انتخابی فضا سے محروم انتخابی مہم

۔25جولائی کے انتخابات اِن حالات میں دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہے ہیں جب مسلم لیگ (ن) کے بانی صدر، مستقبل کی وزیراعظم، اور خیبر پختون خوا کے ممکنہ اگلے گورنر نیب عدالت سے سزائیں پاکر وقتی طور پر سیاسی کھیل سے باہر ہوگئے ہیں، لیکن کیپٹن ریٹائرڈ صفدر نے جس انداز میں کئی گھنٹے کا جلوس نکالنے کے بعد گرفتاری دی ہے اُس سے اندازہ ہوگیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) مستقبل میں مزاحمتی سیاست ہی کرے گی۔ نوازشریف اور مریم نواز کا جمعہ کو پاکستان آنے کا اعلان بھی کھلی جنگ کا اعلان ہے۔
ایک طرف تیس سال سے اقتدار میں رہنے والا مسلم لیگ (ن) کا بانی و شریف خاندان کا وارث نیب کی سزائوں کے باعث پھڑپھڑا رہا ہے، تو دوسری جانب 35 ارب روپے کی گمنام ٹرانزیکشن پر پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور سیاسی و کاروباری معاملات میں اُن کی شریکِ کار اور اب نیب مقدمات میں شریکِ جرم ڈاکٹر فریال تالپور کے بیرونِ ملک جانے پر پابندی لگادی گئی ہے، جبکہ تیسری جانب تحریک انصاف کے کئی رہنمائوں کی نیب میں طلبی اور بار بار طلبی تحریک انصاف کے لیے بھی پریشانی کا باعث بن رہی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پنجاب جیسے میلوں ٹھیلوں کے لیے مشہور صوبے، اور لاہور جیسے منچلوں اور زندہ دلوں کے شہر میں بھی اب تک وہ انتخابی گہماگہمی پیدا نہیں ہوسکی جو ماضی کا معمول رہا ہے۔ آج پولنگ میں صرف 12 دن باقی رہ گئے ہیں لیکن روایتی گرماگرم انتخابی مہم شہر کے کسی ایک حلقے میں بھی نظر نہیں آرہی، دن بھر شہر میں سکون رہتا ہے اور شام کو امیدوار چھوٹی چھوٹی کارنر میٹنگوں اور معززین سے ملاقاتوں ہی پر آسرا کیے بیٹھے ہیں۔ اب تک بہت کم امیدواروں کے انتخابی دفاتر قائم ہوسکے ہیں، اور یہ بھی ایک حلقے میں دو تین سے زیادہ نہیں ہیں۔ ان انتخابی دفاتر میں رونق نام کی کوئی چیز نظر نہیں آرہی… نہ لوگ اور نہ کھابے۔ لاہور میں تحریک انصاف کے رہنما اور عمران خان کی دوسری اے ٹی ایم مشین کے نام سے مشہور عبدالعلیم خان واحد امیدوار ہیں جنہوں نے اپنے حلقے میں کچھ گہماگہمی پیدا کردی ہے، مگر یہ بھی صرف بینرز، ہورڈنگز، فلیکس اور پول ہینگرز تک ہی محدود ہے۔ البتہ انہوں نے اپنے پورے حلقے میں بینرز اور فلیکس کی بھرمار کردی ہے، اور بعض جگہ تو دوسرے حلقوں میں بھی ان کے بینرز اور ہورڈنگز لگادیے گئے ہیں۔ لاہور شہر کی سڑکوں، گلیوں، بازاروں میں عبدالعلیم خان کے بینرز اور فلیکس کی تعداد اور ان پر اٹھنے والے اخراجات کا حساب لگایا جائے تو صرف ان بینرز اور فلیکس کے اخراجات ہی امیدوار کے انتخابی اخراجات کی حد سے زیادہ ہوجائیں گے، اور اس طرح وہ انتخاب سے قبل ہی بآسانی نااہل ہوسکتے ہیں، بشرطیکہ کوئی بندۂ خدا اس معاملے کو اٹھائے اور الیکشن کمیشن اس کا شفاف انداز میں جائزہ لے۔
