ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کا خصوصی انٹرویو

اقبال عہدِ حاضر میں ہماری علمی اور فکری روایت کا سب سے اہم حوالہ ہیں۔ انہوں نے زندگی کے مسائل پر اس کی گہرائیوں میں اتر کر سوچا، سمجھا تھا اور تخلیقی کرب سے گزر کر اپنی شاعری اور نثر سے امتِ مسلمہ کے لیے راہیں متعین کیں۔ ان کی شاعری انہیں دورِ جدید میں امتِ مسلمہ کا سب سے مؤثر فکری رہنما بناتی ہے۔ ہماری قومی زندگی کی صورت گری میں کردار و گفتار کی بیشتر ضروریات اقبال کے خیالات کو نمونہ بناکر پوری ہوتی ہیں۔ امتِ مسلمہ کے مُردہ جسم میں روح پھونکنے کا کام انہوں نے کیا اور پھر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے آگے بڑھایا۔ اب امتِ مسلمہ میں بیداری کی جو بھی لہریں اٹھ رہی ہیں یا مستقبل بعید میں اٹھیں گی، ان میں سے اکثر اقبال کے سرچشمۂ فکر ہی سے ہوں گی۔ جہاں اقبال کے افکار و خیالات پر بہت کام ہوا ہے اور سینکڑوں چھوٹی بڑی کتابیں لکھی گئی ہیں، وہیں بے جا تعصب اور ’’اسلام کی چڑ‘‘ کی وجہ سے ’’انہدامِ اقبال‘‘ کی منظم مہم بھی چلائی گئی ہے۔ اس پس منظر میں احمد جاوید کہتے ہیں کہ ’’اقبال کی مسلمہ حیثیت ان کی شخصیت کا سب سے بڑا بلکہ واحد عنوان ہے۔ اس سے واقف ہوجانے کے بعد کسی شخص کو، بشرطیکہ وہ آدمیت سے بالکل ہی محروم نہ ہو، یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اقبال کی چھوٹی موٹی کمزوریاں تلاش اور مزے لے لے کر بیان کرنے بیٹھ جائے۔ اس طرح کا نفسیاتی مطالعہ ناکام و نامراد لوگوں کو سمجھنے کے لیے تو مفید ہوسکتا ہے لیکن اقبال جیسی شخصیت پر اس کا اطلاق ایسے ہی ہے جیسے کوئی مستری ہمالیہ کی ساخت کے نقائص ڈھونڈنے میں لگ جائے‘‘۔
فرائیڈے اسپیشل نے اقبال ؒ کی شخصیت، فکر اور خیال، اور ان پر ہونے والی تنقیدوں کے پس منظر میں ممتاز دانشور اور ماہر اقبالیات ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی سے تفصیلی گفتگو کی ہے جو اقبال اور ان کی فکر سے متعلق اٹھنے والے سوالات کے جواب کے ساتھ اقبال کی شخصیت کے نئے پہلوئوں سے بھی روشناس کرائے گی۔
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ماہر ِتعلیم، محقق، نقاد اور ماہرِ اقبالیات ہیں۔ آپ نے اقبال کی شاعری اور نثر کا مطالعہ ریاضت سے کیا ہے۔ کئی برسوں سے خواہش رہی کہ اقبال کی زندگی اور ان کی شاعری سے متعلق آپ سے تفصیلی نشست کی جائے، کئی بار لاہور بھی جانا ہوا لیکن بوجوہ ایسا ممکن نہ ہوپایا۔ گزشتہ دنوں معلوم ہوا کہ وہ کراچی تشریف لائے ہوئے ہیں تو ان سے ملاقات کی سبیل پیدا ہوئی۔ فون پر بات ہوئی تو معلوم ہوا کہ آپ کراچی کینٹ میں اپنی بیٹی کے یہاں ٹھیرے ہوئے ہیں۔ عمومی طور پر ہم کینٹ میں داخل ہونے سے کتراتے ہی ہیں، اس کی کوئی اور وجہ نہیں بس وہاں کا پروٹوکول، سویلین کی لائن، اور بسا اوقات گھٹنہ گھنٹہ گزرجاتا ہے۔ بہرحال ہم نے اس وجہ کو انٹرویو میں حائل نہ ہونے دیا اور کینٹ پہنچ گئے۔ وہاں انتہائی نفیس، ملنسار ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی اپنے داماد کے ساتھ ہمیں لینے پہنچ گئے۔ شرمندگی بھی ہورہی تھی لیکن پھر یہ عمل بہت منع کرنے کے باوجود انہوں نے واپسی میں بھی اختیار کیا اور گھر چھوڑ کر مزید شرمندہ کیا۔
معروف اسکالر ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کا تعلق مصریال ضلع چکوال سے ہے، آپ کے دادا عالم شاہ ایک دیندار مسلمان تھے، پیشے کے لحاظ سے کاشت کار تھے، لیکن ان کی خواہش تھی کہ ان کے دونوں بیٹے یعنی والد محمد محبوب شاہ اور چچا عبدالرحمن تعلیم حاصل کریں۔ ایسے ماحول میں جہاں کسان اپنے بیٹوں کو اپنی مدد کے لیے کھیتی باڑی میں لگا لیتے تھے، انہوں نے بیٹوں کو باہر پڑھنے کے لیے بھیج دیا۔ والد محبوب شاہ ہاشمی بھی ایک درویش صفت انسان تھے، جبکہ چچا دیوبند کے فارغ التحصیل تھے۔ بعد ازاں دونوں بھائی سرگودھا میں طب کے شعبے سے منسلک رہے۔ آپ نے بچپن میں گھر پر دینی تعلیم حاصل کی، حفظِ قرآن کیا۔ پرائمری کا امتحان ماڈرن پبلک اسکول سرگودھا سے پاس کیا جبکہ میٹرک انبالہ مسلم ہائی اسکول سے 1954ء میں فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ 1960ء میں گورنمنٹ کالج سرگودھا سے ایف اے کے امتحان میں وظیفہ حاصل کیا۔ البتہ بی اے کا امتحان پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے پاس کیا۔ بی اے کے بعد گورنمنٹ کالج سرگودھا میں داخلہ لیا اور ایک برس بعد اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی مائیگریشن کرالی، یوں اپنی حقیقی مادرِ علمی سے وابستہ ہوگئے۔ ایم اے اردو میں درجہ اوّل حاصل کرنے والے واحد طالب علم تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی سال آپ کے استاد سجاد باقر رضوی نے بھی ایم اے اردو کا امتحان دیا تھا، وہ انگریزی میں ایم اے تھے اور شعبۂ اردو میں آنے کے لیے انہوں نے ایم اے اردو کا امتحان دیا تھا، وہ دوسرے نمبر پر رہے۔ اخبارات نے استاد شاگرد کے نتیجے پر نمایاں خبریں شائع کی تھیں۔ رفیع الدین ہاشمی اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی کے قابل اور جید اساتذہ کی آخری کھیپ میں سے ایک ہیں۔ ہاشمی صاحب اگرچہ ریٹائر ہوچکے ہیں مگر تاحال علمی، ادبی اور تحقیقی کاموں میں منہمک ہیں۔

سوال: اقبال سے دل چسپی کیسے پیدا ہوئی؟
رفیع ہاشمی: ہمارے گھر میں ’’بانگ درا‘‘ کا ایک نسخہ تھا، میں اُسے پڑھتا رہتا تھا۔ اس میں جو ابتدائی نظمیں ہیں، مثلاً :لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنا میری،یا پرندے کی فریاد،یا ہمدردی تو اس طرح کی نظمیں اچھی لگتی تھیں، باقی نظمیں میری سمجھ میں نہیں آتی تھیں۔ جب میٹرک میں پہنچا تو اقبال کی کچھ اور نظمیں پڑھیں، کچھ اور سمجھ میں آئیں۔ بی اے اور ایم اے میں مزید سمجھ میں آئیں۔ ایم اے میں داخلہ لیا تو ’’علامہ اقبال کا فنی مطالعہ ‘‘کے عنوان سے ایک پرچہ شامل نصاب تھا۔ چنانچہ اقبال کو کچھ اور تفصیل سے پڑھنے کا موقع ملا۔ اس میں اردو اور فارسی شاعری کا کچھ حصہ بھی تھا، نثر کا حصہ نہیں تھا۔ لیکن اس سے علامہ کی شاعری اور فکر میں دلچسپی اور بڑھی۔ایم اے کرنے کے بعد خیال آیا کہ’’ اقبال کی طویل نظموں کا فکری و فنی مطالعہ ‘‘پر کوئی ایسا یکجا لوازمہ یا میٹریل نہیں ہے جس سے طلبہ کو امتحان کی تیاری میں آسانی ہو۔ہمارے ایک دوست تھے ڈاکٹر معین الرحمن ۔ جن کے بڑے بھائی متین الرحمن مرتضیٰ’’ جسارت‘‘ کے مدیر رہے۔ معین صاحب سے مشورہ ہوا تو میں نے اقبال کی ایک طویل نظم ’’ شمع اور شاعر‘‘ پر مضمون لکھا، پھر ’’خضرہ راہ‘‘ پر لکھا، پھر ایک اور نظم پر ۔۔لکھتا گیا ، یوں میری پہلی کتاب ’’اقبال کی طویل نظمیں ‘‘ تیار اور شائع ہوئی۔ ۱۹۷۴ء میںجب میں نے پی ایچ ڈی کا ارادہ کیا تو اس میں بھی میرا موضوع اقبال پرہی طے ہوا۔ ۱۹۷۷ء میں جب ’اقبال صدی‘ منائی گئی تو میں نے ’’نیشنل کمیٹی برائے صد سالہ تقریبات ولادتِ علامہ محمد اقبال‘‘کو ایک خاکہ’’کتابیات اقبال‘‘ کا بنا کر بھیجا۔ اس وقت تک اردو میں ایسی کوئی کتاب نہیں تھی، چنانچہ انھوں نے اسے منظور کرلیا۔ وہ کتاب اقبالیات کی چند منتخب کتابوں میں شمار ہوئی۔ اب اس کا دوسرا ایڈیشن شائع ہونے والا ہے۔ تو اس کے بعد اقبال پر لکھنے اور تحقیق و تنقید کا سلسلہ ابھی تک چلا آرہا ہے۔
