نعمان انصاری
چلی کے مشہور انقلابی شاعر وکٹر بارا نے ایک عوامی جلسے میں کہا تھا کہ: ’’لڑنے کے لیے کیا چاہیے؟ انگلیاں! جو حرف کو گیت اور گٹار کو ہتھیار بنا سکتی ہیں‘‘۔
آج کی دنیا جسے گلوبل ولیج بھی کہا جاتا ہے، کے تناظر میں دیکھا جائے تو وکٹر بارا نے ٹھیک ہی کہا تھا، جب ’’کی بورڈ‘‘ کے مجاہدوں نے اپنی انگلیوں کے ذریعے حرف کو گیت بنانے کے بجائے اس کی حرمت کو تارتار کردیا ہے، اور رہی بات ہتھیار کی، تو اس کی جگہ آج کی دنیا میں کمپیوٹر نے لے لی ہے۔ آئیے! آپ کو سمجھاتے ہیں یہ کیسے ہوا:
سیاست دان غلط معلومات/ خبریں اختراع کرتے ہیں اور صحافت ان غلط خبروں کا شکار بنتی ہے۔ پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر ایک مضمون گردش کرتا رہا جس میں مشہور ادیب، سماجی کارکن اور بھارتی حکومت کی کشمیر پالیسی کی سب سے بڑی ناقد ارون دھتی رائے کے حوالے سے یہ منسوب کیا گیا کہ انہوں نے ایک پاکستانی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ بھارت کی 7 لاکھ فوج بھی ’’آزادی گینگ‘‘ کو کشمیر میں شکست نہیں دے سکتی۔ اس بات پر بھارت کے قوم پرست میڈیا اور بی جے پی کے چاہنے والوں نے ایک ہنگامہ کھڑا کردیا اور اس حد تک سوشل میڈیا پر ارون دھتی رائے کے خلاف پروپیگنڈا ہوا کہ کچھ ہندو انتہا پسندوں نے جذبات میں اکر ارون دھتی رائے کے گھر پر حملہ کرنے کی بھی کوشش کی۔ بعد میں تحقیق کرنے پر پتا چلا کہ یہ ایک ’’Fake News‘‘ یعنی ’’جعلی خبر‘‘ ہے، نہ ہی ارون دھتی رائے نے کشمیر کا دورہ کیا اور نہ کسی پاکستانی اخبار کو کوئی انٹرویو دیا۔
ایک سائبر سیکورٹی کمپنی ’’ڈیجیٹل شیڈو‘‘ نے رواں سال ایک تحقیقاتی رپورٹ جاری کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ’’جعلی خبریں‘‘ دنیا بھر میں ایک کاروبار بنتی جارہی ہیں۔ جعلی ویب سائٹس، جعلی تجزیے اور سوشل میڈیا کے ’’بوٹس‘‘ (اسے ‘Fake Followers’بھی کہا جاتا ہے،یہ ایسے سوشل میڈیا اکائونٹ ہوتے ہیں جو ایک خود ساختہ پروگرام کے تحت کام کرتے ہیں، اور یہ بوٹس سوشل میڈیا کے اکائونٹ پر مختلف ایکٹویٹی کرتے ہیں) کسی شخص، نظریے یا پروڈکٹ کو فروغ دیتے یا پھر بدنام اور داغ دار کرتے ہیں۔ مختلف ادارے اور سیاسی جماعتیں ان ’’سائبر کرمنلز‘‘ (یہ اصطلاح رپورٹ میں استعمال کی گئی ہے) کی خدمات باقاعدہ طور پر بھاری رقوم کے عوض حاصل کرتے ہیں جیسے کہ امریکہ میں 2016ء کے صدارتی انتخابات میں ’’جعلی خبریں‘‘ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت پھیلائی گئیں اور ایک خطیر رقم اس مقصد کے لیے خرچ کی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ 2016ء کے انتخابات امریکی تاریخ کے سب سے مہنگے انتخابات بتائے جاتے ہیں۔
