برطانیہ کی پہلی مسجد اور اس کے بانی۔ اصلاح طلب باتیں

ابوسعدی

فرائیڈے اسپیشل کے شمارہ 29 جون میں نسیم احمد باجوہ صاحب کا ایک مختصر مضمون برطانیہ کی پہلی مسجد کے حوالے سے شائع ہوا ہے جس میں کچھ باتیں اصلاح طلب ہیں۔ اس مسجد کے بانی ڈاکٹر ولیم لیٹنر (1849-1899) آبائی طور پر انگریز نہیں تھے بلکہ ان کا تعلق ہنگری کے ایک یہودی خاندان سے تھا اور وہ انیسویں صدی عیسوی کے ایک نامور مستشرق تھے۔ انہیں اسلامی تہذیب و ثقافت سے گہرا قلبی تعلق تھا اور وہ ساری ہی اسلامی زبانوں یعنی عربی، فارسی، اردو اور ترکی کے ماہر تھے۔ وہ 1864ء میں ہندوستان آگئے تھے اور لاہور میں ان کا تقرر ڈائریکٹر تعلیم کی حیثیت سے ہوا تھا، اور وہ اکیس سال تک یہاں مقیم رہے تھے۔ وہ اورینٹل کالج کے بانی پرنسپل تھے۔ ڈائریکٹر تعلیم کی حیثیت سے انھوں نے ہندوستان کے مختلف شہروں میں متعدد تعلیمی ادارے قائم کیے تھے۔
1884ء میں ڈاکٹر لیٹز انگلینڈ چلے گئے اور لندن کے نواح میں ایک خوش منظر قصبے ووکنگ میں رہائش اختیار کی۔ اس قصبے کے وسط میں رائل ڈرامیٹک کالج کی عمارت تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے یہ عمارت خرید لی اور عزم کرلیا کہ وہ اس جگہ پر مسجد تعمیر کریں گے۔ موصوف محترم کے مزاج، کردار اور عمومی رویوں کے پیش نظر اُن کے جاننے والے اکثر لوگوں کا گمان یہ تھا کہ وہ اندرونِ خانہ مسلمان ہوچکے ہیں، مگر کسی مصلحت کے تحت انہوں نے اس کا اعلان نہیں فرمایا تھا۔
اسے حُسنِ اتفاق ہی کہنا چاہیے کہ جن دنوں ڈاکٹر لیٹز نے مسجد کے لیے جگہ خریدی اُن دنوں نواب آف بھوپال کی بیگم محترمہ شاہجہاں اپنے بیٹے کے علاج کے سلسلے میں لندن آئی ہوئی تھیں۔ اس نوجوان شہزادے کو کوئی پیچیدہ مرض لاحق تھا اور وہ کسی علاج سے ٹھیک نہیں ہورہا تھا۔ لندن کے بہترین ڈاکٹر بیماری کی تشخیص میں ناکام رہے تھے اور انھوں نے شہزادے کو لاعلاج قرار دے دیا تھا، جس کی وجہ سے بیگم بھوپال بے حد پریشان تھیں۔ اسی ماحول میں ڈاکٹر لیٹز نے بیگم بھوپال سے ملاقات کی، بیٹے کی بیماری کے حوالے سے اُن سے اظہارِ ہمدردی کیا اور توجہ دلائی کہ میں نے ووکنگ میں ایک عمارت خریدی ہے اور اسے گرا کر وہاں مسجد تعمیر کرنا چاہتا ہوں، آپ براہِ کرم اس کے لیے مالی تعاون فرمائیں۔
بیگم شاہجہاں ہندوستان میں ڈاکٹر لیٹز کی تعلیمی خدمات سے بخوبی واقف تھیں اور ان کے دل میں موصوف کے لیے خصوصی قدر اور احترام تھا، چنانچہ انھوں نے مسجد کی تعمیر کے منصوبے کی تعریف کی اور فوری طور پر ایک ہزار پونڈ کی رقم انہیں پیش کردی۔ اُس زمانے میں یہ بہت بڑی رقم تھی اور اس سے بہت کشادہ، خوب صورت اور شاندار مسجد تعمیر ہوگئی جو آج تک مسجد شاہجہاں کے نام سے قائم ہے اور ڈاکٹر لیٹز اور بیگم بھوپال کے لیے مستقل صدقۂ جاریہ کی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔ خاص بات یہ بھی ہے کہ انگلینڈ کی سرزمین پر یہ پہلی مسجد تھی جو معرضِ وجود میں آئی تھی۔
بے حد حیرت انگیز اور ایمان افروز بات یہ ہے کہ جس روز بیگم شاہجہاں نے مسجد کی تعمیر کے لیے یہ خطیر رقم عطا کی اُن کا بیٹا اُسی روز سے شفایاب ہونا شروع ہوگیا اور چند ہی روز میں اس کی بیماری کے سارے آثار ختم ہوگئے۔ یہ منظر دیکھ کر اس کے سارے ہی معالج حیرت زدہ رہ گئے۔ (سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم)یہ معلومات میں نے مشہور صحافی جناب سلطان محمود کے مضمون مطبوعہ ’’نوائے وقت‘‘ میگزین مورخہ 31 جنوری 2010ء سے اخذ کی ہیں۔

