چند روز قبل تک اقتدار میں رہنے والی اور نوازشریف کی نااہلی کے فیصلے کے بعد سے فعال اپوزیشن اور مزاحمتی سیاست کرنے والی مسلم لیگ (ن) کی جانب سے 25 جولائی کے انتخابات کے بائیکاٹ کے اشارے مل رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے متحرک اور وفادار کارکنوں کی جانب سے یہ تجویز ابتدا ہی میں آاگئی تھی۔ نوازشریف کو مزاحمتی سیاست کے لیے جی ٹی روڈ پر لانے والی، پارٹی کی، دوسرے درجے کی قیادت بھی اس طرح کے لائحہ عمل کی حامی تھی، لیکن اب پارٹی کی اعلیٰ ترین سطح سے اس طرح کے اشارے مل رہے ہیں جن میں ایک طرف شفاف انتخابات کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا جارہا ہے اور دوسری جانب پارٹی کی جانب سے بائیکاٹ کے آپشن پر غور اور اسے اختیار کرنے کی جانب واضح اشارے نظر آرہے ہیں۔ ان حلقوں کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ پارٹی قیادت کے خلاف انتقامی کارروائیاں کررہی ہے، شریف خاندان کو مقدمات میں اُلجھا کر نہ صرف انتخابی مہم سے دور رکھا جارہا ہے بلکہ انہیں انصاف کے نام پر توہین کا نشانہ بھی بنایا جارہا ہے، پارٹی میں جن الیکٹیبلز کو بڑی مشکل سے لایا گیا تھا انہیں ہانکا لگاکر دوسری جانب دھکیلا جارہا ہے، پارٹی کے جو افراد ٹکٹ واپس کرکے آزاد حیثیت میں انتخاب لڑنے جارہے ہیں وہ اُن کا اپنا آپشن نہیں، مقتدر قوتوں کا دبائو ہے۔ ہمارے امیدواروں کو عدالتوں اور الیکشن کمیشن سے نااہل کروایا جارہا ہے اور اُن کے سروں پر نیب کی تلوار لٹکادی گئی ہے۔ ان حلقوں کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کی منتخب حکومت تڑواکر راتوں رات ایک نئی پارٹی بنائی گئی اور چند گھنٹوں بعد نہ صرف ’’باپ‘‘ نامی اس جماعت کو صوبائی حکومت سونپ دی گئی بلکہ سینیٹ کے چیئرمین کے لیے اُن کے امیدوار کو پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کی حمایت دلوا کر جتوا دیا گیا۔ یہی صورتِ حال 25 جولائی کے انتخابات میں ہوتی دکھائی دے رہی ہے، اس لیے بہتر ہے کہ ان انتخابات کا بائیکاٹ کردیا جائے۔ اس بارے میں ایک دلیل یہ بھی دی جارہی ہے کہ نوازشریف اور مریم کی کلثوم نواز کی علالت کے باعث لندن میں موجودگی کے باعث مؤثر انتخابی مہم بھی چلائی نہیں جاسکے گی، اور ان کی عدم موجودگی میں شہبازشریف بطور پارٹی صدر نیا بیانیہ دیں گے، وہ نوازشریف کے بیانیے کو آگے نہیں بڑھائیں گے، جبکہ ان حلقوں کے مطابق عوام میں مقبولیت نوازشریف اور اُن کے بیانیے کی ہے، جبکہ شہبازشریف نہ تو خلائی مخلوق اور اس کے کردار کو مان رہے ہیں اور نہ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کسی مزاحمتی مہم کے لیے تیار ہیں۔ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ صلح صفائی اور مفاہمت کرکے ماضی کی طرح اقتدار میں حصہ لینے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے اِن حلقوں کی یہ شکایات اور خدشات تو موجود ہیں اور انہیں یکسر مسترد بھی نہیں کیا جاسکتا، لیکن یہ سب کچھ پہلی بار نہیں ہورہا ہے۔ یہی اسٹیبلشمنٹ مسلم لیگ (ن) کو اقتدار میں لانے کے لیے ماضی میں بار بار یہی ہتھکنڈے استعمال کرتی رہی ہے، بلکہ بسا اوقات اس سے بھی زیادہ۔ مسلم لیگ (ن) نہ صرف انہیں قبول کرتی رہی ہے بلکہ اس پر خوش اور نازاں بھی رہی ہے۔ اب اگر یہی اسٹیبلشمنٹ وہی کچھ کسی اور کے لیے کررہی ہے تو مسلم لیگ (ن) اسے ٹھنڈے پیٹوں قبول کرلے کہ اس معاملے میں اُس کی اخلاقی پوزیشن صفر ہے۔ اس وقت مسلم لیگ (ن) شدید دبائو اور مشکلات کا شکار ہے، اُس پر اندرونی اور بیرونی دبائو ہے، پارٹی کے اندر دھڑے بندیاں ہورہی ہیں جو الیکشن کے بائیکاٹ کی صورت میں فوراً، اور الیکشن لڑنے کی صورت میں نتائج آنے کے بعد واضح شکل اختیار کرجائیں گی۔ سردست یہ واحد نکتہ ہے جس پر نوازشریف، شہبازشریف اور پارٹی کے امیدواران متفق ہیں کہ حالات جو بھی ہوں انتخابات میں حصہ لیا جائے اور نتائج آنے کے بعد پارٹی کا نیا لائحہ عمل یا بیانیہ قوم کے سامنے رکھا جائے۔ نواز اور شہباز کے اردگرد اس وقت جو لبرل اور بائیں بازو کے دانشور جمع ہیں اُن کی خواہش ہے کہ پارٹی کو بائیکاٹ کی لائن پر لایا جائے تاکہ دائیں بازو کی ایک مقبول جماعت سے نجات مل جائے۔ یہ لوگ بظاہر خیر خواہ بن کر نوازشریف کی سیاست کو ختم کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔ لیکن پارٹی کے اندر انہیں اس مؤقف کی حمایت نہیں مل سکی۔ شہبازشریف مزاحمت کے بجائے اداروں اور اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت کے ساتھ اپنی سیاست آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر انہیں اقتدار میں کچھ حصہ مل سکتا ہے تو صرف اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد ہی سے ایسا ممکن ہے۔ ماضی میں بھی ایسا ہی ہوا ہے اور اب بھی اسٹیبلشمنٹ کو راضی کیا جاسکتا ہے۔ اُن کی رائے میں اگر پارٹی یہ انتخابات ہار بھی جائے تب بھی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر مستقبل کی صورت گری کرنا پڑے گی۔ محض مقبولیت کی بنا پر پاکستان میں اقتدار حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ دوسری جانب نوازشریف اگرچہ اِس وقت اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت کے قائل نظر نہیں آتے، حالانکہ انہیں اسٹیبلشمنٹ کی طاقت کا بھی اندازہ ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ اس طاقت کی وجہ سے وہ اب تک اقتدار کے مزے لوٹ رہے تھے۔ وہ اسٹیبلشمنٹ پر دبائو تو بڑھانا چاہتے ہیں اسی لیے مزاحمت کی سیاست کررہے ہیں اور اداروں کو چیلنج کرتے جارہے ہیں، لیکن ہماری رائے میں وہ اس دبائو کے ذریعے عملاً اسٹیبلشمنٹ کو مفاہمت پر مجبور کررہے ہیں تاکہ وہ ان کی شرائط مان لے۔ لیکن لگتا ہے اب یہ وقت گزر چکا ہے، اس لیے اب نوازشریف مفاہمت کے بجائے دوسرے آپشنز پر غور کررہے ہیں جن میں بائیکاٹ بھی آخری آپشن ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ فیصلہ کرنے کے جو نقصانات ہوسکتے ہیں ان کا انہیں بخوبی اندازہ ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ نوازشریف چاہتے ہیں کہ انتخابات میں مشکل حالات میں بھی حصہ لیا جائے۔ ایک تو ان کا خیال ہے کہ انہیں عوامی حمایت حاصل ہے، اس لیے ان کے امیدوار اتنی بڑی تعداد میں کامیاب ہوجائیں گے کہ اگر حکومت نہ بھی بنا سکے تو ایک مؤثر آواز ضرور ہوگی۔ دوسرے وہ چاہتے ہیں کہ اس دوران اسٹیبلشمنٹ جو بھی حربے اور ہتھکنڈے استعمال کرے گی اس سے وہ خود بے نقاب ہوجائے گی اور عوام میں مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت بڑھے گی۔ گویا انتخابی کامیابی یا ناکامی دونوں صورتوں میں اسٹیبلشمنٹ عوام کی نظروں میں بے نقاب ہوجائے گی، اس سے اُس کی طاقت بھی کم ہوگی اور مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت بھی بڑھے گی جو اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ایک مؤثر قوت بن جائے گی، اور آخرکار مسلم لیگ(ن) ایک حقیقی عوامی جماعت اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ جماعت بن کر اُبھرے گی جو نوازشریف کا ایک خواب ہے۔ نوازشریف کے سامنے پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی کی مثالیں بھی ہیں، پیپلز پارٹی نے 1985ء کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا جس پر وہ اب تک پچھتارہی ہے۔ خود بے نظیر بھٹو بعض نجی محفلوں میں 1985ء کے بائیکاٹ کو اپنی سنگین سیاسی غلطی قرار دیتی تھیں۔ جبکہ جماعت اسلامی بھی 1997ء کے انتخابی بائیکاٹ کے نقصانات کو اب تک یاد کررہی ہے۔ نوازشریف یہ بھی جانتے ہیں کہ اگر انہوں نے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا تو ان کے امیدوار اسے قبول نہیں کریں گے اور پارٹی پولنگ سے قبل ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے گی۔ دوسرے، بائیکاٹ کے باعث پارٹی سیاسی طور پر پیچھے چلی جائے گی جبکہ اس کے امیدوار میدان سے آئوٹ ہوجائیں گے۔ کیونکہ انتخابی حلقوں میں بعض اوقات امیدوار محض اپنا وجود ثابت کرنے یا کسی مخالف امیدوار کو نقصان پہنچانے کے لیے میدان میں اُترتے ہیں۔ انہیں اپنی شکست کا علم پہلے سے ہوتا ہے لیکن وہ مخالف کے لیے میدان کھلا نہیں چھوڑنا چاہتے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر میدان سے ہٹے تو عوام کے دل و دماغ سے بھی محو ہوجائیں گے۔ اس لیے وہ پارٹی یا آزاد حیثیت میں انتخاب میں ضرور شریک ہوتے ہیں۔ 1985ء میں پیپلز پارٹی کے بہت سے الیکٹیبلز آزاد حیثیت میں کامیاب یا ناکام ہوئے اور اگلے کئی سال تک سیاست میں رہے، جبکہ حلقہ چھوڑنے والوں کو بعد میں زیادہ مضبوط امیدواروں کا سامنا کرنا پڑا۔ نوازشریف یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اگر انہوں نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تو اسٹیبلشمنٹ اسے چیلنج سمجھ کر مصنوعی طریقوں سے ٹرن آئوٹ بڑھالے گی جس سے یہ تاثر جائے گا کہ نوازشریف بائیکاٹ کے سلسلے میں کوئی مؤثر کردار ادا نہ کرسکے، یا عوام نے اُن کی آواز پر کان نہیں دھرے۔ اس مقصد کے لیے اسٹیبلشمنٹ انتخابی مہم میں گرماگرمی پیدا کرکے اور ووٹرز کو ترغیبات فراہم کرکے ٹرن آئوٹ آسانی سے بڑھا سکتی ہے۔ پھر نوازشریف اگر بائیکاٹ پر جائیں تو شاید ملک کی کوئی سیاسی جماعت، حتیٰ کہ اُن کے اتحادی بھی اس فیصلے سے اتفاق نہیں کریں گے۔ کیونکہ بائیکاٹ میں دوسری سیاسی جماعتوں کے لیے کوئی ترغیب نہیں ہے اور مسلم لیگ (ن) نے اس کے لیے کوئی ہوم ورک بھی نہیں کیا ہوا۔ انہیں معلوم ہے کہ اگر وہ بائیکاٹ کرتے ہیں تو خود اُن کے ٹکٹ ہولڈر فوری طور پر کسی دوسری سیاسی جماعت میں شامل ہوجائیں گے، آزاد حیثیت میں انتخاب لڑیں گے یا پھر وہ فوری طور پر چودھری نثار کی جیپ پر سوار ہوجائیں گے۔ یہ کام تو انتخاب کے بعد بھی ہونا ہے لیکن بائیکاٹ کی صورت میں نون لیگ انتخاب سے پہلے ہی ٹوٹ پھوٹ جائے گی اور فوری طور پر کوئی مؤثر اور مضبوط دھڑا سامنے آجائے گا۔ نوازشریف یہ بھی جانتے ہیں کہ اس وقت اُن کی نااہلی، نیب مقدمات، کلثوم نواز کی بیماری اور اسٹیبلشمنٹ کی انتقامی کارروائیوں کے باعث ان کے لیے عوام میں ہمدردی کی جو لہر ہے اگر وہ فوراً کیش نہ کرائی گئی تو پھر کبھی کیش نہیں کرائی جاسکے گی۔ ان حالات میں لگتا یہی ہے کہ دھمکی کے باوجود نون لیگ انتخابات کا بائیکاٹ نہیں کرے گی بلکہ ایک طرف اسٹیبلشمنٹ کو بے نقاب کرے گی اور دوسری جانب عوام کی ہمدردیاں لے کر جتنی بھی نشستیں جیتے اُن پر اپنی مستقبل کی سیاست کرے گی۔ وہ پارلیمنٹ کا محاذ مخالفوں کے لیے نہیں چھوڑے گی، کیونکہ مسلم لیگ (ن) کے بائیکاٹ سے تحریک انصاف کو واک اوور مل جائے گا۔