چند دن پہلے ایک باپردہ وضع دار خاتون شفاخانے میں تشریف لائیں، اُن کے ساتھ نو دس سال کی عمر کی بیٹی تھی۔ فرمانے لگیں کہ مجھے تنہائی میں چند منٹ درکار ہیں، اپنی بیٹی کے لیے طبی مشورہ چاہتی ہوں۔
جب وقت ملا، میں نے ماں بیٹی کو اپنے کیبن میں بلایا، تو اس خاتون نے انتہائی پریشانی کے عالم میں بتایا کہ مجھے عام مریضوں کے سامنے اپنی بچی کا مرض بیان کرتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے۔ پوچھنے پر فرمانے لگیں کہ میری بیٹی اب پانچویں کلاس میں پڑھتی ہے مگر اس کے مرض نے پریشان کررکھا ہے، روزانہ رات کو بستر پر پیشاب کردیتی ہے۔ سردیوں کے موسم میں روزانہ نہلا کر اسکول روانہ کرنا اور روزانہ بستر یا بچھونا دھونا بڑا تکلیف دہ ہے۔
تین چار دن بعد ایک میاں بیوی تشریف لائے، دو جڑواں بچے جن کی عمر بارہ سال کے قریب تھی، اُن کے ساتھ تھے، فرمانے لگے کہ دونوں بچے قرآن پاک حفظ کررہے ہیں لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ دونوں رات کو بستر پر پیشاب کردیتے ہیں۔ فجر کی نماز سے پہلے سردی میں نہلا کر مدرسہ روانہ کرنا اور بستر دھونا، ہمارے لیے پریشان کن ہے۔
ہر دو مثالوں میں دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ مرض بچپن سے چل رہا ہے۔ سردیوں میں بڑھ جاتا ہے، گرمیوں میں قدرے کم ہوتا ہے۔ جب علاج سے غفلت کے ’’جرم‘‘ کے بارے میں پوچھا گیا تو یہی جواب ملا کہ لوگ کہتے تھے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب بچے بالغ ہوں گے تو یہ مرض خود ختم ہوجائے گا۔ اس طرزِ تغافل پر تعلیم یافتہ طبقے کی ’’جہالت‘‘ پر غصہ بھی آیا اور رحم بھی۔ بچے بلوغت کی حدود میں داخل ہورہے ہیں، اور ماں باپ کی یہ غفلت!
یہ ایک تکلیف دہ اور پریشان کن مرض ہے۔ خصوصاً بچیوں میں، جو چند برسوں میں بلوغت کی سرحد میں داخل ہوں گی، اور اس پرائی امانت کو اللہ اور اس کے رسولؐ کے حکم کے مطابق ’’پیا دیس‘‘ سدھارنے میں یہ مرض کیا رنگ دکھائے گا!