سوال: اقبالیات یا اقبال کے مطالعے کی ہماری زندگی میں کیا اہمیت ہے؟
رفیع ہاشمی: اقبال کی شاعری کے مطالعے کی اولیں اہمیت یہ ہے کہ اس کا مرکزی موضوع ’’ہم ‘‘یعنی ملتِ اسلامیہ ہے۔ اسلام کی نشاتِ ثانیہ ان کی زندگی کا بڑا مقصد تھا۔ ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ کوئی ایک آدمی ہے جو ملت کو اوپر اٹھانے کی کوشش اور تگ و دو میں مصروف ہے۔ دوسری اہمیت پاکستان کے حوالے سے ہے کہ پاکستان کے قیام میں بہت سے لوگوں کی کاوشوں کا دخل ہے، لیکن اس مطالبے کو علامہ اقبال نے جس نمایاں طریقے سے پیش کیا خطبہ الٰہ آباد کی صورت میں،اور اس کے نتیجے میں قراردادِ لاہور منظور ہوئی ااورپھر قائداعظم کی قیادت میں پاکستان وجود میں آیا۔یہ بھی ایک وجہ ہے ہم پاکستانیوں کے لیے اقبال کو پڑھنے کی ۔۔۔۔مزید یہ ہے کہ جب قراردادِ لاہور منظور ہوئی تو دوسرے دن قائداعظم نے اپنے سیکرٹری مطلوب الحسن سید سے کہا کہ علامہ اقبال اگر آج زندہ ہوتے تو وہ محسوس کرتے کہ جو کچھ انہوں نے چاہا تھا، ہم نے وہی کچھ کیا ہے۔ یعنی پاکستان کے قیام کا مطالبہ اقبال کی خواہش کے مطابق کیا ہے۔ لیکن خیال رہے کہ اقبال کی خواہش صرف یہیں تک نہیں تھی، بلکہ اس سے آگے بھی کچھ باتیں تھیں اور قائداعظم کے نام جو خط ہیں ،اُن سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ علامہ اقبال یہ کہتے تھے کہ جو مسئلہ معاشیات کاہے اور روٹی کا ہے، اس کو حل کرنا بہت ضروری ہے، اور وہ حل ہوگا اسلامی شریعت کے نفاذ سے، اور اسلامی شریعت اُس وقت تک نافذ نہیں ہوسکتی جب تک کہ ایک آزاد اسلامی مملکت وجود میں نہ آجاے۔ اب 1947ء میں پاکستان تو قائم ہوگیا اور اس کے بعد قائداعظم نے جو تقریریں کیں 1947ء سے کچھ پہلے بھی اور ۱۹۴۷ء کے بعد بھی،اِن تقریروں کو پڑھیں تو معلوم ہو گا کہ ان میں بالکل وہی باتیں ہیں جو علامہ اقبال چاہتے تھے۔انہی چیزوں کے لیے وہ بھی بار بار کہہ رہے تھے اور اسی لیے کوشش کر رہے تھے کہ روٹی اور اقتصادی مسئلہ بھی حل ہو گا اور اسلامی قوانین بھی نافذ ہو ں گے۔ قائد اعظم کی وفات کے بعد ہم نے اُن کے مقاصد یعنی اسلامی مملکت کا قیام اور نفاذ شریعت کو نکال کر ایک طرف کر دیا ۔جب نفاذ شریعت کو ملتوی کر دیا تو آج تک کوئی بھی مسئلہ بھی حل نہ ہوا اسی لیے اقبال آج بھی یاد آتے ہیں اور یہی اہمیت ہے اقبال کے مطالعے کی ۔یہاں تھوڑی سی وضاحت کر دوں کہ ہمارا لبرل اور سیکولر طبقہ اسلام اور شریعت سے بدکتا ہے اور کہتا ہے کہ پاکستان سے ان کا کیا تعلق۔ قائدِ اعظم نے اس طبقے کی ذہنیت کے پیشِ نظر ۲۵ جنوری ۱۹۴۸ء کو میلاد النبیؐ کے موقعے پر ایسے لوگوں کی مذمت کی۔ ان کے الفاظ میں جو :Who deliberately wanted to create mischief and made propaganda that the constitution of Pakistan would not be made on the basis of Shariat. Islamic principles today are as applicable to life as the were 1300 years ago. اقبال نے جو کچھ چاہا تھا قائد اعظم اسے پورا کرنے کی کوشش کی مگر اُن کے سیاسی ورثا نے اقبال اور قائدا عظم کے مقاصد قیام پاکستان کو پس پشت ڈالا اور روپیا پیسا بنانے ا ور جمع کرنے میں لگ گئے۔
سوال: آپ کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ خطبۂ الٰہ آباد کی روح کے مطابق پاکستان قائم ہوا۔ ڈاکٹر مبارک علی جو پاکستان کے ایک معروف تاریخ دان ہیں، کہتے ہیں کہ اقبال نے خطبۂ الٰہ آباد میں ہندوستان کے اندر رہتے ہوئے ایک ریاست کی بات کی تھی جب کہ پاکستان وفاق سے باہر ایک خودمختار ریاست ہے، چنانچہ ایسی ریاست کا تصور، اقبال کا تصور نہیں ہوسکتا۔ آپ اُن کے اِن خیالات کو تاریخ اور تاریخی دستاویزات کی روشنی میں کس طرح دیکھتے ہیں؟
رفیع ہاشمی: ڈاکٹر مبارک علی کے بارے میں کون نہیں جانتا کہ وہ اشتراکی ہیں، کمیونسٹ اور مارکسسٹ ہیں۔ یہ اُن کی تحریروں سے بہت واضح ہے۔ اقبال ہوں ، سرسید ہوں ،یا قائداعظم ، اسلام کی نشاتِ ثانیہ کے لیے جدوجہد کرنے والے جتنے بھی لوگ ہیں ،وہ سب ان کی نظر میں معتوب ہیں۔ خطبہ ٔ الہ آباد میں بلاشبہ اقبال نے Muslim India within India کی بات کی تھی مگر یہ سات سال پرانی بات ہے۔ قائداعظم کے نام اقبال کے خطوط خصوصا ۲۸ مئی ۱۹۳۷ کا خظ دیکھیے ، جس میں وہ واضح طور پر Free Muslim Stateکی بات کرتے ہیں، تاکہ وہاں اسلامی شریعت نافذ کی جائے۔ سوچنے کی بات ہے کہ Free Muslim State ، وفاقی ہندوستان کے اندر کیسے قائم ہوسکتی تھی ؟
سوال: ڈاکٹر مبارک علی اور دیگر یہ بھی کہتے ہیں کہ اقبال نے برطانوی سامراج کے خلاف کچھ نہیں لکھا،ان کا یہ کہنا کس حد تک حقائق کے قریب ہے؟
رفیع ہاشمی: اگر انہوں نے پورے اقبال کا مطالعہ کیا ہے، شاعری کا بھی اور اُن کی نثر کا بھی، تو تعجب ہے کہ وہ ایسا دعویٰ کیونکر کرتے ہیں؟اقبال نے بہت کھل کر سامراج کی مذمت کی ہے چاہے برطانیہ ہو یا دوسرے یورپی ممالک۔خاص طورپر تین نظموں شمع اور شاعر (1912ء)، خضرراہ (1921ء)اور طلوع اسلام (1923ء) میں اور ان کے علاوہ اردو اور فارسی شاعری میں بھی شدید تنقید کی ہے۔ میرا خیال ہے اس زمانے میں کسی اور شاعر نے سوائے اکبر الٰہ آبادی کے، ایسی تنقید نہیں کی۔خیال رہے کہ برطانوی سامراج ،مغربی تہذیب (سرمایہ داری)ہی کاپروردہ تھا اوراقبال نے مغرب اور مغربی تہذیب پرشدت اورکثرت سے تنقید کی ہے۔دیکھیے اقبال کیا کہتے ہیں :
ہے وہی سا زِ کہن مغرب کا جمہو ری نظا م
جس کے پر دوں میں نہیں غیر از نو اے قیصری
دیوِ استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
مجلسِ آئین و اصلاح و ر عایات و حقو ق
طبِ مغر ب میں مز ے میٹھے ، اثر خوا ب آوری
گرمیِ گفتارِ اعضاے مجالس الاماں
یہ بھی اک سر ما یہ داروں کی ہے جنگ ِ زر گر ی
اور’ سر ما یہ ومحنت ‘ کے زیر عنو ان ’سر ما یہ دا رِ حیلہ گر‘ کے با رے میں یوں اظہا ر خیا ل کر تے ہیں:
اے کہ تجھ کو کھا گیا سرمایہ دار حیلہ گر
شاخِ آہو پر رہی صدیوں تلک تیری برات
دستِ دولت آفریں کو مزد یوں ملتی رہی
اہلِ ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکات
ساحرِ الموط نے تجھ کو دیا برگِ حشیش
اور تو اے بے خبر! سمجھا اسے شاخِ نبات
