سوشل میڈیا پر جعلی خبروں کی ترسیل عالمی مسئلہ ہے، وقاص نعیم

نعمان انصاری
سوال: کیا آنے والے الیکشن میں جعلی خبریں(Fake News)، انتخابات کے عمل کو متاثرکریںگی؟ آپ کیا سمجھتے ہیں کس طرح جعلی خبریں عوام کی سوچ اور رائے پر اثر ڈالیں گی؟
جواب: 2016ء سے دنیا کے مختلف ممالک میں ہونے والے انتخابات پر جعلی خبروں کے اثرات کے تناظر میں، خواہ وہ 2016ء کے امریکی صدارتی انتخابات ہوں یا 2017ء میں کینیا میں ہونے والے انتخابات، یا 2018ء کے اٹلی کے عام انتخابات… یہ بات صاف ظاہر ہے کہ اندرونی و بیرونی ذرائع سے جعلی خبروں کو استعمال کرکے انتخابی عمل کو متاثر کرنے کی کوششیں اب غیر معمولی نہیں رہیں، بلکہ جعلی خبروں کی ترسیل بدقسمتی سے معمول کا حصہ بنتی جارہی ہے۔ لہٰذا یہ سوچنا کہ جعلی خبروں کا پاکستانی الیکشن مہم یا انتخابی عمل پر ہرگز کوئی اثر نہیں ہوگا، بھولپن کی علامت ہوگی۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وثوق سے یہ پیشین گوئی کرنا کہ جعلی خبروں کے انتخابات کے عمل پر اثرات کس قسم کے ہوں گے، مشکل ہے۔ ابھی تک دنیا میں جن انتخابات میں جعلی خبروں کا کچھ عمل دخل دیکھنے میں آیا ہے وہاں ماہرین اور تبصرہ نگاروں کی رائے یہ رہی ہے کہ جعلی خبریں بیشتر لوگوں کی سیاسی وابستگی پر اثرانداز نہیں ہوتیں، لیکن ایسے لوگ جو یا تو پہلے سے کسی سیاسی نظریے کے حامل ہوتے ہیں یا وہ جو الیکشن میں اپنے ووٹ کے استعمال کے بارے میں کسی حتمی فیصلے تک نہیں پہنچے ہوتے، وہ ان جعلی خبروں کی وجہ سے پولنگ اسٹیشنوں کا ضرور رخ کرتے ہیں۔ یعنی ووٹر ٹرن آئوٹ بڑھانے میں جعلی خبروں کا کردار نظر آتا ہے۔ امریکی صدارتی انتخابات اور برطانیہ کی یورپ سے علیحدگی کا ریفرنڈم اس کی دو نمایاں مثالیں ہیں۔ ان دو انتخابات میں جعلی معلومات کے ذریعے فیس بُک پر صارفین کو براہِ راست نشانہ بنایا گیا تھا۔ پاکستان میں فی الوقت ایسے آن لائن اشتہارات اور حربوں کے استعمال کے زیادہ امکانات نظر نہیں آتے، لیکن انتخابات کے تناظر میں اگر جعلی خبروں پہ نظر ڈالی جائے تو اس میں چند اقسام کی جعلی خبریں نمایاں نظر آتی ہیں، مثال کے طور پر ایسی خبریں جن میں کسی مشہورومعروف نیوز ادارے (جیسے کہ بی بی سی وغیرہ) سے من گھڑت خبریں منسلک کرکے ایک امیدوار کی دوسروں پہ سبقت ثابت کرنا، کسی امیدوار سے جھوٹی افواہیں وابستہ کرکے اسے دفاع پر مجبور کردینا، اور جھوٹے عوامی سروے نتائج شیئر کرکے ایک سیاسی جماعت کو دوسرے پہ بھاری دکھانا… ان تمام اقسام کی جعلی خبروں کا پاکستان میں استعمال نہ صرف ممکن ہے بلکہ اس کی کچھ مثالیں منظرعام پر آ بھی چکی ہیں، جیسے کہ بیگم کلثوم نواز کی صحت کے حوالے سے افواہیں، پاکستان تحریک انصاف کے ترجمان سے منسلک کی گئی جھوٹی مذہبی نوعیت کے بیانات وغیرہ۔ حال ہی میں پاکستانی اخبار ڈان سے منسلک کرکے پاکستان افغانستان تعلقات کے حوالے سے ایک جھوٹی خبر سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی۔ ایسی من گھڑت خبریں اندرونی سیاسی حالات کے حوالے سے بھی بنائی جا سکتی ہیں اور ان پہ تردید سے قبل بہت ردعمل آسکتا ہے۔ اگر انتخابات کے حوالے سے ایسی جعلی خبریں عام ہوتی ہیں تو ان کا ایک اثر یہ ہوسکتا ہے کہ چند امیدواروں کو اپنی ساکھ اورسیاست کو بچانے کے لیے مسلسل اپنا دفاع کرنا پڑے، اور عین ممکن ہے کہ لوگ سیاست دانوں کی ذات سے متعلق غلط معلومات کا کچھ اثر قبول کریں۔ میرے خیال میں پاکستانی عوام نہ صرف باشعور ہیں لیکن بہت حد تک سیاسی طور پر شدت کا شکار ہیں، یعنی ایک پارٹی کے چاہنے والوں پر دوسری پارٹی کے منفی پروپیگنڈے کا اثر ہونا مشکل ہے۔ اس کا ایک نقصان یہ ضرور ہوگا کہ سچی خبروں کو بھی جھوٹ کہنا عام ہوجائے گا۔ امید کی ایک کرن یہ ہے کہ انتخابات میں ایک ماہ سے بھی کم عرصہ رہ گیا ہے جس میں شاید بہت ساری جھوٹی خبریں اثرانداز نہ ہوپائیں۔ لیکن اس کی صرف امید ہی کی جاسکتی ہے۔
سوال: انڈیا میں بھی پچھلے دنوں مختلف ریاستوں کے انتخابات میں واٹس ایپ نے جعلی خبریں اور پروپیگنڈے کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا، جس کی وجہ سے بی جے پی کو انتخابات میں کامیابی ملی۔ کیا پاکستان میں بھی سیاسی جماعتیں سوشل میڈیا کو منفی پروپیگنڈے کے لیے استعمال کررہی ہیں؟
جواب: جی بالکل، یہ عمل اب کچھ عرصے سے سوشل میڈیا پر نظر آرہا ہے کہ ایک سیاسی جماعت اپنے نظریے کے فروغ یا مخالف سیاسی جماعتوں پر حملے کے لیے منفی پروپیگنڈا استعمال کررہی ہیں۔ تقریباً تمام بڑی سیاسی جماعتیں اپنے سوشل میڈیا ونگز تشکیل دے چکی ہیں، اور ان سوشل میڈیا ونگز کا کام ہے سوشل میڈیا پر شائع کرنے کے لیے مواد بنانا۔ اس مواد میں نہ صرف اپنے نظریے کو مشہور کرنے کی بات ہوتی ہے بلکہ پارٹی سے متعلق ایسے الزامات جو سوشل میڈیا کے ذریعے لگائے جا رہے ہوں اُن کا جواب دینا بھی ہوتا ہے۔ پاکستان میں بھی بھارت کی طرح واٹس ایپ کا استعمال پچھلے کچھ برسوں میں بہت عام ہوا ہے۔ بھارت میں ایک بہت خطرناک صورتِ حال دیکھنے میں آئی کہ امیدواروں سے منسلک جھوٹے آڈیو کلپ واٹس ایپ کے اوپر شیئر کیے گئے۔ واٹس ایپ پہ بھیجے گئے ان پیغامات کے بارے میں یہ تعین کرنا بہت مشکل ہے کہ یہ کس نے بنائے یا کہاں سے آئے۔ حال میں ملنے والی معلومات کے مطابق پاکستان میں بھی اس ہفتے سے واٹس ایپ کے ذریعے انتخابی مہم کے پیغامات پھیلانے کے عمل میں تیزی آئے گی، اور امکان ہے کہ غلط اور جھوٹی معلومات کو بھی استعمال کیا جائے گا۔
سوال: موجودہ دور کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ آن لائن دستیاب معلومات کے بارے میں کیسے جانا جائے کہ یہ معلومات درست ہیں یا غلط؟
جواب: جی یہ بات بالکل درست ہے، مختلف سافٹ ویئر کے استعمال سے تصاویر میں رد و بدل کرکے ان کا سیاق و سباق مسخ کردینے سے لے کر مکمل جھوٹی نیوز ویب سائٹس بنانے تک جھوٹی اورغلط خبروں کی ساخت میں اب اس قدر کوالٹی آگئی ہے کہ سچ اور جھوٹ کا فرق کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ لیکن یاد رہے کہ یہ تفریق کرنا ہر صورتِ حال میں مشکل نہیں ہے۔ بہت ساری غلط معلومات اپنی ناقص کوالٹی کی وجہ سے پکڑی جاتی ہیں۔ اسی طرح جب کوئی من گھڑت معلومات سوشل میڈیا پر شیئر ہوتی ہے تو اکثر صارفین بھی اس کی اصلیت بے نقاب کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں، اور اس کی تصدیق کرنے کی کوششوں کو دیگر صارفین کے ساتھ شیئر کرتے ہیں۔ پاکستان کے حوالے سے ٹوئٹر پر اکثر اوقات یہ رویہ دیکھنے میں آیا ہے۔ بہرحال فیس بک کے ذریعے جھوٹی معلومات اور خبریں پھیلانا ابھی بھی بہت آسان ہے اور ہر شخص کا ان خبروں پر مختلف ردعمل ہوتا ہے۔ جو صارفین جھوٹی خبروں کے حوالے سے آگاہ ہوں وہ خبردار رہتے ہیں، لیکن جو ایسی خبروں کی فراوانی کے بارے میں علم نہ رکھتے ہوں انہیں ایسی معلومات جانچنے میں دقت ہوسکتی ہے۔ دنیا بھر میں صحافتی ادارے اور غیر سرکاری تنظیمیں مسلسل ایسا معلوماتی مواد بنا رہے ہیں جس کی مدد سے صحافی اور عوام سچی اور جھوٹی خبروں میں فرق کرسکیں۔ اس حوالے سے حال ہی میں میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی نے بھی پاکستانی صارفین کے لیے ایک اردو کتابچہ ترتیب دیا ہے۔ چند آسان مشوروں پر عمل کرکے عوام کم از کم کچھ اقسام کی جھوٹی معلومات سے دھوکا کھانے سے بچ سکتے ہیں۔
سوال: سوشل میڈیا ایک طرف، اب تو پاکستان کے مرکزی ذرائع ابلاغ بھی جعلی خبریں اور غیر مصدقہ معلومات شائع اور نشر کرتے ہیں۔ ایسی صحافت کو کیسے ٹھیک کیا جاسکتا ہے؟
جواب: صحافتی اصولوں پر عمل پیرا ہوکر۔ تصدیق شدہ معلومات کی فراہمی صحافت کا ایک بنیادی اصول ہے، بلکہ تصدیق کا عمل صحافت کو دیگر قسم کی معلومات سے علیحدہ کرتا ہے۔ جلدی خبر دینے کی دوڑ میں بعض پاکستانی خبر رساں ادارے خبر کی مکمل تصدیق نہیں کرتے، یا مختلف ذرائع سے معلومات اکٹھی نہیں کرتے۔ سستی کا یہ رویہ صحافت پہ عوام کے اعتماد اور اعتبار کو ٹھیس پہنچاتا ہے۔ صحافیوں کو کوشش کرنی چاہیے کہ مکمل ثبوت اکٹھے کیے بغیر خبر مت چلائیں، اس سلسلے میں ذمے داری سے کام لیں۔
سوال: آج کی دنیا میںجعلی خبریں(Fake News) ایک منافع بخش کاروبار ہے، یا سیاسی مقاصد کو حاصل کرنے کا ایک ذریعہ؟
جواب: دونوں۔ بہت ساری ویب سائٹس جھوٹی خبریں چھاپ کر لوگوں کو اپنی طرف مائل کرتی ہیں، اور ان کی ویب سائٹ وزٹ سے اشتہارات بیچ کر پیسے کمائے جاتے ہیں۔ اسی طرح سیاسی مقاصد کے لیے کیے جانے والے پروپیگنڈے میں بھی جھوٹی اور جعلی خبروں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ پروپیگنڈے کی صفت ہے کہ یہ لوگوں کی رائے کو کسی خاص مقصد کے موافق بنانے کے لیے پھیلایا جاتا ہے، اور اس کے فروغ میں جھوٹ کا سہارا لینے سے عار نہیں کیا جاتا۔ بعض اوقات سیاسی مقاصد اور کاروبار میں بھی کنکشن ہوتے ہیں جیسے کہ کیمبرج اینا ٹیسکا اسکینڈل سے نظر آتا ہے۔
سوال: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کا ڈیجیٹل میڈیا سیکٹر اس قابل ہے کہ وہ لوگوں کو جعلی خبریں اور پروپیگنڈے سے بچنے کے لیے رہنمائی دے سکے؟
جواب: پاکستان کا ڈیجیٹل میڈیا سیکٹر عالمی ڈیجیٹل میڈیا سے جڑا ہوا ہے، اور جیسا کہ پہلے ذکر ہوا، جعلی خبریں کسی ایک ملک کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری دنیا کو درپیش ایک چیلنج ہے۔ سو اس سلسلے میں عالمی حلقوں میں جو رہنمائی موجود ہے پاکستانی بھی اُس سے مستفید ہوتے ہیں۔ 2016ء کے امریکی انتخابات کے بعد جعلی خبروں کا تذکرہ عام ہوگیا جس کی وجہ سے لوگوں کو جعلی خبروں کے بارے میں آگہی ملی۔ لیکن یاد رہے کہ یہ آگہی عوام کے اُس طبقے تک محدود ہے جو پڑھا لکھا ہے، شہری علاقوں میں رہائش پذیر ہے اور عالمی خبروں سے واقف ہے۔ پاکستانی عوام کا ایک بڑا حصہ نیوز لٹریسی یا ڈیجیٹل لٹریسی سے ناواقف ہے، لہٰذا ان کی مدد کے لیے پاکستانی ڈیجیٹل سیکٹر کو مزید کوشش کرنے کی ضرورت ہے، خاص طور پر پاکستان میں بیشتر جعلی معلومات اردو میں پھیلائی جاتی ہیں، اس لیے جھوٹی معلومات اور خبریں جانچنے کے لیے مدد بھی قومی و علاقائی زبانوں میں ہونی چاہیے۔ اس کے لیے ٹیکنالوجی سے وابستہ پاکستانی ماہرین اور اداروں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