پاکستان میں مزاحمتی ٹائیفائیڈ کی وبا پھوٹنے کی وجہ سے امریکہ نے پاکستان سفر کرنے والے اپنے شہریوں کے لیے وارننگ جاری کرتے ہوئے انھیں احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا کہا ہے۔ایکس ڈی آر نامی ٹائیفائیڈ کی اس قسم کے بارے میں 2016ء میں معلوم ہوا تھا جب صوبہ سندھ کے دو علاقوں لطیف آباد اور قاسم آباد میں اس بیماری کے چند کیس رپورٹ ہوئے تھے۔ آغا خان یونیورسٹی اور برطانیہ کی کیمبرج یونیوسٹی کے طبی ماہرین کی تحقیق کے مطابق اس نئی قسم پر بہت کم اینٹی بائیوٹکس اثر کرتی ہیں اور یہ دوبارہ خودبخود جنم لے لیتی ہے۔ سی ڈی سی کے مطابق ان علاقوں کا، جن میں اس قسم کے ٹائیفائیڈ کے کیس رپورٹ ہوچکے ہیں، سفر کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ خوراک اور پانی کے حوالے سے ہدایات پر عمل کریں۔
اس بارے میں آغا خان یونیورسٹی سے وابستہ طاہر یوسف زئی نے بی بی سی کو بتایا کہ نومبر 2016ء میں اس ٹائیفائیڈ کے بارے میں معلوم ہونے کے بعد اس پر تحقیق کی گئی جس سے مزید پتا چلا کہ اس بیماری کے جراثیم پانچ اینٹی بائیوٹکس کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں۔ اس بیماری کے لیے جو احتیاطی تدابیر اختیار کی جا سکتی ہیں ان میں پانی ابال کر استعمال کرنا بھی شامل ہے۔طاہر یوسف زئی کے مطابق یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اس بیماری سے متاثر ہونے والوں میں زیادہ تعداد چھوٹے بچوں کی ہے، اور بچوں کے لیے جو ویکسین اس وقت موجود تھی وہ عالمی ادارۂ صحت سے منظور شدہ نہیں تھی۔ انھوں نے مزید بتایا کہ اب تک اس ٹائیفائیڈ کے تقریباً ایک ہزار کیس رپورٹ ہوچکے ہیں۔ تیز بخار اس کی علامات میں سے ایک ہے، تاہم ایسا بخار جو تین یا اس سے زیادہ دنوں تک رہے اور عام ادویہ سے دور نہ ہو۔ اس کے علاوہ جسم میں درد، پیٹ میں درد اور قے آنا اس کی علامات میں شامل ہیں۔ تاہم طاہر یوسف زئی کے مطابق ٹائیفائیڈ اور ملیریا جیسی بیماریوں کی علامات تقریباً ایک جیسی ہی ہوسکتی ہیں، اس لیے سب سے پہلے خون کا ٹیسٹ کروانا ضروری ہے تاکہ اس بات کی تصدیق ہوسکے کہ یہ علامات کہیں ٹائیفائیڈ کی تو نہیں! اس قسم کی بیماری سے بچنے کے لیے سب سے ضروری اور پہلا کام ویکسین لگوانا ہے۔ چونکہ اس بیماری سے متاثرہ افراد میں زیادہ تر 15 سال سے کم عمر کے بچے ہیں، لیکن بڑی عمر کے افراد کو بھی ویکسین لگوانی چاہیے۔ اس کے علاوہ جو احتیاطی تدابیر اختیار کی جا سکتی ہیں ان میں پانی ابال کر استعمال کرنا، بازار سے ملنے والی برف سے دور رہنا، ٹھیلے وغیرہ پر سے کھانے پینے کی اشیاء خریدنے سے قبل اس بات کا اطمینان کرلینا کہ وہ حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطابق ہیں، شامل ہیں۔ صفائی کا خاص خیال رکھنا، سیوریج کا نظام بہتر بنانا اور گھروں میں موجود ٹنکیوں میں پانی کو صاف کرنے والی گولیوں کا استعمال بھی ان احتیاطی تدابیر میں شامل ہے۔
