پاکستان کا مالیاتی نظام عالمی نگرانی میں

اپنے حالیہ اجلاس میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس یا FATF نے پاکستان کو خاکستری فہرست یا Gray List پر برقرار رکھا۔ پاکستان میں خبر کچھ اس طرح شائع ہوئی ہے کہ گویا پاکستان کو آج اس فہرست میں ڈالا گیا ہے، حالانکہ یہ فیصلہ فروری میں ہوا تھا اور حالیہ اجلاس میں پاکستان کو سیاہ فہرست (Black List) پر ڈالنے کے بجائے خاکستری فہرست میں ہی رہنے دیا گیا۔ فیصلے کے تجزیے سے پہلے FATF، اس کی ہیئت اور طریقہ کار پر ایک مختصر سی گفتگو۔
یہ ادارہ 1989ء میں امریکہ، کینیڈا، جاپان، جرمنی، برطانیہ، فرانس اور اٹلی پر مشتمل Group of 7یا G-7نے قائم کیا تھا، جس کا مقصد رشوت خوری، اسمگلنگ اور غیرقانونی حربوں سے ناجائز دھن پاک کرنے کا (Money Laundering) سدباب تھا۔ اسی لیے شروع میں اس کا ہدف کثیرالقومی یا Multi- Nationalادارے تھے اور ایک عرصے تک Shell آئل کمپنی اس کی مشکوک فہرست میں رہی۔ کچھ عرصے بعد اس کے ارکان کی تعداد 16 ہوگئی۔ اس وقت 37 ممالک کے علاوہ خلیج تعاون کونسل اور یورپی یونین اس کے رکن ہیں اور سعودی عرب و اسرائیل کو مبصرین کا درجہ حاصل ہے۔ آئی ایم ایف، ایشین ڈیولپمنٹ بینک اور دوسرے بہت سے ادارے FATFکے مبصر ہیں۔ ایک دلچسپ بات کہ چین کو یہاں 2 ووٹ کی سہولت حاصل ہے، اور وہ اس طرح کہ جب ہانگ کانگ FATFکا رکن بنا اُس وقت وہ برطانیہ کا باج گزار خودمختار ملک تھا، لیکن لیز ختم ہونے پر ہانگ کانگ 1997ء میں چین کا حصہ بن گیا، تاہم اس کی FATF میں رکنیت برقرار رہی۔
ایف اے ٹی ایف بنیادی طور پر ایک مشاورتی کونسل ہے جو مالیاتی نظام کو شفاف بنانے کے لیے دنیا بھر کے ممالک اور مالیاتی اداروں کو مشورے اور مدد فراہم کرتی ہے۔/11 9 سے پہلے یہاں ووٹنگ کا نظام نہیں تھا اور اجلاسوں میں مختلف اہم مالیاتی امور و مسائل پر تفصیلی بحث مباحثے کے بعد ایسے اقدامات تجویز کیے جاتے جن کے نتیجے میں کاروبارِ حکومت شفاف اور احتساب آسان ہوجائے۔ جیسا کہ ہم نے اوپر عرض کیا ابتدا میں ایف اے ٹی ایف کا اصل ہدف بین الاقوامی ادارے تھے جنھوں نے تیسری دنیا میں رشوت خوری کا بازار گرم کررکھا تھا۔ اسی خطرے کے پیش نظر 1977ء میں امریکہ نے Foreign Corrupt Practice Act (FCPA) منظور کیا تھا۔ دنیا بھر کے مالیاتی نظام کو اصل خطرہ منی لانڈرنگ سے ہے جو کالے دھن کو سفید کرنے کی واردات کا سرکاری نام ہے۔ کالا دھن بنیادی طور پر وہ آمدنی ہے جس کا کوئی ریکارڈ نہ ہو۔ یعنی وہ رقم جو رشوت، منشیات کی فروخت، بینک ڈکیتی وغیرہ سے حاصل کی جائے۔ یہ ناپاک آمدنی عام طور سے نقد ہوتی ہے یا بے نامی بینک اکائونٹ کی صورت میں۔ اس ضمن میں اُن ممالک کے مالیاتی نظام پر نظر رکھی گئی جہاں مرکزی یا اسٹیٹ بینک غیر مؤثر ہے اور کاروباری امور پر اس کی گرفت مضبوط نہیں۔ ان ممالک میں بینک بلااعتراض خطیر رقم اکائونٹ میں جمع کرلیتے ہیں اور رقومات کی غیر ملک کو منتقلی پر نہ تو کوئی پابندی ہے اور نہ ہی ان سرگرمیوں کا کوئی ریکارڈ رکھا جاتا ہے۔ چنانچہ وسط ایشیا کے ممالک اور کمیونزم سے آزاد ہونے والے کمبوڈیا، ویت نام، یمن وغیرہ کے بارے میں ایف اے ٹی ایف مسلسل تشویش کا اظہار کرتا رہا۔ خود روس کئی سال تک خاکستری بلکہ سیاہ فہرست میں رہا۔ مزے کی بات کہ 2000ء میں تعاون نہ کرنے والے ممالک NCCT’s میں اسرائیل بھی شامل تھا۔ NCCT سیاہ فہرست کو کہتے ہیں یعنی وہ ممالک جو نظام کو شفاف بنانے کے لیے ایف اے ٹی ایف سے تعاون پر تیار نہ ہوں۔ 2001ء سے 2003ء تک مصر سیاہ فہرست کی زینت بنا۔
نائن الیون سانحے کے بعد ایف اے ٹی ایف کا سارا زور انسدادِ دہشت گردی پر ہوگیا اور اس کے ساتھ ہی ایف اے ٹی ایف امریکی مخالفین کو مزا چکھانے بلکہ بلیک میلنگ کا ادارہ بن گیا۔ امریکہ کا خاص ہدف ایران رہا جسے مسلسل خاکستری اور سیاہ فہرست میں رکھا گیا۔ تہران کی معیشت ایک عرصے سے ایف اے ٹی ایف کی خوردبین کے نیچے ہے۔
نائن الیون کے بعد امریکہ اوربھارت کے درمیان پیار ومحبت کا سلسلہ شروع ہوا، اور سابق صدر اوباما کے دور میں امریکہ اور بھارت ایک جان دوقالب بن گئے۔ اس قربت کی بنیادی وجہ دونوں ملکوں کا مشترکہ دشمن چین ہے۔ امریکہ کو چین کے گھیرائو کے لیے ایک مؤثر بحریہ رکھنے والے حریف کی ضرورت تھی۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی شکل میں امریکہ کو مضبوط حلیف تو میسر تھے لیکن اپنی آبادی اور رقبے کے اعتبار سے ان کے لیے چین کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہونا ممکن نہیں، جبکہ بھارت آبادی میں چین کے بعد دوسرے نمبر پر ہے، اس کی سرحدیں بھی خاصی طویل ہیں۔ بحرہند، خلیج بنگال اور بحر عرب اور اس سے وابستہ آبی شاہراہوں تک اسے رسائی حاصل ہے۔ سب سے بڑھ کر آبنائے ملاکا (Strait Of Malacca)اس کی پہنچ میں ہے جو بحر جنوبی چین (South China Sea)سے بحرہند میں آنے کا سب سے تیز اور آسان راستہ ہے۔ امریکہ بھارت دوستی پاکستان کے لیے اس لیے سوہانِ روح بن گئی کہ بھارت اور چین کے درمیان تو محض سرحدی تنازع ہے، جبکہ پاکستان بھارتی جن سنگھیوں کے لیے ہندماتا کے سینے پر گھنپا ہوا خنجر ہے جس نے اکھنڈ بھارت کو تقسیم کررکھا ہے۔