پاکستان میں 2018ء کے انتخابات بہت نزدیک آچکے ہیں۔ سیاسی مخالفین کا ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا اورمنفی پروپیگنڈے اس وقت عروج پر ہے۔ سوشل میڈیا اس طرح کے پیغامات عوام تک پہنچانے کا سب سے اہم اور مرکزی ذریعہ بن چکا ہے۔ سیاسی بیانیے کو پھیلانے میں سوشل میڈیا کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، بلکہ ماہرین کی رائے تو یہ ہے کہ 2018ء کے انتخابات میں وہی پارٹی کامیابی حاصل کرے گی جو سوشل میڈیا کو بہتر طور پر استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتی ہوگی۔ مگر سوال یہ ہے کہ انتخابات جیتنے کے لیے کیا جعلی خبریں، نقلی سوشل میڈیا اکائونٹس اور ٹرولز استعمال کرنا جائز ہے؟
اور کیا پاکستان کے الیکشن کمیشن نے اس حوالے سے کوئی تیاری اور قانون سازی اب تک کی ہے، یا نہیں؟
آئیے پھر اہم باتیں جاننے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں:
سوشل میڈیا پر سیاسی جماعتوں کی موجودگی اور ان کا بیانیہ
اس بات سے قطع نظر کہ سیاسی جماعت چھوٹی ہو یا بڑی، مضبوط ہو یا کمزور، منظم ہو یا غیر منظم… تمام سیاسی جماعتوں کے سوشل میڈیا (خاص طور پر فیس بک اور ٹوئٹر) پر آفیشل اکائونٹ موجود ہیں اور ان اکائونٹس کے ذریعے وہ اپنے مخالفین پر حملے کرتی ہیں۔ فیس بک اور خاص طور پر ٹوئٹر کے آنے کے بعد صورتِ حال یہ ہے کہ سیاسی جنگیں، انتخابات سے پہلے سوشل میڈیا کے میدان میں لڑی جا رہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر ہزاروں جعلی اکائونٹس بنائے گئے ہیں، جہاں ٹرولز اور بوٹس کے ذریعے مخالفین کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا اس لیے تھا کہ ’’آزادیٔ اظہارِ رائے‘‘ کے لیے ہر شخص کو ایک پلیٹ فارم میسر ہو۔ مگر ہوا یہ کہ ’’سائبر بدمعاشی‘‘ شروع ہوگئی، اور اب بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ گالم گلوچ سے لے کر ریپ اور جنسی ہراسگی تک سب کچھ سوشل میڈیا پر کیا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انتخابات کے دنوں میں بعض ملکوں نے سوشل میڈیا پر ہی بندش لگا دی۔ ترکی ان میں سے ایک ملک ہے جہاں 2014ء کے انتخابات سے پہلے سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی تھی۔ اس کے علاوہ ایران نے 2009ء کے صدارتی انتخابات میں فیس بک، ٹوئٹر اور یوٹیوب کو بند کردیا تھا۔ ویت نام میں تو 2009ء سے فیس بک مکمل طور پر بند ہے۔
ٹرولز، بوٹس اور جعلی سوشل میڈیا اکائونٹ کرتے کیا ہیں؟
سوشل میڈیا کے ماہرین کے مطابق پاکستان کی سبھی سیاسی جماعتیں بہت پہلے سے جعلی اکائونٹس، ٹرولز، بوٹس اور جھوٹی خبروں کا استعمال اپنی تشہیر اور اپنے سیاسی بیانیے کے فروغ کے لیے مسلسل کررہی ہیں، اور یہ ایسا عمل نہیں جو انتخابات کی وجہ سے شروع کیا گیا ہو۔
