ڈاکٹر محمد سہیل شفیق
شعبہ اسلامی تاریخ، جامعہ کراچی
عصر حاضر کے نامور مسلمان ترک محقق اور مورخ ڈاکٹر فواد سیزگین (Fuet Sezgin)کا شمار علوم عربیہ و اسلامیہ کی تاریخ پر دسترس رکھنے والے اہم علماء میں ہوتا ہے۔ فواد سیزگین ۲۴/ اکتوبر ۱۹۲۴ء کو مشرقی ترکی کے شہر بتلس (Bitlis)میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے ۱۹۵۰ء میں استنبول یونیورسٹی سے ایک جرمن مستشرق ہیلموٹ رٹر (Hellmut Ritter)کے زیر نگرانی ایک ایسے اہم موضوع پر کام کیا جس پر اس سے قبل کام نہیں کیا گیا تھا۔ ان کے مقالے کا عنوان تھا ’’صحیح بخاری کے مصادر‘‘ ۔ جس میں انھوں نے مستشرقین کے عام رجحان کے برعکس یہ ثابت کیا کہ امام بخاری کے سامنے اپنی صحیح کی تدوین کے وقت ساتویں صدی عیسوی یعنی تاریخ اسلام کی اوّلین صدی کے تحریر شدہ مجموعے موجود تھے۔ انھوں نے صحیح بخاری کے مصادر کی نشان دہی کی کہ صحیح بخاری کی تدوین کے وقت امام بخاری کے سامنے احادیث کے کون کون سے مجموعے تحریری شکل میں موجود تھے۔ اس حوالے سے مستشرقین کا رد کرتے ہوئے تحقیقی مواد اکٹھاکرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ لیکن ڈاکٹر فواد سیزگین نے نہ صرف اس میں کامیابی حاصل کی بلکہ گولڈ زیہر اور دیگر مغربی محققین کے تصورات پر سنجیدہ تنقید کی ضرورت کا احساس دلایا۔
تعلیم سے فراغت کے بعد کچھ عرصے استنبول یونیورسٹی میں درس و تدریس کی خدمات انجام دیں۔ ترکی کے سیاسی حالات کے باعث ۱۹۶۱ء میں جرمنی منتقل ہوگئے اور فرینکفرٹ یونیورسٹی میں وزٹنگ پروفیسر کے طور پر خدمات انجام دینے لگے۔ بعد ازاں ۱۹۶۵ء میں اسی یونیورسٹی میں پروفیسر کی حیثیت سے ان کا تقرر ہوگیا۔ فرینکفرٹ میں ان کی تحقیق کا مرکز اسلامی عہد کے زریں علوم تھے۔
۱۹۸۲ء میں ڈاکٹر فواد سیزگین نے جرمنی میں ’’ادارہ تاریخ علوم عربیہ و اسلامیہ‘‘ (Institute of the History of the Arab Islamic Science) قائم کیا جو اس وقت دنیا میں عرب اسلامی علوم کی تاریخ کے موضوع پر کتابوں کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ ۱۹۸۳ء میں انھوں نے اسی ادارے میں ایک منفرد عجائب گھر قائم کیا جس میں اسلامی عہد زریں کے آلات، اوزار اور نقشوں کی ۸۰۰ سے زائد نقلیں تیار کرکے رکھیں۔ بعد ازاں ۲۰۰۸ء میں اسی طرح کا ایک عجائب گھر استنبول میں بھی قائم ہوا۔
مشہور جرمن مستشرق کارل بروکلمان (Carl Brockelmann) جن کی کتاب ’’تاریخ ادب عربی‘‘ بہت مشہور ہے، ڈاکٹر فواد سیزگین کے استاد رہے ہیں۔ ڈاکٹر فواد سیزگین نے ان کے کام کو عمدگی سے آگے بڑھایا اور متعدد کتابیں تصنیف کیں جن میں تیرہ جلدوں پر مشتمل ’’تاریخ التراث العربی‘‘ سب سے زیادہ مشہور ہوئی۔ ان کی یہ کتاب علوم اسلامی کی تاریخ کا سب سے اہم حوالہ ہے۔ ۱۹۴۷ء میں انھوں نے یہ کتاب لکھنا شروع کی ۔ ۱۵ سال کی محنتِ شاقہ کے بعد یہ کتاب پایۂ تکمیل کو پہنچی۔یہ کتاب انھوں نے جرمن زبان میں لکھی، کیوں کہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ اس زبان کے اہلِ علم کتابوں کو پڑھ کر سنجیدہ اظہارِ خیال کرتے ہیں۔ فواد سیزگین کی اس کتاب کے کچھ حصے کا عربی کے توسط سے اردو میں ترجمہ ہوچکا ہے۔
