نوازشریف کے خلاف العزیزیہ ملز، گلف اسٹیل ملز اور لندن فلیٹس ریفرنس کی سماعت مکمل ہوگئی ہے اور اب فیصلہ 6 جولائی کو سنایا جائے گا۔ احتساب عدالت نے وکیلِ صفائی اور پراسیکیوٹر کے دلائل مکمل ہوجانے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔ عین ممکن ہے کہ نیب کورٹ بہت سخت فیصلہ دے۔ اس کیس میں نیب قانون کے تحت حسن نواز اور حسین نواز کو مفرور ہونے کی وجہ سے عدالت کم از کم تین سال قید کی سزا سنا سکتی ہے۔ نیب آرڈیننس کے مطابق یہ کیس ناجائز اثاثے بنانے کا ہے، اس میں عدالت کسی ملزم کو جرم ثابت ہوجانے پر قید اور جرمانے کے علاوہ کسی بھی عوامی نمائندگی کے لیے نااہل قرار دے سکتی ہے۔ نیب کورٹ کا اگر یہی فیصلہ آیا تو مریم نواز اور کیپٹن صفدر بھی حالیہ انتخابات میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔ نیب عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کیے جانے اور ہائی کورٹ سے عبوری ریلیف ملنے کے لیے ان کے پاس بہت کم وقت رہ جائے گا۔ یہ مقدمہ اصل میں نوازشریف کے خلاف ہے جس میں اُن سے سوال پوچھا گیا ہے کہ گلف اسٹیل ملز کیسے قائم ہوئی، اور اس کے بعد العزیزیہ ملز کیسے اور کس کے سرمائے سے قائم ہوئی؟ اور لندن فلیٹس کب خریدے گئے اور پیسہ کہاں سے آیا؟
بنیادی طور پر نیب ریفرنس میں تین الگ الگ سوال پوچھے گئے ہیں۔ مریم نواز کا نام اس ریفرنس میں اس لیے آیا کہ اُن کا نام لندن فلیٹس میں ہے، ریفرنس کے مطابق وہ ان کی مالک بھی ہیں، جب کہ مریم نواز کا مؤقف ہے کہ وہ صرف حسین نواز کے انتقال کے بعد اس کی جائداد کی تقسیم کے لیے ثالث ہیں۔ جبکہ اس کیس میں کیپٹن صفدر کا نام اس لیے آیا کہ پراسیکیوٹر کا مؤقف ہے کہ لندن فلیٹس مریم کی ملکیت میں ہیں اور کیپٹن صفدر نے اپنے گوشواروں میں اپنی اہلیہ کے نام اس جائداد کا ذکر نہیں کیا۔
اس کیس میں ایک سو سے زائد پیشیاں ہوئی ہیں اور نیب کورٹ سے پہلے یہ معاملہ پاناما کیس میں سپریم کورٹ میں آیا جہاں سے نوازشریف نااہل ہوئے، اور اس کے بعد نوازشریف، حسن، حسین اور مریم نواز اور کیپٹن صفدر کے خلاف یہ ریفرنس بنا اور اس کی نیب کورٹ میں سماعت ہوئی۔ نیب کورٹ کے جج محمد بشیر نے اس کی سماعت کی، اور اس سماعت کے باعث ان کی مدتِ ملازمت میں بھی تین بار توسیع ہوئی، اور ان کی توسیع کے ساتھ نیب کورٹ کی مدت بھی بڑھائی گئی۔ اس کیس کی مانیٹرنگ کے لیے سپریم کورٹ کے ایک جج کو بھی ذمے داری دی گئی۔ اس کیس میں نیب کی جانب سے مظفر ایڈووکیٹ، نوازشریف کی جانب سے خواجہ حارث، جبکہ مریم کی جانب سے امجد پرویز نیب کورٹ میں پیش ہوئے۔
