ابوالاثر حفیظ جالندھری کو کسی نے یہ شعر سنایا:
دیکھا جو تیر کھا کے کمین گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
حفیظ صاحب نے پوچھا ’’یہ کس کا شعر ہے؟‘‘ کہا ’’آپ ہی کا تو ہے‘‘۔ کہنے لگے ’’میں نے تو یہ کہا تھا ’’دیکھا جو کھا کے تیر کمین گاہ کی طرف‘‘۔
اس شعر کا چرچا یوں ہوا کہ اے این پی کے رہنما غلام احمد بلور نے سانحہ یکہ توت کے پس منظر میں یہ شعر پڑھا ہے اور اسی طرح پڑھا جیسا عوام کی زبان پر چڑھا ہوا ہے۔ مگر حفیظ نے اسے اپنا شعر تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ غلط العوام شعر میں عیبِ تنافر ہے۔ شاعری کی اصطلاح میں یہ عیب وہ ہے جس میں کسی لفظ کے آخری حرف سے دوسرا لفظ شروع ہوتا ہو جیسے ’’کھا کے کمین‘‘۔ اس میں دو ’ک‘ ٹکرا دیے ہیں۔ تنافر عربی کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے نفرت کرنا، بھاگنا۔ اصطلاح علم معانی میں ایسے الفاظ کا جمع ہونا جن کا تلفظ ثقیل ہو یا دو ت آپس میں ٹکرا رہے ہوں۔ مرزا غالب نے اپنے ایک بہت اچھے شعر کو دیوان سے خارج کردیا، کیونکہ اس میں بھی یہی عیب تھا یعنی ’’ایک نقشِ پا پایا‘‘۔ تنافر صرف شعر ہی میں نہیں، عام زندگی خصوصاً سیاست میں عام ہے۔
گزشتہ دنوں ہمارے ہم کار (کار اُن کے پاس ہے نہ ہمارے پاس) فیض عالم بابر نے مصرع کی صورت میں ایک محاورہ سنایا ’’تیلی کا بیل کیا جانے جنگل کی سارکو‘‘۔ مفہوم تو سمجھ میں آگیا کہ تیلی کے بیل کا دائرۂ کار محدود ہوتا ہے اور وہ ایک ہی جگہ گھومتا رہتا ہے۔ اس کی آنکھوں پر کھوپے چڑھا دیے جاتے ہیں تاکہ اسے احساس نہ ہو کہ وہ ایک ہی دائرے میں گھوم رہا ہے۔ یعنی یہ نفسیاتی حربہ ہے۔ اور جنگل کا بیل آزادی کے مزے لوٹتا ہے۔ ’سار‘ کا مطلب لغت میں دیکھا تو وہاں تو معانی کی بہار آئی ہوئی ہے۔ میر انیس نے کہا تھا کہ
اک پھول کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں
سار بھی سو سو معانی رکھتا ہے۔ ہندی میں سار کا مطلب ہے: گُن جاننا، قدر پہچاننا۔ یہ بیل پر پورا اترتا ہے۔ لیکن اس کا مطلب وزن اور قیمت بھی ہے۔ فارسی میں اس کا مطلب اونٹ ہے جیسے ’ساربان‘ اور یہ اردو میں عام استعمال میں ہے۔ علاوہ ازیں سار بطور لاحقہ استعمال ہوتا ہے۔ جیسے نگوں سار، خاک سار، کوہ سار، شاخ سار، شرم سار وغیرہ۔
