تحریر:اشفاق آزاد
ترجمہ: اسامہ تنولی
بروز اتوار 24جون 2018ء کو معروف کالن نگار اور دانشور اشفاق آزر نے انتخابی ماحول کے تناظر میں کثیر الاشاعت سندھی روزنامہ ’’کاوش‘‘ حیدر آباد کے ادارتی صفحے پر اپنے کالم میں محولہ بالا عنوان سے جو خاصہ فرسائی کی ہے اس کا ترجمہ قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے لیے ذیل میں پیش خدمت ہے۔
دنیا کے کئی ممالک میں یہ قانون ہے کہ الیکشن سے پہلے امیدوار اپنے اثاثوں کی مکمل تفصیل جمع کرواتے ہیں ۔ یہ قانون ہے کہ الیکشن سے پہلے امیدوار اپنے اثاثوں کی مکمل تفصیل جمع کرواتے ہیں ۔ یہ اس لیے ضروری ہوتا ہے کہ اس طرح سے معلوم کیا جا سکے کہ کیا امیدواروں نے یہ اثاثے اپنی جائز آمدنی سے بنائے ہیں یا پھر غیر قانونی طریقہ سے؟ اگر کسی امید وار کی آمدنی سے زیادہ اثاثے سامنے آتے ہیں تو وہ اس کے خلاف تحقیقات کی بنیاد بن جاتے ہیں۔
ہمارے ہاں بھی امیدواروں اور منتخب نمائندوں کے لیے یہ لازمی قراردیا گیا ہے کہ وہ اپنے اثاثہ جات کی تفصیل الیکشن کمیشن کے پاس جمع کرائیں۔ منتخب نمائندوں کے لیے بھی عوامی نمائندگی ایکٹ کے تحت یہ جروری ہوتاہے کہ وہ ہر سال اپنے اثاثوں کی تفصیل دیں جو گزٹ کی صورت میں شائع کیے جاتے ہیں۔ جو رکن تفصیل مہیا نہیں کرتا اس کی اسمبلی رکنیت معطل کردی جاتی ہے۔
اگرچہ یہ دور ٹیکنالوجی کا ہے، الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ بھی ہے، لیکن آج تک امیدواروں کے گوشوارے ویب سائٹ پر رکھنے کے بجائے پرانے طریقے سے گزٹ میں چھاپ دیے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے وقت اور پیسوں کا زیاں الگ ہوتاہے اور عام افراد تک اس کی رسائی بھی ممکن نہیں ہوپاتی۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ کیوں ضروری ہے کہ امیدوار اپنے اثاثہ جات کی تفصیل جمع کرائیں؟ کیوں کہ عوامی عہدے شفافیت کا متقاضی ہوتے ہیں اس لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ امیدوار کی جو اہلیت آئین اور قانون میں بیان کردہ ہے، اس پر وہ پورا بھی اترتا ہو۔
بد قسمتی یہ ہے ہمارے ہاں اثاثوں کی تفصیل ایک فارملٹی سے زیادہ اور کوئی بھی حیثیت نہیں رکھتی ہے۔ نہ ہی یہ تفصیل عام ووٹر کی انتخابی رائے کا حصہ بن سکتی ہے۔ اثاثوں کی تفصیل پڑھ کر لوگ محض اپنی حیرت اور طنز کا ہی اظہار کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے کہتے ہیں کہ جو شخص کل تک موٹرسائیکل پر گھوماکرتا تھا آج ذرا اسے دیکھو تو کس طرح لینڈ کروزر کا مالک ہے۔ اس کے مختلف شہروں میں بنگلے اور بینک بیلنس جوہے، سووہ الگ ہے؟ اس سے زیادہ کوئی اور سوالات نہیں ہوتے ۔
