سعودی عرب کی وزارتِ حج و عمرہ آئندہ ہفتے کے روز سے مملکت کے اندر سے مقامی اور مقیم غیر ملکی عازمین حج کی آن لائن رجسٹریشن کا آغاز کررہی ہے۔ 1439ھ حج سیزن کے لیے مختلف کمپنیوں اور حج ٹورآپریٹرز کے ذریعے آن لائن درخواستیں آئندہ ہفتے سے وصول کی جائیں گی۔ وزارتِ حج نے تمام کمپنیوں کو سختی سے پابند کیا ہے کہ وہ حج کی ترویج اور اشتہاری مہم کے دوران عازمین کے لیے’وی آئی پی‘ کی اصطلاح استعمال نہ کریں کیونکہ حکومت کی طرف سے تمام عازمین کو مساوی بنیادوں پر بلا تفریق سروسز فراہم کی جائیں گی۔ ’العربیہ ڈاٹ نیٹ‘ کے مطابق وزارتِ حج کا کہنا ہے کہ مقامی سطح پر حج کی رجسٹریشن کے لیے عمومی پروگرام، کم اخراجات پر حج اور حج المیسر جیسے تین پروگرامات تشکیل دیے گئے ہیں۔ ہر ادارے کی طرف سے حج رجسٹریشن کے لیے 93 فی صد کے تناسب سے افراد کا چناؤ کیا جائے گا، جب کہ مخصوص حج کوٹے سے 7 فی صد افراد لیے جائیں گے۔ وزارتِ حج نے مقامی سطح پر حج ٹور آپریٹرز کمپنیوں کو سختی سے تاکید کی ہے کہ وہ حج سروسز کے حوالے سے ’وی آئی پی‘ جیسی اصطلاحات استعمال کرنے سے گریز کریں اور اپنے اشتہارات میں مبالغہ آرائی سے اجتناب برتیں۔ ہر کمپنی عازمین کی رجسٹریشن کے وقت اپنا سرکاری رجسٹریشن نمبر، لائسنس نمبر اور مجاز تعداد کا واضح الفاظ میں ذکر کرے۔
فیض کی نظم ’ہم دیکھیں گے‘ پر بھارت میں تنازع
فیض کی نظم ’ہم دیکھیں گے‘ ان دنوں بھارت کے معروف ادارے فلم اینڈ ٹیلی ویژن انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا (ایف ٹی آئی آئی) میں تنازع کا باعث بنی ہوئی ہے۔
خبروں کے مطابق حکام نے ایف ٹی آئی آئی کی عمارت میں قائم ہاسٹل میں رہنے والے دو طالب علموں کو وہاں سے نکل جانے کا نوٹس دیا ہے۔ انڈین میڈیا میں شائع خبر کے مطابق ان دونوں نے دیوار پر ’ہم دیکھیں گے‘ لکھا تھا جسے حکام نے ’دھمکی آمیز‘، ’ونڈلزم‘ اور ’دیوار کو خراب کرنا‘ قرار دیا ہے۔ جب بی بی سی نے پونے میں قائم ادارے ایف ٹی آئی آئی کی طلبہ یونین کے جنرل سیکریٹری روہت کمار سے رابطہ کیا تو انھوں نے بتایا کہ ’’کل پورے دن کے دھرنے اور بات چیت کے بعد حکام نے نوٹس کو ہولڈ پر رکھ لیا ہے لیکن کہا ہے کہ آئندہ ایسی حرکت ہوئی تو بخشا نہیں جائے گا‘‘۔ انھوں نے بتایا کہ انتظامیہ نے پہلے کہا کہ ’’صرف اسی وقت ان لوگوں کو جاری کیا جانے والا نوٹس واپس لیا جائے گا جب وہ تحریری معافی نامہ لکھیں اور دیوار پر بنائی گریفٹی پر سفیدی کریں‘‘۔ طلبہ کا کہنا تھا کہ انھوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا ہے اور اس طرح کا نوٹس ان کی اظہارِ رائے کی آزادی پر قدغن لگانے کی کوشش ہے۔ مقامی اخبار ’پونے مرر‘ کا کہنا ہے کہ جن دو طلبہ کو سات تاریخ کی شام تک ہاسٹل کا کمرہ خالی کرنے کا نوٹس دیا گیا ہے ان میں سے ایک کا تعلق بھارت کی جنوبی ریاست کیرالہ، جبکہ دوسرے کا تعلق مشرقی ریاست مغربی بنگال سے ہے۔ انڈین ایکسپریس کے مطابق ان میں سے ایک، دیوان جی نے بتایا کہ انھوں نے فیض کی نظم کی ایک سطر لکھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’اس نظم نے مجھے کئی سطح پر متاثر کیا ہے اور اس کا مقصد کوئی مزاحمت نہیں ہے، لیکن انتظامیہ نے اس کا غلط مطلب نکالا اور سمجھا کہ ہم لوگوں نے کینٹین کی تجدید کاری کے خلاف مظاہرہ کیا ہے‘‘۔ اخبار کے مطابق ادارے کے ڈائریکٹر بھوپندر کینتھولا نے کہا ’’دو طلبہ نے دھمکی آمیز نعروں کے ساتھ ایف ٹی آئی آئی کی تازہ تازہ تجدید کاری کی جانے والی کینٹین کی دیوار اور دروازے پر گریفٹی بنائی ہے۔ یہ کام رات کے وقت چوری چھپے کیا گیا ہے۔ ایف ٹی آئی آئی کے گارڈ نے جب ان کو روکا تو وہ رکے نہیں… اور یہ بات ناقابلِ قبول ہے‘‘۔ روہت کمار نے کہا کہ یہ صرف ایف ٹی آئی آئی کی بات نہیں ہے بلکہ ملک میں جہاں کہیں بھی اظہارِ رائے کی آزادی کا ماحول ہے اسے کم کیا جا رہا ہے، اس کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔روہت کمار کا کہنا ہے کہ جب سے ایف ٹی آئی آئی میں ان کا داخلہ ہوا ہے تب سے طلبہ کی سرگرمی کو روکنے کی کوششوں میں اضافہ ہوا ہے۔ انھوں نے کہا کہ گزشتہ تین چار سال میں ملک کی فضا بدلی ہے اور اس طرح کی چیزیں دوسرے کیمپسز میں بھی دیکھنے میں آ رہی ہیں۔ خیال رہے کہ اس سے قبل فیض احمد فیض کی بیٹی کو بھی انڈیا آنے کی اجازت نہیں ملی تھی۔ اسی جمعرات کو دہلی کے معروف تعلیمی ادارے جے این یو میں 9 فروری 2016ء کے ایک واقعے میں طلبہ یونین کے اُس وقت کے صدر کنہیا کمار اور اسکالر عمر خالد کی سزا برقرار رکھی گئی ہے۔اس سے قبل علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں طلبہ یونین ہال میں بانیِ پاکستان محمد علی جناح کی ایک تصویر مہینوں تنازعے کا باعث رہی تھی۔
ایک لاکھ ڈالر کمانے والا بھی غریب
امریکہ میں ایک شہر ایسا بھی ہے جہاں اگر آپ کی تنخواہ سالانہ ایک لاکھ ڈالر کے آس پاس ہے تو بھی آپ ’کم آمدنی‘ والے افراد کے زمرے میں آتے ہیں۔
یو ایس ڈپارٹمنٹ آف ہائوسنگ اینڈ اربن ڈویلپمنٹ کی طرف سے کیے گئے ایک نئے سروے کے مطابق سان فرانسسکو اور اس کی قریبی سان میٹیو اور مارن کاؤنٹیز میں اگر کسی کی تنخواہ سالانہ ایک لاکھ 17 ہزار ڈالر ہے تو وہ ’کم آمدنی‘ کے زمرے میں، جبکہ 73 ہزار ڈالر کمانے والوں کو ’انتہائی کم آمدنی‘ کے زمرے میں رکھا گیا ہے۔ چار افراد پر مشتمل دو تہائی امریکی خاندانوں کی آمدن سان فرانسسکو کے ’کم آمدن‘ کے طے شدہ معیار یعنی ایک لاکھ 17 ہزار ڈالر سالانہ سے کم ہے۔ امریکہ میں چار افراد پر مشتمل خاندان کی اوسط سالانہ آمدن 91 ہزار ڈالر ہے جبکہ کسی بھی سائز کے خاندان کے لیے یہ رقم 59 ہزار ڈالر رہ جاتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ 32 کروڑ 60 لاکھ آبادی والے اس ملک میں 4 کروڑ سے زیادہ افراد ایسے خاندانوں کا حصہ ہیں جو سالانہ 25 ہزار ڈالر سے کم کماتے ہیں۔ امریکہ میں ویسے تو بڑے شہروں میں تقریباً تمام ملازمتوں میں آمدنی کی شرح زیادہ ہے لیکن سان فرانسسکو اس معاملے میں کہیں آگے ہیں۔ سان فرانسسکو آئی ٹی کا مرکز بن گیا ہے اور اسی وجہ سے اس شہر میں تیزی سے معاشی ترقی کی آمد ہوئی اور یہ امریکہ کی سب سے زیادہ آمدنی والی فہرست میں شامل بہت سے لوگوں کا گھر بھی ہے۔ سان فرانسسکو میں رہنے کے خرچے ملک کی باقی ریاستوں اور شہروں سے پچیس فیصد زیادہ ہیں۔
2008ء سے 2016ء کے درمیان سان فرانسسکو کے مرکزی علاقے میں کام کرنے والے 25 سے 64 سال کی عمر کے افراد کی تنخواہ میں 26 فیصد اضافہ ہوا۔ لیکن امریکہ کے دوسرے شہروں اور علاقوں میں بھی زیادہ آمدنی کی شرح موجود ہے۔ سان فرانسسکو سے ملحقہ علاقے سان ہوزے میں 25 سے 64 سال کی عمر کے افراد کی سالانہ آمدنی 65 ہزار ڈالر، جبکہ واشنگٹن میں 60 اور بوسٹن میں 55 ہزار ڈالر ہے۔
سان فرانسسکو میں ڈاکٹروں کی تنخواہ ایک لاکھ 93 ہزار ڈالر ہے، اور امریکی ریاست ڈیٹروئٹ میں یہی تنخواہ ایک لاکھ 44 ہزار ڈالر ہے۔ لیکن بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جن کی تنخواہ قدرے کم ہے۔ کھیتی باڑی کا کام کرنے والے افراد 18 ہزار پانچ سو، جبکہ بچوں کی بہبود کے لیے کام کرنے والے لوگ 22 ہزار ڈالر کماتے ہیں۔ ایک لاکھ کی آمدنی والے خاندان وسیع معنوں میں تو ’کم آمدنی‘ کے زمرے میں نہیں آسکتے لیکن یہ اس بات کی طرف اشارہ ضرور ہے کہ حکام کو شہریوں کے لیے معیارِ زندگی بہتر کرنے کی ضرورت ہے اور ایسے میں سب سے پہلا قدم سستی رہائش مہیا کرنا ہے۔
سیاست دانوں کے اثاثے۔ ایک نظر
ووٹر یہ سوچ رہا ہے کہ کیا اثاثے ظاہر کرنے سے کرپشن ختم ہوجائے گی، اور کیا اثاثے ویب سائٹ پر آنے کے بعد الیکشن شفاف ہوں گے؟ کیونکہ الیکشن کے انعقاد میں بہت کم وقت ہونے کی وجہ سے نہ تو ریٹرننگ آفیسرز نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ یہ اثاثے کیسے بنائے گئے، ذرائع آمدن کیا تھے؟ آیئے پہلے سیاسی جماعتوں کے چند بڑے رہنمائوں کے اثاثوں کے چیدہ چیدہ نکات پر نظر ڈالیں کہ ان کو ملک کی خوشحالی کے لیے کیسے استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔
بلاول زرداری جو پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور پارلیمانی سیاست میں پہلی بار قدم رکھ رہے ہیں، انہوں نے الیکشن کمیشن میں جو دستاویزات جمع کرائی ہیں ان کے مطابق یہ ڈیڑھ ارب روپے کے مالک ہیں، گو ان اثاثوں کے حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ مارکیٹ ویلیو کے مطابق ان کی اصل مالیت ڈیڑھ کھرب روپے سے بھی زائد بنتی ہے۔ بلاول زرداری کے اثاثوں کے چند نکات ایسے ہیں جن کا اندازہ ایک جاہل انسان بھی لگا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر کلفٹن کے بلاول ہائوس کی مالیت صرف 30لاکھ روپے درج کی گئی ہے، 33 ایکڑ زمین کی قیمت صرف11 لاکھ روپے ہے، نوڈیرو میں 3.1 ایکڑ زمین کی قیمت صرف 20 ہزار لکھی گئی ہے، جبکہ اسلام آباد G-7میں ایک گھر کی قیمت 14لاکھ روپے درج ہے۔ پاک لین اسلام آباد سنجیانی میں2460کنال زمین کی مالیت صرف 9لاکھ روپے ہے۔ سوئس بینک دبئی برانچ کے اکائونٹس میں کروڑوں روپے نیٹ کیش ظاہر کیے گئے ہیں۔ بلاول زرداری نے اپنی یہ ساری جائداد وراثتی ظاہر کی ہے، جبکہ 30لاکھ روپے کا اسلحہ بھی بتایا گیا ہے۔ ووٹر تو یہ سوال ضرور کرے گا کہ کھربوں روپے کی جائداد جو اربوں میں ظاہر کی گئی ہے وہ ماں باپ نے کیسے بنائی؟ آج جب عدالت میں نوازشریف سے فلیٹس کی منی ٹریل کے حوالے سے پوچھا جا رہا ہے، کیا بلاول کے پاس اس کی کوئی منی ٹریل ہے؟ ان کے والد آصف علی زرداری مجموعی طور پر 75کروڑ 46 لاکھ کے مالک ہیں۔
نوازشریف کی بیٹی مریم نواز جو پاناماکیس آنے کے بعد ٹی وی چینل کو دیئے گئے انٹرویو میں کہہ چکی ہیں کہ اُن کی بیرونِ ملک تو کیا پاکستان میں بھی کوئی جائداد نہیں، لیکن الیکشن کے لیے جو کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے ہیں، اُن کے مطابق یہ 1506کنال ایک مرلہ کی مالک ہیں، جبکہ مختلف ملوں میں شیئر ہولڈر بھی ہیں۔ گزشتہ تین برسوں میں زمین میں 548 کنال اضافہ ہوا ہے، جبکہ 17لاکھ روپے کے زیورات بھی ان کی ملکیت ہیں۔ ووٹرز کا صرف اتنا سوال ہے کہ کیا یہ صادق اور امین ہیں؟ شہبازشریف نے اپنے اثاثوں کی مالیت15کروڑ روپے بتائی ہے، جبکہ ان کی پہلی بیوی ان سے کئی گنا امیر ہے کیونکہ ماڈل ٹائون کا 10 کنال کا گھر جس کی مالیت 12کروڑ 87 لاکھ بتائی گئی ہے، اور ڈونگا گلی کا 9کنال سوا مرلے کا گھر جس کی مالیت 5کروڑ 78 لاکھ بتائی گئی ہے یہ دونوں ان کے نام ہیں۔ شہبازشریف نے اپنے ایک بینک اکائونٹ میں ایک کروڑ 41لاکھ ظاہر کیے ہیں۔ ان کے بیٹے حمزہ شہباز اپنے باپ سے بھی زیادہ امیر نکلے، انہوں نے کاغذاتِ نامزدگی میں جو معلومات درج کی ہیں ان کے مطابق وہ 41 کروڑ 15لاکھ کے مالک ہیں۔ مختلف کمپنیوں میں ان کے شیئرز کی مالیت 13 کروڑ 29لاکھ بتائی گئی ہے۔ ان کے پاس 25 لاکھ روپے کا فرنیچر ہے جبکہ کوئی گاڑی نہیں۔ ووٹرز پوچھ رہے ہیں کہ ان کے اثاثوں کی مارکیٹ ویلیو کے مطابق مالیت کے تعین کی ذمے داری کس کی ہے؟ عمران خان نے اپنی 14جائدادیں ظاہر کی ہیں۔ وہ 168ایکڑ زرعی اراضی اور بنی گالہ میں 300کنال کے مالک ہیں جس کی مالیت 75 کروڑ روپے بتائی گئی ہے۔ ان کے اسلام آباد میں دو فارن کرنسی اکائونٹ ہیں، ایک اکائونٹ میں 3لاکھ 78ہزار ڈالر، جبکہ دوسرے میں 1470ڈالرہیں۔ کیا بنی گالہ کی 300 کنال اراضی کی موجود مالیت 75کروڑ ہوسکتی ہے؟ موجودہ مارکیٹ ویلیو کے مطابق اس کی قیمت کم ازکم 3ارب روپے ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنما شاہ محمود قریشی 28کروڑ 36لاکھ کے مالک ہیں۔ ان کے لندن کے بینک اکائونٹ میں 80 ہزار پائونڈ اور اہلیہ کے فارن اکائونٹ میں 26 ہزار 512 پائونڈ ہیں۔ شاہ محمود قریشی پاکستانی ہونے کا دعویٰ کرتے نہیں تھکتے، پھر کسی پاکستانی بینک پر اعتماد کیوں نہیں؟ پی ٹی آئی کے تیسرے لیڈر علیم خان 91کروڑ 82 لاکھ روپے کے مالک ہیں، جبکہ اسد عمر 62کروڑ 93لاکھ کے۔ ان کے پاس 32 لاکھ کے زیورات اور 13کروڑ 27 لاکھ کیش ہیں۔ کیا اتنے پیسے والے غریب عوام کے مسائل کا ادراک کرسکتے ہیں؟ ان ڈیکلیئر کیے گئے اثاثوں سے وہ مُکر تو نہیں سکتے۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ عدالت کے حکم کے تحت تیار ہونے والے حلف نامے میں دونوں سوالات موجود تھے کہ کوئی اثاثہ کس قیمت پر خریدا گیا اور موجودہ قیمت کیا ہے؟ اگر کسی نے موجودہ مالیت نہیں لکھی تو یہ غلط بیانی کے زمرے میں آئے گا۔ اب تو ایف بی آر کی بھی یہ ذمے داری ہے کہ وہ دیکھے کہ ٹیکس ان اثاثوں کے مطابق دیئے گئے ہیں یا نہیں۔ اگر تو ان حلف ناموں میں کالا دھن ظاہر کیا ہے تو کیا کوئی صادق اور امین رہ سکتا ہے! پھر نیب بھی یہ دیکھ سکتا ہے کہ آمدنی اور وسائل سے زیادہ اثاثے کیسے بنے؟ الیکشن کمیشن کو اپنے طور پر ان اثاثوں کی پڑتال کرانی چاہیے۔
(عابد تہامی۔ جنگ، 9 ستمبر2018ء)
انتخابات کے بعد کے حالات؟
آئندہ کم از کم چھے ماہ ہم پر بہت بھاری ہیں۔ خدا کرے اس دوران کوئی حل نکل آئے، وگرنہ تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ اس وقت مجھے انتخابات سے بھی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ میں تو اس کے بعد کے معاملات کو دیکھ رہا ہوں۔ خدا کرے ہم جلد ہی پٹڑی پر چڑھ جائیں۔ فطری عمل کی راہ میں جو رکاوٹیں آنا تھیں، آگئیں… اور بھی آسکتی ہیں۔ امید رکھنی چاہیے کہ ہم جلد ان رکاوٹوں کو پار کرجائیں گے۔ فی الحال تو سمجھ لیجیے کہ ہماری راہ خطرات سے ڈھکی ہوئی ہے۔ یہ نوازشریف، عمران خان اور زرداری کی بات نہیں، یا کسی مارشل لا کی آہٹ سننے کا چسکہ نہیں، بس یہ سمجھ لیجیے کہ ہماری گاڑی پٹڑی پر نہیں چل رہی۔ غالباً ژاں پال سارتر کی جیون ساتھی (بیوی نہیں کہ وہ اس کے قائل نہ تھے) سموں دی پوار نے کہیں یہ کہا تھا کہ چین میں تاریخ کا کام وقت کو ٹریک پر رکھنا ہے۔ بس یہ سمجھ لیجیے ہمارے لیے بھی سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وقت کو ٹریک یا مدار پر رکھیں۔ یہ تو آپ جانتے ہیں کہ ٹریک سے ہٹنے یا مدار سے اترنے کا انجام کیا ہوتا ہے۔
(سجاد میر۔ 92نیوز، 9جولائی2018ء)