ٹرولز اور بوٹس کا مقابلہ بغیر کسی قانون سازی کے کرنا فی الحال تو ناممکن نظر آتا ہے۔ ٹرولز کرنے والے ایسے افراد ہوتے ہیں جن کو باقاعدہ نوکری دی جاتی ہے تاکہ وہ آن لائن مباحثوں پر اثرانداز ہوسکیں۔ اور عام طور پر یہ لوگ ذاتی حملوں اور لوگوں کو ڈرانے، دھمکانے میں ملوث ہوتے ہیں۔ یہ بالکل اسی طرح کے لوگ ہوتے ہیں جیسے کسی سیاسی رہنما پر جوتے پھینکنے والے، یا کسی انتخابی امیدوار پر سیاہی چھڑکنے والے۔ سوشل میڈیا پر بے انتہا جعلی اکائونٹ بنائے گئے ہیں جو بالکل اصلی اکائونٹ کی طرح سے دِکھتے ہیں پَر ہوتے نہیں، اور یہ سب اکائونٹس چل رہے ہیں، حالانکہ حال ہی میں منظور ہونے والے ’’الیکٹرانک کرائم ایکٹ‘‘ میں درج ہے کہ ایسا اکائونٹ جو کسی کے اصلی اکائونٹ جیسا نظر آتا ہو، بنانا اور اس کو چلانا قانوناً جرم ہے۔ اور اس کی سزا بھی قانون میں موجود ہے۔ ذیل میں ٹوئٹر اکائونٹس کا حوالہ دیا جارہا ہے، جنہوں نے اہم سیاسی شخصیات کا روپ دھارا ہوا ہے:
@ Hamza Sharif, Proud Son of Mohammad Shahbaz Sharif, PML-N MNA
@ Gulalai Official, Pakistani Politician currently A Member of the National assembly of Pakistan
#Ayesha Gulalai
@ PPP_ Bilawal_B_Z Stating-All- Power-to- the- People. New PPP of Bilawal Bhutto Zardari prime Minister 2018
اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں سوشل میڈیا کے اکائونٹس کی تعداد 44 ملین سے زیادہ ہے۔ سوشل میڈیا سیاسی جماعتوں میں بھی بے انتہا مقبول ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں اپنی موجودگی سے سوشل میڈیا کو ’چمکا‘ رہی ہیں۔ لیکن پاکستان میں سوشل میڈیا پر پاکستان تحریک انصاف کو برتری حاصل ہے۔ مخالفین ہمیشہ سے پاکستان تحریک انصاف پر سوشل میڈیا کے غلط استعمال کا الزام لگاتے ہیں، اور اب یہ محض الزام نہیں بلکہ اس بات کے لاتعداد شواہد موجود ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کی سوشل میڈیا ٹیم پر الزام ہے کہ وہ جعلی اور بوگس اکائونٹس بنانے اور ان کو چلانے میں ملوث ہے۔اس کی حالیہ مثال اس وقت سامنے آئی جب عمران خان نے پاکستانی فلموں کی مشہور اداکارہ شبنم کے ریپسٹ فاروق بندیال کو تحریک انصاف میں شامل کرلیا تو سوشل میڈیا پر نہ صرف یہ کہ مخالفین کا سخت مؤقف سامنے آیا بلکہ تحریک انصاف کے ورکر اور سپورٹر بھی اس فیصلے سے ناخوش نظر آئے۔ عمران خان نے فاروق بندیال کو پارٹی سے اگلے ہی دن فارغ کردیا۔ اصل کہانی اب شروع ہوتی ہے، جیسے ہی عمران خان نے اعلان کیا کہ فاروق بندیال کا تحریک انصاف سے کوئی تعلق نہیں اور ہم سے غلطی ہوئی کہ ہم نے ایک ایسے شخص کو تحریک انصاف میں شامل کیا جوسزا یافتہ مجرم ہے تو اس اعلان کے کچھ دیر بعد ہی ایک ٹوئٹ پاکستان تحریک انصاف کے ٹوئٹر اکائونٹس سے جاری ہوا جس میں اداکارہ شبنم کی طرف سے عمران خان کا شکریہ ادا کیا گیا تھا کہ انہوں نے فاروق بندیال کو تحریک انصاف سے نکال دیا۔ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ ٹوئٹ پاکستان تحریک انصاف کے فرحان ورک کا تھا اور انہوں نے اپنے ایک پرانے ٹوئٹر اکائونٹ کو اداکارہ شبنم کے جعلی اکائونٹ میں تبدیل کردیا تھا اور اداکارہ شبنم کی تصویر بھی لگادی تھی۔ بعد میں شبنم نے بیان جاری کیا کہ ان کا کوئی ٹوئٹر اکائونٹ ہی نہیں اور نہ انہوں نے عمران خان کا کبھی شکریہ ادا کیا۔
جعلی اکائونٹس کی روک تھام، ایک ناممکن کام!
