بدلتا ہوا پاکستان …  سیاستدانوں کا سخت امتحان؟

محمد انور

اسے ملک وقوم کی خوش قسمتی کہا جائے یا پھر’’نئے پاکستان‘‘کی شروعات کہ سابق و نااہل وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے بانی قائد میاں نوازشریف غیرقانونی اثاثے بنانے کے الزام میں مجرم قرار پائے تو دوسری طرف سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری اور اُن کی بہن فریال تالپور کے خلاف 35 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کے الزام میں تحقیقات شروع ہوگئی۔ آصف زرداری، ان کی ہمشیرہ، منی لانڈرنگ کے الزام میں گرفتار حسین لوائی، انورمجید اور دیگر کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں بھی ڈال دیا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نوازشریف اور اُن کے خاندان کے بعد اب آصف علی زرداری اور اُن کا خاندان بھی قانون کی گرفت میں آنے والا ہے۔ چونکہ آصف زرداری دوستوں پر نوازشوں کے حوالے سے زیادہ مشہور ہیں اس لیے اُن کے دوست اُن سے پہلے ’’اندر‘‘ پہنچ چکے ہیں۔

ملک کے اکثر سیاست دانوں پر کرپشن کے الزامات ہیں، اس لیے سیاست بدنام ہوچکی ہے۔ یہ بااثر سیاست دان ماضی میں مختلف وجوہات کی بنا پر سزا سے بچتے بھی رہے ہیں لیکن 2013ء سے ملک جس راہ پر چلنا شروع ہوا اُس سے یہ خوش فہمی پیدا ہوئی کہ پاکستان اب تبدیل ہورہا ہے۔ یہ گمان اس لیے بھی ہونے لگا تھاکہ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کو ملک کی عسکری قوت نے سخت فیصلوں کے بعد رینجرز کی مدد سے ’’پُرامن‘‘ بنادیا، حالانکہ ایسا ہوجانے کی امید دم توڑ چکی تھی۔

کراچی کو 1992ء سے سیاست کی آڑ میں کرچی کرچی کردیا گیا تھا۔ 1992ء سے 2013ء تک سیاست ہی نہیں بلکہ ’’حقوق‘‘ کے معنی بھی تبدیل کردیے گئے تھے۔ ایم کیو ایم پاکستان سے برطرف کردہ الطاف حسین نے ’’فلسفۂ محبت‘‘ کی بازگشت میں نفرتوں کی تاریخ تخلیق کی اور سچ وجھوٹ کا فرق سرے سے ختم کرنے کی کوشش کی۔ پڑھے لکھے لوگوں کا روشنیوں کا شہرکم و بیش 26 سال تک ہر طرح کی روشنیوں سے محروم رہا۔

یہ صرف ’’قانون کا ڈنڈا گھومنے‘‘ سے ممکن ہوا۔ وہ قانون جسے مفلوج رکھنے کا الزام ان ہی سیاسی جماعتوں پر عائد کیا جاتا ہے جو ووٹرز کو تمام مسائل حل کرنے کا جھانسہ دے کر اسمبلیوں میں پہنچ کر سب کچھ بھول جایا کرتی ہیں۔ کراچی میں قانون کی حکمرانی قائم ہونے سے مثبت سوچ رکھنے والوں کو یقین ہوگیا تھاکہ اب صرف مائنس الطاف ہی نہیں بلکہ مائنس نوازشریف اور آصف زرداری ہونے کا وقت بھی آچکا ہے۔ پھر قوم دیکھ رہی ہے کہ نوازشریف کسی بھی عوامی عہدے کے لیے تاحیات نااہل ہونے کے 8 ماہ بعد مجرم بھی قرار پائے۔

جو لوگ الطاف حسین اور ان کی جماعت کے خلاف کارروائی کو مہاجروں کے خلاف کارروائی سے منسوب کررہے تھے اب نوازشریف، ان کی بیٹی اور داماد کے مجرم ٹھیرنے، اور آصف زرداری، ان کی بہن اور دوستوں کے گرد گھیرا تنگ ہونے پر ملک کے ’’سیدھے راستے‘‘ کی طرف چلنے کا یقین کرچکے ہیں۔

