محمد انور
انتخابات کی گہماگہمی بڑھ رہی ہے، مگر اس کے ساتھ ہی الیکشن 2018ء کو متنازع بنانے کی کوششیں بھی شروع کردی گئی ہیں۔ حالانکہ قوم کو پہلی بار آزادانہ ماحول میں شفاف اور منصفانہ انتخابات کی توقع ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی ماضی میں بھی انتخابات سے قبل الیکشن کے عمل پر شکوک و شبہات ظاہر کرتی رہیں، لیکن کامیابی کے ساتھ ہی انتخابات کو منصفانہ اور غیر جانب دارانہ بھی قرار دیا۔ ماضی کی طرح اِس بار بھی یہی کچھ کہا جارہا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما و سابق وزرائے اعظم نوازشریف اور شاہد خاقان عباسی نے پیر کو الیکشن کی شفافیت پر سوال اٹھایا تو ایک بڑے میڈیا گروپ کے ٹی وی چینل نے یہ سوال تخلیق کرلیا کہ ’’کیا نون لیگ کو الیکشن کا بائیکاٹ کردینا چاہیے؟’’ اس سے یہ تاثر پیدا ہورہا ہے کہ مذکورہ چینل مسلم لیگ(ن) کی مدد کے لیے کھل کر سامنے آگیا ہے۔ یہ بات اس لیے کہی جارہی ہے کہ مجموعی طور پر میڈیا کے کردار کو شک کی نظر سے ہی دیکھا جاتا ہے اور یہ بات عام ہے کہ میڈیا عام لوگوں کی’’ذہن سازی‘‘ کا کام کرتا ہے۔ اگرچہ چینل نے جس ٹاک شو میں یہ سوال اٹھایا اُس کے ایک کے سوا تمام ہی مہمانوں نے جن میں معروف صحافی و تجزیہ کار شامل تھے، اس کا جواب یہ دیا کہ ’’مسلم لیگ (ن) کو انتخابات کا بائیکاٹ نہیں کرنا چاہیے‘‘۔ البتہ پروگرام کے ایک مہمان ممتاز کالم نویس حسن نثار نے کہا کہ ’’میں کیا کہہ سکتا ہوں، انہیں بائیکاٹ کرنا ہے تو کریں، بھاڑ میں جائے، ان کی مرضی۔‘‘
ایسا لگتا ہے کہ نیب کی جانب سے مسلم لیگ(ن) کے خلاف سخت احتسابی کارروائیوں اور پارٹی کے اندر ہونے والی ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے نواز لیگ کے رہنما انتخابات سے فرار کے راستے ڈھونڈ رہے ہیں تاکہ شکست کی صورت میں ان کی ’’ناک کٹنے‘‘ سے بچ جائے۔
مسلم لیگ (ن) کی مشکل یہ بھی ہے کہ اس کے اہم ترین رہنما اور نوازشریف کے دیرینہ ساتھی چودھری نثار علی خان اب ان سے شدید ناراض ہیں۔ ان کی ناراضی پر میاں نوازشریف کا کہنا تھا کہ ’’مجھے چودھری نثار کی اکثر باتوں پر تکلیف ہوتی ہے مگر میں نے اب تک اُن کی کسی بات کا جواب نہیں دیا‘‘۔ نوازشریف کی اس بات پر چودھری نثار بولے: ’’نوازشریف کو میں جو مشورہ دیتا تھا وہ انہیں پارٹی کے 95 فیصد لوگ دیتے تھے، نوازشریف! میں 34 سال کی رفاقت کا حجاب رکھ رہا ہوں،آپ کے لوگ میرے خلاف جھوٹے الزامات لگا رہے ہیں، نوازشریف صاحب آپ بھی حجاب رکھیں ورنہ معاملات دور تک جائیں گے۔‘‘
الیکشن کے دنوں میں ’’اندر کی باتیں‘‘ باہر آنے لگیں تو سیاسی شخصیات کی گھبراہٹ میں اضافہ ہونا فطری بات ہے۔ شاید الیکشن میں ناکامی کے خدشات نے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو یہ بیان دینے پر مجبور کیا کہ ’’چیف جسٹس اور الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ الیکشن شفاف بنانے میں کردار ادا کریں، جب بھی عوام حقِ نمائندگی سے محروم ہوئے آنے والی حکومت کبھی نہ چلی۔‘‘
شاہد خاقان عباسی کی بے چینی اور غیر یقینی کیفیت اپنی جگہ، مگر حیرت سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے بیان پرہے، انہوں نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا ہے کہ ’’ہر حال میں حکومت نہیں چاہتے لیکن جس کو بھی حکومت بنانا ہوگی اُسے ہم سے بات ضرور کرنا ہوگی‘‘۔ آصف زرداری نے کہا ’’چاہتا ہوں بلاول کو پارلیمانی تجربہ ہو، وہ اپوزیشن لیڈر بھی بنے تو کوئی اعتراض نہیں، بہتر ہوگا کہ اپنی زندگی میں اسے وزیراعظم بنتا دیکھوں۔‘‘
آصف زرداری کی یہ باتیں اُن کی انتخابات کے حوالے سے مایوسی کا عندیہ دے رہی ہیں۔ مگر ’’اینٹ سے اینٹ بجانے‘‘ کی باتیں کرنے والے آصف زرداری اپنی سیاست اور پارٹی کی کارکردگی سے اس قدر مایوس ہوجائیں گے یہ اندازہ شاید کسی کو بھی نہیں تھا۔
انتخابی سرگرمیوں کا محتاط جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہورہی ہے کہ اِس بار انتخابات میں باریاں لینے والی جماعتوں کو اپنی بھرپور کامیابی کی کوئی امید نہیں ہے۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہو کہ ان پارٹیوں کو اندازہ ہوچکا ہے کہ قوم انہیں اچھی طرح سمجھ چکی ہے۔
اگر اس تاثر کو درست تسلیم کرلیا جائے تو قوم کو یہ فکر لاحق ہوگی کہ آنے والی حکومت کیسی ہوگی؟ کیا جمہوریت کا دس سال سے جاری یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا؟ کیا ایم ایم اے اور پی ٹی آئی مل کر وفاق میں حکومت بناسکیں گی؟ اور کیا ایسی حکومت میں کراچی کی واضح نمائندگی ہوگی؟