انتخابی بگل بج چکا ہے، دنگل سجنے والا ہے، اب فیصلہ ہونے جارہا ہے کہ کون کس کو پچھاڑ رہا ہے۔ کہا جارہا ہے اور حقائق بھی یہی ہیں کہ لاہور پنجاب کا، اور پنجاب پورے پاکستان کا فیصلہ کرے گا۔ الیکشن کمیشن میں ڈھائی سو سے زائد سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ ہیں لیکن ان میں سے درجن بھر سیاسی جماعتیں ہی انتخابی معرکے میں اتری ہیں۔ حالیہ انتخابات میں 9 سیاسی جماعتیں ایسی ہیں جن کے سربراہ بھی الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں، ان میں مسلم لیگ (ن) کے صدر محمد شہبازشریف، تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیارولی خان، قومی وطن پارٹی کے چیئرمین آفتاب احمد خان شیرپائو، جمعیت علمائے اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمن، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق، عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید احمد، مسلم لیگ (ف) کے پیرپگارا اور مسلم لیگ (ضیاء) کے سربراہ اعجازالحق نمایاں ہیں۔ اگر یہاں انتخابات میں شریک جماعتوں اور اتحادوں کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں تین ایسی شخصیات ملتی ہیں جو سیاسی جماعت کے سربراہ کی حیثیت سے پہلی بار انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں، ان میں جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق، پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو، اور مسلم لیگ(ن) کے صدر شہبازشریف شامل ہیں۔ اگر تینوں شخصیات کا آئین کے آرٹیکل 62 کے حوالے سے جائزہ لیا جائے تو سینیٹر سراج الحق کے لیے سپریم کورٹ کے فاضل جج صاحبان کی گواہی کافی ہے۔ کارکردگی کے اعتبار سے دیکھا جائے تو سینیٹر سراج الحق نے سینئر وزیر کی حیثیت سے خیبر پختون خوا میں 6 بار بے مثال صوبائی بجٹ پیش کیا ہے اور سود کے نظام اور کرٖپشن کے خلاف ان کی سیاسی جدوجہد کی نظیر ان کے مدمقابل دوسری سیاسی شخصیات میں نہیں ملتی۔ بلاول بھٹو زرداری کے پاس اربوں روپے کے اثاثے ہیں، شہبازشریف بھی کروڑوں کے مالک ہیں جبکہ سراج الحق کے بینک اکائونٹ میں محض 29 لاکھ روپے ہیں۔ ملک کے دس کروڑ ووٹرز کے سامنے دو راستے ہیں، (1) عالمی اسٹیبلشمنٹ اور ملک میں اُن کے نمائندوں کے لیے ووٹ کریں، یا (2) ملک میں حقیقی تبدیلی، اسلامی نظام اور عدل کے نظام کو مستحکم کرنے کے لیے متحدہ مجلس عمل کے حق میں اپنی رائے کا اظہار کریں۔ اگر یہی راستہ اپنانا ہے تو پھر ان کے پاس سینیٹر سراج الحق کی سیاسی جدوجہد کی حمایت میں اپنے ووٹ کے استعمال کے سوا اور کوئی راستہ اور چارہ نہیں ہے۔