پاکستان میں آنکھوں کے علاج کے لیے مختلف اور نئی تکنیک متعارف
پاکستان میں آنکھوں کے علاج کے لیے مختلف اور نئی تکنیک متعارف کرائی گئی ہیں۔ ملک میں ہر سال 50 ہزار افراد نابینا پن کا شکار ہوجاتے ہیں، ایسے مریضوں کا قرنیہ تبدیل کرکے ان کی بینائی کو بحال کیا جاسکتا ہے، جبکہ سی ایکس ایل تکنیک کے ذریعے آنکھوں کے قرنیہ کو خراب ہونے سے روکا جاسکتا ہے۔
ماہرِ امراضِ چشم ڈاکٹر شریف ہاشمانی نے امراض چشم میں متعارف کرائی جانے والی نئی تکنیک کے حوالے سے بتایا کہ آنکھوں کی خرابیوں اور آنکھوں کے پردے سمیت آنکھ کے اندر موجود چھپی ہوئی بیماریوں کی تشخیص کی نئی تکنیک دریافت کرلی گئی ہے، کمزور آنکھوں والے افراد جو عینک استعمال کرتے ہیں نئی تکنیک کے ذریعے اُن کی عینک سے ہمیشہ کے لیے جان چھڑائی جاسکتی ہے۔
نئی تکنیک کی مدد سے آنکھوں سے موتیا نکالنے کے ساتھ ساتھ چشمے کے خاتمے کا بھی علاج شروع کردیا گیا ہے ۔
پانی سے بجلی اور سونے کے ذرات
پانی سے بجلی بنانے کا ایک پرانا طریقہ یہ ہے کہ پہلے پانی کے سالموں (مالیکیولز) کو توڑ کر آکسیجن اور ہائیڈروجن الگ کرلی جائیں، جنہیں بعد ازاں آپس میں ملا کر دوبارہ پانی بنالیا جائے، اور اس دوران خارج ہونے والی توانائی کو بجلی میں تبدیل کرلیا جائے۔ تاہم یہ طریقہ اب تک تجارتی پیمانے پر کچھ خاص کامیاب نہیں ہوسکا، کیونکہ یہ بہت مہنگا ہے اور اس میں پلاٹینیم جیسی قیمتی دھات استعمال کی جاتی ہے۔
مگر اب رٹگرز یونیورسٹی نے پانی سے ہائیڈروجن علیحدہ کرنے کا ایک نیا طریقہ وضع کرلیا ہے جو اب تک دستیاب کسی بھی دوسرے طریقے کے مقابلے میں 4 گنا بہتر طور پر ہائیڈروجن حاصل کرسکتا ہے۔اس کی تفصیلات تحقیقی جریدے ’’کیم‘‘ (Chem) کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ اس نئے طریقے میں سونے کے ایسے ننھے ننھے ذرّات استعمال کیے گئے ہیں جن کی جسامت نینومیٹر پیمانے کی ہے اور جو ستارے جیسی شکل کے ہیں۔ ان پر ایک خاص طرح کے سیمی کنڈکٹر (نیم موصل) مادّے کی پرت چڑھاکر انہیں اس قابل بنایا گیا ہے کہ سورج کی روشنی (دھوپ) استعمال کرتے ہوئے، پانی سے ہائیڈروجن الگ کرسکیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اس طریقے کی کارکردگی، پانی سے ہائیڈروجن (اور آکسیجن) الگ کرنے والے موجودہ طریقوں کے مقابلے میں 4 گنا زیادہ ہے۔ علاوہ ازیں پانی سے ہائیڈروجن علیحدہ کرنے کے طریقوں میں اب تک الٹرا وائلٹ شعاعیں استعمال کی جاتی تھیں جن کی خاصی کم مقدار دھوپ کے ساتھ زمین تک پہنچتی ہے، جبکہ مصنوعی ذرائع سے الٹرا وائلٹ شعاعوں کا حصول خصوصی انتظامات کا تقاضا کرتا ہے جس کے باعث یہ تمام طریقے بہت مہنگے ہوجاتے ہیں۔ لارا فیبرس کے مطابق یہ اپنی نوعیت کی پہلی کامیابی ہے، جبکہ اس کارکردگی کو مزید بہتر بنانے کے لیے وہ اور ان کے ساتھی دوسرے مادّوں کو بھی آزمائیں گے تاکہ مستقبل میں صاف ستھری بجلی کا حصول کم خرچ بنایا جاسکے۔