نہ ہی ووٹ لیتے وقت آنے والے امیدواروں سے ووٹرز یہ پوچھتے ہیں کہ قبلہ کل تک تو آپ گھر گھر جاکر دودھ بیچا کرتے تھے۔ سیاست میں آنے کے بعد آخر آپ کو ایسی کون سی گیدڑ سنگھی ہاتھ لگی ہے کہ آپ اتنے زیادہ مال و دولت کے مالک بن گئے ہیں؟ وہیں پر سے دراصل اس کہانی کا آغاز ہوتاہے جو ہمارے سیاسی کلچر کی ساکھ کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے۔
پانامہ پیپرز کے انکشافات سے قبل ہمارے ہاں تو ٹھہرا ایک طرف۔ دنیا کی آنکھوں کے سامنے عوامی رہنماؤں کی دولت چھپی ہوئی ہوا کرتی تھی۔ اس وقت اثاثوں کے بارے میں گفتگو کرنا ایک دلچسپ مشغلہ تو ہواکرتا تھا، لیکن اس سے زیادہ اور کچھ بھی نہیں۔ اب بھی جن امیدواروں کے اثاثے جات سامنے آرہے ہیں ان کے بارے میں عوام میں شکوک و شبہات زیادہ ہیں کہ انہوں نے اپنے اثاثے ایمانداری سے ظاہر نہیں کیے ہیں بلکہ بیشتراثاثوں پر ہنوز پردہ ڈلا ہواہے۔ یہ بات فراموش نہیں کی جانی چاہیے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی نا اہلی کی پس پردہ یہی معاملہ تھا کہ انہوں نے اپنے اور اہل خانہ کے اثاثے چھپائے ہیں، کیوں کہ وہ غیر قانونی طریقہ سے کمائے گئے تھے۔
ہوتا یوں آیا ہے کہ ہمارے ہاں سیاست کو کاروبار کی شکل دی گئی ہے۔ جس شخص کے پاس نہ کوئی دانش ہو اور نہ کوئی فہم اور نہ ہی اس کے پاس عوام مسائل کے حل کا ادراک ہو، نہ اسے انگریزی میں لکھے گئے کسی قرارداد کا ایک جملہ بھی آسانی سے پڑھنا آتاہو ، وہ ہمارے ہاں منتخب اسمبلی میں آسکتاہے، اس کے پاس جو صلاحیت ہونی چاہیے اگر وہ ہے بھی تو بس اتنی کہ وہ الیکشن میں کتنے پیسے خرچ کر سکتاہے، پارٹی کو کتنا فنڈ دے سکتاہے؟ اس کے بعد جب منتخب ہو کر آئے تو اس کے لیے خرچ کردہ پیسہ منافع کے ساتھ کمانے کا مسئلہ درپیش نہ ہو۔ اگر چہ انتخابی قوانین کے تحت ہر امیدوار کے انتخابی خرچ کی ایک حد مقرر کی جاتی ہے۔ لیکن ہم نے آج تک ایسی کوئی بھی مثالہ نہیں دیکھی ہے کہ کسی امیدوار کو اس مقررکردہ حد سے کہیں زیادہ خرچ کرنے پر کسی نو ع کی کوئی سزا دی گئی ہو۔ یہ اس لیے بھی ہوتاہے کہ کوئی بھی امیدوار قانونی طریقے سے اپنی جیب سے یہ خرچ کرتاہی نہیں ہے کہ اس کے بارے میں کوئی ثبوت ہاتھ آسکے۔ پیسہ تو بے شک امیدوار ہی کا ہوتاے لیکن مختلف صورتوں میں خرچ کیاجاتاہے۔
کبھی حلقہ کے باشعور عوام کے نام پر تو کبھی اپنے حمایتوں کی جانب سے یہی طریقہ واردات اثاثہ جات ظاہر کرتے وقت بھی استعمال کیاجاتاہے۔ اس میں ظاہر یہ کیاجاتاہے کہ موصوف اتنا تو شریف اور غریب ہے کہ اس کے پاس تو اپنا گھر تک بھی نہیں ہے۔ گاڑی بھی نہیں ہے۔ گھر ، بیوی کے نام پر تو زرعی زمین اور مختلف جائیدادیں بھی اہلیہ کی ہیں۔ لیکن موصوف کی شریک حیات کرتی کیا ہیں؟روز گار ، نوکری یا کاروبار کون سا ہے؟ اس کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں کی جاتی!!
