حضرتِ ماہرالقادری (مرحوم) بجائے خود ایک لغت تھے، لیکن اردو کی کوئی لغت ایسی نہیں جو غلطیوں سے پاک ہو۔ یہ غلطیاں عموماً کتابت کی ہیں جسے سہوِ کاتب کہا جاتا تھا، اب یہ کمپوزر کے سر جاتی ہیں۔ ماہرالقادری نے ’’ہماری نظر میں‘‘ کے عنوان سے مختلف موضوعات پر نثر اور نظم میں لکھی گئی 76 کتابوں پر فاضلانہ تبصرے کیے ہیں اور تبصرے کا حق ادا کردیا۔ اس تبصرے کی لپیٹ میں ’قاموس الفصاحت‘ بھی آگئی ہے جو سید محمد محمود رضوی مخمور اکبر آبادی کی تالیف ہے، اور بقول مصنف اردو زبان کی کہاوتوں، محاوروں اور ’’روز مروں‘‘ کا گنجینہ ہے۔ ماہرالقادری نے ’’روزمروں‘‘ پر اعتراض وارد کیا ہے کہ روزمرہ کی یہ جمع درست نہیں ہے۔ اس لغت میں جو تسامحات سرزد ہوئے ہیں اُن کی نشاندہی بڑی خوبی سے کی گئی ہے جس سے عام قاری کو بھی فائدہ ہوگا۔ مخمور اکبر آبادی نے ’’آشنا‘‘ کو مذموم قرار دیا ہے، یعنی اس میں ذم کا پہلو ہے اور دوست احباب کے معنی میں اس کا استعمال مکروہ ہے، مگر وائو عطف کے ساتھ یار و آشنا جائز ہے۔ لیکن آشنا کا لفظ دوست اور واقف کے معنی میں بولا جاتا ہے۔ البتہ عورت کی نسبت سے آشنا میں ضرور ذم پایا جاتا ہے۔
مرزا غالب کا شعر ہے:
دے وہ جس قدر ذلت ہم ہنسی میں ٹالیں گے
بارے آشنا نکلا ان کا پاسباں اپنا
فاضل مؤلف نے ’مظاہرہ‘ کو مکروہ بتایا ہے، حالانکہ مظاہرہ اردو میں اس کثرت سے استعمال ہوتا ہے کہ اس میں کراہت کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا (آج کل تو ہر جگہ مظاہرے ہورہے ہیں جن میں تیزی آتی رہے گی)۔ لحیم، شحیم کو عامیانہ اور غیر مستند قرار دیا گیا ہے۔ شاید اکبر آباد میں ایسا ہوتا ہو۔ یہ الفاظ اردو روزمرہ بن چکے ہیں۔ موٹے اور فربہ آدمی کو اردو میں لحیم شحیم کہتے ہیں (’لحیم‘ لحم سے اور ’شحیم‘ شحم سے ہے، یعنی گوشت اور چربی)۔
ایک مزے کی بات ’قاموس الفصاحت‘ میں لکھی ہے ’’ٹپکے کا آم‘‘ کا مطلب ہے ادھ کچا، ناتجربہ کار آدمی۔ اس کا مخالف اسلوب ہے ’’پال کا آم‘‘۔ ٹپکے کا آم ادھ کچے کو نہیں بلکہ اُس آم کو کہتے ہیں جو درخت پر پکنے کے بعد زمین پر گرے۔ صاحبِ ’قاموس الفصاحت‘ نے معروف ضرب المثل میں بھی تصرف کیا ہے، لکھتے ہیں ’’خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پلٹ رہا ہے‘‘۔ جب کہ ’’رنگ پکڑ رہا ہے‘‘ ضرب المثل ہے۔ ’دھان پان‘ کو ’’پھول پان‘‘ لکھا ہے، جب کہ دھان پان نرم ونازک کو کہتے ہیں۔ جو انسان ذرا سی بھی مشقت اور گرانی برداشت نہ کرسکے اور جو چھوئی موئی کی طرح ہو اُسے دھان پان کہتے ہیں۔ جگر مراد آبادی کا شعر ہے:
صبر ٹوٹے ہوئے دلوں کا نہ لے
تُو یوں ہی دھان پان ہے پیارے
’اونگھنا‘ کا املا ’’اونگنا‘‘ دیا ہے۔
’اوت‘ کا لفظ اب تو سننے اور پڑھنے میں نہیں آتا، تاہم ’قاموس الفصاحت‘ میں اس کا مطلب نابکار، نالائق، ناہنجار، بدکار، بدخواہ، چنڈال، ناخلف، کپوت دیا ہے۔ اور کپوت کی وضاحت بھی کی ہے کہ یہ سپوت کی ضد ہے۔ لیکن ’اوت‘ تو اُس جوان شخص کو کہتے ہیں جو بن بیاہا یا لاولد فوت ہوجائے۔ ماہر القادری لکھتے ہیں کہ ان کے نواح میں عورتیں ایک دوسرے کو بددعا دیتی تھیں ’’تُو اوتی ہوجائے‘‘۔ یعنی تیری اولاد مر جائے۔ اوت کے معنی چنڈال صحیح نہیں ہے۔ چنڈال تو اچھوت، شودر اور بھنگی سے بھی نیچی ذات کے لوگوں کو کہتے ہیں۔ ماہرالقادری کی اس بات سے اختلاف کرنے کی جرأت کی جاسکتی ہے کہ اوت اُس جوان شخص کو کہتے ہیں جو بن بیاہا یا لاولد فوت ہوجائے۔ ہندی کا ایک قدیم شاعر کہتا ہے:
بیٹیاں جوائی لے گئے، بہوویں لے گئیں پوت
رہے منوہر جانگلی وہی اوت کے اوت
اس سے ظاہر ہے کہ بیٹیاں بھی تھیں اور بیٹے بھی۔ سب رخصت ہوئے تو شاعر بے چارہ اکیلا رہ گیا۔ لغت کے مطابق اُوت بروزن بھوت بے وقوف، نادان، جاہل کو کہتے ہیں۔ البتہ اگر الف بالفتح ہو یعنی اس پر زبر ہو تو اس کا مطلب ہے لاولد، بے اولاد، نامراد۔ ایک محاورہ ہے ’’اُوتوں کی فاتحہ‘‘۔ یہ فاتحہ بے اولادوں کو ثواب پہنچانے کے لیے دلائی جاتی ہے۔ ہندو اور بعض مسلمان خواتین کا یہ عقیدہ تھا کہ بے اولادوں کی فاتحہ کوئی نہیں دلاتا۔ ان کی روحیں بھٹکتی پھرتی ہیں۔ ایسا نہ ہو وہ بھوت، پریت بن کر ہمیں یا ہماری اولاد کو تنگ کریں۔ ’علمی اردو لغت‘ میں فاتحہ کو مونث لکھا ہے، اور ’نوراللغات‘ میں مذکر۔ اس کے مذکر ہونے کی سند یہ مشہور شعر ہے جو غالباً اکبر الٰہ آبادی کا ہے:
تمہیں بتلائیں ہم مرنے کے بعد کیا ہو گا
پلائو کھائیں گے احباب، فاتحہ ہو گا
ممکن ہے جس فاتحہ میں پلائو ہو وہ مذکر ہو، اور جس میں زیادہ اہتمام نہ ہو وہ مونث ہو۔
’قاموس الفصاحت‘ میں اور بھی کئی تسامح ہیں، چنانچہ جو بھی پڑھے سوچ سمجھ کر پڑھے، گو کہ اب ’قاموس الفصاحت‘ بمشکل دستیاب ہے۔ لیکن یہ ’تسامح‘ کیا ہے؟ یہ عربی کا لفظ ہے اور اس کا مطلب ہے: اس طرح بیان کرنا کہ مطلب صاف ظاہر نہ ہو۔ ذومعنی بات کرنا، غلطی، بھول چوک، چھوڑ دینا، سزا نہ دینا، معاف کردینا۔ ان کے علاوہ باہمی مہربانی اور چشم پوشی بھی ہے۔ لگے ہاتھوں ’قاموس‘ کی بات بھی کرلیں۔ عربی کی مشہور لغت بھی قاموس ہے اور عموماً لغت اور فرہنگ کے معنوں میں آتا ہے۔ تاہم قاموس کا مطلب ہے: سمندر، بحر۔ لیکن ’قاموس الفصاحت‘ کو تو ماہرالقادری نے ندی، نالہ بنادیا۔ حضرت خود بھی قاموس تھے۔ قاموس الفصاحت ہمارے پاس تھی، اچھا ہوا گم ہوگئی، ورنہ ہم سطر سطر اعتبار کر بیٹھتے۔
ماہرالقادری نے اپنی تحریروں میں کہیں کہیں پرانا املا استعمال کیا ہے جو اب متروک ہے۔ مثلاً انہوں نے ہر جگہ لنبا، لنبی لکھا ہے۔ یہ عربی کا قاعدہ ہے کہ جب ’ن‘ اور ’ب‘ ایک ساتھ آئیں تو میم کی آواز نکلتی ہے جیسے منبر، عنبر، قنبر وغیرہ۔ ان کا تلفظ ممبر، عمبر اور قمبر کیا جاتا ہے۔ سندھ کا شہر قنبر علی خان اس تلفظ کی وجہ سے اخباروں میں قمبر لکھا جاتا ہے۔ قنبر حضرت علیؓ کے غلام کا نام تھا۔ لیکن لمبا تو ہندی کا لفظ ہے، اسے لنبا یا لنبی لکھنا درست نہیں۔ اردو کے کئی الفاظ ایسے ہیں جن کا املا بدلا ہے یا متروک ہوگئے ہیں۔ بعض الفاظ کا املا سہولت کی خاطر بدلا گیا ہے۔ مثلاً ’انھیں‘، ’جنھیں‘ وغیرہ۔ یہ انہیں، جنہیں ہوگئے ہیں، تاہم سید مودودیؒ نے وہی املا استعمال کیا ہے۔ رئوف پاریکھ کا فتویٰ بھی انھیں کے حق میں ہے۔