نسل ، قومیت ، کلیسا ، سلطنت ، تہذ یب ، رنگ
’خواجگی‘ نے خوب چن چن کر بنائے مسکرات
پھر نظم ’’ طلوعِ اسلام ‘‘ (۱۹۲۳ء) میں فرماتے ہیں کہ:
ابھی تک آدمی صید زبوں شہریاری ہے
قیامت ہے کہ انساں نوع انساں کا شکاری ہے
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ حاضر کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
وہ حکمت ناز تھا جس پر خرد مندانِ مغرب کو
ہوس کے پنجۂ خونیں میں تیغ کار زاری ہے
تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا
جہاں میں جس تمدن کی بنا سرمایہ داری ہے

سوال :اقبال کے مخالف ایک بات یہ کہتے ہیںکہ’’ اقبال نے سر کا خطاب کیوں قبول کیا؟‘‘
رفیع ہاشمی :جب یہ خطاب ملا اُس وقت بھی اعتراض کیا گیا۔اقبال کے بعض قر یبی د و ستوں کو بھی کسی قدر تشو یش ہو ئی، چنا نچہ اقبا ل کو وضاحت کرنی پڑی۔ میر غلا م بھیک نیر نگ کا خط آیا تو۴؍جنو ری ۱۹۲۳ء کو انھیں لکھا:’’دنیا کی کو ئی قو ت مجھے حق کہنے سے باز نہیں رکھ سکتی۔ ان شا ء اللّٰہ ۔ اقبال کی زند گی مو منا نہ نہیں ، لیکن اس کا دل مو من ہے۔‘‘ مو لا نا عبدالما جد دریا با دی نے اس مو ضو ع پر کچھ لکھا تو اقبال نے ۶؍ جنو ری کو جو اباً عر ض کیا:’’یہ بات دنیا کو عنقر یب معلو م ہو جا ئے گی کہ اقبال کلمۂ حق کہنے سے با ز نہیں رہ سکتا۔ ہا ں ، کھلی کھلی جنگ اس کی فطر ت کے خلا ف ہے۔‘‘
دراصل’’سر‘‘ کا خطاب ، اس ز ما نے میں ایک طر ح کا اعزا ز سمجھا جا تا تھا، علامہ اقبال نے’ ’سر‘‘ کاخطا ب قبو ل کر نے میں کو ئی قبا حت محسو س نہیں کی، کیو نکہ یہ کو ئی انوکھا یا نیا و اقعہ نہ تھا۔ اقبال کے متعد د احبا ب اور بعض عما ئد (جن میں ہندو، مسلما ن اور سکھ بھی شامل تھے)اقبا ل سے قبل،یہ خطاب قبو ل کر چکے تھے۔ یہ در ست ہے کہ بعض ا وقا ت حکو متیں کچھ لو گوں کو ر ام کر نے اور ان کا منہ بند کر نے کے لیے بھی خطا ب دیتی ہیں ، لیکن بسا او قا ت خطا با ت علمی، ادبی ، سما جی، سا ئنسی اور تحقیقی نو عیت کی خد ما ت کی بنا پر دیے جا تے ہیں۔ اس ز ما نے میں فضا انگر یز ی حکو مت کے خلا ف بہت مکد ّر تھی اور حکو مت سے کسی طرح کی قر بت یا وابستگی کو پسند نہیں کیا جا تا تھا،اور اسی وجہ سے اقبال پر تنقید بھی کی گئی، لیکن اقبال مر نجاں مر نج طبیعت کے ما لک تھے اور ہمیشہ محا ذ آرائی سے بچتے ۔ انھیں گو ا را نہ تھا کہ کسی کی دل شکنی ہو۔ کہا جا تا ہے خطا ب کی پیش کش پر پہلے تو اقبال نے انکا ر کر دیا اور کہا :’مَیں خطابات و اعزا زات کے بکھیڑے میں نہیں پڑنا چاہتا۔‘ عبد المجیدسالک لکھتے ہیں کہ اس انکار سے گو رنر کی طبیعت مکد ّر سی ہو گئی۔ اس پر علامہ نے کہا کہ اگر آپ کو اصرار ہے تو خیر ، یوں ہی سہی۔اب گو رنر کے چہر ے پر شگفتگی کے آثا ر نما یاں ہو گئے ۔اپنے اسی رویے اور افتا د طبع کے سبب انھوں نے مو لا نا دریابا دی کو لکھا تھا کہ کھلی کھلی جنگ میری فطرت کے خلا ف ہے۔
اگر ہم ہند و ستا ن کی تا ریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہو گا کہ بعض ایسے لو گوں نے بھی انگر یز ی خطا با ت قبو ل کیے ، جو انگر یز وں کے زبردست نا قد ر ہے(جیسے: شمس العلما ء مو لا نا شبلی نعما نی)، خود اقبال نے بھی سر کا خطاب ملنے سے قبل اور اس کے بعد بھی انگریزی حکومت، برطانو ی استعما ر ، تہذ یب ِ مغر ب ، سر ما یہ د اری اور سامراجیت پر بڑی بے باکی اور تواتر کے سا تھ تنقید کی۔ خطاب (یکم جنوری ۱۹۲۳ء) سے قبل اپریل ۱۹۲۲ء میں اقبال نے نظم ’’خضرِراہ‘‘انجمن حما یت اسلام کے جلسے میں پڑ ھی ،جس میں ’’ سلطنت‘ ‘اورپھر ’’سرمایہ و محنت ‘‘ کے زیرِ عنوان مغرب،مغربی تہذ یب و تمدن اور اس کے ادا روں پر شد ید تنقیدکی۔ اس تنقید کے بعد یکم جنوری ۱۹۲۳ء کو انھیں سر کا خطاب ملا مگریہ خطاب انھیں تنقید سے باز نہیں رکھ سکا۔ دو ماہ بعد ہی ۳۰؍ ما رچ کو انھوں نے انجمن حما یتِ اسلا م کے سالانہ جلسے میں نظم ’ ’ طلو عِ اسلام‘ ‘ پڑھی ، جس میں سر ما یہ د اری ، تہذیبِ حاضر اور مغربی (=بر طا نوی) استعما ر پر شد ید تنقید کی گئی تھی ۔ظاہر ہے یہ تنقید اور یہ سارے اشعار اقبال نے حکو مت ِو قت کو خو ش کر نے کے لیے نہیں کہے تھے۔ ایسے ہی ’باغیا نہ خیالات‘ کی بنا پر حکو مت کے حسبِ ہدایت اقبال کی شاعری کے حوالے سے خفیہ رپورٹیں تیار کی جاتی تھیں۔ ’’تصویرِ درد‘‘ اور’ ’شمع اور شاعر‘ ‘کے انگریزی تراجم کرائے گئے، تاکہ اردو سے نابلد انگریز حکام، اقبال کے خیالات سے آگاہ ہو سکیں۔بہر حا ل ہم سمجھتے ہیں کہ سر کا خطا ب قبو ل کرنے میں برطانو ی استعما ر کی تا ئید کا کو ئی پہلو نہیں نکلتا۔
سوال: جدید اور قدیم کی بحث کے پس منظر میں اقبال پر ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ وہ ماضی پرست تھے؟
رفیع ہاشمی: اگر کسی قوم کا ماضی مثالی اور بہت شان دار ہے تو وہ اپنے ماضی پر کیوں نہ فخرکرے ۔اسے اپنے ماضی کو یاد رکھنا چاہیے، اس لیے کہ ماضی کو دیکھ کر ہی اپنے حال کو بہتر بنا سکتے ہیں، اور حال کی روشنی میں ہم مستقبل کو تلاش کر سکتے ہیں۔’’رموز بے خودی‘‘ میں ہے:
سرزند از ماضیِ تو، حالِ تو
خیزد از حالِ تو استقبالِ تو
اقبال کے ہاںتو ماضی، حال اور مستقبل الگ الگ چیزیں نہیں ہیں، تینوں میں تسلسل ہے، اور ماضی سے ہمیں بہت کچھ سیکھنا چاہیے۔ اس میں مسلمانوں ہی کا ماضی نہیں، دوسری اقوام کا ماضی بھی شامل ہے۔ اگر کسی نے برائی کے خلاف خرابی یا ظلم کے خلاف جدوجہد کی ہے تو اقبال اس کی تعریف کرتے ہیں۔ مثلاً 1917ء کے اشتراکی انقلاب نے دنیا کو چونکا دیا، اقبال نے اس کا ذکر اپنی نظم’’خضرِ راہ‘‘ میںاور ’’پیام مشرق‘‘ کی بعض نظموں میں کیا۔ لیکن جب دیکھا کہ اشتراکیت سے جس چیز کی امید تھی، یعنی انصاف اور مظلوموں کی داد رسی، وہ پوری نہیں ہوئی تو اقبال نے کہہ دیا: ’’طریقِ کوہ کن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی‘‘۔
سوال: خطبۂ الٰہ آباد اور اس طرح کی دوسری چیزیں اقبال سے متعلق ہیں، ان کے حوالے سے سیکولر دانش ور جن میں ڈاکٹر مبارک علی بھی شامل ہیں، یہ ان کی لاعلمی ہے یا پھر بددیانتی؟
رفیع ہاشمی: یہ بددیانتی ہے اور بدنیتی بھی۔خطبۂ الٰہ آباد پڑھا تو یقینا ہوگا، ایسا ہے کہ کوئی چیز صحیح شکل میں آپ کے سامنے ہے ، آپ کے لیے اسے تسلیم (confess)کرنامشکل ہے۔ تو پھر آپ اسے اس طرح تبدیل(convert ) کریں کہ اصل چیز اوجھل ہوجائے۔ تو ان حضرات کی بدنیتی ہے کہ یہ ہرسیدھی اور صاف بات کی غلط تعبیر کرتے ہیں۔
سوال: خطبہ الٰہ آباد میں مسلم بنگال کا ذکر نہیں ہے؟
رفیع ہاشمی: اقبال نے تو ایک خیال فلوٹ کیا تھا، اس میں ساری تفصیلات اور ساری چیزیں تو نہیں آسکتی تھیں۔ غالباً اقبال کا خیال ہوگا کہ مسلمان پہلے شمال مغربی علاقے میں مجتمع ہو جائیں، اس کے بعد دیکھا جائے کہ دوسرے علاقوں میں بھی ایسا ہوسکتا ہے کہ نہیں۔ بعد میں قائدِ اعظم کے نام ۲۸ مئی ۱۹۳۷ء کے خط میں انھوں نے Statesکا لفظ استعمال کیا۔
