حقیقی اور منصفانہ احتساب اوّلین ترجیح ہونی چاہیے

احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کے خلاف مقدمے کی سماعت مکمل کرنے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا ہے، جو اِن سطور کی اشاعت کے روز یعنی جمعہ 6جولائی کو سنادیا جائے گا۔ اس مقدمے میں سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کے ساتھ ان کے بچے اور داماد بھی ملزم ہیں۔ پاناما دستاویزات کی اشاعت کے بعد سے پاکستان جس سیاسی زلزلے کا شکار ہے یہ اس کا نقطۂ عروج ہے۔ احتساب عدالت کے فیصلے کے اثرات پاکستان کی قومی سیاست پر گہرا اثر ڈالیں گے۔ یہ فیصلہ انتخابات سے چند ہفتے قبل سامنے آرہا ہے۔ 31 مئی کو پارلیمان تحلیل ہوچکی ہے، 60 یوم کے لیے نگراں حکومت برسر اقتدار ہے۔ سیاسی منظرنامے پر انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے شکوک و شبہات کے سائے مسلسل منڈلا رہے تھے لیکن ہر قسم کے شبہات کے باوجود انتخابی عمل اپنی رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے۔ احتساب عدالت کے فیصلے کے بعد سیاسی قیادت کے طرزِعمل اور فیصلوں پر انتخابی عمل اور اس کے بعد بننے والے سیاسی نظام کا انحصار ہے۔ احتساب عدالت کے فیصلے کے بعد پاکستان میں بدعنوانی اور کرپشن کے خلاف موضوع ایک بار پھر زندہ ہوجائے گا۔ پاکستان میں 1997ء کے انتخابات سے کرپشن اور بدعنوانی سیاسی موضوع بنا ہے۔ اسی وقت سے یہ رائے بھی سیاسی حلقوں میں پختہ ہوئی کہ باری باری منتخب ہونے والی سیاسی جماعتوں نے بدعنوانی کے کلچر کو فروغ دیا ہے جس کی وجہ سے عوام بدحال ہوئے ہیں۔ اس کے مقابلے میں یہ بات بھی کہی جاتی رہی ہے کہ ملک پر سب سے زیادہ مدت اور پوری قوت کے ساتھ حکمرانی جرنیلوں نے کی ہے جن کے ساتھ افسر شاہی شریک رہی ہے۔ فوجی حکومتوں نے ہی پاکستان میں بدعنوان سیاست دانوں کی سرپرستی کی ہے۔ یہ ایک مختصر منظرنامہ ہے پاکستان کی سیاسی تاریخ کا۔
یہ حقیقت ہے کہ بدعنوانی اور کرپشن پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ کسی بھی سیاسی جماعت اور سیاسی قیادت کے جو بھی افکار، خیالات اور نظریات ہوں، اُن پر اتفاق اور اختلاف کیا جاسکتا ہے، لیکن بدعنوانی اور کرپشن کو کسی بھی صورت میں قابلِ قبول قرار نہیں دیا جاسکتا۔ دنیا کے تقریباً ہر ملک میں حکومتوں پر فائز رہنے والے افراد کے خلاف کرپشن اور بدعنوانی کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ کئی افراد کو سزا بھی ہوئی ہے۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ پاکستان میں بھی بلاامتیاز اور شفاف احتساب کے عمل کو جاری رکھا جاتا۔ لیکن جس طرح ملک میں دھاندلی سے پاک شفاف انتخابات کی ضمانت سیاسی استحکام کی لازمی شرط ہے تاکہ ملک پر حقیقی نمائندہ حکومت قائم ہو، عوام کی رائے ہی حکومت کے بننے اور ختم ہونے کا ذریعہ بنے، اسی طرح شفاف اور بلاامتیاز احتساب بھی لازمی شرط ہے۔ اگر احتساب کو سیاسی کھیل کا ذریعہ بنایا جائے تو یہ ملک کے لیے بہت خطرناک ہے۔ یہ بات تو درست ہے کہ دنیا میں کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی مجرم اپنے جرم کو تسلیم کرے، اسی طرح پاکستان میں بھی بدعنوانی اور کرپشن کے الزام میں سزا پانے والے اپنے خلاف سزائوں کو سیاسی انتقام قرار دیتے ہیں۔ یہ بھی المیہ ہے کہ پاکستان میں احتساب کے حوالے سے قائم اداروں کا طرزِعمل شفاف نہیں رہا ہے۔ اس کا یہ بھی مطلب نہیں ہے کہ بدعنوانی میں ملوث افراد پاک صاف رہے ہیں۔ بدعنوانی پاکستان کا حقیقی مسئلہ ہے۔ حکومتوں پر فائز رہنے والے افراد کی دولت میں غیر معمولی اضافہ یہ بتا رہا ہے کہ بدعنوانی حقیقی مسئلہ ہے۔ اس اعتبار سے بدعنوانی کے خلاف حقیقی اور منصفانہ احتساب اوّلین ترجیح ہے، لیکن افسوس یہ ہے کہ احتساب کے عمل کو شفاف انداز میں نہیں چلایا گیا ہے، اس لیے قوم کی دولت لوٹنے والے خائن اور مفاد پرست عناصر بھی مظلوم بن جاتے ہیں۔
پاکستان میں کرپشن اور بدعنوانی کے خلاف تحریک موجود رہی ہے۔ اسی کے ساتھ انتخابات کی شفافیت پر سوالات ہمیشہ رہے ہیں۔ ابھی تک کرپشن اور بدعنوانی کے بارے میں مختلف سیاسی گروہ اپنے مخالفین پر الزامات عاید کرتے رہے ہیں، لیکن ایسا کلچر پیدا نہیں ہوسکا ہے کہ کسی بھی بدعنوان کو برداشت نہ کیا جائے چاہے وہ کوئی بھی ہو۔ پھر بھی پاناما دستاویزات کی اشاعت نے پاکستان میں بدعنوانی کے خلاف تحریک کو نئی شکل دے دی، کیونکہ اس میں پاکستان میں حکمراں وزیراعظم میاں نوازشریف کے خاندان کے نام بھی شامل تھے۔ پاناما دستاویزات کی اشاعت نے پاکستان کی سیاسی حرکیات پر سب سے زیادہ اثرات مرتب کیے ہیں۔ اب ایک بہت اہم مقدمے کا فیصلہ سامنے آرہا ہے، یعنی پاکستان کی سب سے بڑی جماعت کے رہنما کے خلاف بدعنوانی کے مقدمے کا فیصلہ۔ اس مقدمے کے فیصلے سے قبل وہ عدالتِ عظمیٰ سے سرکاری دستاویزات میں حقائق چھپانے کے الزام میں پہلے ہی نااہل ہوچکے ہیں، جس کے بعد وہ اس بات کا دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ ان کے خلاف دس روپے کی بدعنوانی اور خیانت بھی ثابت نہیں ہوسکی ہے، لیکن انہیں سیاسی عناد اور دشمنی کے باعث نااہل قرار دے دیا گیا۔ اس فیصلے کے نتیجے میں ریاست کے اداروں کے درمیان تصادم اور ٹکرائو کا منظر سامنے آیا۔ اس منظرنامے نے سیاسی عدم استحکام پیدا کیا اور احتساب کی تحریک کی ساکھ مجروح ہوئی۔ اس عمل میں پاکستان کی سیاست کے تمام کرداروں نے اپنا کام کیا ہے۔ جیسا کہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ بدعنوانی، سرکاری وسائل کی لوٹ کھسوٹ، کرپشن اور ناجائز ذرائع سے دولت اکٹھی کرنے کے مسئلے پر ہر نظریہ اور فکر رکھنے والوں کے درمیان اتفاق ہوتا ہے، لیکن جب سزا و جزا اور احتساب کے نظام کی شفافیت پر سوال اٹھادیے جائیں تو اس کا نتیجہ انتہائی غلط نکلتا ہے۔ پاکستان کی سیاست اور سیاسی تاریخ کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ عوام کے نمائندہ اداروں کو فیصلہ کن بالادستی حاصل ہونی چاہیے، اس لیے کہ افسر شاہی اپنی فطرت اور مزاج کے اعتبار سے عوام دشمن ہوتی ہے۔ لیکن پاکستان میں انتخابی نظام کی شفافیت اور ساکھ پر سوالات اور سیاست دانوں کی بدعنوانی اور مفاد پرستی نے عوامی سیاست کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ اس کی ذمے داری اُن سیاست دانوں پر عاید ہوتی ہے جن کو عوام نے ووٹوں کی طاقت عطا کی۔ اس کی سب سے بڑی مثال کراچی ہے۔ کراچی عوامی سیاسی مزاحمت کا مرکز تھا۔ کراچی میں ایم کیو ایم کو جو طاقت حاصل ہوئی وہ کسی بھی سیاسی جماعت کو حاصل نہیں ہوئی۔ ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے اپنی بدترین کارکردگی سے اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاسی قوتوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