اب سماعت مکمل ہوچکی ہے اور فیصلے کی تاریخ بھی متعین ہوگئی ہے۔ اتفاق سے 6 جولائی جمعہ کے روز ہے۔ پاکستان کی حالیہ زمانے کی عدالتی تاریخ کے حوالے سے جمعہ کے دن کو خاص اہمیت حاصل ہوچکی ہے کہ جسٹس افتخار محمد چودھری کی معطلی اور بحالی کا فیصلہ بھی جمعہ کے روز ہوا، پاناما کیس کا فیصلہ، آرٹیکل62 ون ایف کی تشریح اور نوازشریف کی تاحیات نااہلی، جہانگیر ترین کی نااہلی، اصغر خان کیس کا فیصلہ، 3نومبر2007ء کی ایمرجنسی کا فیصلہ اور آمر پرویزمشرف کو صدارتی الیکشن لڑنے کی اجازت دینے سمیت متعدد اہم فیصلے جمعہ کے روز ہی سنائے گئے۔ اب احتساب عدالت نوازشریف، حسن نواز، حسین نواز، مریم نواز اور کیپٹن (ر) محمد صفدرکے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ 6جولائی بروز جمعہ کو سنا ئے گی۔ جہانگیر ترین کی نااہلی کا فیصلہ سپریم کورٹ نے15دسمبر 2017ء بروز جمعہ کو سنایا تھا۔ اس سے پہلے بھی سپریم کورٹ جمعہ کے روز ہی کئی اہم کیسوں کے فیصلے سناچکی ہے۔ 3 نومبر 2007ء کو پرویزمشرف نے ایمرجنسی لگادی، یہ کیس سپریم کورٹ کے سامنے آیا اور 24 مارچ 2008ء کو ایمرجنسی کو غیرقانونی قرار دے دیا گیا۔ جسٹس ڈوگر سمیت 17ججوں کی تعیناتی بھی کالعدم قرار پائی۔ اس دن بھی جمعہ تھا۔ 20 جولائی 2007ء کو معزول چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کا فیصلہ 13رکنی بینچ نے سنایا اور صدارتی ریفرنس منسوخ کردیا، اس دن بھی جمعہ تھا۔ 28 ستمبر 2007ء کو سپریم کورٹ نے پرویزمشرف کو یونیفارم میں صدارتی الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی۔ اس دن بھی جمعہ تھا۔ 28 جولائی2017 ء کو پاناما کیس میں سابق وزیراعظم نوازشریف کی نااہلی کا فیصلہ ہوا، تب بھی جمعہ ہی تھا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل62 ون ایف کی تشریح کا فیصلہ بھی بروز جمعہ 13 اپریل 2018ء سنایا تھا، جس کے تحت نوازشریف کو تاحیات نااہل قرار دیا گیا تھا۔ اب احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس میں جاری ٹرائل مکمل ہونے پر فیصلہ 6جولائی جمعہ کے روزسنایا جائے گا۔ کیس میں استغاثہ کے مجموعی طور پر 18گواہوں کے بیانات ریکارڈ کیے گئے، ملزمان کی طرف سے اپنے دفاع میں کوئی گواہ پیش نہیں کیا گیا۔ نیب کی طرف سے نوازشریف اور ان کے بچوں کے خلاف 8 ستمبر 2017ء کو عبوری ریفرنس دائر کیا گیا۔ 19اکتوبر 2017ء کو مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر پر براہِ راست فردِ جرم عائد کی گئی۔ نوازشریف کی عدم موجودگی کی بنا پر اُن کے نمائندے ظافر خان کے ذریعے فردِ جرم عائد کی گئی۔ 26 ستمبر کو نوازشریف پہلی بار احتساب عدالت کے روبرو پیش ہوئے، مریم نواز پہلی بار 9 اکتوبر کو احتساب عدالت کے روبرو پیش ہوئیں۔ ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری ہونے کے باعث کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو ائیرپورٹ سے گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا گیا۔ مسلسل عدم حاضری کی بنا پر عدالت نے 26 اکتوبر کو نوازشریف کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے۔3 نومبر کو پہلی بار نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن(ر) صفدر اکٹھے عدالت میں پیش ہوئے۔ 8 نومبر کو پیشی کے موقع پر نوازشریف پر براہِ راست فردِ جرم عائد کی گئی تھی۔