سوال: بحیثیت انسان اقبال میں کیا خوبیاں تھیں اور کیا کمزوریاں تھیں؟
رفیع ہاشمی: اقبال انسان تھے اور جو بشری کمزوریاں انسان میں ہوتی ہیں، وہ اُن میں بھی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں جو بصیرت اور شاعری کی صلاحیت اور تفکر اور تدبر کی صلاحیت دی تھی، وہ ایک الگ چیز ہے، باقی بطور انسان تو وہ ہمارے جیسے ہی تھے، ان میں بہت ساری خوبیاں بھی تھیں اور خامیاں بھی۔ خامیوں میں یہ ہے کہ وہ بعض اوقات غلط فہمیوں کا شکار ہوجاتے تھے یا خوش فہمی کہہ لیں، مثلاً: روس میں جب لینن کے بعد اسٹالن اقتدار میں آیا اور یہ خبر ہندوستان پہنچی، معلوم نہیں انھیں کس نے بتایا ۔ وہ ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’چودھری محمد حسین کو معلوم ہوا ہے کہ روس میں محمد اسٹالین برسراقتدار آگیا ہے۔ یہ تو بہت اچھی بات ہے‘‘۔یہ علامہ کی سادہ مزاجی اور خوش خیالی ہے مگر اس سے روسی مسلمانوں اور ملت اسلامیہ کے مستقبل سے اُن کی دلچسپی کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔ اسی طرح ان کی ایک کمزوری یہ تھی کہ انھوں نے اپنی وراثت میں آفتاب اقبال اور ان کی والدہ کو حصہ دار نہیں بنایا، جو بعض لوگوں کے نزدیک از رُوے شرع ایک قابلِ گرفت بات ہے۔اپنے بڑے بیٹے آفتاب اقبال کو تو ایک اعتبار سے عاق کردیا تھا۔اگرچہ اس کی کچھ اور وجوہ بھی تھیں۔
آفتاب اقبال (۱۸۹۸ء-۱۹۷۹ء)اور اُن کی والدہ زیادہ تر اپنے میکے میں مقیم رہیں۔ بچوں کی پرورش اور تربیت بھی وہیں ہوئی۔آفتاب اقبال نے ایم اے فلسفہ کیا، پھر والد کی اجازت یا مشورے کے بغیر اعلی تعلیم کے لیے ولایت گئے تو وہاں انھیں مالی مشکلات درپیش ہوئیں۔اقبال انھیں رقم بھیجتے رہے پھر بھی آفتاب نے بعض لوگوں سے اپنے والد کے نام پر قرض لیے، مثلاً: اکبر حیدری سے ۱۹۰؍پونڈلیے، بعد ازاں ۱۹۳۶ء میں پھر انھی سے کچھ اَور رقم مانگی۔ سر اکبر حیدری نے ایک خط کے ذریعے بڑے محتاط انداز میں علامہ کو آفتاب کی مالی اعانت کی طرف متوجہ کیا تو علامہ نے سراکبرحیدری کو اصل صورتِ حال سے آگاہ کیا، جو خاصی تکلیف دہ تھی۔ علامہ نے لکھا کہ مَیں اپنی استطاعت سے بڑھ کر اس کی مدد کرتا رہا ہوں، لیکن اس نے میرے ساتھ اور خاندان کے دوسرے افراد کے ساتھ جو سلوک روا رکھا ہے، وہ ناقابلِ بیان ہے۔ اس نے ہمیں بے ہودہ قسم کے خطوط لکھے ہیں اور اب وہ ہمیں بلیک میل کر رہا ہے۔ اقبال کے ایک خط بنام اکبر حیدری کا ایک اقتباس دیکھیے ؛I have already helped him beyond my capacity.Inspite of the manner in which has been behaving towards me and other members of our family, no father can read with patience the nasty letters wich he has written to us.And which he is doing now,is only part of the blackmailing scheme of which he has been availing himself for the sametime.
اسی لیے انھوں نے آفتاب کو عاق کر دیاتحریراً نہیں، عملاً عاق کر دیا۔یعنی وراثت سے انھیں کچھ نہیں ملا،نہ اُن کی والدہ کو کچھ ملا۔ اعلان نہیں کیا لیکن عملاً انھیں اپنی وراثت میں سے کوئی چیز نہیں دی۔
ا سوال: اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ وہ اپنی پہلی شادی سے خوش نہیں تھے؟
رفیع ہاشمی: جی، وہ پہلی شادی سے خوش نہیں تھے، اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ دونوں کی طبیعت میں بڑا اختلاف تھا، ان کی پہلی بیوی کریم بی بی بہت امیر کبیر خاندان سے تھیں، ان کے والد ڈاکٹراور سول سرجن تھے، بہت نیک آدمی تھے مگر ان کی بیٹی سمجھتی تھیں کہ میرا خاندان بہت اونچا ہے، اقبال کا خاندان بہت غریب ہے۔ گویااس کے اندر ایک احساسِ برتری تھا۔ ایک دوسرے کے قریب نہ آ سکنے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ کریم بی بی کو، معراج بیگم کے بقول: ابا کے خلاف ’’بدزبانی‘‘ کی عادت تھی۔ اپنے خالو خواجہ فیروزالدین کے نام ایک خط میں معراج بیگم نے لکھا: مہربانی کر کے آپ جب خط لکھا کریں تو ابا جان کی کوئی بات، خواہ اچھی ہو یا بری، بالکل نہ لکھا کریں، کیونکہ والدہ صاحبہ کی زبان پھر قابو میں نہیں رہتی۔ جو کچھ آتا ہے، گیت بنائے رکھتی ہے اور ان کو ہر وقت بدزبانی سے یاد کرتی ہے۔ اس لیے اقبال نے لکھا کہ مَیں اس کی کفالت کرنے کو تیار ہوں، مگر اسے اپنے ساتھ رکھ کر زندگی کو اجیرن بنانے کے لیے ہرگز تیار نہیں۔ علامہ اقبال کے والد نور محمد نے بڑی کوشش کی، لیکن طبیعت نہیں ملتی تھی۔ آخرکار اقبال نے یہ کہا کہ یہ چاہیں تو میں طلاق دے دیتا ہوں، اگر یہ پسند نہ ہو تو یہ میرے ساتھ نہیں رہیں گی، میں ان کو خرچ بھیجتا رہوں گا۔ چنانچہ ان کے والد کی موجوگی میں معاملہ طے ہوگیا کہ یہ اقبال کے ساتھ نہیں رہیں گی۔ اقبال اپنی وفات تک ان کو خرچ بھیجتے رہے اور اس کا ریکارڈ موجود ہے۔ سید نذیر نیازی جو ان کے اس طرح کے معاملات دیکھتے تھے، منشی تاج الدین جو روزانہ کا حساب لکھتے تھے کہ آج فلاں چیز میں اتنا خرچ ہوا، ان کی ڈائری میں یہ لکھا ہوا ہے کہ گجرات کو اتنی رقم منی آرڈر کی گئی۔ قابل تعریف بات یہ ہے اقبال نے اس معاملے میں اپنی طرف سے انصاف کرنے کی کوشش کی۔
سوال: اقبال کی دوسری شادی کے خلاف سازش کس نے کی تھی، آپ کی تحقیق کیا کہتی ہے؟
رفیع ہاشمی: جب اقبال یورپ سے واپس آئے تو ان کی عمر 31 سال تھی، صحت بہت اچھی تھی، خوش شکل تھے۔ یورپ میں رہے، وہاں ان کی ملاقاتیں عطیہ فیضی سے ہوئیں، اور ایما ویگے ناسٹ سے ہوئیں جو ان کی جرمن استانی تھیں۔ یہاں واپس آئے تو اکیلے رہتے تھے کہ قدرتی طور پر انھیںایک رفیقۂ حیات کی ضرورت تھی۔ اقبال اس زمانے میں ذہنی کرب میں رہے کہ کیا کریں۔ دوستوں نے رشتے کی تلاش شروع کی کسی نے سردار بیگم کا رشتہ بتایا تو ان کے والدین لاہور آئے،گھرانا دیکھا، بات کی اور رشتہ طے کرلیا اور نکاح بھی ہوگیا، لیکن یہ طے ہوا کہ رخصتی بعد میں ہوگی۔ ابھی رخصتی نہیں ہوئی تھی کہ کسی نے اقبال کو خط لکھا کہ یہ لڑکی کردار کے لحاظ سے ٹھیک نہیں ہے۔ اب اقبال بڑے پریشان ہوگئے۔ یہی زمانہ ان کی ذہنی کوفت کا تھا۔اس میں کچھ وقت گزر گیا۔ دوستوں نے کہا کہ آپ کیوں پریشان ہیں، کوئی اور رشتہ کرا دیتے ہیں۔ چنانچہ لدھیانہ میں ایک رشتہ تلاش کیا گیا اور ۱۹۱۳ ء کے ابتدائی دنوں میں لدھیانہ کی مختار بیگم سے عقدِ ثالث ہوا۔ مختار بیگم رخصت ہوکر گھر میں آگئیں۔ مختار بیگم سے نکاح ہوا تھا تو انہوں نے سردار بیگم کو طلاق نہیں دی تھی،فقط طلاق دینے کا ارادہ کیا تھا۔ بہرحال سردار بیگم نے اقبال کو خط لکھاکہ میرا تو آپ سے نکاح ہوا ہے، میں قیامت کے دن آپ کا دامن پکڑوں گی کہ آپ نے بلاتحقیق معاملے کو لٹکا دیا۔ اس پر اقبال کو بڑی ندامت ہوئی، پھر انہوں نے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ کسی وکیل نے وہ خط لکھا تھا کیونکہ وہ اپنے بیٹے کی شادی سردار بیگم سے کرانا چاہتے تھے چنانچہ اقبال نے احتیاطاً نکاح دوبارہ پڑھوایا اور سردار بیگم کو گھر لے آئے۔ اب مختار بیگم اور سردار بیگم دونوں ایک گھر میں بالکل بہنوں کی طرح رہنے لگیں۔ اقبال کی زندگی پرسکون ہوگئی ۔ بعد میں مختار بیگم کا انتقال ہوگیا۔ سردار بیگم سے دو اولادیں ہوئیں۔