اس سال 11 اپریل کو فیس بک کے بانی مارک زکر برگ نے امریکی سینیٹ کے سامنے ایک بیان دیا جس میں انہوں نے اعتراف کیا کہ جعلی اور بوگس اکائونٹس بہت سے ملکوں میں انتخابات کے عمل کو متاثر کریں گے جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ اسی طرح ٹوئٹر پر حد سے زیادہ جعلی اکائونٹس خبروں، تجزیوں اور شواہد کو بڑے پیمانے پر تبدیل کرکے 2018ء کے انتخابات کے نتائج پر اثر انداز ہوں گے۔
فیس بک کے اثرات کو اگر دیکھنا ہو تو 2016ء کے امریکی صدارتی انتخابات کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ٹرمپ نے اپنی حریف ہلیری کلنٹن سے بہتر ٹیم مقابلے کے لیے اتاری۔ ارب پتی ٹرمپ نے 44 ملین ڈالر الیکشن پر خرچ کیے جب کہ ہلیری نے 28 ملین ڈالر۔
جوں جوں پاکستان میں انتخابات قریب آرہے ہیں، جعلی اور بوگس اکائونٹس نے سوشل میڈیا کو ایک ایسا پلیٹ فارم بنادیا ہے جہاں سیاسی جماعتوں، امیدواروں، حکومت اور حزب اختلاف سب کو گالیاں دینے اور ذلیل کرنے کے لیے پوری ایک ’’سائبر آرمی‘‘ موجود رہتی ہے۔ حکومت کو اس بات پر مجبور کرنا چاہیے کہ وہ ان جعلی سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائے جانے والے پروپیگنڈے اور جعلی خبروں کی روک تھام کے حوالے سے کچھ اقدامات کرے تاکہ انتخابات کی مہم، عمل اور نتائج پر ان جعلی اکائونٹس کے اثرات نہ پڑ پائیں۔
سوشل میڈیا پر موجودہ غلط معلومات سے کیسے بچا جائے:
میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی نے ایک کتابچہ ’’کیا یہ خبر درست ہے؟‘‘ کے عنوان سے شائع کیا ہے۔ 17 صفحات پر مشتمل اس کتابچے کی تلخیص یہاں پیش کی جارہی ہے۔ ذیل میں سات آسان نکات بتائے جا رہے ہیں جن کی مدد سے ایک عام قاری بھی صحیح اور غلط معلومات کو بآسانی پہچان سکتا ہے۔
1۔ معلومات کا ماخذ (source) کون ہے؟
کسی خبر یا سوشل میڈیا پہ چلنے والی معلومات پر یقین کرنے سے پہلے اس معلومات کا ماخذ جاننے کی کوشش کریں۔
-2تفصیلات کہاں سے آئیں؟
عالمی ذرائع اپنی خبر میں معلومات کے ذرائع کی تفصیل شامل کرتے ہیں۔ کسی بھی آرٹیکل کو پڑھتے ہوئے یہ چیک کریں کہ کیا خبر میں موجود معلومات اور انکشافات کا ثبوت اور ماخذ فراہم کیے گئے ہیں؟ اور ان پر اعتبار کیا جاسکتا ہے؟
-3 مصنف کے بارے میں جانیے:
اگر معلومات سوشل میڈیا میں کسی تصویر یا ویڈیو کی شکل میں ہیں تو یہ جاننے کی کوشش کریں کہ وہ مواد سب سے پہلے کس نے پوسٹ کیا تھا، اور کیا وہ شخص یا اکائونٹ قابلِ اعتبار ہے؟ اگر معلومات خبر کی شکل میں ہیں تو پتا کیجیے کیا مصنف نے پہلے بھی کچھ آرٹیکل لکھے ہیں، یا کیا وہ قابلِ اعتبار ویب سائٹ کے لیے لکھتا رہا ہے؟
-4 تاریخ ضرور دیکھیں:
سوشل میڈیا پر اکثر پرانی معلومات کو نیا بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ خبروں کے علاوہ پرانی تصاویر اور ویڈیوز کو بھی مختلف سیاق و سباق سے جوڑ کر پھیلایا جاتا ہے۔ کوئی آرٹیکل پڑھتے وقت یہ ضرور چیک کرلیں کہ وہ کب چھپا تھا۔
-5 معلومات سے کس کو فائدہ ہوگا؟
روایتی اور سوشل میڈیا پہ ملنے والی متنازع معلومات کے بارے میں خود سے سوال ضرور پوچھیے کہ اس کی اشاعت سے کس کو فائدہ ہوگا؟ اگر فائدہ صرف عوام کا ہے تو معلومات پر یقین کرنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
6:صرف سرخی پر اکتفا مت کریں
کولمبیا یونی ورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق سوشل میڈیا پر نشر ہونے والے لنکس میں سے تقریباً 60فیصد کبھی کھولے ہی نہیں گئے۔ یعنی لوگوں نے لنک صرف سرخی پڑھ کر آگے شیئر کردیے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ غلط معلومات کی ایک قسم وہ ہے جس میں سرخیوں اور مضمون میں ربط نہیں ہوتا اور سنسنی خیز سرخیوں کے استعمال سے غلط معلومات کو پھیلایا جاتا ہے۔
7:شیئر کرنے سے پہلے سوچیں:
سوشل میڈیا پر معلومات شیئر کرنے سے پہلے سوچ لیں کہ آپ نے خبر کی ساکھ اور صحت جانچ لی ہے۔ اس موقع پر اپنے تعصبات کا بھی احاطہ کر لیں کہ آپ خبر پر صرف اس لیے تو یقین نہیں کر بیٹھے کیونکہ وہ آپ کے خیالات سے ہم آہنگ ہے!