بہت گھمنڈ لنکا ڈھائے

غرور اور گھمنڈ کرنے والے شخص کو ایک نہ ایک دن نیچا دیکھنا پڑتا ہے۔ اس کہاوت کے پس منظر میں لنکا کے راجا راون کے غرور کی کہانی بہت مشہور ہے جو اس طرح ہے: زمانۂ قدیم میں سونے کی لنکا پر کبیر کا قبضہ تھا۔ کبیر کے پاس سونے، چاندی، ہیرے، جواہرات اور دولت کے بے شمار خزانے تھے۔ راون، کبیر کا پیدائشی دشمن تھا۔ اس نے کبیر کی دولت کو دیکھ کر قسم کھائی کہ میں بھی کبیر کی طرح دولت مند اور لنکا کا راجا بن کر ہی دم لوں گا، لہٰذا وہ اپنے دونوں بھائیوں کنھ کرن اور وبھیشن کو ساتھ لے کر تپسیا کرنے لگا۔ دس ہزار سال تک تپسیا کرنے کے بعد بھی جب اس کی مراد پوری نہ ہوئی تو اس نے اپنے دسوں سرکاٹ کر آگ میں ڈال دیے۔ تب برہما نے خوش ہوکر دعا دی کہ دیتیہ، دانو، یکچھ وغیرہ تمہیں کبھی مارنہ سکیںگے۔ راون اس دعا سے غرور اور گھمنڈ سے پھول گیا۔ اس نے لنکا کے راجا کبیر کو شکست دے کر لنکا پر قبضہ کرلیا اور خودرا جا بن بیٹھا۔ کبیر لنکا چھوڑ کر کیلاش پہاڑ پر چلے گئے۔ برہما کی دعا کے اثر سے راون نے تینوں لوک فتح کرلیے اور اندر، یم وغیرہ کو بھی شکست دے دی۔ تینوں لوک فتح کرنے کے بعد راون اور بھی مغرور اور گھمنڈی ہوگیا۔ اس کا ظلم بڑھ گیا تھا۔ وہ ہر ایک کو ستانے لگا تھا، یہاں تک کہ نوجوان لڑکیوں اور عورتوں کو اغوا بھی کرنے لگا تھا۔ ایک مرتبہ سہس ترار جن نے راون کو جنگ میں ہرا کر قید کرلیا تھا مگر پکستیہ کے کہنے پر چھوڑ دیا تھا۔ بالی نے بھی ایک بار راون کو شکست دی تھی۔ جس وقت رام چندر جی اپنے بھائی لکچھمن اور بیوی سیتا کے ساتھ ڈنڈکارنیہ میں بنباس کی مدت گزار رہے تھے، اس وقت وہ سیتا کی خوبصورتی کے چرچے سن کر گھمنڈ سے چور اس جنگل میں بھکاری کے بھیس میں آیا اور اکیلا پا کر چھل کپٹ سے سیتا کو اٹھا کر لنکا لے گیا۔ جب رام چندر جی کو خبر ہوئی تو انہوں نے بندروں کو فوج لے کر مندر پر پل بنا کر لنکا پر چڑھائی کردی۔ جنگ میں مغرور راون اور اس کے ساتھی مارے گئے۔ رام نے لنکا کی حکومت راون کے بھائی و بھیشن کے سپرد کی اور سیتا جی کو اپنے ساتھ لے کر اجودھیا آئے۔ اس طرح مغرور اپنے انجام کو پہنچا۔

سابقہ وزیر کی فریاد

پروفیسر عنایت علی خان

مجھے اک بار تم ووٹ دے دو
مرا منشور ہے بس خدمتِ قوم
مرا مقصود ہے بس عظمتِ وم
مجھے پیاری ہے بے حد عزتِ قوم
رُلاتی ہے مجھے یہ ذلتِ قوم
مجھے اک بار تم ووٹ دے دو
اگر میں اِس دفعہ پھر جیت جائوں
کروں گا کیا تمہیں کیا کیا بتائوں
خوشی سے تم کہیں پاگل نہ ہو جائو
میں اپنے خواب کیا تم کو سنائو
مجھے اک بار پھر تم ووٹ دے دو
خدا جانے مجھے کیا ہو گیا تھا
ضمیر آخر مرا کیوں سو گیا تھا
وزارت کا چڑھا تھا ایسا نشّہ
میں اک چُلّو میں اُلّو ہو گیا تھا
مجھے ایک بار تم پھر ووٹ دے دو
نہ کوئی بعد ازاں فاقے کرے گا
چکن کھا کر مرے گا جو مرے گا
جو گھنٹہ بھر کو مزدوری کرے گا
تو سیم و زر سے اس کا گھر بھرے گا
مجھے اک بار پھر تم ووٹ دے دو
میرا گلشن اجڑ جائے نہ یارو
بنی قسمت بگڑ جائے نہ یارو
یہ میرے عیش و عشرت کا گھنا پیڑ
کہیں جڑ سے اکھڑ جائے نہ یارو
مجھے اک بار پھر تم ووٹ دے دو
دلدّر دور ہو جائیں گے پیارے
ترقی پیر چومے گی تمہارے
ہر اک ووٹر کے ہوں گے وارے نیارے
جو بل ہیں نوٹ بن جائیں گے سارے
مجھے اک بار پھر تم ووٹ دے دو
نہ ہو گا ملک میں پھر کوئی کنگلا
ہر اک کنگلے کو بنوا دوں گا بنگلا
عدالت سے میں ہٹوا دوں گا جنگلا
ہر اک جوہڑ کو بنوا دوں گا منگلا
مجھے اک بار پھر تم ووٹ دے دو
مرے کرتوت پچھلے بھول جائو
میں اک اک زخم کا بھر دوں گا گھائو
چلو تم میرے گھر کھائو پلائو
مگر للہ مجھ پر رحم کھائو
مجھے اک بار پھر تم ووٹ دے دو