سوال: اقبال کی زندگی میں عطیہ فیضی کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟
رفیع ہاشمی: عطیہ فیضی سے ان کی پہلی ملاقات ڈاکٹرسید علی بلگرامی کے ہاں لندن میں ہوئی۔ بلگرامی ایک بڑے سکالر تھے اورچودہ زبانیں جانتے تھے۔ہندوستانی طلبہ ان کے ہاں جمع ہوتے تھے، عطیہ فیضی بھی وہاں آتی تھیں، وہاں ان کی ملاقات اقبال سے ہوئی اور تعارف بھی ہوا۔ اُس زمانے میں یہ غیر معمولی بات تھی کہ کوئی مسلمان لڑکی اس طرح تنہا اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ جائے۔ اس کی مثال شاید کوئی اور نہیں ملتی۔ اس لیے لوگوں کو اس سے دلچسپی بھی ہوتی تھی۔ کیمبرج میں بھی وہ گئیں، وہاں بھی ملاقاتیں رہیں۔ ہائیڈل برگ میں جب اقبال مقیم تھے، عطیہ فیضی اپنے دوستوں کو لے کر وہاں گئیں، وہ چند دن سیر و تفریح کرتے رہے، پھر واپس آگئے۔ اقبال جب واپس ہندوستان آئے تو خط کتابت رہی۔ اقبال کو ان کی شخصیت میں مجموعی طور پر کوئی کشش محسوس نہیں ہوئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عطیہ فیضی کی شخصیت کا جن لوگوں نے تجزیہ کیا ہے، اُن کے مطابق ان کے اندر ایک بہت بڑی اَنا تھی، وہ اپنے آپ کو برتر اور اعلیٰ سوسائٹی کے اعلیٰ خاندان کا ایک فرد سمجھتی تھیں۔ ممکن ہے اس کے دل میں اقبال سے شادی کی خواہش ہواور ممکن ہے اقبال کے دل میں بھی خواہش ہو کہ ہم شادی کرلیں۔مگراقبال بڑے حساس اور صاحبِ بصیرت آدمی تھے، وہ سمجھ گئے کہ اس خاتون کے ساتھ میں اگر شادی کروں گا تو خوش نہیں رہ سکوں گا۔ ان کے اندر ظاہرداری بہت تھی جسے پنجابی میں ’’شوشا ‘‘کہتے ہیں۔وہ تقریبات کی رسیااور نمائش پسند تھیں۔انگلستان گئی تھیں حصول ِتعلیم کے لیے مگر وہاں ان کا زیادہ تر وقت تقریبات اور سیر سپاٹے میں گزرتا تھا۔انہیں موسیقی،تصاویر،باغات اور عمارتیں دیکھنے کا شوق تھا۔اپنی خود نوشت ’’زمانۂ تحصیل‘‘ میں وہ بکثرت سیر سپاٹوں،امرا کے لباس و زیورات ، موسیقی کی محفلوں، ایوننگ پارٹیوں ،تماشا گاہوں اور عجائب گھروں کا ذکر کرتی ہیں ۔نتیجہ یہ کہ خود اپنے بقول ’’بے نیل مرام واپس آ گئی‘‘۔ جتنے لوگوں نے اقبال اور عطیہ فیضی پر لکھا اور تجزیہ کیا ہے ،انہوں نے ان باتوں کی طرف اشارے کیے ہیں، جن میں ایک ڈاکٹر سعید اختر درانی ہیں، ان کی کتاب ہے :’’اقبال یورپ میں‘‘۔ اسی طرح ایک اور اچھا تجزیہ کیا ہے ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی نے اپنی کتاب ’’عروجِ اقبال‘‘ میں۔ اس میںوہ کہتے ہیںکہ وہ بالکل اس لائق نہیں تھی کہ اقبال ان سے شادی کرتے۔ اچھا ہی ہوا کہ شادی نہیں ہوئی، ورنہ اقبال پریشان رہتے۔ ماہرالقادری کے ایک مضمون کا حصہ میں نے پڑھا تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ عطیہ جب یہاں کراچی میں تھیں ، ابتدائی زمانے میں وہ اپنے گھر میں کبھی کبھی مشاعرہ کراتی تھیں یا تقریبات کراتی تھیں۔ ان میں، ماہر صاحب کہتے ہیں کہ مجھے بھی شریک ہونے کا موقع ملا تھا۔پھر ماہر صاحب نے عطیہ کی جو تصویر پیش کی ہے، وہ کچھ ایسی پسندیدہ نہیں ہے۔
سوال: اقبال نے اپنی نجی زندگی میں ذہنی کرب اور پریشانیوں کے باوجود اتنی بڑی شاعری کیسے کرلی؟
رفیع ہاشمی: 1909ء سے1911ء تک ذہنی کرب اور پریشانیوں میں مبتلا رہے۔ یہی وہ زمانہ ہے جس میں وہ لکھتے ہیں کہ میں جنگلوں میں چلا جائوں، سپیرا بن جائوں یا شراب نوشی میں پناہ لے لوں وغیرہ۔ یہ دو اڑھائی برس کا عرصہ ہے، لیکن ایک عجیب بات یہ ہے کہ اس زمانے میں انہوں نے جو نظمیں لکھی ہیں، جو شاعری کی ہے بلکہ جو نثر بھی لکھی ہے، Stray Reflectionsکے نام سے،یہ ۱۹۱۰ء کی ڈائری ہے ،اس کا ترجمہ ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی نے ’’شذراتِ فکرِ اقبال‘‘ کے نام سے کیا تھا۔ آپ اس کو پڑھیں، اس میں بہت حکمت اور دانائی کی باتیں ہیں۔ اُس زمانے کی اُن کی جو شاعری ہے اُس سے قطعاً پتا نہیں چلتا کہ شاعرکسی ذہنی پریشانی میں مبتلا ہے یعنی ان کی نجی زندگی اس سے بالکل الگ ہے۔ میرا خیال ہے شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ نجی زندگی ان کی اپنی تھی اور شاعرانہ زندگی قدرت کی طرف سے عطیہ تھی۔تبھی اقبال یہ کہتے تھے کہ مجھ پر شعر اترتے ہیں۔ جب ان کی سردار بیگم سے شادی ہوگئی اور وہ گھر میں رہنے لگے تو ذہنی کرب کا دور ختم ہو گیا۔ اُس وقت کا ان کا ایک جملہ ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ مجھے جنت الفردوس مل گئی ہے۔
سوال: مسلمانوں کے نظریاتی جوش اور فکر کو بنیاد اقبال کی شاعری اور خطبات فراہم کرتے ہیں، ان کو ایک طرف رکھتے ہوئے اقبال کی شخصیت کے جتنے بھی منفی تجزیے ہیں آپ ان کو کس طرح دیکھتے ہیں؟
رفیع ہاشمی: ایک بات میں درمیان میں بھول گیا،ہم اقبال کی انسانی کمزوریوں کا ذکر کررہے تھے تو کچھ خوبیاں بھی ان میں ایسی تھیں جن کا ذکر ہونا چاہیے، مثلاً: وہ وقت کے بہت پابند تھے، قانون کے بہت پابند تھے۔ اس سلسلے میں ایک واقعہ تو میں نے کئی جگہ بیان کیا ہے۔ دوسری گول میز کانفرنس سے واپسی پر سردار بیگم کے لیے زیور خریدا، وہ ڈبے میں تھا۔بمبئی میں جب بحری جہاز سے اترے تو انہوں نے وہ زیور والا ڈبا نکال کر ہاتھ میں پکڑلیا۔ ان کے دوستوں نے کہااس میں جو انگوٹھیاں ہیں، ان میں سے کچھ ہاتھ میں پہن لیں، وہ ٹیکس سے مستثنیٰ ہوجائیں گی۔ لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ جو ٹیکس تھا وہ ادا کرکے باہر آئے۔دراصل وہ قانون کی پابندی سے خود کو بالاتر نہیں سمجھتے تھے۔ اسی طرح ایک اور واقعہ سنیے ۔ان کا آبائی مکان سیالکوٹ میں تھا جو ان کے حصے میں آیا تھا، وہ فروخت کرنا تھا، ان کے کچھ عزیزوں نے کہا کہ ہمیں دے دیجیے۔ انہوں نے دے دیا۔ جب اسٹامپ پر اس کی رقم لکھوانے لگے تو ان لوگوں نے کہا کہ اس پر رقم زیادہ لکھواتے ہیں کیونکہ قانون یہ ہے کہ اگر کوئی مکان فروخت ہورہا ہو تو جو پڑوسی ہے، حق شفعہ کے تحت اسے لے سکتا ہے، اس کا پہلا حق ہے، اگر اس اسٹامپ میں رقم تھوڑی لکھی ہوگی تو وہ قانونِ شفعہ کے تحت کہے گا کہ اتنی رقم میں دیتا ہوں، اس لیے رقم زیادہ لکھوائیں۔ اقبال نے کہا کہ نہیں جس رقم پر میں دے رہا ہوں وہی لکھی جائے گی، اس میں کمی بیشی میں پسند نہیں کرتا۔ وہی بات ہوئی کہ پڑوسی نے دعویٰ کردیا، چنانچہ وہ زمین اس کو چلی گئی۔ ان کے عزیزوں نے کہا کہ ایسی نیکی کا کیا فائدہ جس کا نقصان عزیزوں کو اٹھانا پڑے۔ اسی طرح کی چھوٹی چھوٹی چیزیں انسان کی شخصیت کا پتا دیتی ہیں۔
