نوازشریف کی واپسی… ۔

پاکستان کے اہلِ فکر و دانش میں یہ سوال زیربحث ہے کہ کیا نوازشریف اپنی واپسی کی بنیاد پر سول بالادستی اور جمہوری حکمرانی کے نام پر اداروں کی سیاسی مداخلت کے خلاف کوئی بڑی جنگ لڑسکیں گے؟ اگرچہ اس پر رائے عامہ تقسیم ہے، مگر بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ لڑائی لڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ پہلی بار پنجاب سے کوئی قیادت اداروں کو چیلنج کررہی ہے۔ اگرچہ یہ پہلی بار نہیں ہے، پنجاب ہی سے ماضی میں نوازشریف نے جنرل پرویزمشرف کو چیلنج کیا تھا، لیکن سب نے دیکھا کہ ان کو اپنی ہی جماعت اور عوام سے کوئی بڑی سیاسی حمایت نہیں مل سکی تھی، اور اسی بنیاد پر وہ ڈیل کرکے ملک سے باہر چلے گئے تھے۔ اب بھی نوازشریف یہ تاثر دے رہے ہیں کہ وہ یہ جنگ لڑنے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہیں، اور ان کے بقول اب وہ نظریاتی ہوگئے ہیں۔ یہ بھی عجیب ہے کہ اب اُن کو نظریاتی ہونے کا خیال آیا۔ اس سے پہلے وہ کیا تھے؟ اس کی تشریح بھی اگر کردیتے تو مناسب ہوتا، تاکہ لوگ اُن کی ماضی کی سیاست کو بھی سمجھ سکتے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نوازشریف اور مریم نواز کی، نیب کی عدالت سے سزا کے بعد واپسی اور ممکنہ گرفتاری یقینی طور پر شریف خاندان اور خاص طور پر ان کی سیاسی جماعت کے لیے ایک بڑے چیلنج سے کم نہیں۔ نوازشریف نے ماضی میں کئی سیاسی مشکل دور دیکھے ہوں گے، مگر حالیہ بحران ان کی سیاسی زندگی کا بڑا بحران ہے جس نے عملی طور پر ان کی سیاسی ساکھ پر بنیادی نوعیت کے سوالات اٹھائے ہیں۔ نوازشریف کی نیب عدالت سے سزا کی ٹائمنگ بہت اہم ہے، اور انتخابات سے محض چند ہفتے قبل ان کی سزا نے ان کی انتخابی مہم کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔ اب جیل جانے کے بعد ان کی مہم میں شدت آئے گی یا وہ سیاسی تنہائی کا شکار ہوں گے، یہ خود بڑا سوالیہ نشان ہے۔
دراصل نوازشریف اگر سیاسی طور پر اپنے اور اپنی بیٹی کے کردار کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں تو اُن کے پاس کلثوم نواز کو بیماری کی حالت میں چھوڑ کر پاکستان واپس آنے کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا۔ قانونی محاذ پر بھی اُن کی پاکستان میں موجودگی ضروری تھی اور سیاسی محاذ پر بھی اُن کی آمد پارٹی کے مُردہ جسم میں نئی جان ڈال سکتی ہے۔ اسی طرح خاندانی اور کاروباری محاذ پر بھی اگر اُن کو ریلیف درکار ہے تو یہ بھی قانون کے سامنے پیش ہوکر ہی ممکن ہے۔ اس لیے جو لوگ یہ دلیل دے رہے تھے کہ نوازشریف کی واپسی ممکن نہیں ہوگی، ان کا تجزیہ غلط تھا۔کیونکہ اگر نوازشریف واپس نہیں آتے تو پھر اُن کے پاس کچھ نہیں بچے گا، اور اُن کو ایک بار پھر بزدلی اور مقابلہ نہ کرنے کا طعنہ ملے گا۔ اگر نوازشریف اور ان کا خاندان واپس آکر قانونی جنگ لڑکر اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرتے ہیں تو اس سے ان کی سیاسی اور قانونی مشکلات کم ہوسکتی ہیں۔