پروفیسر آسی ضیائی (مرحوم) اردو کو درست کرنے کے لیے اپنی کتاب ’’درست اردو‘‘ میں ’’نہ ہی‘‘ کا درست استعمال بتا رہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’اب سے چند سال پہلے تک اردو کے اہلِ ذوق ’’نہ ہی‘‘ کے غلط استعمال پر سخت مکدر اور منغض ہوتے تھے، مثلاً ’’نہ تو آپ خود آئے اور نہ ہی کوئی خط بھیجا‘‘۔ مگر اب یہ عالم ہے کہ شاذ ہی کوئی پڑھا لکھا اسے غلط سمجھتا ہوگا۔ یہاں تک کہ اہلِ زبان ہونے کے دعویداروں میں بھی بے تکلف ’’نہ ہی‘‘ لکھا جانے لگا ہے۔ اگر غلط العام کے اصول کی رو سے دیکھا جائے تو ہمیں اس کو اب درست ہی مان لینا چاہیے (کیا عوام کو بھی مونث تسلیم کرلیں؟) مگر اول تو غلط العام فصیح کا اطلاق اور ہی حالات پر ہوتا ہے جو آج موجود نہیں، اور دوسرے یہ کہ ’’نہ ہی‘‘ کی غلطی آج بھی صرف تحریر تک محدود ہے۔ بول چال میں یہ صرف ان غریب کم خواندہ لوگوں کی زبان سے کبھی کبھی نکل جاتا ہے جو تحریری عبارت کو قولِ فیصل سمجھ کر اس کی تقلید میں گفتگو کرتے ہیں۔ اس کے برعکس قدیم ترین تحریری اردو میں بھی ’’نہ ہی‘‘ یکجا لکھا نہ دیکھا گیا۔ ’’نہ‘‘ اور ’’ہی‘‘ کے بیچ میں کم از کم ایک لفظ ضرور ہوتا ہے۔ شعراء کے ہاں اس کی بکثرت مثالیں ملتی ہیں۔ مثلاً
نہ خدا ہی ملا، نہ وصالِ صنم
یا
نہ تو تُو رہا، نہ تو میں رہا
جو رہی سو بے خبری رہی
……
نہ تو نامہ ہی، نہ پیغام زبانی آیا
……
پانی ہی اب پئیں گے نہ ہی کھانا کھائیں گے
اب اگر سراج دکنی کے مصرع میں ’نہ ہی‘ لکھنا درست ہوتا تو یہ مصرع بڑی آسانی سے یوں لکھا جاسکتا اور بڑا برجستہ ہوتا
’’نہ تو تُو رہا، نہ ہی میں رہا‘‘
’’نہ ہی‘‘ خلاف ِروزمرہ تو ہے ہی، خلافِ قواعد بھی ہے۔ ’’ہی‘‘ حرفِ حصر و تخصیص ہے اور حرفِ تخصیص کے قریب اسمِ مخصوصہ ہونا ضروری ہے جس کی تخصیص ’’ہی‘‘ کرے۔ لیکن ’’نہ ہی‘‘ میں اسم کوئی نہیں، پھر ’’ہی‘‘ کس کی تخصیص کرتا ہے؟ ایسے جملوں میں جن کی مثالیں دی گئیں ’’نہ‘‘ حرف عطف ہے، اسی طرح ’’یا‘‘ بھی حرفِ عطف ہے۔ مگر ’’نہ ہی‘‘ لکھنے والوں کو ’’یا ہی‘‘ لکھتے کبھی نہ دیکھا گیا۔ ازروئے قواعد ’’یا‘‘ اور ’’نہ‘‘ ہم مرتبہ ہیں، پس جو معاملہ ایک کے ساتھ غلط ہے وہ دوسرے کے ساتھ کیوں کر صحیح ہوسکتا ہے! ’’نہ‘‘ اور ’’ہی‘‘ کے درمیان کم از کم ایک لفظ (اسم) لازماً ہونا چاہیے، اور وہ بھی اس صورت میں جب ’’ہی‘‘ کا لانا ناگزیر ہو، ورنہ بغیر ’’ہی‘ کے بھی جملہ صحیح ہوگا۔ چنانچہ اوپر کی مثال میں جملے کی صحیح شکل یہ ہوگی ’’نہ تو آپ خود آئے، اور نہ کوئی خط بھیجا‘‘۔ اگر زور دینے کے لیے ’’ہی‘‘ لانا ضروری ہو تو اس طرح لکھا جائے ’’نہ تو آپ خود آئے اور نہ کوئی خط ہی بھیجا‘‘۔ یا ’’نہ تو آپ خود ہی آئے اور نہ کوئی خط بھیجا‘‘۔
تیسری صورت یہ ہوگی کہ ’’نہ تو آپ خود ہی آئے اور نہ کوئی خط ہی بھیجا‘‘۔ اہلِ زبان کے مطابق دوسری شکل سب سے بہتر ہے۔
ہمارے صحافی بھائی تو اب تک ’’ہی‘‘ کے صحیح استعمال ہی پر آمادہ نہیں ہوئے، ’’نہ ہی‘‘ تو بعد کی بات ہے۔ کہو تو ’’ہی۔ ہی‘‘ کردیتے ہیں۔