دہشت گردی کے واقعات۔۔۔ ملکی سیاست میں ان کے اثرات و نتائج

صوبہ خیبر پختون خوا کا دارالحکومت پشاور ایک بار پھر سفاکانہ دہشت گردی کا شکار ہوگیا۔ دہشت گردوں نے پشاور میں عوامی نیشنل پارٹی کی انتخابی ریلی کو نشانہ بنایا جہاں پشاور کے معروف و ممتاز سیاسی خاندان کے سپوت بیرسٹر ہارون بلور رابطۂ عوام کے لیے موجود تھے۔ دہشت گردی کی اس واردات کا ایک اور المناک پہلو یہ ہے کہ بلور خاندان کو پہلی بار دہشت گردی کا نشانہ نہیں بنایا گیا ہے، بلکہ اس سے قبل بھی یہ خاندان دہشت گردی کا شکار ہوچکا ہے۔ پشاور میں دہشت گرد حملے میں شہید ہونے والے بیرسٹر ہارون بلور کے والد بشیر احمد بلور بھی 2012ء میں دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں۔ اسی خاندان کے سب سے اہم رہنما غلام احمد بلور پر بھی حملہ ہوچکا ہے لیکن اﷲ نے ان کو محفوظ رکھا۔ دہشت گردی کی اس المناک اور ہولناک واردات میں صوبائی اسمبلی کے امیدوار بیرسٹر ہارون بلور کے ساتھ 15 افراد شہید ہوئے ہیں۔ اس سانحے سے چند روز قبل ہی سینیٹ میں قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے اجلاس میں نیشنل کاؤنٹرٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) کی جانب سے رپورٹ پیش کی گئی تھی جس کے مطابق انتخابی مہم کے دوران رہنماؤں کو دہشت گردی کا نشانہ بنائے جانے کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا۔ اس میں عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی، تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان، جمعیت علمائے اسلام کے رہنما اور سابق وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا اکرم خان درانی، قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیرپاؤ جماعت الدعوہ کے سربراہ حافظ سعید کے بیٹے اور امیدوار قومی اسمبلی طلحہ سعید کے نام بھی شامل ہیں۔ واضح رہے کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امورِ داخلہ کے سربراہ سابق وزیر داخلہ رحمان ملک ہیں جو ماضی میں سیکورٹی سے متعلق اداروں سے وابستہ رہے ہیں۔ اس لیے وہ اس رپورٹ کے مندرجات اور اس کی اہمیت سے واقف ہیں۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے سیاست دانوں اور سیاسی رہنماؤں کے حفاظتی اقدامات کے بارے میں وزارتِ داخلہ سے رپورٹ بھی طلب کرلی تھی۔ سیکورٹی کے ایک ادارے کی جانب سے پارلیمان کی ایک کمیٹی کے سامنے انتخابی مہم کو درپیش دہشت گردی کے خطرے سے خبردار کردیاگیا تھا، اور پشاور میں اے این پی کی انتخابی ریلی پر دہشت گردانہ حملے نے ان خدشات کی تصدیق کردی۔ ابھی تک بظاہر خیبر پختون خوا میں اے این پی کو نشانہ بنایا گیا ہے جو طویل عرصے سے دہشت گردی کا شکار ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جو آپریشن کیے گئے تھے اُس کے بعد حکومت اور سیکورٹی اداروں کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ ملک میں امن قائم کردیا گیا ہے اور دہشت گرد تنظیموں کے ڈھانچے توڑ دیے گئے ہیں، لیکن پشاور کے المناک واقعے نے یہ پیغام دیا ہے کہ ابھی تک دہشت گردی کے خطرات کم نہیں ہوئے ہیں، حالانکہ قوم نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بہت قربانیاں دی ہیں، بہت صبر کا مظاہرہ کیا ہے، انسانی حقوق کی پامالی کو برداشت کیا ہے۔ اس واقعے کی ایک اور تناظر میں اہمیت ہے، وہ یہ کہ انتخابی نظام الاوقات کے اعلان سے قبل الیکشن کمیشن کی جانب سے ان خدشات کا اظہار کیا گیا تھا کہ ملک میں پُرامن انتخاب کا عمل آسان نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے کہا گیا تھا کہ وہ پارلیمان کی کمیٹی کو بند کمرے کے اجلاس میں تفصیلات سے آگاہ کرسکتے ہیں۔ ان کے مطابق عالمی طاقتیں انتخابات کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہیں۔ ان خبروں کے تناظر میں انتخابی نظام الاوقات کے اعلان کے باوجود انتخابی عمل کے انعقاد پر شکوک و شبہات کے سائے برقرار رہے ہیں۔ انتخابی عمل جاری ہے، اس کے باوجود ابھی بھی بہت سے ذہنوں میں انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے شبہات پائے جاتے ہیں۔ یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ وہ کون سی قوتیں ہیں جو انتخابات نہیں چاہتیں۔ اس بارے میں یہ بات کہی جارہی ہے کہ وہ قوتیں جو حکومتوں کے قیام اور خاتمے میں پسِ پردہ کردار ادا کرتی رہی ہیں وہ یہ چاہتی ہیں کہ انتخابات نہ ہوسکیں۔ یہ بات درست ہے کہ پاکستان مسلسل سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے، انتخابات کا تسلسل بھی ملک کو سیاسی استحکام نہیں دے سکا ہے، لیکن ہر قسم کے مسائل کے باوجود جمہوریت اور نمائندہ حکومت پر اتفاقِ رائے ہے۔ اس بات پر بھی اتفاقِ رائے ہے کہ انتخابات کا التوا ایسے سیاسی مسائل پیدا کرے گا جن کا حل کسی کے پاس نہیں ہوگا۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ پُرامن حالات میں انتخابات کا عمل مکمل ہو، لیکن انتخابات سے قبل پشاور میں اے این پی کے جلسے میں دہشت گردی کے سانحے نے آزادانہ انتخابی مہم کے بارے میں سوالات اٹھادیے ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کے تسلسل کے باوجود انتخابی عمل جاری ہے، اس لیے 25 جولائی کے انتخابات کو بھی اپنے وقت پر ہونا چاہیے۔ البتہ سیاسی جماعتوں اور ان کے کارکنوں کی آزمائش میں اضافہ ہوگیا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کا سانحہ اندھیرے کا تیر ہے جس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کہاں سے آئے گا، البتہ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان عالمی جنگ کا میدان ہے۔ اُس جنگ کا جو امریکہ اور اس کی اتحادی عالمی قوتوں نے جوہری قوت و طاقت پاکستان، اس کی بنیادی طاقت یعنی نظریاتی اور ایمانی طاقت اسلام کے خلاف چھیڑ رکھی ہے۔ اس تناظر میں پاکستان میں مارشل لا کے لگنے سے لے کر جمہوری اور منتخب حکومتوں کے قیام تک امریکہ اور عالمی و علاقائی طاقتوں نے پاکستان کے داخلی امور میں کھلی مداخلت کی ہے۔ دہشت گردی کے واقعات میں بیرونی طاقتوں کا ہاتھ بھی کھلا راز ہے، کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کو ہمیں نہیں بھولنا چاہیے۔ سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کو بدعنوانی کے مقدمے میں سزا ہوئی ہے، لیکن اسے وہ سیاسی اور نظریاتی جنگ کا نام دے رہے ہیں۔ 13 جولائی کو ان کی پاکستان واپسی اور اس کے بعد پیش آنے والے واقعات انتخابات اور اس کے بعد کے سیاسی منظرنامے پر اہم اثرات مرتب کریں گے، البتہ یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ اسلام، پاکستان اور عالم اسلام کے خلاف عالمی کفر کی یلغار جاری ہے، اس تناظر میں دہشت گردی کے واقعات اور پاکستان کی سیاست میں ان کے اثرات و نتائج کو دیکھنا ہوگا۔