرکوں میں بھی لاہور سے اہم سیاسی شخصیات کامیابی حاصل کرتی اور حکومت میں اہم مناصب سنبھالتی رہیں۔ حالیہ سیاسی تاریخ میں اس ضمن میں شریف برادران میاں نوازشریف اور میاں شہبازشریف کا نام نمایاں ہے، جنہوں نے لاہور سے منتخب ہونے کے بعد وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے مناصب سنبھالے اور ملک اور صوبے کے سیاہ و سفید کے مالک بنے۔
25 جولائی 2018ء کے عام انتخابات کے لیے کی گئی حلقہ بندی کے مطابق اِس بار قومی اسمبلی کی 14، جب کہ صوبائی اسمبلی کی 30 نشستیں لاہور کے حصے میں آئی ہیں، جب کہ 2013ء کے انتخابات میں ان کی تعداد بالترتیب 13 اور 26 تھی۔ یوں مردم شماری اور نئی حلقہ بندی کے نتیجے میں لاہور میں قومی اسمبلی کی ایک، جب کہ صوبائی اسمبلی کی چار نشستوں کا اضافہ ہوگیا ہے۔ سرکاری طور پر جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق لاہور میں رائے دہندگان کی مجموعی تعداد 53 لاکھ 98 ہزار 622 ہے، جن میں سے مرد ووٹروں کی تعداد 30 لاکھ 12 ہزار 260، جب کہ خواتین کی 23 لاکھ 86 ہزار 362 ہے۔ شہر میں انتخابی عمل کو پُرسکون ماحول میں مکمل کرنے کے لیے 3 ہزار 887 پولنگ اسٹیشن بنائے جارہے ہیں جن میں سے 1232 مردوں اور 1162 خواتین کے لیے مخصوص ہوں گے۔ ان کے علاوہ 1483 پولنگ اسٹیشن ایسے ہوں گے جن میں مرد اور خواتین دونوں اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ کے علاوہ 1483 پولنگ اسٹیشن ایسے ہوں گے جن میں مرد اور خواتین دونوں اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔
2018ء کے عام انتخابات میں بھی 25 جولائی کو اہم ترین سیاسی دنگل لاہور ہی میں ہوں گے جن میں پنجہ آزمائی کے لیے بڑے بڑے نامی گرامی سیاسی پہلوان میدان میں اتر چکے ہیں۔ یوں تو سیاست میں آئے روز نئے حالات اور نئی صورتِ حال جنم لیتی رہتی ہے، تاہم اب تک کی صورتِ حال کی روشنی میں اس انتخابی معرکے کی دو سب سے بڑی مدمقابل سیاسی جماعتوں کے سربراہ اور ملک کے متوقع وزیراعظم لاہور سے انتخابات کے میدان میں اترے ہیں۔ سابق حکمران جماعت نواز لیگ کے موجودہ صدر اور اب تک کے نامزد وزیراعظم میاں شہبازشریف لاہور کے حلقہ این اے 132 سے میدان میں اترے ہیں۔ یوں تو اس حلقے میں 24 امیدوار ہیں، تاہم میاں شہبازشریف کا اصل مقابلہ تحریک انصاف کے منشاء سندھو اور پیپلز پارٹی کی سابق وفاقی وزیر ثمینہ خالد گھرکی سے ہے۔ لاہور کا دوسرا اہم ترین انتخابی معرکہ این اے 131 میں ہوگا جہاں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا مقابلہ نواز لیگ کے سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق سے ہے۔ اس حلقے میں متحدہ مجلس عمل کے وقار ندیم وڑائچ اور برابری پارٹی کے سربراہ معروف گلوکار جواد احمد سمیت 18 امیدوار میدان میں ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں یہ حلقہ این اے 125 تھا اور خواجہ سعد رفیق نے ممتاز قانون دان، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور تحریک انصاف کے بانی نائب صدر حامد خان کو شکست دی تھی۔ یہ اُن چار حلقوں میں شامل تھا جہاں دھاندلی کے خلاف عمران خان نے طویل دھرنا دیا اور قانونی جنگ بھی لڑی، اور بعد ازاں اس حلقے میں دوبارہ انتخابات کا حکم دیا گیا، مگر خواجہ سعد رفیق نے عدالتِ عظمیٰ سے حکم امتناعی کے سہارے اپنی مدت مکمل کی۔
اِس مرتبہ حامد خان کو پارٹی نے ٹکٹ نہیں دیا اور عمران خان خود پنجہ آزمائی کے لیے سامنے آئے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ 25 جولائی کو عمران خان اور خواجہ سعد رفیق میں سے کس کی قسمت یاوری کرتی ہے۔