اس وقت بھی جو اثاثے سامنے آرہے ہیں انہیں اگر دیکاجائے تو مریم نواز جو پانامہ پیپر کے اسکینڈل کے وقت یہ کہاکرتی تھیں کہ ان کے بیرون ملک تو کجا ! پاکستان میں بھی کوئی جائداد نہیں ہے، ان کے اثاثہ جات کی تفصیل جان کر ہوش خطا ہونے لگتے ہیں۔ اوپر سے شہباز شریف کی پہلی اہلیہ کے پاس تو اپنے شوہر سے بھی کہیں زیادہ اثاثے موجود ہیں۔ دوسری جانب اگر آصف علی زرداری کروڑ پتی ہیں تو ان کے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری ارب پتی ہیں۔ لیکن ایسے ارب پتی ہیں کہ جن کے پاس پنی ذاتی گاڑی بھی نہیں ہے، عمران خان بھی دوسروں کے ہیلی کاپٹروں پر گھومتے پھرتے رہتے ہیں اور ایکڑوں پر محیط بنی گالا کا مالک زرعی زمین ہوتے ہوئے بھی کوئی گاڑی نہیں رکھتے(یعنی گاڑی کے مالک نہیں ہیں)
ہمارے ہاں سندھ میں زیادہ تر منتخب عوامی نمائندوں نے اپنے اثاثوں میں زرعی زمین ظاہر کی ہے۔ اب ہم جانتے ہیں کہ گزشتہ دہائیوں میں زراعت کے ساتھ جو ستم رانیاں ہوئی ہیں اس کی وجہ سے کئی آبادگار اور چھوٹے بڑے زمیندار مقروض یا کنگال اور دیوالیہ ہو چکے ہیں لیکن نہیں معلوم ان کی کونسی ایسی زمین ہیں اور معلوم نہیں ان میں ایسی کون سی فصلیں پیدا ہوتی ہیں جن پر نہ کسی سیلاب کا اثر پڑتاہے اور نہ ہی خشک سالی کاا ور نہ ہی یہ لوگ قیمتوں میں اتار چڑھاؤ سے ہی متاثر ہوپاتے ہیں۔ گنے کے بے چار آبادگار ہیں کہ وہ اپنی کھڑی تیار فصلوں کو مناسب نرخ نہ ملنے کی بناپر آگ لگانے پر مجبور ہوجاتے ہیں عالم مایوسی میں لیکن ان (امیدواروں ) کی گنے کی فصلیں کس طرح سے اچھے داموں پر بک جاتی ہیں ۔
دراصل بات یہ ہے کہ جب سیاست کو کاروبار بنالیاجائے تو پھر اثاثوں کے بھی پہیے لگ جایاکرتے ہیں۔ وہ سرمایہ جو عوامی ترقی اور فلاح کے لیے مخصوص ہوتاہے اسے اپنے ذاتی فائدے کے لیے استعمال کیاجاتاہے۔ سندھ میں رہنے والا شاید ہی کوئی فرد ایسا ہوگا جسے اپنے حلقے کے منتخب عوامی نمائندوں کی راتوں رات تبدیل ہوجانے والی معاشی حیثیت کا علم نہ ہوگا۔ لیکن یہ آج تک نہیں ہوا ہے کہ کسی نے اس حوالہ سے کبھی کوئی سوال اٹھایاہو کہ آخر یہ دولت آئی کہاں سے ہے؟