اسی دوران اسرائیل کو بھی ایف اے ٹی ایف میں مبصر کا درجہ دے دیا گیا۔ اسرائیل کو ووٹ ڈالنے کا حق تو نہیں لیکن وہ ہر اجلاس میں موجود رہتا ہے اور وقفوں کے دوران اُس کے ماہرینِ اقتصادیات کو پاکستان کے خلاف فضا بنانے کا موقع میسر آجاتا ہے۔ پہلی بار پاکستان کو 2008ء میں سیاہ فہرست کی زینت بنایا گیا، لیکن اگلے ہی سال اسے گرے فہرست میں ڈال دیا گیا، اور 2012ء میں پاکستان گرے فہرست سے نکل کر شفاف ملکوں میں شامل کردیا گیا۔ اسی سال ایف اے ٹی ایف کے ایشیا بحرالکاہل گروپ(APG) نے پاکستان کی کارکردگی کو مثالی قراردیا، لیکن اگلے برس یعنی 2013ء میں پاکستان کا نام ایک بار پھر گرے فہرست میں تھا۔2014ء میں APGکی سفارشات پر پاکستان کو ایک بار پھر شاباش دی گئی۔ 2014ء میں ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو دوبارہ آنکھیں دکھائیں لیکن صرف چھے ماہ بعد پاکستان ایک بار پھر ’’اچھا بچہ‘‘ قرار پایا۔ 2016ء میں صدر ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد سے امریکہ کے ساتھ بھارت اور اسرائیل کی عمدہ سفارتی کوششوں کی بنا پر فرانس اور برطانیہ پاکستان کے سخت خلاف ہوگئے۔
یہ وہی وقت تھا جب پاکستان میں شدید سیاسی بحران تھا۔ پاناما فہرست کے بعد سے وزیراعظم نوازشریف پر مالی بدعنوانی اور ملکی دولت سعودی عرب، دبئی اور لندن کے بینکوں میں جمع کرانے کے الزامات اپنے عروج پر تھے۔ حافظ سعید اور لشکر طیبہ کے معاملے پر بھونڈے پروپیگنڈے کا پاکستان کے حلیفوں ترکی اور چین نے بہت مؤثر دفاع کیا، لیکن وزیراعظم پر خوردبرد کے الزامات نے پاکستان کے بینکنگ نظام کو مشکوک بنادیا۔
اُس وقت پاکستان کا کوئی وزیرخارجہ نہ تھا اور وزارتِ خارجہ کا قلم دان وزیراعظم سنبھالے ہوئے تھے جو خود ہی اسکینڈلوں کی زد میں تھے، جس کے نتیجے میں وزارتِ خارجہ معطل ہوکر رہ گئی۔ وزیرخزانہ اسحق ڈار پر بھی بدعنوانی کا الزام تھا۔ جب وزیراعظم اور وزیرخزانہ کا کردار ہی مشکوک قرار پاجائے تو اس ملک کے بینکنگ نظام پر کون اعتماد کرے! چنانچہ پاکستان کے دوستوں کے لیے بھی دفاع ناممکن ہوگیا۔ جولائی 2017ء میں نوازشریف حکومت بدعنوانی کے الزام میں برطرف کردی گئی۔ عدالتی کارروائی کے دوران قطری شہزادے سے رقم کی وصولی، پاکستان سے سعودی عرب اور وہاں سے رقم کی لندن منتقلی کا کوئی دستاویزی ثبوت عدالت میں پیش نہ ہوا۔ وزیراعظم کی سعودی عرب میں ملازمت کے ساتھ وزیرخارجہ خواجہ آصف نے دبئی میں مشاورت (Consulting)کا اعتراف کرلیا، لیکن وہ معاہدے کی کوئی دستاویز نہ پیش کرسکے۔ سابق آمر پرویزمشرف نے انکشاف کیا کہ سعودی حکمرانوں نے انھیں ایک بھاری رقم تحفے کے طور پر دی تھی لیکن اس پر کسی قسم کا ٹیکس نہیں ادا کیا گیا۔ اس قسم کے انکشافات سے یہ تاثر پختہ ہوگیا کہ پاکستان کے بینکنگ نظام پر اسٹیٹ بینک کی گرفت بہت کمزور ہے، ملک سے رقم کی منتقلی پر کسی قسم کا مؤثر کنٹرول نہیں اور نہ اس کا کوئی ریکارڈ رکھا جاتا ہے، یعنی یہاں منی لانڈرنگ روکنے کا کوئی معقول بندوبست نہیں۔