سوال: پھر یہ اعتراض کیوں کیا جاتا ہے کہ اقبال جس مردِ کامل کا ذکر کرتے ہیں وہ اس پر خود پورا نہیں اترتے؟
رفیع ہاشمی: انہوں نے کبھی دعویٰ نہیں کیا کہ میں مردِ کامل ہوں، بلکہ اقبال کے خط دیکھیں، ان میں تو انکسار ہی انکسار ہے۔ کہیں اپنی بڑائی کا ذکر نہیں، کوئی دعویٰ نہیں ۔ پھر اصل مردِ کامل جسے قرار دیا ہے وہ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس ہے۔ اس کے بعد سیدنا ابراہیمؑ، سیدنا حسینؓ، اسی طرح کے اکابرین کو انہوں نے مردِ کامل کہا ہے۔
سوال: اقبال کی شخصیت کی تشکیل میں کن لوگوں کا کردار تھا؟
رفیع ہاشمی: اس میں ایک تو ان کے والد ہیں شیخ نور محمد جو ایک نیک بزرگ تھے،پھر ان کی والدہ اور ان کے استاد مولوی میر حسن۔ پھر ان کی علمی شخصیت کی تشکیل میں پروفیسر آرنلڈ…اس طرح یہ تین چار لوگ ہیں جن کا بنیادی دخل ہے۔ مولوی میر حسن کااثر تو خاص طور پر ہے، اس لیے کہ وہ بطور خاص ان پر توجہ دیتے تھے۔ وہاں کے اساتذہ بھی کیسے کیسے تھے۔ فر ض شناس ،طلبہ کے خیر خواہ اور ان کی تربیت کے لیے ہر وقت کوشاں۔ان کے اسکول کے پرنسپل واخ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کالج کے لیے روشنائی کی بوتل منگواتے تھے، اس بوتل کی آدھی قیمت اپنی جیب سے دیتے تھے، آدھی قیمت وہ کالج کے حساب میں لکھتے تھے۔ کسی نے پوچھا ایسا کیوں؟ انہوں نے جواب دیا: اس لیے کہ میں کچھ ذاتی خطوط بھی لکھتا ہوں، ذاتی کام بھی کرتا ہوں ۔ ایک دلچسپ واقعہ یہ ہے کہ مولوی میر حسن کو ایک مرتبہ سیالکوٹ کی مقامی عدالت نے گواہی کے لیے بلایا، وہ رخصت لے کر عدالت میں حاضر ہوئے۔ گواہی دے کر واپس آئے تو عدالت نے کچھ رقم دی تھی، وہ انہوں نے پرنسپل کی میز پر رکھ دی اور کہا کہ یہ رقم کالج کے فنڈ میں جمع کرلیجیے۔ انہوں نے پوچھا: مولوی صاحب کہاں سے رقم آئی ہے؟ کہا: میں کالج کے وقت میں عدالت میں گیا تھا، انہوں نے مجھے یہ رقم دی ہے (اُس زمانے میںیہ ضابطہ تھا کہ جس کو عدالت میں بلایا جائے اسے رقم دی جائے)۔ انہوں نے کہا کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ کالج کا حق ہے میرا نہیں۔ یہ ایک مثال ہے۔جب ایسے صاحبِ کردار اساتذہ ہوں گے تو اُن کی نیک سیرت کا اثر طلبہ پر کیوں نہ مرتب ہوگا۔
سوال: اقبال کی شاعری اور خطبات کے حوالے سے بعض لوگ کہتے ہیں اس میں فرق نظر آتا ہے۔ اقبال کا اصل تشخص کیا ہے؟
رفیع ہاشمی: اصل تشخص شاعر کا ہے، خطبات میں تو وہ ایک مفکر یا ایک فلسفی ہیں۔ فرض کیجیے کہ اقبال شاعر نہ ہوتے اور انہوں نے یہ شاعری نہ کی ہوتی توکیا صرف خطبات کی بنیاد پر ان کا اتنا بڑا مقام ہوسکتاتھا؟اصل چیز تو شاعری ہے۔ خطبات کی حیثیت ثانوی ہے۔ ایک زمانے میں اس پر بڑی بحث ہوئی، بہت سے لوگوں نے دعویٰ کیا اور لکھا ہے کہ خطبات اصل چیز ہے اور شاعری اس کا حاشیہ ہے۔ حالانکہ شاعری اصل ہے۔ اقبال کی شہرت اور مقبولیت جو کچھ بھی ہے وہ ان کی اردو اور فارسی شاعری کی وجہ سے ہے۔عام آدمی انھیں’’ شکوہ‘‘ اور’’ جوابِ شکوہ‘‘ کے حوالے سے جانتا ہے، نہ کہ انگریزی خطبات کے ذریعے سے ،جو کم ہی لوگوں کی سمجھ میں آتے ہیں۔
سوال: شاعری اور خطبات میں واقعی کوئی تضاد موجود ہے؟
رفیع ہاشمی: تضاد تو کوئی نہیں ہے ،اگر آپ ڈھونڈنا چاہیںتو شاعری میں بھی’’ تضادات ‘‘مل جائیں گے۔اصل میں انہوں نے خطبات میں فلسفیانہ اندازاختیار کیا ہے اوراس میں علمی اصطلاحات اس کثرت سے استعمال کی ہیں کہ عام قاری سمجھ نہیں سکتا۔خود اقبال نے ایک جگہ لکھا ہے کہ یہ ایک خاص طرح کی کتاب ہے اور فلسفے اور جدید سائنس میں جو حالیہ پیش رفت ہوئی ہے اس سے واقف ہوئے بغیرخطبات کو سمجھنا مشکل ہے ۔کئی جگہ ابہام بھی ہے۔ خطبات میں کچھ ایسی چیزیں بھی ہیں جو ہمارے مسلمہ عقائد سے ٹکراتی ہیں جیسے جنت، دوزخ مقامات نہیں، کیفیات ہیں، یا یہ کہ حیات بعدالممات اختیاری ہے۔ اس طرح کی بہت ساری باتیں ہمارے اکابرین کے ہاں موجود ہیں۔ خطبات کی بہت سی شرحیں لکھی گئی ہیں جن میں ان مسائل پر بحث موجود ہے۔
سوال: سیکولر اور لبرل طبقہ ان کے خطبات کو فوقیت دیتا ہے۔ اقبال کی مثال کہیں دینی ہو تو خطبات سے دیتے ہیں، مثلاً عطاء الحق قاسمی نے کالم میں لکھا کہ میں اقبال کے خطبات کو مانتا ہوں کیونکہ انہوں نے پارلیمنٹ کو اجتہاد کا حق دیا ہے۔
رفیع ہاشمی:کیا ایسی پارلیمنٹ کو اجتہاد کا حق دیا جا سکتا ہے ،جس کے بیسیوں ارکان اپنے کندھوں پر کرپشن کے الزامات کا پشتارا لادے پھرتے ہوں اور کہتے ہوں :کوئی ہم سے نہ پوچھے کہ ہم نے یہ مال بدولتِ دنیا کیسے اور کہاں کہاں سے جمع کی ہے۔ہاں اگر پارلیمنٹ دیانت دار اور بے لوث ارکان پر مشتمل ہو یعنی وہ ارکان باسٹھ ،تریسٹھ پر پورے اُترتے ہوں اور علمائے حق (نہ کہ قاسمی صاحب کے ممدوح نواز شریف کے پشتی بان مولانا )بھی اس پارلیمنٹ میں موجود ہوں تو وہ اجتہاد کر سکتی ہے۔
سوال: اقبال سے ان کو چڑ کیا تھی؟
رفیع ہاشمی: اقبال نے تو اپنی شاعری میں واضح طور پر اسلام ،قرآن ،رسولﷺ،دین و مذہب کی بات کی ہے۔یہ بات سیکولر اور لبرل طبقے کو قابلِ قبول نہیں۔اب وہ اسلام کو تو کچھ کہ نہیں سکتے ۔نقضِ امن کا اندیشہ ہے، اس لیے وہ کہتے ہیں کہ اقبال میں فلاں فلاں خرابیاں تھیں ۔پھر کہتے ہیں کہ ہم خطبات کو مانتے ہیں شاعری توثانوی چیز ہے۔۔۔۔۔۔ارے بھئی، اقبال کی شاعری کو بھی مانو ،ان کی اردو نثرکو بھی مانو یعنی پورے اقبال کو مانو۔پھر کبھی کہتے ہیں کہ اقبال تو ماضی پرست ہے ہمیں تاریک دور میں لے جاناچاہتا ہے۔اصل میں ان ظاہر پرست اور کوتاہ بین طبقے کے نزدیک ترقی یہ ہے کہ آمدنی زیادہ ہو، روپے پیسے زیادہ ہوں، کارخانے زیادہ لگ جائیں، مکانات بہت اچھے ہوں، گاڑیاں بہت اچھی ہوں۔ یہ ترقی ہے۔ لیکن اصل جو ترقی ہے، جو ہونی چاہیے اور ظاہر ہے جو اقبال بھی چاہتے تھے وہ یہ ہے کہ امن و امان ہو، انصاف ہو اور لوگوں کو برابر کے انسانی حقوق ملیں، صحت کا مسئلہ حل ہو، تعلیم کا مسئلہ حل ہو۔ ان کی نظر میں ترقی کا ماڈل یورپ اور مغرب کا ہوتا ہے۔ ٹھیک ہے مغرب نے ترقی کرلی ہے، سائنس میں کرلی ہے، تعلیم بھی بہت اچھی ہے، صحت کا بھی بہت خیال رکھتے ہیں لیکن بعض مسائل تو یہاں سے بھی زیادہ ہیں، جیسے ان ممالک میں خودکشی یہاں سے زیادہ ہے، ڈاکے اور چوریاں، جنسی زیادتیاں ہوتی ہیں، ان کا تناسب بہت زیادہ ہے کہ دنیا کی بندوقوں کا چالیس فیصد امریکہ میں ہے۔ آئے دن خبر آتی ہے کہ امریکہ میں بندوق سے پانچ دس آدمی بلاوجہ قتل کر دیے ہیں ۔ ایسی ترقی تو ہمیں نہیں چاہیے۔اقبال نے اس حوالے سے مغرب پر تنقید کی ہے اسی لیے انہیں اقبال سے چڑ ہے۔
