اپنے مذہب، تہذیب اور تاریخ کے اعتبار سے مسلم دنیا بے پناہ امکانات کی دنیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کا مذہب بے مثال ہے۔ مسلمانوں کی تہذیب لاجواب ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ شاندار ہے۔ مسلمانوں کے پاس مادی وسائل کی بھی کمی نہیں۔ دنیا کے تیل کے معلوم ذخائر کا 60 فیصد مسلمانوں کے پاس ہے۔ دنیا کے گیس کے معلوم ذخائر کا 70 فیصد مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے۔ مسلمانوں کے پاس 57 آزاد ریاستیں ہیں۔ جدید اصطلاح میں بات کی جائے تو مسلمانوں کے پاس ایک ارب 60 کروڑ انسانوں کی ’’منڈی‘‘ ہے۔ مگر اس کے باوجود بساطِ عالم پر مسلم دنیا کی کوئی حیثیت نہیں اور مسلمان جگہ جگہ پٹ رہے ہیں۔ ان حقائق میں ایک گہرا تضاد ہے اور اس کو سمجھنے پر ہی مسلم دنیا کے بہتر مستقبل کا انحصار ہے۔
مسلمانوں کے لیے مثالی عروج کی دو ہی بنیادیں ہیں، ایک تقویٰ یا تعلق باللہ اور اس کے حوالے سے اتباعِ سنتِ رسولؐ۔ دوسری علم میں درجۂ کمال کا حصول۔ ظاہر ہے کہ ان دونوں فضیلتوں کا راستہ قرآن مجید فرقانِ حمید سے مسلمانوں کے تعلق سے ہوکر گزرتا ہے۔ لیکن مسئلہ ترجیحات کے تعین کا بھی ہے، اور ترجیحات کے تعین کا اختیار حکمرانوں کے پاس ہوتا ہے۔ عربی ضرب المثل ہے کہ مچھلی ہمیشہ سر کی جانب سے سڑتی ہے۔ اس با ت کا مطلب یہ ہے کہ پہلے معاشرے کے بالائی طبقات خراب ہوتے ہیں۔ معاشرے کے نچلے طبقات جب بالائی طبقات کو خراب ہوتے دیکھتے ہیں تو وہ بھی خرابیوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ بالائی طبقات میں اہم ترین طبقہ حکمرانوں کا ہے۔ عوام مزاجاً اور اپنی علمی و اخلاقی اہلیت کی کمی کی وجہ سے طاقت مرکز بلکہ طاقت پرست ہوتے ہیں۔ وہ جب تک طاقت کے مرکز کو صراطِ مستقیم پر چلتا دیکھتے ہیں خود بھی صحیح راستے پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر حکمران عیش پرست، دنیادار اور بیرونی طاقتوں کے آلۂ کار بن جاتے ہیں تو عوام کا اخلاق، کردار، تہذیب، مزاج غرض یہ کہ سب کچھ تباہ ہوجاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہم گزشتہ پچاس سال کے دوران اقتدار پر قابض ہونے والے مسلم دنیاکے حکمرانوں کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ تلخ حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے کہ مسلم دنیا کے حکمرانوں کی عظیم اکثریت اپنے مذہب، اپنی تہذیب اور اپنی تاریخ کی غدار ہے۔ وہ اگر وفادار ہیں تو اپنے طبقاتی، گروہی، اداراتی، خاندانی اور ذاتی مفادات کے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم دنیا کی بادشاہت بھی جھوٹی ہے، جمہوریت بھی جھوٹی ہے، قوم پرستی بھی جھوٹی ہے، مارشل لا بھی جھوٹا ہے، صحافت بھی جھوٹی ہے، یہاں تک کہ علماء کی اکثریت کو بھی حکمران جب چاہیں ’’درباریعلماء‘‘ میں ڈھال سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے مذہبی دائرے میں بھی کہیں حقیقی مذہبیت موجود نہیں۔ کہیں فرقہ پرستی کا راج ہے، کہیں مسلک پرستی حکمرانی کررہی ہے۔ مذہب ایک نظریاتی قوت کے طور پر کہیں موجود نہیں، یا پھر وہ تمام بین الاقوامی قوتوں اور اُن کے مقامی آلۂ کاروں کا ہدف ہے۔ مگر سرِدست ہمارا موضوع مسلم دنیا کے حکمران ہیں۔ مسلم دنیا کے حکمرانوں کو سمجھنا ہو تو سعودی عرب کے ولی عہد یا Crown Prince محمد بن سلمان عرف MBS کی شخصیت، فکر اور اقدامات کو سمجھ لینا کافی ہے۔
سعودی عرب مسلمانوں کا روحانی مرکز ہے۔ یہاں مکہ معظمہ ہے۔ مدینۂ منورہ ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو مسلم دنیا میں سعودی عرب کی حیثیت دل کی سی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب اپنے قیام سے اب تک ایک مذہبی ریاست ہے۔ بلاشبہ سعودی عرب میں بادشاہت ہے، مگر اس بادشاہت نے اپنے تشخص کو ہمیشہ مذہب سے منسلک کیا ہے۔ سعودی عرب اپنے مذہبی تشخص کے حوالے سے بڑی حد تک امت پرست رہا ہے۔ مسلم دنیا کا شاید ہی کوئی ملک ہوگا جس کی سعودی عرب نے مالی مدد نہیں کی ہوگی۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، سعودی عرب نے پاکستان کو اربوں ڈالر دیے ہیں، مفت اور ادھار تیل فراہم کیا ہے۔ یہ سعودی عرب کا مذہبی تشخص ہی تھا جس نے شاہ فیصل شہید جیسا حکمران پیدا کیا۔ شاہ فیصل عرب و عجم کی تفریق سے بلند تھے۔ وہ اگر صرف بادشاہ ہوتے تو کبھی مغرب کی مزاحمت نہ کرتے اور تیل کو ہتھیار کے طور پر استعمال نہ کرتے۔ بادشاہوں کو بادشاہت عزیز ہوتی ہے، اور اس سے بھی زیادہ جان عزیز ہوتی ہے۔ شاہ فیصل نے مغرب کی عملی مزاحمت کرکے ثابت کیا کہ انہیں نہ بادشاہت عزیز تھی، نہ جان عزیز تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی مسلم دنیا میں کروڑوں لوگ شاہ فیصل کو یاد کرتے ہیں اور اُن سے محبت کرتے ہیں۔ مگر اپنے اس پس منظر کے باوجود سعودی عرب ’’انقلاب‘‘ کہلانے والی ’’اتھل پتھل‘‘ کی زد میں ہے، اور اس اتھل پتھل کا مرکز محمد بن سلمان کی شخصیت اور اُن کا طرزِ فکر و عمل ہے۔
محمد بن سلمان نے ولی عہد بنتے ہی سعودی عرب کے شاہی خاندان کی پانچ سو اہم شخصیات کو قید کرلیا اور اُن سے سو ارب ڈالر سے زیادہ وصول کیے۔ اس اقدام کا مقصد حریفوں کو راستے سے ہٹانا اور اپنی پوزیشن مستحکم کرکے بادشاہ بننے کی راہ ہموار کرنا تھا۔ اگرچہ اس عمل پر بھی اعتراض کی گنجائش ہے، مگر یہ صورتِ حال اپنی اصل میں سعودی عرب کے شاہی خاندان کا داخلی معاملہ ہے۔ بادشاہتوں میں کیا، اب تو جمہوریتوں میں بھی اس طرح کے واقعات عام ہیں۔ لیکن مسئلہ محض محمد بن سلمان کے ولی عہد یا بادشاہ بننے کا نہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ محمد بن سلمان اچانک 32 سال کی عمر میں ’’روشن خیال‘‘ ہوگئے ہیں۔ مغرب میں روشن خیالی کی ایک تاریخ ہے، اور اس تاریخ میں ایک زوال کے معنوں میں ہی سہی ایک ’’تدریج‘‘ یا جیسا کہ مغرب کہتا ہے ایک ’’ارتقا‘‘ پایا جاتا ہے۔ محمد بن سلمان بھی کسی ’’نئے علم‘‘ سے دوچار ہوئے ہوتے اور اُن کی فکر میں بھی ایک تدریج یا ارتقا نظر آیا ہوتا تو اُن کی روشن خیالی افسوس ناک ہونے کے باوجود قابلِ فہم ہوتی۔ مگر اس سلسلے میں محمد بن سلمان کا قصہ یہ ہے کہ وہ رات کو راسخ العقیدہ مسلمان کی حیثیت سے سوئے تھے، صبح اٹھے تو وہ ’’روشن خیال‘‘ یا سیکولر تھے۔ اس طرح کا تغیر مسلم دنیا میں کہیں Made in America ہوتا ہے اور کہیں Made in Europe۔ اس طرح کا تغیر یہ بھی بتاتا ہے کہ اس کا مقصد امریکہ یا یورپ، یا دونوں کو خوش کرکے اپنے اقتدار کی راہ ہموار کرنا اور اپنے اقتدار کو دائمی طور پر استحکام مہیا کرنا ہوتا ہے۔ اس طرح کے تغیرات کی زد میں آنے والے امریکہ اور یورپ کی طرف اشارہ کیے بغیر اپنے لوگوں اور اپنے حریفوں کو بتاتے ہیں ؎
ہم ’’اُن کے‘‘ ہیں، ہمارا پوچھنا کیا
لیکن مسئلہ صرف اتنا سانہیں ہے۔
محمد بن سلمان نے ولی عہد بنتے ہی اعلان کیا کہ سعودی عرب آئندہ دس برسوں میں تفریحی صنعت یا Entertainment Sector پر 64 ارب ڈالر صرف کرے گا۔ تفریحی ادارے Ganeral Entertainment Authority کے سربراہ عفیل الخطیب نے ریاض میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ ہم تفریحی شعبے کے لیے بنیادی ڈھانچہ تیار کررہے ہیں اور صرف 2018ء میں ملک کے اندر پانچ ہزار سے زیادہ تفریحی پروگرام ہوں گے۔ (روزنامہ ڈان کراچی۔ 23 فروری 2018ء)
مذکورہ بالا چند سطور سعودی عرب کے حوالے سے ایٹمی حملے کی اطلاع سے کم اہم نہیں۔ سعودی معاشرہ بہرحال ایک مذہبی معاشرہ ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق سعودی عرب کی آبادی 3 کروڑ 20 لاکھ سے کچھ زیادہ ہے۔ اس آبادی میں ایک کروڑ سے زیادہ غیر ملکی ہیں۔ یعنی سعودی عرب کی اصل آبادی 2 کروڑ ہے۔ یعنی کراچی کی آبادی سے بھی کم۔ اتنی چھوٹی آبادی پر محمد بن سلمان 64 ارب ڈالر کی تفریح مسلط کریںگے۔ ایک ڈالر کو اگر سو روپے کا فرض کرلیا جائے تو سعودی عرب 10 برسوں میں اپنے شہریوں کو تفریح مہیا کرنے کے لیے 64 کھرب روپے صرف کرے گا۔ اس تفریح میں فلمیں ہوں گی، موسیقی ہوگی، جوئے خانے ہوں گے۔ شاید نائٹ کلب بھی ہوں۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جب 10 سال میں ان تمام تفریحات پر 64 کھرب روپے صرف ہوں گے تو سعودی عرب کی 2 کروڑ آبادی کی روحانیت، اخلاقیات، تہذیب و ثقافت اور ذہنی حالت کا کیا عالم ہوجائے گا؟