اصل میں یہ آمدنی کا ذریعہ ہے ہی سیاست جس میں کرپشن سے لے کر ٹھیکے ، پیسوں پر نوکریاں ، کمیشن ، ککبیکس کی ایک وسیع دنیا آباد ہوتی ہے۔ یہاں سے پیسے کماکر دوبارہ آنے والے الیکشن میں استعمال کیاجانا ہوتاہے اور ہر الیکشن پہلے کے مقابلے میں مزید گراں قدر اخراجات کا طالب ہوتاجارہاے۔ اس لیے الیکشن کسی شریف، غریب، ایل ، ذہین اور ایماندر فرد کے بس کی بات نہیں رہتی۔ اس کے نتیجے میں ایک ایسا مراعت یافتہ طبقہ جنم لیتاہے جو الیکشن ریس کی چھڑی اپنے خاندان کی نئی نسل کی طرف منتقل کرتارہتاہے اور یہ خاندانی دولت سیاست کی بدولت ملکوں کی سرحدیں بھی پلانگ جاتی ہے۔ منی لانڈرنگ، بیرون ملک میں بینک اکاؤنٹس یا پھر آف شور کمپنیاں ، یہ سارے وہ ذرائع ہیں جہاں پر اپنے کمائے گئے غیر قانونی ذرائع سے پیسے کو محفوظ کیا جس جا سکتا ہے ۔
اب بد قسمتی یہ ہے کہ منی لانڈرنگ کو روکنے کے لیے جو مطلوبہ قانون سازی کی جانی چاہیے وہ تو ہوتی نہیں ہے۔ لیکن سرمایہ کی بیرون ملک منتقلی اور سرمایہ کاری یا س سے متعلقہ دوسرے حوالوں سے بھی قانون میں چھوٹ دی گئی ہے اور یہ کھلی چھوٹ بھی دراصل ہمارے حکمرانوں کے اعلیٰ دماغ کے طفیل ہے۔ جس کی ایک نمایاں مثال پروٹیکسن آف اکنامک ایکٹ1992ء ہے جس کے سیکشن 4 کے تحت ہر وہ پاکستانی جو ملک کے اندر یا باہر رہتاہے وہ اپنا بیرونی سرمایہ۰ خواہ لے آئے اپنے پاس رکھے یا پھر اسے فروخت بھی کر سکتاہے۔ اس سے اس بارے میں کوئی بھی پوچھ گچھ نہیں کی جائے گی۔
اب بات یہ ہے کہ عوام کی اکثریت ان معاملات سے پورے طورپر آگاہ نہیں ہوتی۔ نتیجتاً کوئی ایسی عوامی رائے بھی تشکیل نہیں ہوپاتی جو عوامی نمائندوں کو اس امر پر مجبور کرسکتے کہ وہ موجودہ قوانین میں موجود اسقام کو دور کر سکیں۔ یا پھر از سر نو قانون سازی کرکے منی لانڈرنگ ، کرپشن کی روک تھام کے لیے قدم اٹھا سکیں لیکن اب دور تبدیل ہوتاجارہاے ۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ چو امیدوار 5برس تک اپنے اپنے حلقوں میں نہیں گئے تھے ان سے مقامی لوگوں نے استفسار کرنا شروع کردیاہے۔ یہی حقیقی احتساب ہے جو مطلوب ہے۔
جب تک بھارتی سپریم کورٹ کی طرح کوئی شخص امیدواروں کی آمدنی کے ذرائع کے بارے میں پٹیشن دائر کرے اور جب تک کوئی اس طرح کا فیصلہ سامنے آئے اس وقت تک اگر ووٹرز اپنے حلقے کے امیدواروں کے اثاثوں کو ہی اپنی پیش نظر رکھیں تو ان کے لیے ووٹ دینے کی ترجیح میں تبدیلی رونما ہوسکتی ہے۔ اور جس وقت بھی ووٹرز نے ایمانداری اور اہلیت کی بنیاد پر ووٹ دینے کی ترجیح کا انتخاب کیا اس دن بیشتر نا اہل، چور ، ٹھگ اور بے ایمان امیدوار از خود ہی انتخاب میں حصہ لینے سے دستبردار ہوجائیں گے۔