سوال: بعض لوگوں کے خیال میں اقبال عملی مسلمان(practicing muslim) بھی نہیں تھے اور فعال سیاسی کارکن بھی نہیں تھے۔ اس کی کیا حقیقت ہے؟ دوسری بات اقبال یا ان جیسے شاعروں سے سیاست دانوں جیسی مستعدی کی توقع رکھنا ٹھیک ہے؟
رفیع ہاشمی: اقبال بنیادی طور پر شاعر تھے۔ معروف واقعہ ہے کہ مولانا محمد علی جوہر جیل کاٹ کر واپس آئے ،اقبال سے ملاقات ہوئی تو بے تکلفانہ کہنے لگے :ظالم، ہم تو تمہارے شعر پڑھ پڑھ کر جیل جاتے ہیں لیکن تم دُھسّااوڑھے ،حقے کے کش لگاتے رہتے ہو۔اقبال نے برجستہ جواب دیا :میں تو قوم کا قوال ہوں اور قوال خود وجد و حال میں شامل نہیں ہوتا ورنہ قوالی ہی ختم ہو جائے۔ اقبال اس طرح کے ایکٹوسٹ نہیں تھے جس طرح آج کل ہوتا ہے۔ لیکن سیاست میں انہوں نے حصہ لیا ہے۔ تین سال وہ اسمبلی کے رکن رہے۔ پہلے تو وہ گریز کرتے رہے پھرجب ان کے دوستوں نے نے اصرار کیا تو کہا: اگرچہ یہ میرا شعبہ نہیں ہے لیکن مسلمانوں کی ضروریات مجھے مجبور کررہی ہیں کہ میں یہ کام کروں، چنانچہ الیکشن میں کھڑے ہوگئے۔ ایک بات اور دیکھیں جس کا ذکر نہیں ہوتا کہ جب وہ الیکشن کی مہم چلا رہے تھے اُس زمانے میں بھی برادریوں کا تعصب تھا۔ کشمیری برادری، آرائیں برادری اور دوسری برادریاں لاہور میں ہیں۔اقبال کے مقابلے میں ملک محمد دین آرائیں برادری سے تعلق رکھتے تھے، جس کی اکثریت تھی۔ اقبال نے تقریر کی اور کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ میں کشمیری ہوں اور کشمیری برادری بھی لاہورمیں کم نہیں ہے، لیکن میں آپ سے یہ کہتا ہوں مجھے برادری کی بنیاد پر کوئی ووٹ نہ دے۔میں مسلمان ہوں ہر کلمہ گو کا خادم ہوں ۔مسلمانوں کی نمائندگی کرنا چاہتا ہوں ۔جو شخص میری اس حیثیت کو پسند کرے وہ میری مدد کرے ۔میں اسلام کے سوا کسی دوسرے رشتے کا معتقد نہیں ہوں ۔ یہ ایک بڑی بات تھی، وہ عصبیت کو ختم کرنا چاہتے تھے، وہ منتخب ہوگئے اور تین سال انہوں نے بڑی مستعدی سے اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کی اور عام لوگوں کے کام کرتے رہے۔
سوال: اقبال اور مولانا مودودیؒ کی فکری ہم آہنگی کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟
رفیع ہاشمی: اقبال نے شاعری میں جو پیغام دیا، مولانا مودودی نے نثر میں اس کی تفصیل بیان کی۔ پھر اس کے لیے جدوجہد بھی کی۔ اقبال نے تو شاعری میں بات کرکے لوگوں پر چھوڑ دیا، کوئی منظم جماعت یا کوئی تحریک قائم نہیں کی۔ ایک تحریک مولانا نے برپا کی اور اقبال کی شاعری کے جو اثرات تھے ان سے بھی فائدہ اٹھایا۔ اقبال کی شاعری ذہنوں کو مائل کرتی ہے اسلام کی طرف، نشات ِ ثانیہ کی طرف۔ اور مولانا کا بھی مقصد یہی تھا، اسی لیے بہت سے لوگ جو اقبال کے مداح تھے وہ مولانا کی جدوجہد میں شامل ہوگئے۔
سوال: اقبال اور مولانا مودودی کے رابطے کی کیا تفصیلات ہیں؟
رفیع ہاشمی: سید نذیر نیازی اور میاں محمد شفیع کہتے ہیں کہ’’ترجمان القرآن ‘‘میں علامہ کی نظر سے مولانا مودودی کی تحریریں گزر تی تھیں اور ان کی کتاب’’ ــالجہاد فی الاسلام‘‘بھی انہوں نے دیکھی تھی۔اس وجہ سے وہ مولانا کی علمیت اور فہمِ اسلام سے متاثر تھے۔علامہ نے چودھری نیاز علی خان کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے ادارے واقع پٹھانکوٹ کے لیے مولا نا کوحیدر آباد سے بلا لیں۔چودھری صاحب اور مولانا کے درمیان خطوط کا تبادلہ ہوا۔۱۹۳۷ء میںمولانا پٹھانکوٹ آئے پھر چودھری صاحب کو ساتھ لے کر لاہور میں علامہ سے ملے۔علامہ محمد اسد بھی ملاقاتوں میں شامل تھے۔مجوزہ ادارے کے آئندہ منصوبوں،منہاج اور طریقہ کار وغیرہ کے بارے میں تفصیلی گفتگو کے بعد مارچ ۱۹۳۸ء میںمولانا حیدر آباد دکن سے پٹھانکوٹ منتقل ہو گئے۔علامہ کا ارادہ تھا کہ وہ بھی ہر سال چند ماہ کے لیے وہاں آ کر قیام کریں گے۔مولانامزید مشوروں اور رہنمائی کے لیے لاہور جانے کا ارادہ کر رہے تھے کہ علامہ ۲۱ اپریل کو انتقال کر گئے ۔
سوال:مولانا مودودی کی اقبال سے ملاقات اور مراسلت کو بعض لوگ خلاف واقعہ سمجھتے ہیں،آپ مولانا اور اقبال کے تعلق کو کس طرح دیکھتے ہیں؟
رفیع ہاشمی:نومبر۱۹۷۹ء کی بات ہے ایک صحافی ڈاکٹر جاوید اقبال سے انٹرویو لے رہا تھا۔اس نے پوچھا کہ اس بات کی کوئی تاریخی شہادت ہے کہ مولانا مودودی علامہ اقبال کی دعوت پردکن سے پنجاب تشریف لائے تھے ؟جاوید اقبال نے جواب دیا:جب مولانا خود کہتے ہیں کہ مجھے علامہ صاحب نے بلایا تھا تو پھر تاریخی شہادت چہ معنی دارد؟۔پھر عبدالمجید سالک، سید نذیر نیازی اور میاں محمد شفیع کی گواہی بھی موجود ہے ۔
سوال: ڈاکٹر جاوید اقبال کی سوانح حیات پر آپ کی کیا رائے ہے؟
رفیع ہاشمی: ڈاکٹر جاوید اقبال سے میری ملاقات خاصی پرانی تھی’’ زندہ رود‘‘ کی پہلی جلد چھپی تومیں نے اس کی کئی چیزوں کی نشاندہی کی کہ اس میں یہ اور یہ چیزیں اصلاح طلب ہیں۔ جب انہوں نے دوسری اور تیسری جلد لکھی تو چھپنے سے پہلے اس کا مسودہ مجھے بھیجا۔پھر جب وہ خودنوشت ’’اپنا گریباں چاک‘‘ لکھ رہے تھے تو اس کا بھی مسودہ انہوں نے مجھے دکھایا۔ میں نے کچھ چیزوں کی نشاندہی کردی۔ ان کی آزاد خیالی سے متعلق جو باتیں تھیں، ان پر میں نے کہا کہ یہ چیزیں اگر نہ ہوں تو بہتر ہے۔ کیمبرج کے واقعات پر لوگوں کو اعتراض ہوگا۔ بہرحال میں نے مشورہ دے دیا۔ کچھ انہوں نے قبول کیا اور کچھ نہیں کیا بلکہ زیادہ تر نہیں کیا۔ شروع میں میرا ذکر کیااور شکریہ ادا کیا ۔ ایک دفعہ ہم ایک مجلس میں بیٹھے تھے، ایک صاحب آئے اور انہوں نے کہا کہ جاوید صاحب، یہ جو چیزیں آپ نے لکھی ہیں یہ ٹھیک نہیں ہیں۔ میں بھی پاس بیٹھا تھا، میری طرف اشارہ کرتے ہوئے جاوید اقبال نے پنجابی میں کہا کہ ’’ایہناں نے تے کیہا سی: کٹ دیو، کٹ دیوپر میں کیہا:ایسے طرح چلن دیو‘‘۔ اس میں وہ زیادہ آزاد خیال ہوگئے ہیں۔ وہ تھے بھی اس طرح کے۔ اقبال کے بڑے معصومانہ خیالات تھے کہ میرا بیٹا نماز کے لیے مسجد جائے، صبح سویرے اٹھ کر نماز پڑھے۔ اور اس کو اسلامیہ ہائی اسکول میں داخل کرایا تھا۔اُن کے ذہن میں آئیڈیل تھا کہ یہ ایسا بنے۔
سوال: بیٹے نے وہ چیزیں بیان کیں جن سے باپ کا تاثر خراب ہوا، اس کا مطلب یہ ہے کہ بیٹے کو باپ سے کچھ مسئلہ ہے؟
رفیع ہاشمی: شاید یہی ہو، اور وہ خود کہتے ہیں کہ جب والد فوت ہوگئے تو میں نے خوب انگریزی لباس پہنے اور خوب سنیما دیکھے۔ یہ ردعمل تھا۔ لوگ کہتے تھے کہ اقبال کا بیٹا ہے، اس لیے وہ چڑتے تھے کہ میری اپنی کوئی شخصیت نہیں ہے! اور صحیح بات یہی ہے کہ وہ اقبال کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں ورنہ تو ایک عام وکیل ہوتے۔