تیسرا اہم معرکہ حلقہ این اے 129 میں متوقع ہے، جہاں نواز لیگ کے سابق اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کے مقابلے میں تحریک انصاف کے علیم خان میدان میں ہیں۔ 2013ء کے عام انتخابات میں ایاز خان صادق کا مقابلہ خود عمران خان نے کیا تھا۔ یہ حلقہ بھی اُن چار حلقوں میں شامل تھا جنہیں کھولنے کا مطالبہ عمران خان نے کیا تھا اور عدالت نے یہاں بھی اُن کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے اس حلقے میں ازسرنو انتخابات کا حکم دیا تھا اور ایاز صادق نے اس عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کا حق استعمال کرنے کے بجائے ازسرنو ضمنی انتخاب کے لیے میدان میں اترنا پسند کیا تھا، چنانچہ یہاں ضمنی انتخاب میں بڑے زور کا معرکہ ہوا تھا۔ اس ضمنی انتخاب میں بھی ایاز صادق کے مقابلے میں عمران خان نے علیم خان کو نامزد کیا تھا۔ ضمنی انتخاب میں بھی علیم خان نے پیسہ پانی کی طرح بہایا تھا کہ وہ جہانگیر ترین کے بعد عمران خان کی دوسری بڑی اے ٹی ایم کے طور پر مشہور ہیں۔ موجودہ انتخابات میں بھی وہ بے پناہ سرمایہ خرچ کررہے ہیں۔ وہ صوبائی اسمبلی میں بھی امیدوار ہیں اور تحریک انصاف کی کامیابی کی صورت میں بزعم خویش پنجاب کے وزیراعلیٰ کے امیدوار ہیں۔ ان کے مدمقابل سابق اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق اپنے روایتی اور پارٹی ووٹ بینک پر زیادہ انحصار کررہے ہیں۔ دونوں میں سے جو بھی جیتے، مقابلہ بہرحال بہت سخت ہے۔
متحدہ مجلس عمل اور جماعت اسلامی کے سیکریٹری جنرل لیاقت بلوچ بھی لاہور کے حلقہ این اے 130 سے میدان میں ہیں۔ وہ اس حلقے سے ماضی میں کم از کم تین بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہوچکے ہیں۔ اس دفعہ ان کا مقابلہ تحریک انصاف کے شفقت محمود سے ہے جو 2013ء کے انتخابات میں بھی یہاں سے کامیاب ہوئے تھے، جب کہ نواز لیگ نے لاہور کے سابق لارڈ میئر خواجہ احمد حسان کو ٹکٹ دیا ہے، وہ 2013ء میں اسی حلقے سے پارٹی کے امیدوار تھے۔ یوں این اے 130 میں تینوں اہم امیدوار وہی ہیں جن کا 2013ء میں باہم مقابلہ ہوا تھا۔ خواجہ احمد حسان اگر لاہور کے ترقیاتی کاموں کے مدارالمہام کی حیثیت سے خود کو برتر سمجھتے ہیں تو شفقت محمود ملک بھر میں موجود تحریک انصاف کے حق میں موافق فضا کو اپنی کامیابی کی ضمانت سمجھتے ہیں، جب کہ لیاقت بلوچ جو 2013ء میں صرف جماعت اسلامی کے امیدوار تھے، جب کہ اب متحدہ مجلس عمل کی دیگر جماعتوں کی حمایت بھی انہیں حاصل ہے۔ اس کے علاوہ ملّی مسلم لیگ، تحریک اللہ اکبر اور علاقے کی متعدد دیگر سیاسی و سماجی تنظیموں نے بھی ان کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
ان اہم مقابلوں کے علاوہ متحدہ مجلس عمل کے مرکزی ترجمان امیرالعظیم این اے 135 سے امیدوار ہیں۔ اس حلقے میں ان کے مدمقابل تحریک انصاف اور نواز لیگ کے دونوں امیدواروں کا تعلق کھوکھر برادری سے ہے جس کی اس حلقے میں خاصی اکثریت آباد ہے۔ نواز لیگ نے ملک سیف کھوکھر، جب کہ تحریک انصاف نے کرامت علی کھوکھر کو ٹکٹ دیئے ہیں۔ یوں حلقے میں خاصا اثر رسوخ رکھنے کے باوجود برادری کے ووٹ تقسیم ہونے کا فائدہ امیرالعظیم کو پہنچے گا جنہوں نے اپنی انتخابی مہم سب سے پہلے اور منظم انداز میں چلائی ہے۔ نواز لیگ کے صدر شہبازشریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز، سابق وفاقی وزیر تجارت پرویز ملک، تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اعجاز چودھری اور ڈاکٹر یاسمین راشد بھی لاہور کے اہم امیدواروں میں شمارکیے جاتے ہیں اور آئندہ حکومت سازی میں ان کا مؤثر کردار ہوگا۔