بنیادی طور پر نوازشریف اور مریم نواز اس تاثر کو اجاگر کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ اُن کی سیاسی جدوجہد اور اصولی سیاسی مؤقف ملک میں قانون کی بالادستی اور ووٹ کو عزت دینے سے جڑا ہوا ہے۔ ان کے بقول وہ اداروں کے خلاف نہیں بلکہ اداروں کی سیاسی عمل میں مداخلت کے خلاف ہیں۔ بہت سے لوگ نوازشریف کی جدوجہد کو جمہوری جدوجہد سمجھ رہے ہیں۔ حالانکہ معاملہ جمہوری جدوجہد سے زیادہ نوازشریف اور ان کے خاندان کی ذاتی سیاست، کاروبار اور طاقت کا ہے جہاں عدم شفافیت کا نظام ہے۔ یہ بات زیادہ اہم ہے کہ اب مسئلہ ان پر محض الزامات کا نہیں بلکہ عدالت کی جانب سے ان کو سزا ہوئی ہے اور عام لوگوں میں یہ تاثر ابھرے گا کہ وہ اپنی صفائی پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ حالانکہ اس مقدمے میں ان کو اور ان کے خاندان کو صفائی پیش کرنے کا پورا موقع ملا تھا اور ان کے خلاف فیصلہ کسی عجلت میں نہیں آیا۔
جہاں تک نوازشریف کی مزاحمت کا تعلق ہے تو اس کا دیانت داری سے تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔کیونکہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمیں ایک ایسی سیاسی جدوجہد کی ضرورت ہے جو ملک میں سول حکمرانی اور جمہوری نظام کو مضبوط اور شفاف بناسکے۔ لیکن نوازشریف کیا واقعی ایک بڑی مزاحمت کرسکیں گے؟ اس پر کئی سوالات ہیں جن پر زیادہ سنجیدگی سے غور وفکر کی ضرورت ہے۔ کیونکہ مزاحمت کی سیاست کی بات کرنے، ٹی وی ٹاک شوز یا سوشل میڈیا پر بیٹھ کر طاقت دکھانے اور عملی طور پر سیاسی میدان میں اپنی جماعت اور کارکنوں سمیت بالخصوص جیل میں بیٹھ کر جدوجہد کرنے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ ماضی میں بھی نوازشریف نے جنرل پرویزمشرف کے خلاف پاکستان میں بیٹھ کر سیاسی جدوجہد کرنے کے بجائے باہمی رضامندی سے دس برس کی جلاوطنی اختیار کی تھی۔
نوازشریف کو موجودہ صورتِ حال میں مزاحمت کے تناظر میں چار بڑے چیلنج درپیش ہیں۔ اول: نوازشریف جس بیانیہ کی بات کررہے ہیں اُس پر اُن کی پوری جماعت یکسو نہیں ہے۔ جماعت میں واضح تضادات ہیں۔ ایک دھڑا اداروں سے مزاحمت اور دوسرا دھڑا مفاہمت یا عدم ٹکرائو کی پالیسی کا حامی ہے۔ خود نوازشریف کے بھائی شہبازشریف بھی مفاہمت سمیت فوج سے نئے عمرانی معاہدے کی حمایت کررہے ہیں۔ عملی طور پر پارٹی نواز اور شہباز بیانیہ میں تقسیم نظر آتی ہے۔ دوئم: نوازشریف کی جماعت کبھی بھی مزاحمتی سیاست کا حصہ نہیں رہی۔ جنرل پرویزمشرف کے دور میں بھی ان کی جماعت کے بہت بڑے دھڑے نے ایک نئی جماعت ’مسلم لیگ (ق)‘ کے نام سے بنالی تھی۔ مسلم لیگ کا مجموعی مزاج اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کا ہے، اور وہ اسٹیبلشمنٹ سے کبھی بھی ٹکرائو کی حامی نہیں رہی۔ نوازشریف کا ایک بڑا ووٹ بینک کاروباری طبقے کا ہے، اور یہ طبقہ کبھی بھی ٹکرائو کی سیاست کو ترجیح نہیں دے گا۔ سوئم: نوازشریف نے اپنے مضبوط اقتدار کے باوجود کبھی بھی اپنی سیاسی جماعت کو نہ تو منظم کیا اور نہ ہی مضبوط۔ حالیہ 2018ء کے انتخابات میں بھی ان کے بڑے بڑے الیکٹ ایبلز نے ان کو برے وقت میں چھوڑ کر مشکل صورتِ حال سے دوچار کردیا ہے۔ چہارم: عوامی سطح پر بھی ان کی حکمرانی کا نظام ایسا نہیں جو عام لوگوں کے مفادات سے جڑا ہوا ہو۔ اس لیے اب جب نوازشریف کو ایک بڑی عوامی حمایت یا قربانی کی ضرورت ہے تو لوگ ان کا ساتھ کیوں دیں گے! بالخصوص ایسے موقع پر جب وہ اور ان کا خاندان قانونی گرفت میں ہو اور ان کی عدم شفافیت پر خود عدالتوں نے ان کو سزا دی ہو! اس لیے جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ نوازشریف کی واپسی کے بعد اُن کے ووٹ بینک میں اضافہ ہوگا، وہ غلطی پر ہیں۔ کیونکہ نوازشریف تسلسل سے انتخابات میں دھاندلی کا واویلا کررہے ہیں۔ اگر واقعی ان کی مقبولیت بڑھ رہی ہوتی تو وہ زیادہ مطمئن نظر آتے۔ نوازشریف کی سزا پر لاہور سمیت پورے پنجاب سے کوئی بڑا ردعمل بھی دیکھنے کو نہیں ملا، اب دیکھنا ہوگا کہ جب وہ لاہور آتے ہیں تو ان کی حمایت میں کتنی بڑی تعداد میں لوگ باہر نکلتے ہیں۔
اس لیے جو لڑائی نوازشریف لڑنا چاہتے ہیں اُس کے لیے انہیں ایک مضبوط سیاسی جماعت درکار ہے، جو اُن کے پاس موجود نہیں۔ اسی طرح نوازشریف کے جو سیاسی اتحادی ہیں جن میں عوامی نیشنل پارٹی، جے یو آئی، پختون خوا ملّی عوامی پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی شامل ہیں …کسی نے بھی اُن کی اور اُن کی بیٹی کی سزا کے خلاف کوئی بڑا اور سخت نوعیت کا ردعمل نہیں دیا۔ عملی طور پر یہ لوگ یا جماعتیں بھی اپنی مفاداتی سیاست کے اسیر ہیں، اس لیے اپنی ذاتی سیاسی مشکلات میں اضافہ کرکے کیوں نوازشریف کی جدوجہد کا حصہ بنیں گے؟ یہ بات بھی سب جانتے ہیں کہ نوازشریف آج جس خلائی مخلوق کا مقابلے کرنے کی بات کررہے ہیں وہ ماضی میں اسی خلائی مخلوق کی مدد اور سرپرستی سے سیاست کرتے رہے ہیں۔ اسی طرح آج جب ان کے بھائی شہبازشریف نئے عمرانی معاہدے سمیت فوج کے سیاسی کردار کی حمایت کی بات کرتے ہیں تو اس پر نوازشریف ان کی کوئی بازپرس کرنے کے لیے تیار نہیں۔ یہ وہ عملی تضاد ہے جو نوازشریف کے بیانیہ کو کمزور کرتا ہے، اور ظاہر کرتا ہے کہ شہبازشریف بھی جو کچھ کررہے ہیں اس پر اُن کو پسِ پردہ نوازشریف کی حمایت حاصل ہے۔ کیونکہ اگر شہبازشریف فوج سے مفاہمت کا راستہ نکال سکیں تو نوازشریف کو بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ یہ بات بھی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ شریف برادران نے پاناما کے مقدمے میں نااہلی کے فیصلے کے بعد کئی ملکوں میں موجود اپنے دوستوں کی مدد سے فوج سے مفاہمت کا راستہ نکالنے کی کوشش کی تھی، مگر کامیابی نہیں مل سکی۔
