الیکشن کمیشن نے عام انتخابات 2018ء کے لیے پشاور سے قومی اور صوبائی اسمبلی کے 19 مجموعی حلقوں کے امیدواروں کی حتمی فہرست جاری کردی ہے۔ صوبائی دارالحکومت کے 5 قومی اور 14صوبائی حلقوں کے لیے 25 جولائی کو کُل 218 امیدوار قسمت آزمائی کریں گے۔ پشاور سے قومی اسمبلی کے 5 حلقوں کے لیے 6 آزاد امیدواران سمیت 42، اور صوبائی اسمبلی کے 14 حلقوں کے لیے 54 آزاد امیدواران سمیت 168امیدواران میدان میں رہ گئے ہیں۔ قومی اسمبلی کے لیے سب سے زیادہ امیدواران جن کی تعداد13ہے‘ این اے31 سے، جب کہ صوبائی اسمبلی کے لیے سب سے زیادہ امیدواران پی کے 76 سے 17کی تعداد میں الیکشن لڑ رہے ہیں۔ دریں اثناء الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ حتمی فہرست کے مطابق حلقہ این اے27 سے ایم ایم اے کے حاجی غلام علی، تحریک انصاف کے نور عالم خان، عوامی نیشنل پارٹی کے طاہر ندیم، پیپلز پارٹی کی عاصمہ عالمگیر، قومی وطن پارٹی کے امجد علی، مسلم لیگ (ن) کی ثوبیہ شاہد اور آزاد امیدواران سدرہ قدیم، شکیل عابد، فقیر محمد اورنوید علی شامل ہیں۔ این اے 28 سے تحریک انصاف کے ارباب عامر ایوب، ایم ایم اے کے صابر حسین اعوان، مسلم لیگ (ن) کے محمد انتخاب چمکنی، تحریک لبیک پاکستان کے اکرام اللہ اور آزاد امیدوار محمد دائود خان برکی میدان میں ہیں۔ این اے 29 سے عوامی نیشنل پارٹی کے ارباب کمال احمد، مسلم لیگ (ن) کے امیرمقام، تحریک انصاف کے ناصر خان موسیٰ زئی، ایم ایم اے کے مفتی نعیم جان اور تحریک لبیک پاکستان کے محمد شفیق امینی شامل ہیں۔ این اے 30 سے پیپلز پارٹی کے ڈاکٹر ارباب عالمگیرخان خلیل، ایم ایم اے کے ارباب نجیب اللہ خان خلیل، تحریک انصاف کے شیر علی ارباب، مسلم لیگ (ن) کے محمد جنید، عوامی نیشنل پارٹی کے محمد عالمگیر خلیل، پاکستان مسلم لیگ کے حیدر خان، پاکستان جسٹس پارٹی کے نور ولی خان اور آزاد امیدوار شوکت خورشید حصہ لے رہے ہیں۔ این اے 31 سے پیپلز پارٹی کے اخونزادہ عرفان اللہ شاہ، تحریک انصاف کے شوکت علی، عوامی نیشنل پارٹی کے حاجی غلام احمد بلور، مسلم لیگ (ن) کے محمد ندیم، ایم ایم اے کے صدیق الرحمن پراچہ، آل پاکستان مسلم لیگ کے اورنگزیب خان، پاسبان پاکستان کے گل رحمن، امن ترقی پارٹی کے نورحسین، تحریک لبیک پاکستان کے یامین، جبکہ آزاد حیثیت سے محمد سقاف یاسر، شوکت علی اور روح اللہ شامل ہیں۔