حالیہ انتخابی عمل میں پانچ ہزار سے زائد امیدواروں نے کاغذاتِ نامزدگی داخل کرائے۔ الیکشن 2018ء میں حصہ لینے والے قومی اور صوبائی اسمبلی کے تین سو سے زائد امیدوار سوئی گیس کے نادہندہ نکلے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق ان نادہندہ امیدواروں کے ذمے مجموعی طور پر 4 ارب 41 کروڑ 19 لاکھ روپے واجب الادا ہیں۔ اسی طرح ایف آئی اے کی رپورٹ کے مطابق 60 امیدواروں کے پاس برطانیہ کی شہریت ہے، 26 امیدواروں کے پاس امریکہ، 24 کے پاس کینیڈا، 3 کے پاس آئرلینڈ اور 2 کے پاس بیلجیم کی شہریت ہے۔ آسٹریلیا، جرمنی، اٹلی، جنوبی افریقہ، ازبکستان اور سنگاپور کی شہریت رکھنے والے امیدوار بھی سامنے آئے ہیں۔ کُل 122 امیدوار دہری شہریت کے حامل ہیں۔ کمزور انتخابی نظام کے باعث یہ امیدوار انتخابی معرکے میں اترے ہیں۔ جہاں جہاں ان کے کاغذات چیلنج ہوئے وہاں یہ ایکسپوز ہوئے، جہاں یہ صورت نہیں بنی وہاں سے یہ امیدوار کلیئر ہوگئے۔
مجموعی طور پر ملک میں قومی اسمبلی کی 272 نشستوں کے لیے پولنگ ہوگی۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عام انتخابات 2018ء کے لیے پولنگ اسٹیشنوںکے اعدادوشمار جاری کردیئے، جس کے مطابق ملک بھر میں 85 ہزار 307 پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے ہیں۔ مردوں کے لیے 23 ہزار 424، جبکہ خواتین کے لیے 21ہزار 707پولنگ اسٹیشن، اور ملک بھرمیں مرد اورخواتین کے لیے مشترکہ 40 ہزار 133 پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے مطابق پنجاب میں 47813، سندھ میں 17747، بلوچستان میں 4420، خیبر پختون خوا میں 12634، جبکہ فاٹا، ایف آر میں 1986 پولنگ اسٹیشن بنائے گئے ہیں۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں 797 پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے ہیں۔ اس مرتبہ عام انتخابات 2013ء کی نسبت 15ہزار پولنگ اسٹیشن زیادہ بنائے گئے ہیں۔ 272 نشستوں کے لیے یہ پولنگ اسٹیشن اصل میدانِ جنگ ہوں گے۔ ان نشستوں پر مسلم لیگ(ن) نے 226، تحریک انصاف نے 253، متحدہ مجلس عمل نے 108 اور پیپلزپارٹی نے 228 امیدوار کھڑے کیے ہیں۔ اللہ اکبر تحریک نے ملک بھر میں قومی اسمبلی کی ان نشستوں پر73، تحریک لبیک نے172، ایم کیو ایم نے29، اے این پی نے57 اور سندھ میں جی ڈی اے نے8 امیدواروں کو ٹکٹ دیے ہیں، جب کہ آزاد امیدواروں کی تعداد تین سو سے زائد ہے۔ پنجاب میں امیدواروں کے اعتبار سے سب سے پتلی حالت پیپلزپارٹی کی ہے جسے کسی بھی حلقے میں تگڑا امیدوار نہیں ملا، پیپلز پارٹی کو پنجاب کے 141 حلقوں میں ابھی تک صرف 93 امیدوار ہی میسر آسکے ہیں جن میں سے اکثریت غیر معروف لوگوں کی ہے۔ 2013ء میں ہونے والے عام انتخابات میں بھی پیپلز پارٹی نے پنجاب سے 113 امیدواروں کو ٹکٹ جاری کیے تھے لیکن اس کے 111 امیدوار ہار گئے تھے۔ اِس بار بھی صورت حال مختلف نہیں ہے۔ حالیہ انتخابات میں سیاسی جماعتوں اور آزاد امیدواروں کی کھیپ دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عام انتخابات کے بعد ملک میں ایک معلق پارلیمنٹ وجود میں آنے والی ہے، لیکن اطلاع یہ ہے کہ طاقت کے ٹیکوں کے باعث تحریک انصاف، پاک سرزمین پارٹی، شیخ رشید احمد، پیپلزپارٹی اور جیپ کے نشان والے دوسروں سے آگے ہیں، اور ایک ہی آنگن کے پھول ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ نیب اور عدلیہ بھی متحرک ہے۔ عمران خان نے کہا ہے کہ وہ تنہا حکومت بنائیں گے۔ شہبازشریف نے کہا کہ قومی حکومت بنائی جائے۔ پیپلزپارٹی نے جواب دیا کہ تنہا حکومت بنانے کا اعلان کرکے عمران خان نے ہمارے لیے خود ہی دروازے بند کردیے ہیں۔ سیاسی رہنمائوں کے یہ بیانات محض بیانات نہیں ہیں، بلکہ ان کی آڑ میں پیغام رسانی ہورہی ہے اور مثبت نتائج کے لیے متحرک سرپرستوں کو بھی کچھ کہا اور سنایا جارہا ہے۔
عام انتخابات 2018ء کے لیے امیدواروں کو انتخابی نشان جاری ہوچکے ہیں۔ اب امیدواروں کی دست برداری کا مرحلہ شروع ہے۔ جماعتوں کے انتخابی نشان کے ساتھ ساتھ اب جیپ کا انتخابی نشان بھی بحث کا موضوع بن چکا ہے۔ پرویزمشرف دور میں چاند، اور گزشتہ عام انتخابات میں بالٹی کا نشان مخصوص آزاد امیدواروں کو ملا تھا۔ حالیہ انتخابات میں قومی اسمبلی کے حلقوں میں ایک سو ایسے امیدوار ہیں جنہیں جیپ کا نشان دیا گیا ہے۔ جس روز انتخابی نشان الاٹ ہونے تھے اسی روز چودھری نثار علی خان نے جیپ کے نشان کے لیے درخواست دی، جو منظور ہوئی۔ اس کے بعد جو بھی آزاد ہوا، اور جس نے بھی مسلم لیگ (ن) کا ٹکٹ واپس کیا اُسے جیپ کا نشان ملا ہے۔ زعیم قادری کو بھی یہی نشان ملا ہے، وہ لاہور میں قومی اسمبلی کے لیے امیدوار ہیں۔ آزاد امیدواروں کی بڑی تعداد کو جیپ کا نشان دیے جانے پر اشارہ دیا جارہا ہے کہ ساری دال ہی کالی ہے، کیونکہ پنجاب سے نواز لیگ کے تمام آزاد امیدواروں کو جیپ کا نشان الاٹ ہوا ہے۔ راجن پور نواز لیگ کے شیر علی گورچانی اور دیگر نے پارٹی ٹکٹ واپس کیے تو انہیں جیپ کا نشان ملا۔ سیاسی تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ ان تبدیلیوں کے پیچھے چودھری نثار علی خان کا ہاتھ ہے۔ نواز لیگ کا ساتھ چھوڑنے والوں میں متعدد کوجیپ کے بجائے ’بالٹی‘ اور ’موبائل فون‘ کا انتخابی نشان الاٹ ہوا ہے۔ اس کے مقابلے میں مسلم لیگ(ن) ایک پمفلٹ لانا چاہتی ہے جس کا عنوان ہے ’’اے اللہ ہم بے بس ہیں، ہماری مدد فرما‘‘۔ اگرچہ یہ انتخابی نشان جیت ہی سمجھے جارہے ہیں لیکن انتخابات کی ’’ساکھ‘‘بنانے کے لیے ان میں سے بیشتر کی قربانی بھی دی جائے گی، اسی لیے انہیں تین الگ الگ نشان دیے گئے ہیں۔
انتخابی نشانات کی الاٹمنٹ کے ساتھ انتخابات کی سیاسی انجینئرنگ کا یہ مرحلہ مکمل ہوگیا ہے۔ اس مرحلے پر نوازشریف کے مطالبات سامنے آئے ہیں کہ فوج کی سیاسی عمل سے بے دخلی ہونی چاہیے اور پنجاب کے نگراں وزیراعلیٰ کو تبدیل کیا جائے۔ تحریک انصاف نے سب سے پہلے ردعمل دیا اور مطالبات مسترد کردیے۔ مسلم لیگ(ن) سمجھتی ہے کہ اگلے مرحلے میں ہر حلقے کا جائزہ لے کر امیدواروں کی دست برداریاں کرائی جائیں گی۔ انتخابات کے آخری ہفتے تک اگر مثبت نتائج کے امکانات بن گئے تو ملک میں 25 جولائی کو پولنگ ہوگی۔ ایک انتخابی مہم سوشل میڈیا پر بھی چل رہی ہے، سماجی رابطے کے ذرائع کو امیدواروں اور سیاسی جماعتوں نے بھی پیغام رسانی کا ذریعہ بنا رکھا ہے۔ جیسے جیسے انتخابات نزدیک آرہے ہیں، سیاسی تنائو میں بھی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ انتخابی مہم میں ہر طرف سے بے تحاشا اخراجات کا سلسلہ جاری ہے اور اس ضمن میں کوئی ضابطہ دکھائی نہیں دے رہا۔ الیکشن کمیشن کو اس طرف فوری طور پر دھیان دینا ہوگا۔
انتخابات کے انعقاد میں بمشکل اٹھارہ بیس دن رہ گئے ہیں لیکن ابھی تک ان کے بروقت ہونے پر شکوک وشبہات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ اس کی بڑی وجہ تشدد کے پے در پے اَنہونے واقعات کا ظہور اور نیب کی طرف سے ایسے اعلانات اور اقدامات ہیں جو ماحول کو مکدر کررہے ہیں۔ کورکمانڈرز کانفرنس میں جمہوریت کے ساتھ مکمل وابستگی کا حوصلہ افزا اعلان کرنے کے ساتھ ساتھ شفاف انتخابات کے لیے ہرممکن تعاون کا یقین دلایا گیا ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار بھی متحرک ہیں، اس کے باوجود ذہنوں میں تسلسل کے ساتھ سوالات اُٹھ رہے ہیں۔ ملکی میڈیا پر تو بہت سی قدغنیں ہیں، عالمی میڈیا میں بھی پاکستان میں پُراسراریت سے متعلق بہت سے سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ ’اکانومسٹ‘ اور ’نیویارک ٹائمز‘ جیسے میڈیا میں لکھا گیا کہ چودھری نثار علی خان کے مقابلے میں انجینئر قمرالاسلام کو مسلم لیگ(ن) کا ٹکٹ ملنے پر اگلے روز ہی نیب نے حراست میں لے لیا، یہ اقدام بہت زیادہ غیر متوقع اور سفاکانہ سمجھا گیا۔ سیاسی تجزیہ کاروں کی رائے میں اس طرح کے واقعات انتخابات کو مشکوک بنارہے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ الیکشن کمیشن ہمت پکڑے اور سامنے آئے تاکہ غیر جانب دارانہ انتخابی ماحول بن سکے۔ لیکن جواب میں نیب نے کہا ہے ’’کوئی ہمت نہیں پکڑ سکتا، ہم قانون کے مطابق کام کررہے ہیں‘‘۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن اور نگران حکومتوں کی اوّلین ذمے داری ہے کہ وہ تمام سیاسی جماعتوں کو یکساں مواقع فراہم کریں۔ انتخابی مہم کے دوران امن وامان کے مسائل کا سامنے آنا کسی خطرے سے خالی نہیں ہے۔ آزاد امیدواروں کے لیے مخصوص انتخابی نشان نے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے، جب کہ الیکٹ ایبل امیدواروں کو آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کی میزان پر پرکھنے کے لیے کسی بڑی سیاسی جماعت کی جانب سے کوئی مؤثرآواز نہیں اٹھائی جارہی۔ حقائق یہ ہیں کہ2002ء کے انتخابات میںپرویز مشرف نے انہی مسلم لیگی الیکٹ ایبل کے ذریعے مسلم لیگ (ق) بناکر اقتدار کے مزے لوٹنے شروع کیے تھے۔ 2002ء میں یہی مسلم لیگی تقریباً ڈیڑھ سو کی تعداد میں نون لیگ کوچھوڑ کر قاف لیگ میں آئے تھے۔ جب پرویزمشرف حکومت کمزور ہوئی تو 2008ء میں یہی قاف لیگی پیپلز پارٹی میںآگئے اور اسے اقتدار دلوایا، اور جب نوازشریف مضبوط ہوگئے تو یہی 120الیکٹ ایبل پیپلزپارٹی کو چھوڑ کر نوازشریف کی طرف لوٹ گئے اور اقتدار کے مزے لوٹتے رہے۔ کوئی بھی سیاسی جماعت ان سیاسی جونکوں سے جان چھڑانے کو اپنا سیاسی بیانیہ نہیں بنا رہی، بلکہ اس سوچ میں غرق ہے کہ اسمبلی میں پہنچ کر اقتدار پانے کے لیے ان کی حمایت کیسے حاصل کرنی ہے۔
ہر سیاسی جماعت ٹکٹوں کی تقسیم کے بعد اب نئے امتحان سے گزر رہی ہے کہ جہاں ٹکٹ دیے ہیں، اس حلقے میں اپنے ٹکٹ بحال کیسے رکھے جائیں۔ انتخابی مہم کے دوران حکومتوں میں رہنے والی سیاسی جماعتوں کے لیے عدلیہ میں زیر سماعت مقدمات اور نیب کی پیشیاں نظر نہ آنے والی اپوزیشن کے طور پر سایہ بن کر ان کا پیچھا کررہی ہیں، لیکن سپریم کورٹ کے ایک فاضل جج قاضی فائز عیسیٰ کا یہ اختلافی فیصلہ بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ ’’سپریم کورٹ کے تمام جج صاحبان پورے غور و خوض کے بعد ازخود نوٹس کی حدود و قیود اور اصولوں کا تعین کریں تاکہ جو کرب پیدا ہوا اس کا ازالہ ہوسکے۔‘‘ عدلیہ میں زیر سماعت مقدمات اور الیکشن کمیشن کی جانب سے خاموشی کے باعث ملکی سیاست میں ایک اضطراب کی کیفیت تو ہے لیکن سیاسی جماعتوں کے اپنے اندر بھی اختلافات کا تندور بہت گرم ہے۔ عمران خان خود تسلیم کرچکے ہیں کہ ان کی جماعت میں دو واضح گروپ ہیں۔ تحریک انصاف کے اندر داخلی کشمکش کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ اسلام آباد سے قومی اسمبلی کے امیدوار اسد عمر بھی وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار ہیں، وہ آگے چل کر عمران خان کے لیے مسائل پیدا کرسکتے ہیں کہ ان کے خلاف حلف نامے کا کیس عدالت میں زیرسماعت ہے۔ ملک میں حالیہ انتخابات میں بھی اگر تبدیلی کا نعرہ محض فیشن کے لیے لگایا گیا اور ووٹ کا استعمال کرتے ہوئے روایتی انداز اپنایا گیا تو پھر انتخابی نتائج بھی وہی نکلیں گے۔
مسلم لیگ(ن)، تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی تینوں سیاسی جماعتیں ملک میں تبدیلی لانے کی صلاحیت کے حامل اچھے نظریاتی امیدواروں کے انتخاب میں بری طرح ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ ان کے مدمقابل اتحاد متحدہ مجلس عمل نے دستیاب امیدواروں میں سے بہترین امیدواروں کا انتخاب کیا ہے۔ تجزیہ یہ ہے کہ اگر یہ اتحاد پانچ سال قبل وجود میں آجاتا، ملک میں کرپشن کے خلاف ایک بیانیہ لے کر چلتا، اور سود کے نظام کے خلاف بھرپور سیاسی جدوجہد کرتے ہوئے ملک کے کاروباری طبقے کا اعتماد حاصل کرتا، اور عالمی اداروں کو یقین دلاتے ہوئے ان کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا تو حالیہ انتخابی نتائج اس کی مرضی کے ہوتے۔ اس وقت انتخابی مہم دو بنیادی کمزوریوں کے باعث اٹھان سے عاری دکھائی دے رہی ہے، انتخابی عمل میں پیسے کا رحجان اور میڈیا کی بھرپور توجہ اس کی راہ میں ایک رکاوٹ ہے۔ تیسری سب سے بڑی وجہ دینی جماعتوں کے ووٹ بینک کا تقسیم ہونا ہے۔ یہ ملک کے دوسرے انتخابات ہیں جن میں روایتی میڈیا کے علاوہ سوشل میڈیا اور ٹوئٹر کا استعمال حد سے زیادہ ہے، اور ان دونوں کی کوئی ساکھ نہیں، البتہ ووٹرز کے ذہن پر اثر بہت زیادہ ڈال رہے ہیں۔
عالمی سطح پر بھی پاکستان کے حالیہ انتخابات اور ان کے نتائج کا انتظار کیا جارہا ہے۔ ان میں چین سی پیک کے باعث انتخابات پر بہت گہری نظر رکھے ہوئے ہے، وہ چاہتا ہے کہ مغربی روٹ مشرقی روٹ سے پہلے مکمل ہو۔ سی پیک کے 20 سے زائد منصوبے مکمل ہوچکے اور 18 تکمیل کے مراحل میں ہیں۔ ان منصوبوں میں 70 ہزار سے زائد پاکستانی کام کررہے ہیں۔ منصوبے کے تحت پاکستان میں 9 انڈسٹریل پارک قائم کیے جائیں گے۔ سی پیک کے تحت 2030ء تک مجموعی طور پر 200 پراجیکٹس مکمل کرنے کا منصوبہ ہے۔ اگر 22 منصوبوں میں 70 ہزار پاکستانیوں کو روزگار فراہم کیا گیا تو اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ مجموعی 200 منصوبوں میں کتنے پاکستانیوں کو روزگار ملے گا۔ ابھی حال ہی میں امریکہ، برطانیہ، جرمنی اور فرانس نے پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کرنے کے حق میں ووٹ دیا، جبکہ پاکستان کے حلیف تصور کیے جانے والے ممالک ترکی، چین اور سعودی عرب نے بھی اس کی حمایت کی۔ پیرس میں ہونے والے ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں نگران وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر کی قیادت میں وفد کی کوششوں کے باوجود دہشت گردی کے لیے مالی وسائل کی ترسیل پر نظر رکھنے والی عالمی تنظیم’فنانشل ایکشن ٹاسک فورس‘ (ایف اے ٹی ایف) نے پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کردیا ہے۔ اجلاس میں پاکستان کا مؤقف تھا کہ پاکستان نے دہشت گردوں، کالعدم تنظیموں سمیت دیگر گروہوں کی مالی معاونت روکنے کے موجودہ قوانین کو مزید بہتر کیا ہے اور اس پر عمل درآمد کے طریقہ کار کو بھی یقینی بنایا ہے۔ نگران وزیر داخلہ اعظم خان کے مطابق ایف اے ٹی ایف بھارت اور امریکہ کے دباؤ کا شکار ہے، دونوں ممالک نے مل کر سعودی عرب، ترکی اور چین پر بھی دباؤ ڈالا۔ رواں سال فروری میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے پاکستان کو تادیبی اقدامات کرنے کے لیے جون تک کا وقت دیا تھا۔ عبوری حکومت کی موجودگی کی وجہ سے پاکستان کی ٹیم میں ماہرین اور تجربہ کار افراد شامل نہیں تھے جس کے باعث نگران حکومت کی بھیجی جانے والی ٹیم ٹاسک فورس کے ارکان کو قائل کرنے میں ناکام رہی۔ لیکن اس سے بھی اہم اور بڑا سوال یہ ہے کہ ڈاکٹر شمشاد اختراور وزیر داخلہ اعظم خان کے علاوہ وزیر خارجہ حسین ہارون کی اپنے تشخص کے پس منظر میں اس بارے میں ترجیحات کیا تھیں؟