دو کروڑ لوگوں پر ایٹم بم سے لاکھوں لوگ مرجائیں گے۔ محمد بن سلمان کے ’’تفریحی بم‘‘ سے لاکھوں سعودی باشندوں کی باطنی اور ظاہری شخصیت فنا ہوجائے گی۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ تفریحی بم وہاں گرے گا جہاں مکہ ہے۔ جہاں مدینہ ہے۔ جہاں کعبہ ہے۔ جہاں روضۂ رسولؐ ہے۔ جہاں سے اسلام کا آغاز ہوا۔ اس مسئلے کا ایک پہلو یہ ہے کہ سعودی حکمرانوں اور سعودی معاشرے کی روحانیت اور مذہبیت جیسی بھی ہو، سعودی عرب آج بھی مکہ اور مدینہ کی وجہ سے مسلمانوں کی عظیم اکثریت کے لیے روحانیت، اسلامی تہذیب اور اسلامی تاریخ کی ایک ’’علامت‘‘ ہے۔ اس علامت پر محمد بن سلمان کا تفریحی بم گرے گا تو علامت کا بھرکس نکل جائے گا، اور اس کے روحانی، اخلاقی، نفسیاتی اور ذہنی اثرات پوری مسلم دنیا پر مرتب ہوں گے۔ سوال یہ ہے کہ محمد بن سلمان کا مسئلہ کیا ہے؟
محمد بن سلمان نے اپنے دورۂ امریکہ میں معروف خاتون صحافی ندرہ اوڈونل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ہم 1979ء سے قبل ایک “Normal” زندگی بسر کررہے تھے۔ عورتیں گاڑیاں چلا رہی تھیں، سعودی عرب میں سنیما ہال موجود تھے جن میں فلمیں دیکھی جارہی تھیں۔ مگر پھر 1979ء میں ایران میں انقلاب آگیا اور خانہ کعبہ پر انتہا پسندوں نے قبضہ کرلیا۔ ان دو واقعات نے سب کچھ بدل دیا۔
سعودی عرب کے ممتاز صحافی جمال خشوگی نے ’واشنگٹن پوسٹ‘ میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں محمد بن سلمان کی ان دونوں باتوں کی تردید کی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ 1979ء سے پہلے سعودی عرب میں کوئی عورت کار ڈرائیو کرنے کی جرأت نہیں کرسکتی تھی۔ خشوگی کے بقول سعودی عرب میں گشتی سنیما موجود تھا لیکن اس سنیما سے چوری چھپے ’’استفادہ‘‘ کیا جاتا تھا۔ پہرے دار پہرہ دیتے تھے اور جیسے ہی سعودی پولیس کے آنے کا اندیشہ ہوتا تھا پہرے دار فلم دیکھنے والوں کو خبردار کردیتے تھے اور وہ بھاگ کھڑے ہوتے تھے۔ خشوگی کے بقول ان کے ایک عم زاد یا کزن کی ایک بار فرار ہوتے ہوئے ٹانگ ٹوٹ گئی تھی۔ (روزنامہ ڈان کراچی۔ 5 اپریل 2018ء)
بہرحال اگر یہ بات تسلیم کرلی جائے کہ سعودی عرب 1979ء کے بعد “Abnormal” بن گیا تھا، تو مسئلہ یہ ہے کہ محمد بن سلمان اب جو کچھ کررہے ہیں وہ Abnormal کو ترک کرکے Super Abnormal کو اختیار کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ یعنی محمد بن سلمان سعودی عرب کو Abnormal سے Super Abnormal کی طرف لے جارہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ مسئلہ صرف فلم دیکھنے یا موسیقی سننے کا نہیں۔ مسلم دنیا کے ہر ملک میں فلمیں دیکھی جارہی ہیں اور موسیقی سنی جارہی ہے، لیکن مسلم دنیا کیا، مغرب کے کسی ملک میں بھی دو کروڑ افراد کو فلمیں دکھانے، موسیقی سنوانے اور جوا کھلوانے پر 64 کھرب روپے یا 64 ارب ڈالر صرف نہیں کیے جارہے۔
