پشاور میں اے این پی کی انتخابی مہم کے دوران خودکش حملے میں پارٹی کے سینئر رہنما اور پی کے 78 کے امیدوار ہارون بلور13ساتھیوں سمیت شہید ہوگئے۔ دھماکا یکہ توت کے علاقے رحیم آباد میں عوامی نیشنل پارٹی کی کارنر میٹنگ کے دوران ہوا۔ دھماکے کے بعد پولیس اور امدادی ادارے جائے وقوعہ پر پہنچ گئے اور تمام لاشوں اور زخمیوں کو لیڈی ریڈنگ اسپتال منتقل کردیا گیا۔ پولیس ذرائع کے مطابق دھماکا خودکش تھا۔ اسپتال انتظامیہ کے مطابق 35 کے قریب افراد زخمی ہوئے جن میں سے بعض کی حالت انتہائی تشویش ناک ہے۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ حملہ خودکش تھا، ہارون بلور تقریب کے مہمانِ خصوصی تھے، اُن کے پہنچنے پر حملہ آور نے اُن کے قریب پہنچ کر خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ دھماکے کے بعد اے این پی کے کارکنان بڑی تعداد میں جائے وقوعہ اور اسپتال پہنچ گئے اور اشتعال میں آکر اسپتال میں شدید توڑپھوڑ بھی کی جس سے عارضی طور پر حالات کشیدہ ہوگئے، جس پر سول انتظامیہ کو حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے پولیس کی بھاری نفری سمیت فوج کو بھی طلب کرنا پڑا۔ یاد رہے کہ جائے وقوعہ سے کچھ ہی فاصلے پر 2012ء میں اے این پی کے سینئر راہنما اور اُس وقت اے این پی کی حکومت میں سینئر وزیر برائے بلدیات بشیر احمد بلور پر بھی قاتلانہ خودکش حملہ ہوا تھا جس میں وہ کئی دیگر افراد کے ہمراہ شہید ہوگئے تھے، جبکہ اُس وقت ہارون بلور بھی وہاں موجود تھے جو زخمی ہوئے تھے۔
عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیارولی، میاں افتخار حسین، غلام احمد بلور، امیر حیدرہوتی اور دیگر سینئر رہنمائوں نے واقعہ پر سخت غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے صوبے بھر میں سوگ کا اعلان کیا ہے۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بلور خاندان اور دیگر متاثرہ خاندانوں کے دکھ میں برابرکے شریک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گرد حملے سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ دہشت گرد کس کس کو انتخابات سے باہر کرنا چاہتے ہیں۔ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے بھی حملے کی مذمت کی۔ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نوازشریف نے بھی حملے پر سخت افسوس کا اظہار کرتے ہوئے انتخابات کی سیکورٹی کے انتظامات پر شدید تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ چیف جسٹس نے سیاسی شخصیات کو خطرہ ہونے کے باوجود ان کی سیکورٹی واپس لی، اس دھماکے پر اُن سے سوال کیا جانا چاہیے۔ قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب شیرپائو، امیر جماعت اسلامی سراج الحق، جے یوآئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن، گورنر خیبر پختون خوا اقبال ظفرجھگڑا، نگران وزیراعلیٰ دوست محمد خان اور دیگر سیاسی و مذہبی رہنمائوں نے بھی ہارون بلور اور ان کے ساتھیوں کی شہادت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے دھماکے کی شدید مذمت کی ہے۔ چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار رضا نے بھی انتخابی مہم کے دوران خودکش حملے کی شدید مذمت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حملہ سیکورٹی اداروں کی کمزوری ہے۔ سی سی پی او پشاور قاضی جمیل کے مطابق حملے میں 8کلو دھماکا خیز مواد استعمال کیا گیا۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ہارون بلور کے لیے یکہ توت کے علاقے رحیم آباد میں کارنر میٹنگ کا اہتمام کیا گیا تھا، ہارون بلور تقریباً رات پونے گیارہ بجے وہاں پہنچے تو اے این پی کے مقامی کارکنوںکی جانب سے آتش بازی کرکے ان کا استقبال کیا گیا۔ ہارون بلور جونہی اجتماع گاہ والی گلی میں پہنچے تو ایک خودکش حملہ آور نے ان کے قریب آکر خود کو اڑا دیا، جس کے ساتھ ہی اندھیرا چھا گیا۔ عینی شاہدین کے مطابق اس حملے کے وقت ہارون بلورکے چچا الیاس بلور بھی اسٹیج پر موجود تھے، جبکہ ان کے تایا حاجی غلام احمد بلور اُس وقت شیخ آباد میں ایک کارنر میٹنگ میں شریک تھے، جس کے بعد وہ بھی رحیم آبادکے اجتماع میںشرکت کے لیے آنے والے تھے۔