لاہور و پشاور میں میٹرو بس، اورنج ٹرین، بجلی کی پیداوار، سی پیک سمیت تقریباً ہر بڑا منصوبہ بدعنوانی اور رشوت خوری کے حوالے سے افواہوں کا شکار رہا۔ نیب نے سیاست دانوں، بیوروکریٹس اور سابق جرنیلوں پر اربوں روپے ہڑپ کرنے کے مقدمات بنائے لیکن کسی ایک بھی مقدمے کا فیصلہ ہوا اورنہ لوٹی ہوئی دولت کا سراغ لگایا گیا۔ کئی معاملات میں ماورائے عدالت Plea Bargainکی شکل میں چرائی ہوئی رقم کا جزوی حصہ واپس کرنے کے عوض مقدمات واپس لے لیے گئے اور نیب نے یہ معلوم کرنے کی زحمت نہیں کی کہ یہ کالا دھن کہاں رکھا گیا ہے۔
ایف اے ٹی ایف کے حالیہ اجلاس سے پہلے سرکاری ذرائع نے انکشاف کیا کہ اسحق ڈار کھلی مارکیٹ سے ڈالر خرید کر زرمبادلہ کے ذخائر اور روپے کی قدر کو مصنوعی طور پر بلند سطح پر رکھے ہوئے تھے۔ یہ قدم Currency Manipulation کہلاتا ہے جس کی ایف اے ٹی ایف حوصلہ شکنی کرتی ہے۔ یہ درست کہ چین ایک عرصے سے Currency Manipulation میں ملوث ہے لیکن جنگل کا بادشاہ انڈے دے یا بچے جنے، کون اس سے پوچھتا ہے! جبکہ غریب پاکستان کی فردِ جرم میں یہ الزام بھی ٹانک دیا گیا۔ ایف اے ٹی ایف میں یہ سوال بھی اٹھا کہ اسحق ڈار نے ڈالر کہاں سے خریدے اور حکومتِ پاکستان نے اس کی خریداری کے لیے روپیہ کس مد سے جاری کیا؟
سب سے تشویش ناک انکشاف ابھی چند ہفتے پہلے ہوا کہ گزشتہ ایک سال کے دوران پاکستانی شہریوں نے 15 ارب ڈالر ملک سے باہر بھیجے ہیں جس میں سے 14 ارب کے قریب براہِ راست دیار ہائے غیر کے بینک اکائونٹس میں منتقل کیے گئے، اور ایک ارب ڈالر حوالہ و ہنڈی کے ذریعے بھیجے گئے۔ منتقل کی جانے والی رقومات کی کوئی تفصیل اسٹیٹ بینک کے پاس نہیں کہ پیسہ کہاں سے آیا اور اس پر ٹیکس ادا کیا گیا یا نہیں۔ یہ ساری کی ساری رقم غیر ملکی اکائونٹس میں پہنچ کر اجلی ہوگئی۔ منی لانڈرنگ کی اس واردات کا دفاع ترکی سمیت پاکستان کے کسی دوست کے لیے ممکن نہ تھا۔
دوسری طرف اس سنگین مسئلے پر بھی سیاست چمکانے کا سلسلہ قائم رہا۔ نوازشریف کے ساتھی یہ تاثر دیتے رہے کہ حکومت کی سخت مخالفت کے باوجود خاکی مخلوق لشکر طیبہ اور جماعت الدعوۃ کی پشت پناہی کررہی ہے اور حافظ سعید کی سرپرستی ایف اے ٹی ایف کی ناراضی کی اصل وجہ ہے۔ بلکہ سابق وزیر داخلہ احسن اقبال تو بہت دور کی کوڑی لائے اور فرمایا کہ مولانا خادم حسین کے دھرنوں اور ختم نبوت پر غیر ضروری شور سے ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کا تاثر خراب ہورہا ہے۔ بلاشبہ بھارت اور امریکہ نے لشکر طیبہ کو ہدف بناکر پاکستان کو نشانے پر رکھا ہوا ہے جس کا پاکستان کے اتحادیوں خاص طور سے ترکی اور چین نے بہت مؤثر انداز میں دفاع کیا، لیکن مالی بدعنوانی کی خبروں اور اس میں پاکستان کی اعلیٰ ترین قیادت کے ملوث ہونے کی اطلاعات نے پاکستان کے دوستوں کو بھی شرمندہ کردیا۔ اس دبائو کا سب سے زیادہ فائدہ پاکستان کے لبرل و سیکولر عناصر نے اٹھایا، جو اس کی آڑ میں مدارس اور سماجی اداروں پر مالیاتی قدغن لگوانا چاہتے ہیں۔