تسلیم کہ محمد بن سلمان بہت روشن خیال، بہت مہذب، بہت جدید اور بہت Contemporary ہوگئے ہیں اور وہ سعودی عرب کو بھی ایسا ہی بنانا چاہتے ہیں، لیکن اگر ایسا ہے تو انہیں پہلی تبدیلی سعودی عرب کے سیاسی نظام میں کرنی چاہیے تھی۔ انہیں ولی عہد بنتے ہی اعلان کرنا چاہیے تھا کہ اب سعودی عرب میں بادشاہت نہیں چلے گی، اب سعودی عرب میں جمہوریت ہوگی، اس لیے کہ بادشاہت ’’تاریک خیالی‘‘ ہے اور جمہوریت ’’روشن خیالی‘‘۔ اس لیے کہ بادشاہت ’’قدیم‘‘ ہے اور جمہوریت ’’جدید‘‘۔
مگر محمد بن سلمان نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ وہ سعودی عرب میں بادشاہت ہی دیکھنا چاہتے ہیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ محمد بن سلمان کو سیاسی نظام تو صدیوں پرانا پسند ہے اور تفریح اور اس سے نمودار ہونے والی اخلاقیات اور تہذیب انہیں 21 ویں صدی کی درکار ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی قدامت بھی جھوٹی ہے اور جدیدیت بھی جھوٹی۔ ان حقائق کی وجہ سے وہ Crown Prince کم اور Clown Prince زیادہ نظر آنے لگے ہیں۔
ساری دنیا جانتی ہے کہ حضرت علیؓ کے بعد خلافت ملوکیت میں تبدیل ہوگئی، مگر مسلم دنیا کے دانش وروں کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ خلافتِ عثمانیہ میں مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ کی ایک آدھ جھلک موجود تھی۔ یہی وجہ ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں نے خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے کی راہ روکنے کے لیے خلافت تحریک برپا کی، مگر محمد بن سلمان کا معاملہ یہ ہے کہ انہیں اخوان اور حماس ہی زہر نہیں لگتے، بلکہ انہیں طیب اردوان بھی اس لیے پسند نہیں کہ ان کے نزدیک وہ خلافتِ عثمانیہ کا احیا چاہتے ہیں۔ روزنامہ جنگ کی ایک خبر کے مطابق محمد بن سلمان نے کہا ہے کہ ترکی بدی کے مثلث کا حصہ ہے۔ مصری اخبار ’الشروک‘ کے حوالے سے جنگ نے لکھا ہے کہ محمد بن سلمان نے کہا کہ ترکی اسلامی خلافت کو دوبارہ بحال کرنا چاہتا ہے۔ (روزنامہ جنگ کراچی۔ 8 مارچ 2018ء)
یہ کتنی عجیب بات ہے کہ سعودی ولی عہد کو تفریح تو 21 ویں صدی کی چاہیے مگر انہیں 21 ویں صدی کی جمہوریت درکار نہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وہ خلافت کو بھی ناپسند کرتے ہیں۔ ارے بھئی آپ کو ترکی کی خلافت پسند نہیں تو آپ سعودی عرب کو خلافت کا مرکز بنالیں۔ پوری مسلم دنیا سعودی عرب کے ساتھ کھڑی ہوجائے گی اور اس کے پیچھے چلے گی۔ مگر آپ چاہتے ہیں کہ اچھا کام نہ کوئی اور کرے اور نہ اس کا صدور آپ کی ذات سے ہو۔ واہ کیا روشن خیالی، کیا اعتدال پسندی اور کیا Normalacy ہے!