لاہور میں پہلی بار ایک نیا انتخابی رجحان سامنے آیا ہے، اور وہ یہ کہ تحریک انصاف کے دیگر امیدواروں نے بھی اپنے بینرز اور فلیکس پر اپنی اور بانی قائد عمران خان کی تصاویر کے علاوہ عبدالعلیم خان کی تصاویر بھی لگائی ہیں۔ گویا پیسہ سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ تحریک انصاف اور علیم خان نے کوشش کی ہے کہ ہر کھمبے، ٹاور اور عمارت پر تحریک انصاف کا جھنڈا لگادیا جائے۔ یہی کام 1970ء میں پیپلز پارٹی نے کیا تھا۔ یہ ایک طرف انتخابی اخراجات کے قانونی ضابطے کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے تو دوسری جانب ووٹرز کو محض جھنڈوں اور بینروں کے ذریعے متاثر کرنے اور یہ تاثر دینے کی کوشش ہے کہ یہی پارٹی، اور مقبول پارٹی ہے۔ قبل از انتخابات دھاندلی کی یہ قسم پاکستان کے ہر انتخابات کے موقع پر دیکھنے میں آئی، اور اب بھی آرہی ہے۔
لاہور میں اگرچہ مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کے فلیکس اور بینرز بھی نظر آرہے ہیں، لیکن ان کی تعداد تحریک انصاف کے امیدواروں کے بینرز اور فلیکس سے خاصی کم ہے۔ سردار ایاز صادق اور شہبازشریف کے بینرز زیادہ ہیں۔ اب تک پیپلز پارٹی نے عملی طور پر اپنی باقاعدہ انتخابی مہم کا آغاز نہیں کیا، اس کے امیدواروں کے بینرز اور فلیکس بھی شاذ و نادر ہیں، جبکہ امیدوار ڈور ٹو ڈور مہم، یا کارنر میٹنگز سے خطاب کے لیے بھی اب تک متحرک نہیں ہوئے۔ رابطۂ عوام مہم، کارنر میٹنگز اور ڈور ٹو ڈور مہم میں لاہور میں متحدہ مجلس عمل سب سے آگے ہے۔ اس کے امیدوار اپنے اپنے حلقوں کی مساجد میں جاکر نمازیوں سے ملاقاتیں کررہے ہیں، گھر گھر جاکر ووٹرز کو اپنا پیغام پہنچا رہے ہیں، اور ہر روز دو بار کارنر میٹنگز سے بھی خطاب کررہے ہیں۔ مجلس عمل کے امیدواروں کے بینرز، فلیکس اور پول ہینگرز تو بہت زیادہ نہیں ہیں لیکن اپنے اپنے حلقوں میں ان کی انتخابی مہم تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔
لاہور کے بیشتر امیدواروں نے اخبارات میں اپنی اپنی سرگرمیوں اور خبروں کی اشاعت کا بھی بندوبست کیا ہوا ہے۔ اخبارات میں ان امیدواروں کی خبریں اور تصویریں چھپ رہی ہیں لیکن یہ انتخابی فضا بنانے سے قاصر ہیں۔ ٹی وی چینلز بھی امیدواروں کی کوریج کررہے ہیں، لیکن یہ زیادہ تر قومی رہنمائوں کو کور کررہے ہیں، عام امیدواروں کی باری ان کے پاس کم ہی آتی ہے۔ البتہ امیدواروں نے سوشل میڈیا پر زیادہ توجہ دی ہے۔ کئی امیدواروں کے حامیوں نے باقاعدہ منظم انداز میں سوشل میڈیا پر انتخابی مہم چلا رکھی ہے، جبکہ باقی بھی اپنی اپنی سطح پر اس جدید سائنسی رابطے سے استفادہ کرنے کی کوشش میں ہیں۔
اس وقت لاہور کے حلقوں میں نوازشریف اور مریم نواز کی لاہور آمد اور اس کے بعد کے حالات پر سب سے زیادہ بات ہورہی ہے۔ شہبازشریف اور مسلم لیگ(ن) کے دوسرے رہنما لوگوں کو لاہور ائرپورٹ آکر اپنے قائدین کا استقبال کرنے کا پیغام دے رہے ہیں، جبکہ انتظامیہ بھی معاملات کو مانیٹر کررہی ہے۔ خیال یہی ہے کہ خاصی تعداد میں لوگ ائرپورٹ پہنچ جائیں گے۔ اور اگر انتظامیہ نے رکاوٹ نہ ڈالی تو نواز اور مریم جلوس کی شکل میں شہر میں چکر لگائیں گے اور بعد میں گرفتاری دے دیں گے۔ دوسرا خیال یہ ہے کہ انہیں ائرپورٹ پر ہی گرفتار کرلیا جائے گا، جس کے بعد ان کے وکلا عدالت سے رجوع کریں گے، اور عام خیال یہی ہے کہ عدالت انہیں چند گھنٹوں بعد ریلیف دے دے گی۔ اس دوران لوگ اپنے گھروں کو جاچکے ہوں گے۔ بعض ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ نوازشریف اور مریم جو مغربی میڈیا کی ایک ٹیم کے ساتھ لاہور آرہے ہیں انہیں فوری طور پر گرفتار کرکے ہیلی کاپٹر یا جہاز کے ذریعے اسلام آباد پہنچادیا جائے گا، جہاں سے انہیں جیل میں لے جایا جاسکتا ہے، اور ممکن ہے کہ کسی عدالتی حکم پر انہیں گھر جانے کی اجازت دے دی جائے، کیوں کہ ان کے وکلا نیب عدالت کے فیصلے کو معطل کرنے کی استدعا کریں گے۔ اور لگتا یہی ہے کہ انصاف کے تقاضوں کے پیش نظر ان کی یہ استدعا عدالت قبول کرلے گی۔ بعض لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ عدالت کے ذریعے مریم کو انتخاب لڑنے کی مشروط اجازت بھی مل سکتی ہے۔
بہرحال یہ تو محض اندازے اور قیاس آرائیاں ہیں۔ جمعہ کے روز کیا ہوتا ہے، کس طرح کے حالات بنتے ہیں، اور کس طرح کے فیصلے ہوتے ہیں، یہ اسی روز پتا چلے گا، لیکن اس وقت مسلم لیگ (ن) کے بینرز اور ہورڈنگز میں جو پیغام دیا جارہا ہے وہ یہ ہے:
’’ووٹ کو عزت دو…خدمت کو ووٹ دو‘‘
گویا یہ نواز اور شہباز کا مشترکہ بیانیہ ہے۔ نوازشریف کا بیانیہ تو ووٹ کو عزت دینے کا ہے۔ خدمت کا بیانیہ شہبازشریف کا ہے، جو انتخابی جلسوں میں اپنی خدمات کا بڑھ چڑھ کر اظہار بھی کررہے ہیں، جبکہ نوازشریف ’’خلائی مخلوق‘‘ اور ’’پانچ افراد‘‘ کے خلاف اپنی برہمی کو ہی بیانیہ بنانا چاہتے ہیں۔ اس وقت سیاسی حلقوں میں یہ سوال بھی گردش کررہا ہے کہ اگر انتخابات کے دوران نوازشریف جیل میں ہوتے ہیں تو کیا اس سے مسلم لیگ (ن) کی انتخابی مہم متاثر ہوگی یا اُسے ہمدردی کا ووٹ مل جائے گا؟ ظاہر ہے کہ جہاں اس موڑ پر مسلم لیگ (ن) اپنا کام کرے گی وہیں اسٹیبلشمنٹ بھی محض ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی نہیں رہے گی۔ وہ اپنے ایجنڈے کو یقینا آگے بڑھائے گی جسے مسلم لیگ (ن) کے اندر بھی خاصی پذیرائی حاصل ہے۔
پنجاب اور لاہور میں اس نیم دلانہ انتخابی فضا میں نگران حکومت کا کوئی کردار نظر نہیں آرہا۔ نگران صوبائی حکومت شفاف انتخابات کرانے کے دعووں کے ساتھ صرف انتظامات میں لگی ہوئی ہے، جبکہ الیکشن کمیشن قبل از انتخابات بے ضابطگیوں کا نوٹس نہیں لے رہا۔ وہ انتخابی اخراجات کے معاملے پر مکمل صرفِ نظر سے کام لے رہا ہے۔ بلدیاتی نمائندوں کے انتخابی مہم میں شریک ہونے اور دیگر پابندیوں کے معاملے پر بھی الیکشن کمیشن کا رویہ صرف وقت گزارنے اور معاملات کو ٹالنے پر مبنی دکھائی دیتا ہے، جس سے اندازہ یہی ہوتا ہے کہ ماضی کی طرح یہ انتخابات بھی پری پول بے ضابطگیوں کے باعث نہ صرف متنازع ہوں گے بلکہ عملی طور پر اسٹیبلشمنٹ، پیسے اور الیکٹ ایبلز کے انتخابات بن کر رہ جائیں گے۔