بدترین سیاسی بحران، میڈیا پر سنسنی خیز انکشافات اور الزام تراشی نے معاملے کو مزید خراب کردیا اور پاکستان کے دوست بھی شکوک وشبہات میں مبتلا ہوگئے۔ یہ خیال عام ہوگیا کہ پاکستان کے مالیاتی اداروں کے نظام میں بنیادی سقم ہے۔ یہاں کالے دھن کو صاف کرنا بہت آسان ہے اور دہشت گردوں کو مالیاتی وسائل تک دسترس حاصل ہے۔ ایف اے ٹی ایف کی اچھی بات یہ ہے کہ یہاں مشاورت کے انداز میں تمام فیصلے اتفاقِ رائے سے کیے جاتے ہیں، اور جب تک مکمل ہم آہنگی نہ ہوجائے ووٹنگ نہیں کروائی جاتی۔ پاکستان کو سلیٹی فہرست سے نکال کر سیاہ فہرست میں ڈالنے کا علَم امریکہ بہادر نے اٹھایا ہوا تھا اور ساری دنیا میں پاکستان کے مخالفین نے ایف اے ٹی ایف کے ایک ایک رکن سے رابطہ کرکے اسے پاکستان کے خلاف ووٹ ڈالنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ باخبر ذرائع کے مطابق آخری مرحلے میں اسرائیل اور سعودی عرب کے دبائو پر خلیج تعاون کونسل نے غیر جانب دار رہنے کی ہامی بھرلی۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ سعودی عرب نے پاکستان کے خلاف ووٹ نہیں دیا اس لیے کہ ریاض کو ووٹ کا حق ہی حاصل نہیں۔ سعودی عرب ایف اے ٹی ایف کا مکمل رکن نہیں بلکہ اُسے صرف مبصر کا درجہ حاصل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان مخالف فضا دیکھ کر چین، ترکی، ملائشیا اور سنگاپور نے پاکستان کو ایک اور موقع دینے کے لیے اسے گرے فہرست میں ہی رکھے رہنے کی تجویز پیش کی اور امریکہ، بھارت اور فرانس کی شدید مخالفت کے باوجود اس تجویز پر اتفاقِ رائے ہوگیا۔
سفارتی ذرائع کے مطابق ترکی نے پاکستان کو گرے فہرست سے نکلوانے کی کوشش کی لیکن چین اس کے لیے تیار نہ تھا۔ بیجنگ کی بے وفائی میں سیاست سے زیادہ تجارت کا پہلو تھا۔ پاکستان کی غیر ضروری حمایت میں اس کا دہرا نقصان تھا، یعنی ایک طرف تو تجارتی جنگ کے تناظر میں امریکہ سے کشیدگی مزید بڑھ جانے کا خدشہ تھا تو دوسری طرف پاکستان کے گرے فہرست میں آجانے کی صورت میں اسلام آباد کا چین پر انحصار بڑھنے کی توقع بھی ہے، اس لیے کہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے، بینک اور سرمایہ کار گرے فہرست والے ممالک سے ذرا دور ہی رہنا پسند کرتے ہیں۔ چنانچہ اقتصادی تنہائی کے نتیجے میں چینی بینکوں کے لیے انتہائی پُرکشش شرح سود پر پاکستان سے کاروبار کا دروازہ کھل سکتا تھا۔