ساری دنیا جانتی ہے کہ اخوان المسلمون عرب دنیا کی پُرامن اسلامی تحریک ہے۔ اخوان جمہوری بھی ہے اور اعتدال پسند بھی۔ اخوان اعتدال پسند نہ ہوتی تو شاہ فیصل 1970ء کی دہائی میں اخوان کو اپنے قریب نہ لاتے۔ شاہ فیصل وہابیت کی سختی سے عاجز تھے اور وہ چاہتے تھے کہ اخوان کی نرمی اور اعتدال وہابی مسلک کی جگہ لے لے۔ مگر سعودی ولی عہد اخوان کے خون کے پیاسے ہوگئے ہیں اور انہوں نے اخوان کو پوری عرب دنیا میں دہشت گرد تحریک بناکر کھڑا کر دیا ہے۔ مسلم دنیا کے مرکزی دھارے کی ایک پُرامن اور جمہوری تحریک کو دہشت گرد باور کرانا امریکہ، یورپ، اسرائیل اور بھارت کا ایجنڈا تو ہوسکتا ہے مگر کسی مسلمان کا ایجنڈا نہیں ہوسکتا۔ روزنامہ ڈان کی ایک خبر کے مطابق ہالی ووڈ کی معروف اداکارہ Natalie Portman کو بیت المقدس میں ہونے والی تقریب میں شرکت کرنا تھی، اس تقریب میں اسے ایوارڈ دیا جارہا تھا جس کی مالیت دو ملین ڈالر تھی، مگر ہالی ووڈ کی اس اداکارہ نے کہا کہ وہ اسرائیل کے فلسطینیوں پر ظلم کے سخت خلاف ہے، چنانچہ وہ تقریب میں شرکت نہیں کرے گی (روزنامہ ڈان کراچی۔ 22 اپریل 2018ء)۔ یہ صرف ایک اداکارہ کا مسئلہ ہی نہیں بلکہ معروف پاپ گلوکارہ شکیرا نے حال ہی میں کہا ہے کہ وہ اسرائیل میں اپنے فن کا مظاہرہ نہیں کرے گی اور اس کی وجہ اسرائیل کے مظالم ہیں۔ یہ ’’گناہ گار‘‘ اداکاروں اور گلوکاروں کا رویہ ہے، اور مکہ اور مدینہ کے ’’خادم‘‘ محمد بن سلمان نے اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو سے عمان میں خفیہ ملاقات کی ہے۔ ایک اسرائیلی اخبار کے مطابق یہ ملاقات عمان کے شاہی محل میں ہوئی۔ اس موقع پر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد جیررڈکشنر اور مشرق وسطیٰ کے لیے امریکہ کے سفیر جیسن گرین بیلٹ بھی موجود تھے۔ (روزنامہ جنگ کراچی۔ 24 جون 2018ء)
اطلاعات کے مطابق محمد بن سلمان حماس کے تو خلاف ہیں ہی، انہوں نے فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس کو بھی ایک طرف پھینک دیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق محمد بن سلمان مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کے بھی خلاف ہوگئے ہیں اور وہ فلسطینیوں سے کہہ رہے ہیں کہ اسرائیل تمہیں جو کچھ دے اور امریکہ جو کچھ دلوائے، خاموشی سے قبول کرلو۔
کہنے کو محمد بن سلمان امریکہ کے ’’اتحادی‘‘ بن گئے ہیں۔ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کے بہت ’’قریب‘‘ سمجھے جارہے ہیں۔ امریکہ اور یورپ انہیں ’’مدبر‘‘ اور ’’مصلح‘‘ قرار دے رہے ہیں۔ محمد بن سلمان نے امریکہ پر ڈالروں کی بارش کردی ہے۔ انہوں نے امریکہ سے ساڑھے تین سو ارب ڈالر کے ہتھیار خریدنے کا معاہدہ کیا ہے۔ امریکہ اور یورپ میں سعودی عرب کے ولی عہد کے ’’گیت‘‘ گائے جارہے ہیں، مگر اصل صورتِ حال کیا ہے، ڈونلڈ ٹرمپ سے سنیے۔