سوال: اقبال اکبر الٰہ آبادی کی عظمت کے قائل تھے، ان کے زیراثر بھی تھے، کیا یہ بات درست ہے؟
رفیع ہاشمی: بالکل صحیح ہے۔ اکبر الٰہ آبادی نے مغرب پر تنقید کی مگر برطانیہ کا نام نہیں لیا۔ انہوں نے ایک انداز اپنایا اور اقبال نے دوسرا رنگ اپنایا۔ پہلے اقبال نے اکبر الٰہ آبادی کے رنگ میں بھی کچھ شاعری کی۔ لیکن پھر انہوں نے اندازہ کرلیا کہ اس طرح تقلید کرنے سے بات نہیں بنے گی تو انہوں نے اپنا الگ راستہ نکالا۔ وہ شاعری کا منفرد راستہ تھا۔ چنانچہ آپ دیکھیں کہ جو پچھلے شعرا ہیں اُن کے مقابلے میں نئی آواز ہے، نیا انداز ہے، مثلاً اقبال عشق کا ذکر کرتے ہیں، پرانی شاعری میں جو عشق ہے اس کو نئے معنی دیے، اس کا بہت وسیع کینوس بنایا، بات کو بہت پھیلا دیا۔ اقبال کی تقلید کی بھی لوگوں نے کوشش کی ہے مگر وہ بات نہیں بن سکی۔
سوال: اقبال ایک بین الاقوامی شہرت یافتہ مفکر شاعر ہیں۔ اس عظمت و بلندی تک وہ بے شمار کتابوں، نظریات و افکار مفکروں کا بنظر غائر مطالعہ کرکے پہنچے ہوں گے لیکن اس کے ساتھ ان کے کلام کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اگر کسی انسان اور اس کے افکار نے اقبال کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے ، تو وہ مولانارومی اور ان کی مثنوی ہے۔ اقبال کو مولانا سے اس قدر لگاؤ اور محبت ہے کہ وہ مولانا کو اپنا معنوی استاد اور رہنما سمجھتے ہیں۔آپ بیحیثیت محقق اقبال کی شاعری میں مولانا روم کے اثرات کو کس طرح دیکھتے ہیں؟
رفیع ہاشمی: رومی کا زمانہ سقوطِ بغداد اور تاتاریوں کے حملوں کے بعد کا زمانہ تھا جب عالم اسلام پر مایوسی چھائی ہوئی تھی، رومی نے اپنی شاعری کے ذریعے لوگوں کو حوصلہ دیا اور دوبارہ جدوجہد کرنے کا راستہ دکھایا۔ علامہ اقبال بھی یہی کہتے ہیں کہ وہ اپنے زمانے کا رومی تھا اور میں اپنے زمانے کا رومی ہوں، میرے زمانے میں بھی عالم اسلام سامراجی طاقتوں کا غلام اور ہمہ پہلو زوال و انحطاط کا شکار ہے، میں ان کو ایک راستہ دکھا رہا ہوں اور ایک اعتماد دے رہا ہوں کہ آگے بڑھیں ۔ ’’شکوہ‘‘، ’’جوابِ شکوہ‘‘ اور دوسری نظموں میں جو باتیں کی ہیں وہ اس طرح کی ہیں جس طرح رومی نے کی تھیں۔علامہ کی تمام شعری و نثری تصانیف میں ما سوا ’’علم الاقتصاد‘‘ ، رومی کا ذکر ملتا ہے،حتیٰ کہ انگریزی خطبات میں بھی دو جگہ رومی کا ذکر کیا ہے۔ وہ رومی کو ’’ مرشدِ روشن ضمیر‘‘، ’’مرشدِ اہلِ نظر ‘‘،اور ’’امامِ راستاں‘‘ جیسے القابات سے یا دکرتے ہیں۔دراصل اقبال کے ہاں رومی کے اثرات کا قصہ طویل ہے۔ اقبال کے شعری آثار کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’اسرار خودی‘‘ لکھنے کی تحریک رومی کی طرف سے ہی ہوئی ۔’’رموزِ بے خودی ‘‘ کا آغاز بھی رومی کے شعر سے ہوتا ہے۔ یہ دونوں مثنویاں اور ’’جاوید نامہ‘‘ بھی مثنوی معنوی کی بحر میں لکھے گئے ۔اقبال نے اپنے اُردو اور فارسی کلام میں جا بجا رومی کے اشعار پر تضمین کی ہے۔رومی سے متعدد مکالماتی نظمیں بھی ملتی ہیں۔ ہمارے بعض نقادوں نے غزلیاتِ اقبال کے مستانہ لب و لہجے کو رومی کے اثر کا نتیجہ قرار دیا ہے۔دراصل اقبال کے بیشتر اہم تصورات کا سرا کسی نہ کسی حوالے سے رومی کے تصورات سے مربوط نظر آتا ہے۔تصور عشق، مسئلہ تقدیر،مردِ کامل،شرفِ انسانی،اُمید پرستی، موت سے بے خوفی،خودی اور خود شناسی کے ضمن میں علامہ نے رومی سے کسبِ فیض کیا۔وہ یہ تک کہتے ہیں کہ حیات و موت کا رازمجھے رومی سے ملا ہے:
مرشدِ رومی حکیم پاک زاد
سرّ مرگ و زندگی بر ما کشاد
سوال:اقبال بڑے شاعر ہیں، مفکرِ پاکستان ہیں، نصاب میں بھی، ٹی وی، ریڈیو میں بھی ان کے بارے میں گفتگو ہوتی رہتی ہے، لیکن ہماری زندگی میں اقبال نظر نہیں آتے؟
رفیع ہاشمی: ابھی پچھلے دنوں لاہور میں ایک قومی اقبال کانفرنس ہوئی تھی۔اس کے کلیدی خطبے میں میں نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ ہماری زندگیوں میں علامہ اقبال کااثر کیوں نظر نہیں آتا؟ ایک بات تو یہ ہے کہ خود علامہ اقبال نے ایک جگہ افسوس کا اظہار کیا ہے کہ جو کچھ میں نے تمہیں دیا ہے، تم نے اس کو چھوڑ دیا ہے، اسی لیے تم صحیح راستے سے بھٹک گئے ہو۔ اصل بات یہ ہے کہ جو ہمارے مقتدر حضرات ہیں، اثر رسوخ رکھنے والے ہیں، ارکان پارلیمنٹ ہیں، اساتذہ ہیں، وکلا ہیں یا میڈیا کے لوگ ہیں ، یہ اُن کا کام ہے کہ اقبال کی شاعری یا اقبال کے پیغام کو پیش نظر رکھیںاور اسے اپنی زندگیوں میں شامل کریں۔ اب تو صرف زبانی جمع خرچ ہے کہ سال میں دو دفعہ یوم اقبال منا لیا، اس پر تقریریں کیں، اس کے بعد پھر وہی بے ایمانی، بددیانتی، دھوکے بازی، بے انصافی اور ایک دوسرے کے حقوق غصب کرنا۔ اقبال کی شاعری کو آپ پڑھیں اور اس کے تقاضوں اور اصولوں کو بھی پیش نظر رکھیں تب اس کا اثر ہوگا۔ قائداعظم کی وفات کے بعد جو راستہ ہم نے اختیار کیا ہوا ہے ،وہ صحیح منزل تک نہیں جاتا۔ اقبال نے تو یہ کہا تھا کہ ملک قائم ہوجائے تو اسلامی قانون کا نفاذ کیجیے۔اب اگر ہم اسلامی قانون کا نفاذ نہیں کریں گے تو کلام اقبال بے اثر رہے گا، کیونکہ اقبال کا پیغام اور اُن کی تعلیمات کا اسلام سے بڑا گہرا تعلق ہے۔ جب آپ نے اسلام کو ترک کردیا توخود بخود اقبال بھی ترک ہو گیا۔بھلے آپ یوم مناتے رہیں ،شاعری پڑھتے رہیں ،سیمینار کراتے رہیں ،۔ایک اور چیز ہے کہ ہمارے ہاں اردو کو نظرانداز کیا گیا،باوجود اس کے کہ عدالتِ عظمیٰ نے یہ فیصلہ کیا کہ اردو کو ہر سطح پر رائج کریںپھر بھی نظرانداز کیا جارہا ہے ۔اردو کو نظر انداز کرنے کا مطلب اقبال کو نظر انداز کرنا ہے ۔اگر اردو کو نہ چھوڑیں ، اقبال کی اردو کو پڑھتے رہیںتو کچھ اقبال سمجھ میںآئے گا۔ کچھ نہ کچھ اس کا اثر بھی ہو گا مگر ہم نے سب کوانگلش میڈیم پر لگا دیا ہے۔ جب انگلش پڑھیں گے اور اردو کو چھوڑ دیں گے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اقبال کو بھی بھول جائیں گے۔ اردو کا نفاذ دراصل اقبال کا نفاذ ہے، اس لیے اردو زبان کو ہر سطح پر نافذ کرنے سے اقبال کو سمجھنے میں آسانی ہوگی اور پاکستان کے مقاصد بھی پورے ہوں گے ان شاء اللہ۔
سوال: اگر ہمارے درمیان اقبال نہ ہوتے تو علم و دانش کے حوالے سے ہمارا کیا مقام ہوتا؟
رفیع ہاشمی: ہماری اور ہمارے ملک کی پہچان اس طریقے سے نہ ہو تی جیسے اقبال کے حوالے سے ہے۔ باہر کے کچھ لوگوں نے لکھا ہے کہ پاکستان کیسا خوش قسمت ملک ہے جس کو اقبال جیسا مفکر شاعر میسر ہے۔ یہ نہ صرف ہمارے لیے بلکہ عالم اسلام کے لیے بھی قابلِ فخر بات ہے مگر شرمندگی کی بات یہ ہے کہ ہم نے اقبال کو گھر کی مرغی دال برابر سمجھ کر اُسے قرار واقعی اہمیت نہیں دی اور اُسے قوالوں کے سپرد کر دیا ہے۔