پوری قوم کے سامنے پہلی بار عدلیہ کا جرأت مندانہ کردار بھی سامنے آرہا ہے۔ عدلیہ کو یہ ہمت کیسے ملی، یہ بھی ایک سوال ہے۔ لیکن یہ وہ سوال ہے جس کا جواب سب جانتے ہیں مگر دینا نہیں چاہتے۔

پیپلزپارٹی پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری جو ’’بڑا بول‘‘ بول کر اس سے انکار کردیا کرتے ہیں، قومی احتساب بیورو اور اُس کے چیئرمین کے خلاف دانت پیستے ہوئے یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ ’’اس کی کیا مجال کہ وہ میرے خلاف کارروائی کرے!‘‘ اب وہ اسی نیب کے سامنے ملزم بن کر پیش ہونے والے ہیں۔ شاید اب وقت آگیا ہے کہ آصف زرداری ’’اینٹ سے اینٹ بجانے‘‘ کی دھمکی کی طرح نیب کے خلاف بیان دینے سے بھی مکر جائیں۔ پیپلز پارٹی کی سابقہ سندھ حکومت کرپشن کے خلاف مسلسل کارروائیوں پر نیب کو ’’سندھ بدر‘‘ کرنے کی بھی کوشش کرچکی ہے۔ اس ضمن میں سندھ اسمبلی سے بل بھی منظور کروایا گیا لیکن پھر بھی انہیں اپنی مرضی کے قوانین بنانے میں ناکامی ہوئی۔ اسی طرح نیب کی طرف سے جب وفاقی حکومت کے خلاف احتسابی کارروائیاں کی گئیں تو مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں خصوصاً سابق حکمرانوں میں تشویش پھیل گئی، جس پر اُس وقت کے وفاقی وزراء نے یہ بھی کہہ دیا کہ’’ہماری غلطی تھی کہ نیب کو ختم نہیں کیا‘‘۔

دراصل ہمارے سیاست دانوں کی اکثریت کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ اُن کے سوا سب کے خلاف کارروائی ہو۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں نے اپنے اپنے طرزِعمل سے بارہا اس بات کا اظہار بھی کیا ہے کہ اُن کے خلاف نیب کو تحقیقات کا اختیار نہیں ہے، اُسے اپنے دائرۂ اختیار تک محدود رہنا چاہیے۔

سمجھ میں نہیں آتا کہ ملک اور قوم کو بے دردی سے لوٹنے والے سیاست دان یہ بات کیوں بھول جاتے ہیں کہ’’پاکستان اللہ کی زمین پر اللہ کا ایک عظیم تحفہ ہے، اس کی حفاظت اللہ ہی اپنے فرشتوں کے ذریعے کرتا ہے۔ اس ملک کے خلاف سازشیں کرنے والے تادیر پنپ نہیں سکے اور اُن کا عبرت ناک انجام ہوا۔ جبکہ اقتدار پر پہنچ کر بڑی بڑی باتیں کرنے والوں کی اولادیں بھی آج عبرت کا نشان بن چکی ہے۔ چاہنے والوں کے دلوں میں بھٹو زندہ تو ہے مگر ان چاہنے والوں کو بھی بھٹو کی اولادوں سے کوئی غرض نہیں۔ ذوالفقار علی بھٹوکی آج ساری جائداد داماد یا بہو کے کنٹرول میں ہے۔ یہ دیکھنے کے باوجود پیپلز پارٹی کے آج کے کرپشن میں ملوث لیڈر کو یہ نظر نہیں آرہا ہے کہ آئندہ اس کی جائداد کے مالک بھی اس کے داماد بن جائیں گے۔ پھر بھی کرپشن کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا۔

مگر جرائم پیشہ اور شاطر اذہان کو یقین کرلینا چاہیے کہ اب وہ دن نہیں رہے جب غیرقانونی ذرائع سے حاصل کی گئی دولت چھپا لی جاتی تھی، بلکہ آج الحمدللہ وہ دور آچکا ہے جب ماضی میں کی گئی بدعنوانیوں اور کرپشن سے بنائی گئی دولت کا حساب بھی دینا ہوگا۔ 2018ء کے انتخابات دراصل الیکشن کے ساتھ سخت احتساب بھی ہے۔ یہ احتساب خود عوام کو براہِ راست کرنے کا موقع مل رہا ہے۔