تاریخ التراث العربی کا مقصد قرآن، حدیث، تاریخ، فقہ، عقائد، تصوف، شاعری، لغت، نحو، بلاغت، عروض، ادب، فلسفہ، منطق، علم النفس، علم الحیوان، اخلاقیات، سیاسیات، سماجیات، طب، کیمیا، علم نباتات، زراعت، فلکیات، احکام النجوم، علم الاجتماع، جغرافیہ، طبیعیات، ارضیات اور موسیقی جیسے متنوع میدانوں میں مسلمانوں اور عربوں کے کام کا تعارف کرانا اور ان علوم پر دنیا بھر میں پائے جانے والے عربی مخطوطات کی نشاندہی کرنا تھا۔ درحقیقت فواد سیزگین کی یہ کتاب ایک انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتی ہے جو اسلامی علوم کے ہر گوشے پر محیط ہے۔
ڈاکٹر فواد سیزگین نے پانچ جلدوں پر مشتمل اپنی دوسری کتاب ’’اسلام کے قدرتی علوم‘‘ میں فرینکفرٹ کے عجائب گھر کی اشیا کی تفصیلات درج کی ہیں۔ آپ تاریخ علوم عرب و اسلامی(History of Arabic-Islamic Sciences) کے موضوع پر ایک مجلہ کے مدیر بھی تھے۔
ڈاکٹر فواد سیزگین کی مشہور کتاب ’’محاضرات فی تاریخ العلوم العربیہ والاسلامیہ‘‘ کا اردو ترجمہ ’’تاریخ علوم میں تہذیب اسلامی کا مقام‘‘ کے نام سے ادارہ تحقیقات اسلامی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد کے زیر اہتمام ڈاکٹر خورشید رضوی نے کیا۔ اس کتاب میں ۱۳ مختلف عنوانات پر علمی مقالات شامل ہیں۔ ان خطبات میں ڈاکٹر فواد سیزگین نے اس عام رجحان کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی ہے کہ سائنسی علوم کی تاریخ میں پہلے یونان قدیم کے دور اور اس کے فوراً بعد یورپ کی تحریک احیائے علوم کے مرحلے کو جگہ دی جائے، حالانکہ تحقیقات سے ثابت ہوچکا ہے کہ اہلِ یونان سے قبل بھی ڈھائی ہزار برس کی علمی تاریخ موجود ہے، جو انھیں ورثے میں ملی، اور پھر یونانی دور اور احیائے علوم کے دور کے درمیانی عرصے میں عربوں کی گراں قدر علمی خدمات آتی ہیں جن کے بغیر تاریخ ِ علوم کا تسلسل برقرار نہیں رہ سکتا۔ اس درمیانی مرحلے سے چشم پوشی اتفاقی نہیں، بلکہ ارادی ہے۔ ہرچند کہ بعض مستشرقین نے اس سلسلے میں عربوں کا دفاع بھی کیا، لیکن غالب رو مخالفت ہی کی رہی۔ (تاریخ علوم میں تہذیب اسلامی کا مقام، ص۱۲۔۱۳)