حتمی امیدواران کی فہرست جاری ہونے کے بعد پشاور کی صوبائی اسمبلی کی 14نشستوں کے لیے 176 امیدوار میدان میں رہ گئے ہیں، جن میں پی کے 66 سے ایم ایم اے کے حافظ حشمت خان، پیپلز پارٹی کے کرامت اللہ خان چغرمٹی، اے این پی کے لیاقت علی خان، قومی وطن پارٹی کے محمد ہاشم بابر، تحریک انصاف کے محمود جان، جے یو آئی پاکستان کے سیف اللہ خان، مسلم لیگ(ن) کے سید لیاقت حسین شاہ، تحریک جوانانِ پاکستان کے سید عباس علی شاہ، جبکہ آزاد امیدوار ارباب شہریار خان اور وصال خان شامل ہیں۔ پی کے 67 سے ایم ایم اے کے سابق صوبائی وزیر اطلاعات آصف اقبال دائودزئی، تحریک انصاف کے مسلم لیگ (ن) سے منحرف ہونے والے ارباب محمد وسیم، تحریک جوانانِ پاکستان کے اورنگزیب خان، پیپلز پارٹی کے رضا اللہ خان، مسلم لیگ(ن) کے جماعت اسلامی سے بغاوت کرنے والے فضل اللہ دائود زئی، قومی وطن پارٹی کے محمد شفیع، اے این پی کے ملک نسیم احمد خان، جبکہ آزاد امیدوار نوراکبر، محمد عالم، محمد اصغر خان، لیاقت علی خان، شہزاد خان، سید عبدالوہاب، سلیم خان اور انصاف خان شامل ہیں۔ پی کے 68 سے مسلم لیگ (ن) کے ارباب عبدالاکبر، تحریک انصاف کے ارباب جہانداد خان، پاکستان مسلم لیگ کے ارباب میر افضل خان، ایم ایم اے کے قاری سمیع اللہ جان، پیپلز پارٹی کے ملک طہماش خان، اے این پی کے ممتاز خان، پیپلز پارٹی شہید بھٹو کے واجد صدیق اور آزاد امیدوار ملک امروزخان شامل ہیں۔ پی کے 69 سے اے این پی کے ثاقب اللہ خان چمکنی، ایم ایم اے کے خالد وقار چمکنی، تحریک انصاف کے سید محمد اشتیاق ارمڑ، پیپلز پارٹی کے محمد شریف، تحریک لبیک پاکستان کے نوشاد خان، قومی وطن پارٹی کے اسرار خان، جبکہ آزاد امیدوار ارباب محمد عثمان، سیف الرحیم، شکیل آفریدی اور عنایت اللہ شامل ہیں۔ پی کے 70 سے ایم ایم اے کے جان افضل، تحریک انصاف کے انجینئرشاہ فرمان خان، اے این پی کے خوشدل خان ایڈووکیٹ، پیپلز پارٹی کے غضنفر علی، آل پاکستان مسلم لیگ کے راج ملی خان، مسلم لیگ (ن) کے شاہد خان، تحریک لبیک پاکستان کے محمد شفیق امینی، قومی وطن پارٹی کے نیاز رحمن خان، جبکہ آزاد امیدوار محمد دائود خان برکی شامل ہیں۔ پی کے 71 سے پیپلز پارٹی کے امان اللہ، ایم ایم اے کے جاوید خان مومند، قومی وطن پارٹی کے زرمحمد، تحریک لبیک پاکستان کے سمندر خان، تحریک انصاف کے انجینئرشاہ فرمان خان، مسلم لیگ(ن) کے شوکت اللہ، اے این پی کے عبدالحفیظ، آل پاکستان مسلم لیگ کے عبدالکریم خان اور آزاد امیدوارمحمد حنیف آفریدی اور ہدایت اللہ شامل ہیں۔ پی کے 72سے اے این پی کے اشفاق احمد خلیل، تحریک لبیک پاکستان کے زر علی خان، مسلم لیگ(ن) کے قاری ظاہر خان خلیل، پاکستان راہِ حق کے حاجی عبدالولی، امن ترقی پارٹی کے عطاء اللہ خان، تحریک انصاف کے انجینئر فہیم احمد خلیل، ایم ایم اے کے کاشف اعظم چشتی، پیپلز پارٹی کے منظور علی خلیل، قومی وطن پارٹی کی نرگس ثمین، آزاد امیدوار طارق خان، صحبت خان، شوکت علی اور اعجاز اکبر شامل ہیں۔ پی کے 73 سے ایم ایم اے کے مولانا امان اللہ حقانی، تحریک انصاف کے تیمور سلیم خان جھگڑا، امن ترقی پارٹی کے شبیر احمد، مسلم لیگ (ن) کے فرہاد علی، قومی وطن پارٹی کے فلک نیاز خلیل، اے این پی کے محمد سلیم اختر درانی، عام عوام پارٹی کے محمد نادر خان، پیپلز پارٹی کے تحریک انصاف سے نکالے گئے یٰسین خلیل، تحریک نوجوانان پاکستان کے ہیبت اللہ اور آزاد امیدواران مطیع اللہ، محمد صدیق، محمد شوکت خورشید، خالد مسعود، خالد محمود اور اسد خان شامل ہیں۔ پی کے 74 سے پیپلز پارٹی کے ارباب زرک خان، تحریک انصاف کے پیر فدا ایڈووکیٹ، مسلم لیگ (ن) کے سید حیدر شاہ، ایم ایم اے کے عطیف الرحمن، اللہ اکبر تحریک کے کلیم اللہ، اے این پی کے محمد ابرارخان خلیل اور آزاد حیثیت سے عبدالرحیم حصہ لے رہے ہیں۔ پی کے 75 سے پاکستان راہ حق پارٹی کے ابراہیم خان، جے یو آئی نظریاتی کے احمد خان، ایم ایم اے کے ارباب محمد فاروق جان، اے این پی کے سید عاقل شاہ، تحریک لبیک پاکستان کے شکیل علی شاہ، اللہ اکبر تحریک کے ظفر علی، مسلم لیگ (ن) کے قمر زمان (اسکواش کے سابق عالمی چیمپئن)، پیپلز پارٹی کے مصباح الدین، تحریک انصاف کے واجد اللہ خان، آل پاکستان مسلم لیگ کے واحد خان، جبکہ آزاد امیدوار محمد وقار، آصف اللہ، جنگیز خان، رادیش سنگھ ٹونی، صفدر خان اور طاہر وہاب شامل ہیں۔ پی کے 76سے آل پاکستان مسلم لیگ کے ارشد خان، تحریک انصاف کے آصف خان، قومی وطن پارٹی کے امجد علی، ایم ایم اے کے بحراللہ خان ایڈووکیٹ، پاکستان جسٹس پارٹی کے حیات اللہ خان، پیپلز پارٹی کے پی ٹی آئی سے نکالے گئے ضیاء اللہ آفریدی، تحریک جوانان پاکستان کے علی محمد، مسلم لیگ (ن) کے محمد ندیم، اے این پی کے ہدایت اللہ خان، جبکہ آزاد حیثیت سے محمد ذاکر شاہ، گل محمد، فدا محمد، اورنگزیب خان، آصف جان اور آصف اقبال شامل ہیں۔ پی کے 77 سے پاکستان جسٹس پارٹی کے بلال محمد، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے حسن محمود جان، اللہ اکبر تحریک کے حیدر زمان، ایم ایم اے کے مولانا خیرالبشر، پیپلز پارٹی کے سید ظاہر علی شاہ، تحریک لبیک پاکستان کی صائمہ شہزاد، تحریک نوجوانان پاکستان کے طالف جان، آل پاکستان مسلم لیگ کے عابد نواز خان، تحریک انصاف کے کامران بنگش، پاسبان پاکستان کے گل رحمن، قومی وطن پارٹی کے محمد عدیل، اے این پی کے محمد عمر خان، امن ترقی پارٹی کے نور حسین، جبکہ آزاد امیدواروں میں نصیر حسین اور محمد نواب علی شامل ہیں۔ پی کے 78سے آل پاکستان مسلم لیگ کے اورنگزیب خان، پاکستان مسلم لیگ کے پی ٹی آئی سے نکالے گئے جاوید نسیم، ایم ایم اے کے حاجی غلام علی، مسلم لیگ (ن) کے خادم علی یوسف زئی، پیپلز پارٹی کے عرفان اللہ، قومی وطن پارٹی کے محمد شاہ، پاکستان جسٹس پارٹی کے محمد بلال، اے این پی کے ہارون بشیر بلور، تحریک انصاف کے محمد عرفان، تحریک لبیک پاکستان کے مہد طارق، جبکہ آزاد حیثیت سے نیاز محمد، حسین خان باز، عابد اللہ خان، کاشان احمد، محمد اسلم خان، محمد اسماعیل اور محمد عرفان شامل ہیں۔ پی کے 79 سے عوامی نیشنل پارٹی کے عبدالجبار، پیپلز پارٹی کے عمر خطاب، قومی وطن پارٹی کے غلام حیدر خان، تحریک انصاف کے فضل الٰہی، ایم ایم اے کے ملک نوشاد خان، تحریک لبیک کے حجت اللہ، مسلم لیگ (ن) کے رئیس خان، تحریک نوجوانان پاکستان کے سید نوراللہ شاہ، آل پاکستان مسلم لیگ کے وکیل خان اور آزاد امیدوار ارباب اکبر نواز خان، ثریا شہاب، خلیل احمد، شجاعت خان اور لعل زمان شامل ہیں۔
یہ بات محتاجِ بیان نہیں ہے کہ صوبائی دارالحکومت ہونے کے ناتے پشاور کے سیاسی اثرات اور یہاں سے چلنے والی سیاسی ہوائیں صوبے کی مجموعی سیاست پر ہمیشہ اثرانداز ہوتی رہی ہیں۔ خیبر پختون خوا چونکہ آبادی اور رقبے کے لحاظ سے باقی صوبوں کی نسبت چھوٹا صوبہ ہے اور صوبے کے دوردراز علاقوں کے لوگوں کا اپنے مسائل، روزگار اور کئی دیگر ضروریات کے لیے پشاور آنا جانا معمول ہے اس لیے یہاں قائم ہونے والا سیاسی تاثر صوبے کے طول و عرض پر ہمیشہ واضح طور پر اثرانداز ہوتا ہے۔ ویسے بھی پشاور چونکہ آبادی اور اپنی جغرافیائی اہمیت کے حوالے سے صوبیے میں ایک ممتاز حیثیت رکھتا ہے اس لیے ملک بھر کے عوام کی بالعموم اور صوبے کے عوام کی بالخصوص یہاں ہونے والی سیاسی پیش رفت پر نہ صرف گہری نظر ہوتی ہے بلکہ وہ یہاں کی سیاست میں خصوصی دلچسپی بھی لیتے ہیں۔ پشاورکی سیاسی اہمیت کا ایک اور ثبوت جہاں صوبے کی اکثر سیاسی جماعتوں کے سربراہان کا پشاور سے گہرا تعلق ہونا ہے وہیں ماضی میں صوبے میں وزرائے اعلیٰ رہنے والے اکثر سیاست دانوں کی اپنے آبائی علاقوں کے ساتھ ساتھ چونکہ پشاور میں بھی رہائش گاہیں ہیں اس لیے ان کا اسٹیک بھی پشاور کی سیاست سے کسی نہ کسی صورت جڑا ہوتا ہے، اس لیے وہ نہ صرف پشاور کی سیاست میں ہر طرح سے دلچسپی لیتے ہیں بلکہ ان کے توسط سے یہاں کے اثرات کو صوبے کے دور دراز علاقوں تک پہنچنے میں بھی دیر نہیں لگتی، جس کی نمایاں مثال ایم ایم اے کے سابقہ وزیراعلیٰ اکرم خان درانی، پی ٹی آئی کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک، قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیرپائو، مسلم لیگ (ن) کے سردار مہتاب، امیرمقام اور پیر صابر شاہ ہیں جو بالترتیب بنوں، نوشہرہ، چارسدہ، ایبٹ آباد، سوات اور ہری پور کے ساتھ ساتھ پشاور میں بھی سیاسی وجود رکھتے ہیں۔ اس مثال کو یہاں بیان کرنے کا مقصد یہ وضاحت کرنا ہے کہ پشاور کو صوبے کی سیاست میں ہمیشہ مرکزی مقام حاصل رہا ہے۔ 