نگاہِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم

تبصرہ کتب
تبصرہ کتب

کتاب : نگاہِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم
مصنفہ : شاہدہ لطیف
صدارت اعزاز حسنِ کارکردگی (ادب و صحافت)

صفحات : 160 قیمت :250 روپے
ناشر : بیت الحکمت لاہور
ملنے کا پتا : فضلی بک سپر مارکیٹ، اردو بازار کراچی

یا حبیبِ کبریاؐ! یاحبیبِ کبریاؐ!ہو عطا بس اک نگاہ یا حبیب ِکبریاؐ! خوش بخت شاہدہ لطیف عرض گزار ہے۔

’’کنیز خوش نصیب ہے
کہ وہ حبیب ِکبریاؐ کے روضے کے قریب ہے
ہوتے ہیں لاکھوں سجدہ ریز بندگانِ حق یہاں
ملک فلک سے آرہے ہیں آج تک درود کو
بہ ہر سُو، ملک ملک سے امڈ رہے ہیں قافلے
زباںپہ صرف ایک نام
یا حبیبِ کبریاؐ!
یا حبیبِ کبریاؐ!
……
فضا پُر نور ہوتی جارہی ہے
سیاہی دور ہوتی جارہی ہے
قریب آنے لگا ہے سبز گنبد
طلب مسرور ہوتی جارہی ہے
بدن شفاف ہوتا جارہا ہے
کثافت دور ہوتی جارہی ہے
یہ سجدہ روضۂ اطہر کا سجدہ
جبیں پُر نور ہوتی جارہی ہے
اور شاہدہؔ کی جبیں بھی پُرنور ہو گئی
……
مری آنکھوں کی دو جو پتلیاں ہیں
مدینے کے چمن کی تتلیاں ہیں
مدینے کی طرف میں گامزن ہوں
مرے تلووں میں کیسی بجلیاں ہیں

شاہدہ لطیف بھی خوشبو، پھولوں، تتلیوں اور رنگوں کے ساتھ رہتی ہے اور اس ساتھ نے اسے آگہی کی اس منزل پر پہنچا دیا ہے

کریں جو غور تو صحرا سمیت قدرت نے
نظارے پیدا کیے آپؐ کی نظر کے لیے
……
کچھ لفظ جوں ہی لغت میں آئے، چمک اٹھے
تازہ ہوا میں جیسے پرندے چہک اٹھے

پاک وطن کی سوندھی فضائوں میں شاہدہؔ بھی خوب چہک رہی ہے، ’’نگاہِ مصطفی‘‘ کے اوراق گواہ ہیں اور ان سے پھوٹتی خوشبو جب جسم و جاں میں تحلیل ہوتی ہے تو آرزو لبوں پر آجاتی ہے:

مہکتی جائوں، میں تازہ گلاب ہو جائوں
نبیؐ کے در تک اگر باریاب ہو جائوں
زمانہ جھوم اٹھے جس کے مصرع مصرع پر
بنیؐ کی نعتیہ ایسی کتاب ہو جائوں
مجھے یقین ہے کہ نعلینِ پاکؐ کو چھو کر
زمیں سے دور کہیں ماہتاب ہو جائوں
کوئی سوال نہ ٹہرے سماعتوں کا دین
میں ا ن کا ذکر کروں لاجواب ہو جائوں
میں سوہنی کی روایات کا تسلسل ہوں
کرم ہو انؐ کا تو مثلِ چناب ہو جائوں

’’نگاہِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ کے پیش لفظ میں محترم ریاض مجید رقم طرازہیں: ’’شاہدہ نے نعت نگاری کے وجد آفریں لمحات میں اپنے ہم کاروں اور وطن کو بھی یاد رکھا، تما م نعت نگاروں سے محبت اور ارضِ پاک کے لیے خیر و برکت کی دعائیں، ان کے نعتیہ مضامین و موضوعات میں شامل ہیں:

اک خیر فقط چاہوں گی میں پاک وطن کی
جب پوچھیں گے وہؐ ’’مسئلہ بتلائو تمہارا!‘‘
مانگوں نہ اور اس کے سوا میں دعائے خیر
قائم ہو میرے پاک وطن میں فضائے خیر