ڈاکٹر فواد سیزگین نے اس نکتے کی طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ مسلمانوں نے اجنبی اقوام سے علمی اکتساب کا آغاز ان لوگوں کے وسیلے سے کیا جو اسلام قبول کرچکے تھے، چنانچہ ان کے ہاں استفادے میں تعصب کا عنصر شامل نہ تھا۔ اس کے برعکس لاطینیوں نے عربوں کو اپنا حریف اور دشمن سمجھتے ہوئے ان سے استفادہ کیا، جو نفسیاتی الجھنوں کا باعث بنا۔ مسلمانوں کے ہاں وضاحت و صراحت کا چلن رہا، جب کہ لاطینیوں کے ہاں سرقہ و انتحال نے رواج پایا۔ مسلمان علماء کی بہت سی دریافتوں کا سہرا بعد میں آنے والے مغربی سائنس دانوں کے سر باندھ دیا گیا جس کی بنیاد محض توارد یا لاعلمی نہ تھی، بلکہ جدید تحقیقات سے ایک باقاعدہ علمی سرقے کی روایت کا سراغ ملتا ہے۔ اٹھارہویں صدی عیسوی میں آکر بعض مستشرقین کی کاوشوں سے عربوں کا علمی مقام کسی قدر ابھر کر سامنے آنا شروع ہوا۔ مستقبل میں اس علمی اعتراف کی گنجائش اور بھی زیادہ نظر آتی ہے، جس کے لیے خود مسلمانوں پر لازم ہے کہ تحقیق پر بھرپور توجہ دیں۔ (تاریخ علوم میں تہذیب اسلامی کا مقام، ص ۱۴)
ڈاکٹر فواد سیز گین ٹرکش اکیڈمی آف سائنسز، اکیڈمی آف دی کنگڈم آف مراکو، اور قاہرہ، دمشق اور بغداد کے متعدد علمی و تحقیقی اداروں کے رکن تھے۔ علمی و تحقیقی کاموں میں انہماک کا یہ عالم تھا کہ اپنے اہلِ خانہ سے بھی روزانہ صرف دس منٹ کے لیے کھانے پر ملاقات کرتے تھے۔ وہ روزانہ اٹھارہ گھنٹے علمی کاموں میں مصروف رہتے تھے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے ان کا یہی عمل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ علمی دنیا میں انھیں بہت عزت واحترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ انھیں ان کی علمی اور تحقیقی کاوشوں پر متعدد اعزازات سے نوازا گیا جن میں ’’عالمی شاہ فیصل اعزاز‘‘ اور ’’آرڈر آف میرٹ آف فیڈرل ری پبلک آف جرمنی‘‘ بھی شامل ہیں۔
عالم اسلام کے اس عظیم محقق اور مورخ نے ۳۰ جون ۲۰۱۸ء کو سفر آخرت اختیار کیا۔ یکم جولائی کو ترکی کی مشہور مسجد جامع سلیمانیہ میں نماز جنازہ ادا کی گئی۔ جنازے کو کندھا دینے والوں میں ترکی کے صدر رجب طیب اردوان بھی شامل تھے۔
اس وقت امتِ مسلمہ جس جمود کا شکار ہے اس سے نکلنے کے لیے ڈاکٹر سیزگین کی رائے میں وقت کی اہم ضرورت یہ ہے کہ حقائق سے آنکھیں چار کرتے ہوئے جرأت مندی کے ساتھ خود تنقیدی کے عمل سے گزرا جائے۔ حصولِ مقصد کے لیے نہ تو مختلف مغربی نظاموں کی کورانہ تقلید مناسب ہے، نہ محض ماضی پرستی… مسئلے کا حقیقی حل یہ ہے کہ مسلمانوں کے شاندار ماضی کو سامنے رکھتے ہوئے زمانہ ٔ حال میں معاشرے کی علمی سطح کو بلند کیا جائے۔ جمود ایک ایسا تاریخی عمل ہے جو ہر تہذیب پر وارد ہوا ہے، لہٰذا اس سے دل شکستہ و مایوس ہونے کے بجائے اس کے حقیقی اسباب کا سراغ لگا کر اپنے علمی ورثے کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کرنا اور تقلید ِ محض سے بچتے ہوئے دورِ حاضر کی انسانی میراث کے صالح عناصر کو جرأت مندانہ طور پر اخذ کرنا ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے مسلمان معاشرے کو اعلیٰ درجے کے ذہن پیدا کرنا ہوں گے اور ایسے ذہنوں کی تعمیر کے لیے شدید محنت درکار ہے۔ (تاریخ علوم میں تہذیب اسلامی کا مقام، ص ۱۷)