سوشل میڈیاسچ اور جھوٹ
’فیک نیوز‘ یا جعلی خبروں کے بارے میں ہونے والی دنیا کی سب سے بڑی تحقیق کے بعد سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ جعلی خبریں بہت تیزی سے اور بہت دور تک پھیلتی ہیں۔ اس حد تک کہ صحیح خبریں بھی ان کے سامنے ختم ہوجاتی ہیں۔
گزشتہ دس برسوں میں انگریزی زبان میں 30 لاکھ افراد کی سوا لاکھ سے زیادہ ٹوئٹس پر تحقیق کے بعد محققین کا دعویٰ ہے کہ جعلی خبریں زیادہ تیزی سے پھیلتی ہیں۔
تحقیقی میگزین ’سائنس‘ میں شائع ہونے والی یہ رپورٹ ٹوئٹر پر پھیلنے والی جعلی خبروں پر مبنی ہے، لیکن سائنس دانوں کا خیال ہے کہ یہ نتائج فیس بک اور یوٹیوب سمیت سبھی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے لیے صحیح ہیں۔ اس ریسرچ کی نگرانی کرنے والے میساچوسٹس یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی میں ڈیٹا پر تحقیق کرنے والے سوروش ووشوگی نے بتایا کہ ’’ہماری ریسرچ میں یہ واضح ہے کہ یہ انسانی مزاج کی کمزوری ہے کہ وہ ایسا مواد پھیلائے‘‘۔ ان کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ افواہیں پھیلانا یا ان پر یقین کرلینا انسانی مزاج کا حصہ ہے اور سوشل میڈیا سے انھیں ایک ذریعہ مل گیا ہے۔
اس رپورٹ کے ساتھ ایک اور مضمون بھی شائع کیا گیا ہے جسے کئی مشہور ماہرینِ سیاسیات نے مل کر لکھا ہے۔ اس میں وہ کہتے ہیں کہ ’’اکیسویں صدی کی خبروں کے بازار میں ایک نئے نظام کی ضرورت ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ نظام آخر کیسا ہو جس میں جھوٹ کے بجائے سچ کو بڑھاوا مل سکے؟‘‘
سوروش ووشوگی کے مطابق ایک ایسے نظام کو لانا آسان نہیں ہوگا۔ جھوٹی خبر، سچی خبر کے مقابلے میں چھے گنا زیادہ تیزی سے پھیلتی ہے۔ تجارت، دہشت گردی، جنگ، سائنس اور ٹیکنالوجی کی خبریں بہت زیادہ پسند اور شیئر کی جاتی ہیں لیکن سیاست سے متعلق جعلی خبریں زیادہ آسانی سے ٹرینڈ کرنے لگتی ہیں۔
ریسرچ کی اہمیت
ماضی میں بھی فیک نیوز پر کئی بار تحقیقات ہوئی ہیں، لیکن وہ تمام تحقیقات کسی خاص واقعے پر مبنی تھیں۔ مثال کے طور پر بم دھماکے یا قدرتی حادثات کے بارے میں۔
یہ تازہ ریسرچ 2006ء سے 2016ء کے دوران انگریزی میں کی جانے والی ٹوئٹس پر مبنی ہے۔ اس لحاظ سے یہ بہت وسیع ریسرچ ہے۔
سچ کا معنی بیان کرنا اور اس کی جانچ کرنا ایک مشکل کام ہے۔ محقیقین نے اس کے لیے حقائق کی تصدیق کرنے والی کئی ویب سائٹس کی مدد لی، اور ان ویب سائٹس کی مدد سے انھوں نے سینکڑوں ایسی ٹوئٹس نکالیں جو جعلی تھیں۔ اس کے بعد انھوں نے سرچ انجن کی مدد سے یہ معلوم کیا کہ یہ جعلی خبریں کس کس طرح پھیلیں۔
انھوں نے اس طرح ایک لاکھ 26 ہزار ٹوئٹس نکالیں جنھیں 45 لاکھ مرتبہ ری ٹوئٹ کیا گیا۔
ان میں سے چند میں دوسری ویب سائٹس کی جعلی خبروں کے لنک بھی شامل تھے۔ اس کے علاوہ اصل اور صحیح خبروں کے پھیلنے کے بارے میں بھی تحقیق کی گئی۔ سائنس دانوں نے تحقیق کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جعلی خبریں زیادہ لوگوں تک پہنچتی ہیں اور ان کے پھیلنے کا دائرہ بھی وسیع ہوتا ہے۔(بی بی سی)