قدیم طب میں یہ مرض ’’بول فی الفراش‘‘ کے نام سے پوری تفصیل سے درج ہے۔ مرض کی کیفیت یہ ہے کہ بچہ یا بچی رات کو سوتے میں محسوس کرتے ہیں کہ وہ ٹوائلٹ میں ہیں اور پیشاب کی حاجت سے فارغ ہورہے ہیں۔ عام طور پر صبح والدین جب بچے کو جگاتے ہیں تو بستر پیشاب سے تر بہ تر ہوتا ہے۔ یہ مرض بچیوں میں بچوں کی نسبت زیادہ پایا جاتا ہے، اور موسم سرما میں جب کہ راتیں طویل ہوتی ہیں، سخت سردی میں اٹھ کر پیشاب کی حاجت کی صورت میں گرم بستر کو چھوڑنے کو جی نہیں چاہتا، یہ مرض نسبتاً موسم گرما کے زیادہ حملہ آور ہوتا ہے۔
اس مرض کا بنیادی سبب تو والدین کی بچوں سے لاپروائی اور بے نیازی ہے۔ اگر والدین چھوٹی عمر کے بچوں کو سونے سے پہلے پیشاب کرنے اور طہارت کے اسلامی اصولوں سے آگاہی دیں تو ایک حد تک اس مرض کا امکان کم ہوتا ہے۔ فطری طور پر مثانہ کی برودت، گردوں کے فعل کو تیز کرنے والی اغذیہ مثلاً چائے، کافی، قہوہ کا بے جا استعمال، موجودہ دور میں کھانے کے بعد بلا ضرورت کولڈ ڈرنکس، چائے یا قہوہ کا استعمال اس مرض کا سبب بنتا ہے۔ لمبی راتوں میں اگر والدین توجہ سے بچے کو سوتے میں بیدار کرکے یا جگا کر پیشاب کی عادت ڈالیں تو ایک حد تک بچے اس مرض کا شکار نہیں ہوتے۔
آغاز میں جب اس مرض کا حملہ ہوتا ہے تو بچے کو ڈرانے دھمکانے اور بستر پر پیشاب کرنے کی صورت میں جسمانی سزا دینے سے اس مرض میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا ہے۔ بچہ مار پیٹ کے خوف سے خاموش رہنے کو بہتر سمجھتا ہے اور یہ عادت بگڑ جاتی ہے۔ اگر بچے کو پیشاب کرنے کی صورت میں ٹھنڈے پانی سے نہلانے کا خوف دلاکر یہ کہا جائے کہ اگر میرے بچے نے پیشاب نہ کیا تو صبح اسے انعام دیا جائے گا، تو تحت الشعور میں خوف کے ساتھ انعام کا لالچ مثبت نتائج دیتا ہے۔ موجودہ دور میں ہمارا اسکول سسٹم جس میں چھوٹی عمر کے بچوں کو حوائج ضروریہ سے فارغ ہوئے بغیر پیمپرباندھ کر والدین بے نیاز ہوکر حصولِ علم کے لیے اسکول بھیج دیتے ہیں، بچیوں میں استانیوں کی ڈانٹ ڈپٹ کا خوف، بچوں میں اساتذہ کے ڈنڈے سے پٹنے کا خوف اور اسکولوں میں گندے اور ناکافی بیت الخلا اور کلاس روم سے اجازت نہ ملنے کا خوف بچوں کو کپڑوں کے اندر پیشاب کرنے اور اسی عادت کے پختہ ہونے کی وجہ سے بستر پر پیشاب کرنے کا سبب بن جاتا ہے۔
جدید سائنسی تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ معدہ اور انتڑیوں میں کیڑے (کیچوے، چنونے) بھی اس مرض کا سبب بن رہے ہیں۔ مذکورہ اسباب میں سے کوئی سبب موجود ہو تاہم یہ مرض بچوں کے لیے اور خود والدین کے لیے تکلیف دہ ہے۔
اس مرض میں مبتلا بچوں کو سونے سے خاصی دیر پہلے پانی کی کم مقدار استعمال کرنے پر توجہ دی جائے۔ ہمارے ہاں ہر کھانے کے بعد چائے کے استعمال کو خوراک کا حصہ تصور کرلیا گیا ہے۔ چائے، کافی اور قہوہ کا استعمال گردے کے فعل کو تیز کرتا ہے۔ مرض میں مبتلا بچوں کو ان مشروبات سے بچایا جائے۔
