کشمیر کے مقبول اور جواں سال ہیرو برہان وانی کی ذات دو حصوں میں بٹ کررہ گئی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ بائیس سال کی یہ کہانی دو ادوار میں سمٹ گئی ہے۔ ایک برہان وانی وہ تھا جو فوجی وردی میں ملبوس اور بندوق تھام کر اپنی تصویر سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ کرتا، اور یوں بھارت کی قومی اَنا کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتا۔ بھارت کے انتہا پسند حلقے اور میڈیا ہر تصویر کے بعد شور و واویلا کرتے کہ ایک آتنک وادی نے اپنی تصویر اَپ لوڈ کرکے بھارت کو للکارا ہے۔ بھارت جیسے دیوہیکل ملک اور لاکھوں کی فوج کے لیے یہ نسبتاً ایک بے ضرر برہان وانی تھا جو اُن کی چڑ بن چکا تھا۔ یہ زمین پر چلنے پھرنے والا، سانس لینے اور آبادیوں سے جنگلوں تک گھومنے پھرنے والا برہان وانی تھا۔ دوسال قبل جب بھارتی فوج نے اس برہان وانی کو قتل کردیا تو اس کا جسم ہزاروں افراد نے آہوں اور سسکیوں کے ساتھ، نعروں اور گولیوں کی سلامی کے دوران منوں مٹی تلے دبادیا۔ یوں ایک کہانی کو اپنے انجام تک پہنچ جانا تھا، مگر ایسا ہوا نہیں۔ عمر عبداللہ نے اسی وقت نے ٹوئٹ کیا تھا کہ ’’مُردہ برہان زندہ برہان سے زیادہ خطرناک ہوگا‘‘۔ یہ جملہ واقعی سچ ثابت ہوا۔ مٹی کے نیچے سے ایک نیا برہان نمودار ہوئے بغیر وہ کشمیری نوجوانوں کے دلوں پر دو سال سے راج کررہا ہے۔ دوسال گزرنے کے باوجود برہان وانی کشمیر کی وادیوں، لالہ زاروں اور مرغزاروں میں ہی نہیں اُن کے دلوں میں بھی زندہ ہے۔آزادی کے نعروں کی صورت میں، سنگ باری کی صورت میں، فضائوں میں بلند ہونے والے ہاتھوں کی صورت میں، احتجاج و فریاد کی صورت میں،گیتوں اور نغمات کی شکل میں برہان وانی کشمیر کو اپنی ذات اور نظریات کے حصار میں لیے ہوئے ہے۔ بائیس سالہ نوجوان جس نے جدید ذرائع ابلاغ کا استعمال کرتے ہوئے کشمیر کی تحریکِ مزاحمت کو ایک نیا رنگ وآہنگ دیا۔ فیس بک اور ٹوئٹر کے ذریعے کشمیر کے ہزاروں نوجوانوں تک اپنا پیغام اس خوبصورتی اور صراحت سے پہنچایا کہ دو سال گزرنے کے بعد بھی کشمیری نوجوان اس مقصد کی خاطر بے دریغ اپنی جانیں لٹا رہے ہیں۔ ایسے کردار معاشروں میں جدوجہد اور مزاحمت کی علامت بن جاتے ہیں۔ ان کی مثال سرِ راہ اُس چراغ کی ہوتی ہے جس سے اپنے اور پرائے سب روشنی لیتے ہیں۔
برہان وانی کا مقبول کردار خود بھارت نے اپنے ظلم کے ذریعے تراشا۔ جب بھارتی فوج نے برہان وانی اور اس کے بڑے بھائی خالد وانی کو راہ چلتے ہوئے پکڑ کر تشدد کا نشانہ بنایا تو سولہ سالہ برہان وانی کے دل میں اس تشدد کا بدلہ لینے کا جذبہ پیدا ہوا، اور کچھ ہی عرصے بعد وہ اپنا گھر اور زندگی کی آسائشیں چھوڑ کر ککر ناگ کے جنگلوں میں جا بسا۔ اس نے جنگل کو اپنا مسکن بنایا، اپنے نظریات سے ہم آہنگ جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کا ایک گروپ بنایا، اپنے اصل نام اور تصویروں کے ساتھ مزاحمت کا آغاز کیا، ایک کلاشنکوف اور ایک اسمارٹ فون کے ذریعے برہان نے اپنی سرگرمیاں شروع کیں۔ وہ اپنی ایک تصویر سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ کرتا تو لوگ دیوانہ وار اس کو داد و تحسین سے نوازتے اور اس راہ پر چلنے کا عزم دہراتے۔ یوں وہ جدید ذرائع ابلاغ کے ذریعے کشمیری نوجوانوں کے دلوں کے تار چھیڑنے میں کامیاب ہوا۔ برہان وانی کو ’چی گویرا‘ اور ’پوسٹر بوائے‘ کہا جانے لگا۔ برہان وانی بے روزگاری کا ستایا ہوا نوجوان نہیں تھا، بلکہ اس کے والدین شعبہ تعلیم سے وابستہ سرکاری ملازم تھے، اور خود وہ عملی زندگی کے کیریئر کی دہلیز پر کھڑا تھا۔ اس کے باوجود اُس نے مزاحمت اور جدوجہد کا راستہ اپنایا تو اس کی وجہ نظریات تھے، آزادی اور حریت کا خواب تھا، اور بھارتی فوج کا جبر اور جمائو تھا جس نے دہائیوں سے کشمیریوں کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے۔ 8 جولائی 2016ء کو بھارتی فوج برہان وانی کو شہید کرنے میں کامیاب تو ہوگئی مگر یہ کامیابی بہت عارضی اور وقتی ثابت ہوئی، کیونکہ اس کے بعد کشمیر کا معاشرہ اس قوت اور ردعمل سے اُبل پڑا کہ بھارت کے لیے اسے کنٹرول کرنا ایک خواب بن کر رہ گیا۔ زمین کے اوپر چلنے پھرنے والے برہان سے زیادہ قبر میں لیٹا ہوا برہان وانی بھارت کے لیے خطرہ اور عذاب بن کر رہ گیا۔ وادیٔ کشمیر میں بے چینی اور شورش کی ایسی آگ بھڑک اُٹھی کہ ترغیب وتحریص، پیلٹ گن کی گولیاں اور تاریخ کا کوئی جبر و ستم اس احتجاج کو ختم نہیں کرسکا۔ دوسال سے کشمیر میں ایک قیامت برپا ہے، سینکڑوں افراد شہید وزخمی ہوچکے ہیں جن میں سوشل میڈیا میں دھوم مچانے والے برہان وانی کے گروپ کے گیارہ افراد بھی شامل ہیں جو ایک ایک کرکے بھارتی فوج کے ساتھ تصادم میں کام آئے، اس کے باوجود بھارت کو کشمیر کے حالات کنٹرول کرنے میںکامیابی نہیں ہوئی۔ برہان وانی کے بعدکشمیر میں نوجوانوں کی ایسی نسل سرگرم ہے جو موت کے خوف سے آزاد ہے اور بھارتی فوجیوں کی بندوقوں کے آگے سینہ تان کر کھڑی ہوتی ہے۔ جذبات کی اس سطح کے حامل نوجوانوں کی نسل کا سامنے آنا بھارت کے لیے دردِسر ہے۔ یہ وہ نوجوان ہیں جو کسی بھی محاصرے میں حریت پسندوں کی مدد کرکے بھارتی فوجیوں کی گولیوں کا نشانہ بن کر امر ہوجاتے ہیں۔
بائیس سالہ برہان وانی کی شہادت نے کشمیر کو اقوام عالم کے ضمیرکے لیے سوالیہ نشان بناکر رکھ چھوڑا ہے۔ یہ حقیقت میں ’’برہان ازم‘‘کا طوفان ہے جس میں بھارت کی اَنا اور طاقت و نخوت ہی نہیں بلکہ بھاجپا کے کشمیر کی انڈینائزیشن کے تمام خواب بہہ رہے ہیں اور دنیا انہیں بہتے ہوئے دیکھ رہی ہے۔ اس طوفان نے منقسم حریت کانفرنس کو تین طاقتور سیاسی شخصیات کے گرد جمع کیا۔ پاکستان کے سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے اقوام متحدہ کے ایوانوں میں برہان وانی کو نوجوان لیڈر اور ان کی شہادت کو ماورائے عدالت قتل قرار دیا۔ پاکستان تو کشمیر میں ایک فریق کے طور پر ہمیشہ سے دخیل ہے، اس طوفان سے چین، ایران اور روس جیسے ملکوں کی نظریں بھی اپنے پہلو میں دہکتے ہوئے آتش فشاں پر مرکوز ہوگئی ہیں۔ یہاں تک کہ اقوام متحدہ جیسا سست اور بے کار ادارہ بھی برہان ازم کے دو برسوں میں پیش آنے والے حالات وواقعات پر ایک جامع رپورٹ پیش کرنے پر مجبور ہوا۔ پاکستان میں برہان وانی پر اب تک تین فلمیں بن چکی ہیں اور ہر سال برہان ڈے منایا جانے لگا ہے۔ یوں دنیا کے ساتھ ساتھ بھارت کو اس جملے کا معانی اور مفہوم بخوبی معلوم ہوگیا ہے کہ زندہ برہان وانی سے زیادہ مُردہ برہان وانی خطرناک ہوگا۔ اس لیے زندوں سے معاملات طے کرنے کی قدر و اہمیت گزشتہ دوسال میں کچھ اور کھل کر سامنے آگئی ہے۔