اک بھرپور صحافتی زندگی اور متعدد کتابیں لکھنے کے بعد صنفِ نعت کی طرف شاہدہ لطیف کا رجوع ان کی تخلیقی صلاحیتوں کی مبارک قلبِ ماہیت ہے۔ پہلے یہ صلاحیتیں ’’انٹرنیشنل‘‘ کی ترتیب و آرائش میں صرف ہوتی تھیں، اب وہ صلاحیتیں رُوبہ نعت ہورہی ہیں۔
پہلے ان کی تحریریں صحافتی تقاضوں، سفرناموں کی رنگارنگی اور دلچسپیوں کا مظہر تھیں، اب شاہدہؔ کے تخلیے یادِ حرم سے آباد ہیں۔ یہ خاص عطائے ربی ہے کہ وہ دنیاداری میں پھنسے ہوئے شب و روز میں سے کچھ لمحے اپنے بندوں کی یاد میں بسر کرنے کی توفیق بخش دیتا ہے، بقول کسے ؎

اللہ اگر توفیق نہ دے انساں کے بس کی بات نہیں

فکر و فن اور جذب و بیاں کی یہ رویہ ساز تبدیلی شاہدہؔ کی نعتوں میں بڑے قرینے سے جلوہ گر ہوئی ہے۔ ان کے قارئین کے لیے یہ خوش گوار تبدیلی زیادہ حیرت کا باعث نہیں ہونی چاہیے۔ زبان و بیان کے شعری اسالیب سے شاہدہ کا تعلق دیرینہ تھا، اب ان کے محسوسات کا تناظر بدلا ہے تو ماضی کی ساری ریاضت کو اظہار کی ایک نئی جہت مل گئی ہے۔ یہ جہت ان کو ایک ایسی بے کرانی میں کھینچ لائی ہے جس میں قدم قدم پر نئی حیرتیں اور گام گام پر نئی سرشاریاں ہیں۔ اسی سرشار کیفیت میں وہ دربارِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی حاضری نظم کرتی ہیں ؎

دربارِ گہر بار میں داخل جو ہوئے ہم
حیرت زدہ آنکھوں کو ملا اور ہی عالم
دل اپنا دھڑکنے کا عمل بھول رہا تھا
مشکل سے وہاں سانسوں کو ترتیب دیا تھا
معراجِ سعادت تھی، خوشی سب سے بڑی تھی
اے شاہدہؔ یہ دید و زیارت کی گھڑی تھی
پڑھنا تھا درود اور زباں گنگ ہوئی تھی
’’آگے بڑھو آگے بڑھو‘‘ آواز سنی تھی
کہتے ہیں کہ فردوس کا رستہ ہے یہیں سے
امت کا ہے وہ فرد تعلق ہو کہیں سے
سارے حرم پاک میں خوشبو کی فضا تھی
کونین کا سمٹا تھا جمال، ایسی جگہ تھی
اے کاش کہ تحلیل میں ہو جائوں ہوا میں
تاحشر مدینے میں رہوں، ہے یہ دعا میں
احسان مری ذات پہ ہے سرورِ دیں کا
عورت کو کسی نے بھی نہ رکھا تھا کہیں کا

شاہدہ لطیف ملک کی معروف اہلِ قلم ہیں، تلخیص و ترجمہ میں ’’دنیا کے 70 عجوبے‘‘، شعبہ تعلیم میں (بی اے کے لیے) ’’شارٹ اسٹوری اور ون ایکٹ ہے‘‘، ایک ناول ’’سات قدیم عشق‘‘، اس کے علاوہ ’’حکایات کا انسائیکلو پیڈیا‘‘، ’’پاکستان میں فوج کا کردار‘‘، ’’امریکہ، اسلام اور عالمی امن‘‘ کے شعری مجموعے، ’’معجزہ‘‘، ’’میں پاکستانی ہوں‘‘، ’’معرکۂ کشمیر‘‘، ’’برف کی شہزادی‘‘ (منظوم سفرنامہ)، ’’محبت ہو نہ جائے‘‘، ’’اُف یہ برطانیہ‘‘ (منظوم سفرنامہ)، ’’بیت اللہ پر دستک‘‘ کے بعد اب آٹھواں نعتیہ شعری مجموعہ ’’نگاہِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ نعتیہ ادب میں گراں قدر اضافہ ہے۔ 160 صفحات پر مشتمل یہ کیفیتِ قلب جب آپ پڑھیں گے تو اس کیفیت میں کھو جائیں گے اور محسوس ہوگا کہ یہ تو اپنی ہی کیفیت ہے۔
کتاب ’’بیت الحکمت‘‘ لاہور نے عمدہ کاغذ پر خوبصورت دیدہ زیب سرورق کے ساتھ شائع کی ہے۔ کراچی میں فضلی اینڈ سنز اردو بازار کراچی سے صرف 250 روپے میں حاصل کی جا سکتی ہے۔ فلیپ پر شاہدہؔ نے خوب لکھا:

میرے پاس لفظ نہیں کوئی کہ نثار ذکرِ نبیؐ کروں
نہیں سہل نعت کا حوصلہ، یہ تو عشق کہر کی بات ہے