نوازشریف کو یہ بات ذہن نشین رکھنا ہوگی کہ ان کی جماعت سمیت بعض لبرل دوست اُن کو فوج سے ٹکرائو کی جانب لے جانا چاہتے ہیں۔ کیونکہ اس لبرل طبقے کے پاس خود کوئی سیاسی قوت نہیں اور ان کو لگتا ہے کہ اگر نوازشریف فوج کو چیلنج کرتے ہیں تو اس سے فوج کو کمزور کیا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لبرل طبقے کا ایک بڑا دھڑا نوازشریف کی حمایت میں پیش پیش ہے اور ان کے بیانیہ کی حمایت کررہا ہے، جبکہ شہبازشریف سے نالاں ہے کہ وہ اپنا بیانیہ چلاکر نوازشریف کو کمزور کررہے ہیں۔ اسی طرح نوازشریف جو بڑی جنگ لڑنا چاہتے ہیں اُس کا بڑا سیاسی میدان بھی پنجاب ہی ہے۔ پنجاب سے باہر مسلم لیگ(ن) کوئی بڑی طاقت نہیں۔ پنجاب میں بھی اب ان کا ووٹ بینک تقسیم ہے اور ان کو عمران خان کی صورت میں بڑی مزاحمت کا سامنا ہے۔ اسی طرح عالمی برادری اور عالمی میڈیا میں بھی نوازشریف کی سزا پر کوئی سخت ردعمل کسی بھی سطح پر دیکھنے کو نہیں ملا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ خود دنیا میں پاناما کے حوالے سے خاصی حساسیت پائی جاتی ہے، اور جب عدالتی فیصلہ آجائے تو کوئی بھی ملک ان کی حمایت میں کھل کر سامنے نہیں آئے گا۔
نوازشریف کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ خود کو عقلِ کل سمجھتے ہیں اور ان کی یہ پرانی خواہش ہے کہ وہ بطور فرد اداروں پر بالادست ہوں اور ادارے قانون کے بجائے ان کے تابع بن کر کام کریں۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی وہ اقتدار کی سیاست کا حصہ بنتے ہیں تو ان کے اور اداروں کے درمیان ٹکرائو کے مختلف مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نوازشریف ایک بڑی سیاسی طاقت رکھتے ہیں اور آج بھی وہ مکمل طور پر کمزور نہیں، لیکن جس انداز کی وہ سیاست کررہے ہیں اس میں ان کی پارٹی یکجا ہونے کے بجائے تقسیم ہورہی ہے۔ اگرچہ نوازشریف اس کا الزام محض اسٹیبلشمنٹ پر لگاتے ہیں مگر اپنی داخلی ناکامی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ نوازشریف کا ایک بڑا انحصار اپنی میڈیا ٹیم پر بھی ہے جو ہمیشہ سے اُن کے ساتھ رہی ہے۔ لیکن وہ یہ نہ بھولیں کہ جب وہ اقتدار سے رخصت ہوں گے تو یہ کسی اور کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ جنرل پرویزمشرف کے دور میں بھی ان کو ایسی ہی صورت حال سے گزرنا پڑا تھا۔ آج اگر نوازشریف کو برے دن دیکھنے پڑرہے ہیں تو اس کی ایک بڑی وجہ ان کی بری حکمرانی، عدم شفافیت کا نظام اور آمرانہ سوچ ہے، جس نے ان کی اور ان کے خاندان کی زندگی کو مشکل بنادیا ہے۔ ایسے میں نوازشریف کی واپسی کے بعد ان کی بطور جماعت مضبوط مزاحمت کی جدوجہد مشکل نظر آتی ہے، اور ان کو بڑا چیلنج بھی اپنی جماعتی اور داخلی سیاست سے ہی درپیش ہوگا۔