25 جولائی کو پڑنے والے سیاسی رن میں پشاور شاید صوبے کا واحد ضلع ہے جہاں سے صوبے کی تمام قابلِ ذکر سیاسی جماعتیں قسمت آزمائی کررہی ہیں جن میں پی ٹی آئی، ایم ایم اے، اے این پی، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور قومی وطن پارٹی جیسی معروف جماعتوں کے علاوہ بعض چھوٹی اور گمنام جماعتوں کے امیدواران بھی مختلف حلقوں پر میدان میں ہیں، جبکہ آزاد امیدواران الگ سے انتخابی مہم گرمائے ہوئے ہیں۔ یہاں اس امر کی نشاندہی کرنا خالی از دلچسپی نہ ہوگا کہ کم از کم پچھلے تین انتخابات میں صوبے میں وہی جماعت حکومت بناتی رہی ہے جسے پشاور میں نمایاں اکثریت حاصل رہی ہے۔ واضح رہے کہ 2002ء میں یہاں سے متحدہ مجلس عمل نے گیارہ میں سے سات، 2008ء میں اے این پی نے گیارہ میں سے آٹھ، اور 2013ء میں پی ٹی آئی نے گیارہ میں سے دس نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ 2018ء کے انتخابات کی پشاور کے حوالے سے ایک اور اہم بات صوبے کی تین بڑی جماعتوں مجلس عمل، اے این پی اور پی ٹی آئی کا پشاور کی تمام 14 صوبائی اور 5 قومی اسمبلی کے حلقوں پر مدمقابل ہونا ہے۔ اس حوالے سے ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تینوں جماعتیں بالترتیب 2002ء، 2008ء اور 2013ء میں صوبے میں برسراقتدار رہ چکی ہیں اور خیبر پختون خوا کے ووٹرز کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ وہ ہر الیکشن میں اپنی چوائس تبدیل کرتے رہے ہیں، جس کا ثبوت 1996ء، 2002ء، 2008ء اور 2013ء کے انتخابات میں الگ الگ جماعتوں کا برسراقتدار آنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس انتخابی رجحان اور ماضی کے تجربے کو مدنظر رکھتے ہوئے سیاسی تجزیہ کار صوبے کے انتخابی نتائج پر بالعموم اور پشاور کے نتائج پر بالخصوص توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب زمینی حقائق تو یہی اشارہ کررہے ہیں کہ 25 جو لائی کو اصل ٹاکرا پی ٹی آئی اور متحدہ مجلس عمل کے درمیان ہی ہوگا، البتہ اس حوالے سے ابھی کوئی حتمی رائے قائم کرنا مشکل ہے کہ 2018ء کے انتخابات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، کیونکہ یہ دونوں جماعتیں کامیابی کے لیے ہر ممکن ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں، لیکن پی ٹی آئی چونکہ حال ہی میں اقتدار سے فارغ ہوئی ہے اور اس حوالے سے اُس کے اکائونٹ میں کوئی خاص جمع پونجی (کارکردگی) نہیں ہے، نیز ماضی کے رجحان کے تناظر میں چونکہ صوبے کا ووٹر اپنی چوائس تبدیل کرنے کی شہرت رکھتا ہے، اس لیے توقع یہی ہے کہ اس صورتِ حال کا خاطرخواہ فائدہ متحدہ مجلس عمل کامیابی کی صورت میں اٹھانے کی کوشش کرے گی جس کی قیادت اور کارکنان اس کامیابی کے لیے نہ صرف پُرامید ہیں بلکہ اس کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے پورا زور بھی لگا رہے ہیں۔