ایف اے ٹی ایف نے گرے فہرست سے نکلنے کے لیے پاکستان کو 10 کلیدی اقدامات اٹھانے کی ہدایت کی ہے جس پر آئندہ 15 ماہ کے دوران عمل درآمد ضروری ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ مالیاتی نظام میں اصلاحات کی ان سفارشات پر پاکستان کو ایشیا بحرالکاہل گروپ یا APGکے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا۔ APGکے ساتھ کام کرنے کا پاکستان کو بہت خوشگوار تجربہ ہے۔ پاکستان کو جو اقدامات اٹھانے ہیں ان میں: رقومات کی غیر ملکی منتقلی پر کڑی نظر ، بینکوں کے ذریعے ترسیلات کے نظام کو شفاف بنانا، اور نقد رقوم کی غیر ملک منتقلی پر مکمل پابندی شامل ہے۔ اس ضمن میں سب سے اہم ضرورت ایسی قانون سازی کی ہے جس کے ذریعے پاکستانی شہریوں، کمپنیوں اور پاکستان میں رجسٹرد رفاہی اداروں یا NGOs کو غیر ملک میں موجود اکائونٹس کی تفصیلات FBR کو فراہم کرنے کا پابند کیا جائے۔ امریکہ میں ٹیکس دہندگان کے لیے ہر سال FBARکے عنوان سے ایک گوشوارہ داخل کرنا ضروری ہے جس پر غیر ملک میں موجود بینک اور سرمایہ کاری اکائونٹس کی تفصیلات جمع کرانی ہوتی ہیں۔ گزشتہ انتخابات کے دوران صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم کے ڈائریکٹر پال مناوفورٹ آج کل جیل میں ہیں۔ اُن پر الزام ہے کہ انہوں نے ایک غیر ملکی ادارے سے مشاورت یا Consultingکی فیس وصول کی۔ اس آمدنی پر ٹیکس بھی قانون کے مطابق کاٹا گیا۔ یہ رقم امریکہ سے باہر ایک بینک اکائونٹ میں جمع کرادی گئی جہاں سے یہ رقم قانون کے مطابق بینک کے ذریعے امریکہ منتقل کی گئی، لیکن موصوف اس بات پر دھر لیے گئے کہ انھوں نے FBAR پر اس غیر ملکی اکائونٹ کی تفصیل نہیں دی تھی۔
آزمائش سے نکلنے کے لیے پاکستان کو کرپشن کے جن کو قابو کرنا ہوگا، جس کے لیے بینکنگ کے نظام پر اسٹیٹ بینک کی مؤثر گرفت ضروری ہے۔ ان اہداف کے حصول کے لیے عمدہ طرز حکمرانی اور اہم فیصلوں سے پہلے مشاورت لازم ہے۔ پاکستان میں اسٹیٹ بینک کے گورنر، سفیروں اور کارپویشنوں کے کلیدی اہلکاروں کی تعیناتی وزیراعظم کی مرضی سے ہوتی ہے اور سینیٹ سے منظوری تو کجا اسے شریکِ مشورہ بھی نہیں کیا جاتا، جس کی وجہ سے یہ عہدیدار ریاست سے وفاداری کے بجائے وزیراعظم کے اشارۂ ابرو کے منتظر رہتے ہیں۔ دوسرے ممالک میں پاکستانی سفارت خانوں اور اقتصادی اتاشیوں کو پاکستان کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے کو ناکام بنانے کے لیے ایک مربوط حکمت عملی اختیار کرنی ہوگی۔ اس ضمن میں ایک کثیرالجہتی حکمت عملی ترتیب دینے کی ضرورت ہے، اور یہ کام جلد ہونا چاہیے کہ وقت کم ہے اور مقابلہ بہت سخت۔