یکہ توت کے علاقے رحیم آباد میں خودکش حملے میں شہید ہونے والے 14 افرادکے نام جاری کردیئے گئے ہیں، جن میں 18 سالہ خمیرخان ولد مددخان ساکن شہیدآباد پھندو، 25 سالہ عارف حسین ولد قنبرعلی ساکن کوچہ رسالدار،45 سالہ حاجی محمد ولد شیخ جان ساکن ٹیڈی گیٹ یکہ توت، 30 سالہ مجاہداللہ ولد طلا محمد ساکن یکہ توت،30 سالہ عمران ولد عثمان ساکن شادباغ، 20 سالہ نجیب ولد رحمت اللہ ساکن یکہ توت، 18 سالہ اخترگل ولد حبیب ساکن جان آباد،14سالہ محمد شعیب ولد شفیع اللہ ساکن یکہ توت محلہ مقرب خان، آصف ولد طائوس ساکن چن آغا کالونی، حذیفہ ولد نوید ساکن چن آغا کالونی شامل ہیں۔ زخمیوں میںسے 35 افراد ایل آر ایچ اور 12 خیبر ٹیچنگ اسپتال میں زیر علاج ہیں جن میں بعض کی حالت تشویش ناک بتائی جاتی ہے۔
پشاور کے مشہور بلور خاندان کے چشم و چراغ بیرسٹر ہارون احمد بلور سابق صوبائی وزیر بشیر احمد بلورکے صاحبزادے تھے۔ انہوں نے برطانیہ سے بار ایٹ لا کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد عملی زندگی کا آغاز وکالت سے کیا تھا، تاہم کچھ عرصے بعد اپنی خاندانی روایات کوآگے بڑھاتے ہوئے میدانِ سیاست میںسرگرم ہوگئے تھے۔2001ء کے بلدیاتی انتخابات میں انہوں نے قسمت آزمائی کی اورپشاور ٹائون ون کے ناظم منتخب ہوئے، پرویزمشرف دورکے دوسرے بلدیاتی انتخابات میں انہوں نے جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر ضلع ناظم کے منصب کے لیے الیکشن لڑا تھا لیکن کامیاب نہیں ہوسکے تھے۔ ہارون بلور نے والد کی شہادت کے بعد 2013ء کے انتخابات میں اپنے والدکے حلقے سے عوامی نیشنل پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔2018ء کے انتخابات میں وہ اسی حلقے سے میدان میں تھے جس کا موجودہ نمبر پی کے 78ہے۔ ہارون بلور اپنی انتخابی مہم بھرپور انداز میں چلا رہے تھے لیکن زندگی نے ان سے وفا نہیں کی۔
یاد رہے کہ بطور سینئر وزیر بشیراحمد بلور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پیش پیش رہے تھے، اور اس عرصے میں اُن پر ایک درجن سے زائد حملے ہوئے تھے لیکن وہ ان میں بچتے رہے تھے، البتہ قصہ خوانی بازار ڈھکی منور شاہ میں 2012ء میں ہونے والے خودکش حملے میں وہ جاں بحق ہوگئے تھے۔ جہاں بھی کوئی دھماکا ہوتا بشیر بلور فوراً موقع پر پہنچتے تھے اورکسی قسم کے خطرات کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ اُس زمانے میں اُن کی یہ پشتوکہاوت بڑی مشہور ہوگئی تھی جس میں وہ کہا کرتے تھے کہ جو رات تقدیر میں قبر میں لکھی ہے وہ کبھی بھی بستر پر نہیں گزاری جا سکتی۔ بشیر بلور کی وفات کے بعد ہارون بلور نے ان کی سیاست سنبھالی اور اپنے والد کی طرح وہ بھی کسی قسم کے خطرے کی پروا نہ کرتے ہوئے شہرکے لوگوںکی خوشی اور غم میں شرکت کرتے تھے۔ رحیم آباد کے اجتماع میں ان کے ساتھ صرف ان کے چچا الیاس بلور موجود تھے۔ ان کے بیٹے دانیال بلور اتفاق سے ہمراہ نہیں تھے۔ دانیال بلور والد کی شہادت کے فوری بعد سامنے آئے اور کارکنوں کو بھی سہارا دیا۔ دانیال بلورکا کہنا تھا کہ ان کا والد کے ساتھ دھماکے سے 20 منٹ قبل فون پر رابطہ ہوا تھا۔ ہمیشہ اُن کے ساتھ رہتا تھا، آج اتفاق سے والدکے ساتھ نہیں جاسکا تھا۔