کھانے کے ساتھ اور بعد میں ٹھنڈے مشروبات کا بے جا استعمال رواج پا چکا ہے۔ کیوں نہ ہو، ہمارا میڈیا دن رات کھانے کے بعد ’’ظالماں… پلا دے‘‘ دکھاتا ہے۔مرغ کھانے کے بعد سبز رنگ کی بوتلوں کو بطور ہاضم غٹاغٹ ٹی وی پر پیتے دکھایا جاتا ہے… ان مشروبات میں کیا ہے؟ یہ تو تحقیق طلب ہے، لیکن یہ واضح ہے کہ ان کے استعمال کے رواج کے بعد بستر پر پیشاب کرنے کی عادت اور شوگر کا مرض عام ہوچکا ہے۔ والدین اس ’’وبائی مرض‘‘…غیر ضروری مشروباتِ کا بے جا استعمال ترک کریں۔ وہ بچے جو چھوٹے ہیں، ان کے دودھ کے استعمال میں دودھ کو جوش دیتے وقت دارچینی کا استعمال مفید ثابت ہوتا ہے۔ بچوں کو دودھ سونے سے کافی دیر پہلے پلایا جائے تاکہ وہ بستر پر پیشاب نہ کرنے کی مہلت پا سکیں۔
جو بچے غذا استعمال کرتے ہیں ان کی چپاتی بیسن (خالص) ملا کر پکائی جائے، شام کو سونے سے پہلے بچے کو پانی کم پینے دیا جائے اور انہیں تل اور بھنے ہوئے چنے استعمال کرائے جائیں تاکہ کثرت سے پیشاب بننے کا عمل کم ہو۔
علاج بالغذا:
بچوں کے گردے کے فعل کو توازن میں رکھنے کے لیے بکرے کے گردے بھون کر استعمال کروائے جائیں۔ سونے سے پہلے مثانہ کے قریب گرم ربڑ کی بوتل رکھی جائے تاکہ مثانہ فطری حرارت کو برقرار رکھ سکے۔ بچے کا پاخانہ ٹیسٹ کرواکے معدے کے کیڑوں کا خاتمہ کیا جائے۔ اس عمل سے بہت حد تک مرض کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔سوتے وقت اخروٹ، بادام اور کاجو کا استعمال بھی ایک حد تک مرض کو روکنے کا ذریعہ ہے۔
ادویاتی علاج: مرض کا علاج اسباب کو مدنظر رکھ کر کیا جائے تو مرض سے جلد نجات مل جاتی ہے۔ بول فی الفراش کے مریضوں کو مثانہ کی تقویت کے لیے ادویہ کھلانی چاہئیں۔ مثانہ کے استرخا (ڈھیلے پن) کے ساتھ ساتھ گردوں کے فعل میں توازن پیدا کرنے والی غذائوں اور دوائوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
چند مفید نسخے:
ہوالشافی: جڑپان (خولنجاں) لے کر میدہ کی طرح باریک کرکے دن میں تین مرتبہ 3 رتی تک کھلائیں۔
2۔ پوست سنگدانہ مرغ (مرغ کی پوٹ کی جھلی) اچھی طرح دھوکر خشک کرکے سفوف تیار کرلیں۔ صبح و شام پانی کے ساتھ کلائیں۔
3۔ کشتہ بیضہ مرغ (انڈے کا بیرونی سخت ہڈی نما چھلکا)، 2 ۔2 رتی ملائی کے ساتھ کھلائیں، بے حد مفید ہے۔
4۔ دیسی مرغ کی کلغی اچھی طرح قیمہ کرکے خشک کرکے کوٹ چھان لیں، اس میں کشتہ بیضہ مرغ اور سنگدانہ مرغ ملاکر کھلائیں۔ مرض کا خاتمہ کردے گا۔
بازار میں تیار شدہ ادویہ:
(i) معجون کندر، (ii) معجون ماسک البول، (iii) معجون فلاسفہ،( iv) معجون سنگدانہ مرغ، (v) جوارش جالینوس۔
مریض کی عمر اور مرض کے مطابق مقدارِ خوراک کا تعین کرکے کھلائیں، خصوصاً رات سوتے وقت۔ اللہ تعالیٰ فضل کریں گے۔
بنیادی طور پر مرض کا بروقت علاج، پرہیز اور والدین کی توجہ سے اس مرض کا علاج ممکن ہے۔