’’امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واشنگٹن میں قومی سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عرب ممالک ہمارے فوجی اخراجات برداشت کریں۔ انہوں نے کہا کہ عرب ممالک (یعنی عرب حکمران) امریکہ کی حمایت کے بغیر دو ہفتے بھی اپنی بادشاہتیں نہیں بچا سکتے۔ (روزنامہ دنیا کراچی۔ صفحہ 3۔ 7 اپریل 2018ء)
ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان سے ظاہر ہے کہ محمد بن سلمان سمیت تمام عرب حکمرانوں کی اصل ’’اوقات‘‘ اور ان کا اصل ’’مصرف‘‘ کیا ہے؟ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مسلم دنیا کے حکمران اپنے مذہب، اپنی تہذیب، اپنی تاریخ، اپنی امت اور اپنی قوموں کے غدار کے سوا کیا ہیں؟
بدقسمتی سے مسلم دنیا کے بادشاہ ہی نہیں جمہوری حکمران اور فوجی آمر بھی امریکہ، یورپ اور بھارت کے ایجنٹ ہیں۔ جنرل ایوب نے 1958ء میں مارشل لا لگایا مگر چند سال قبل شائع ہونے والی خفیہ امریکی دستاویزات کے مطابق وہ 1954ء سے امریکیوں کے ساتھ رابطے میں تھے۔ وہ امریکیوں سے کہہ رہے تھے کہ سیاست دان پاکستان کو تباہ کررہے ہیں اور فوج انہیں اس کی اجازت نہیں دے سکتی۔ سیاست دان ملک تباہ کررہے تھے اور جنرل ایوب کو اس کا بڑا دکھ تھا اور مارشل لا لگانا ناگزیر تھا تو جنرل ایوب ضرور مارشل لا لگاتے۔ اس کے لیے انہیں امریکیوں سے ’’خفیہ رابطوں‘‘کی کیا ضرورت تھی؟ یہ تو قومی معاملات میں غیرملکی طاقت کو ملوث کرنا تھا، اور یہ طرزِعمل فوجی عزت و وقار کے خلاف تھا۔ 1962ء میں چین بھارت جنگ ہوئی تو چین نے جنرل ایوب سے کہا کہ بھارت ساری طاقت ہماری سرحد پر لے آیا ہے، یہ اچھا موقع ہے، آپ آگے بڑھیں اور بھارت سے اپنا کشمیر چھین لیں۔ مگر جنرل ایوب امریکہ کے دبائو میں آگئے اور ایک سنہری موقع ضائع ہوگیا۔ یہ ملک و قوم سے غداری تھی اور جنرل ایوب نے امریکی دبائو میں آکر صرف اپنے ذاتی، گروہی اور اداراتی مفادات کا تحفظ کیا۔ جنرل پرویز امریکہ کی نظروں میں اتنے حقیر تھے کہ بل کلنٹن نے اپنے دورۂ پاکستان میں اسلام آباد کے ہوائی اڈے سے باہر نکلنا پسند نہیں کیا، مگر نائن الیون کے بعد جنرل پرویز نے ایک ٹیلی فون کال پر پورا ملک امریکہ کے حوالے کیا تو وہ ایک رات میں پورے مغرب کے ’’محبوب‘‘ بن گئے۔ بش اور ٹونی بلیئر انہیں ’’مدبر‘‘ قرار دینے لگے۔ مگر جنرل پرویز کی پالیسیوں نے فوج کے امیج کو تباہ کردیا۔ نوبت یہ آگئی کہ فوج نے فوجیوں کو ہدایت جاری کی کہ وہ وردی پہن کر عام آبادیوں میں نہ جائیں۔ اگر جنرل پرویز ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کی جنگ لڑ رہے تھے تو فوج کو یہ وارننگ جاری کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ اپنے محافظوں کو بھلا کون بدبخت نقصان پہنچا سکتا ہے! یہ اُسی زمانے کی بات ہے کہ اسرائیل کے وزیراعظم نے کہا کہ وہ روز رات کو سونے سے پہلے جنرل پرویز کی سلامتی کے لیے دعا کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اسرائیل کا وزیراعظم کسی مسلمان، کسی اسلام پرست کے لیے تو دعا نہیں کرسکتا۔ وہ تو اسلام، اسلامی تہذیب اور اسلامی تاریخ کے غدار کے لیے ہی دعا کرے گا۔
آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل درانی نے اپنی کتاب ’’اسپائی کرونیکلز‘‘ میں انکشاف کیا ہے کہ مودی نے میاں نوازشریف کو اپنی تقریبِ حلف برداری میں نہیں بلایا تھا، بلکہ پہلے نوازشریف نے تقریبِ حلف برداری میں جانے کی خواہش ظاہر کی۔ یہ خواہش مودی تک پہنچائی گئی۔ تب میاں نوازشریف مودی کے دربار میں حاضری دیتے ہوئے نظر آئے۔ پاک بھارت تعلقات کی تاریخ کے تناظر میں یہ ایک غداری تھی۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ جب سے اسٹیبلشمنٹ اور نوازشریف کی کشمکش شروع ہوئی ہے امریکہ دو مرتبہ کھل کر میاں نوازشریف کی حمایت کرچکا ہے۔ آخر میاں نوازشریف ’’داخلی جنگ‘‘ میں امریکہ اور برطانیہ سے مدد کے طالب کیوں ہیں؟ وہ عوام کی مدد سے جنگ کیوں نہیں لڑتے؟ جب کہ اُن کے بقول وہ جیل جانے سے بھی نہیں ڈرتے۔ جنرل درانی کی کتاب اسپائی کرونیکلز میں آئی ایس آئی اور ایم آئی کے سابق سربراہ نے کھل کر ’’اکھنڈ بھارت‘‘ کے نظریے کی حمایت کی ہے۔ یہ دو قومی نظریے یعنی اسلام، اسلامی تہذیب، اسلامی تاریخ اور فکرِ اقبال اور قائداعظم کی جدوجہد سے کھلی غداری ہے۔ کیا جنرل درانی کی بیوی کو پاکستان جہیز میں ملا تھا کہ جنرل درانی اس کے بارے میں جو چاہے بک دے؟ جنرل درانی نے کتاب میں یہ بھی کہا ہے کہ اکھنڈ بھارت سے پہلے گریٹر پنجاب، گریٹر کشمیر اور گریٹر سندھ کا تجربہ کیا جا سکتا ہے۔ ان کے بقول میاں شہبازشریف اور بھارتی پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ راجا امریندر سنگھ یہی کررہے تھے۔ تو کیا پاکستان شریف خاندان کے ’’پرکھوں‘‘ کو تحفے میں ملا تھا؟ یا اُن کے پرکھوں نے جوئے میں جیتا تھا؟ جنرل درانی کے ان خیالات کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ اگر یہ جنرل درانی کے ’’انفرادی خیالات‘‘ ہوتے تو انہیں ان خیالات کو ظاہر کرنے کی جرأت نہ ہوتی۔ وہ اپنی ناپاکی اور ضلالت کو اپنے دماغ میں محفوظ رکھتے۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ اُن کے خیالات کو پاکستان کے Power Structure میں موجود اہم لوگوں کی خاموش حمایت حاصل ہے۔ مسلمانوں کا اصل مسئلہ یہی ہے۔ انفرادی، گروہی، طبقاتی اور اداراتی مفادات اسلام، اسلامی تہذیب، اسلامی تاریخ، امت، ملّت اور قوم کے مفادات پر غالب آجاتے ہیں۔ ایسا نہ ہوتا تو پاکستانی قوم، برصغیر کی ملّتِ اسلامیہ اور پوری امت کو عروج کی طرف محوِ سفر ہوئے عرصہ ہو گیا ہوتا۔