دوسری جانب پولیس ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ خودکش حملہ آور ایک نوعمر لڑکا تھا جس کا سر ایک قریبی مکان سے ملا ہے۔ سی سی پی او پشاور قاضی جمیل نے میڈیا کو بتایا کہ اس حملے میں آٹھ کلو ٹی اینڈ ٹی دھماکا خیز مواد استعمال کیاگیا۔ ذرائع کے مطابق خود کش حملہ آور پہلے ہی اجتماع گاہ میں موجود تھا۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ نیکٹا اور دیگر ادارے انتخابی امیدواروں پر حملوں کے خدشات کا اظہار کرچکے ہیں جبکہ اے این پی ہمیشہ دہشت گردوں کے نشانے پر رہی ہے، اس کے باوجود اس اجتماع کے حوالے سے مناسب سیکورٹی انتظامات نہیں کیے گئے تھے جس کی وجہ سے خودکش حملہ آور اپنے ہدف تک آسانی سے پہنچنے میں کامیاب ہوا۔ اس واقعے کے بعد 2013ء کے عام انتخابات کی طرح 2018ء کے عام انتخابات میں بھی عوامی نیشنل پارٹی وہ پہلی جماعت ہے جس کے کسی راہنما یا امیدوار کو دہشت گردی کے حملے میں ہلاک کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ عام انتخابات میں عوامی نیشنل پارٹی پر31 دہشت گرد حملے کیے گئے تھے جن میں درجنوں افراد شہید ہوئے تھے، جبکہ ہارون بلور کے تایا حاجی غلام احمد بلور پر بھی یکہ توت کے علاقے میں ایک بم حملہ ہوا تھا، تاہم وہ اس حملے میں بچ گئے تھے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے قائدین ابھی تک گلہ کرتے ہیں کہ گزشتہ انتخابات میں انہیں انتخابی مہم چلانے نہیں دی گئی تھی۔ 2018ء کے انتخابات کی مہم کے دوران اگرچہ پہلا دھماکا گزشتہ دنوں بنوں میں ایم ایم اے کے امیدوار شیرین مالک پر کیا گیا، تاہم اس میں چند افراد معمولی زخمی ہوئے تھے اور کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا، جبکہ یکہ توت کے علاقے رحیم آباد میں اے این پی کی کارنر میٹنگ پر ہونے والا حملہ انتہائی جان لیوا ثابت ہوا ہے جس میں 14 افراد شہید اور درجنوں زخمی ہوگئے ہیں۔
دریں اثناء خیبر پختون خوا کے نگران وزیراعلیٰ جسٹس (ر) دوست محمد خان نے یکہ توت میں اے این پی کے رہنما ہارون بلور اور ان کے ساتھیوںکی خودکش حملے میں شہادت کے بعد ہنگامی اجلاس بلایا جس میں چیف سیکرٹری، آئی جی پولیس اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ اجلاس میں خودکش دھماکے کے تمام پہلوئوں کا باریک بینی سے جائزہ لیا گیا اور سیکورٹی اداروں کو ہدایت کی گئی کہ وہ اس معاملے کا ہر پہلو سے جائزہ لیں اور غفلت کے مرتکب افراد کا تعین کیا جائے۔ نگران وزیراعلیٰ نے یقین دلایا کہ واقعہ کے ذمے داروں اور غفلت برتنے والے افراد کے بارے میں نہ صرف قوم کو آگاہ کیا جائے گا بلکہ ایسے تمام افراد کو عہدوں سے فارغ کیا جائے گا جو اس اندوہناک واقعے میں غفلت کے مرتکب پائے جائیں گے۔ نگران وزیراعلیٰ جسٹس (ر) دوست محمدخان کی اس واضح یقین دہانی کے باوجود خیبر پختون خوا میں بالعموم اور پشاور کے شہریوں میں بالخصوص اس واقعے کے بعد اس خوف اور سراسیمگی کا پیدا ہونا فطری امر قرار پائے گاکہ امن وامان کی بحالی کے حوالے سے حکومتی دعوے محض ڈھکوسلہ اور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہیں۔ بھٹو خاندان کی طرح بلور خاندان شاید پاکستان کا وہ دوسرا بدقسمت سیاسی خاندان ہے جس کے تین سپوت سیاسی جدوجہد کے دوران اپنی جانوں کی قربانی دے چکے ہیں جن میں بشیر بلور کے علاوہ غلام احمد بلور کے اکلوتے جواں سال فرزند شبیر احمد بلور 1997کے انتخابات کے دوران مخالف سیاسی جماعت کے کارکنان کی فائرنگ کا نشانہ بن کر جاں بحق ہوگئے تھے، جب کہ ہارون بلور اس خانوادے کے تیسرے فرد ہیں جو اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کرگئے ہیں۔ یہ اندوہناک واقعہ جہاں بلور خاندان اور اے این پی کے لیے بہت بڑے صدمے کا باعث بنا ہے وہیں اس واقعے سے عام شہریوں کے علاوہ تمام جماعتوں کے کارکنوںکی آنکھیں بھی اشکبار ہیں، اور بلور خاندان کے اس دکھ کو سیاسی اختلافات سے قطع نظر ہر سطح پر تمام سیاسی جماعتوں کی صفوں میں شدت سے محسوس کیا جارہا ہے۔