ہم تو اپنی کوشش میں لگے ہوئے ہیں لیکن بڑے بڑے علما، فضلا، ٹی وی چینلز اور اہلِ قلم بالٹیاں لیے کھڑے ہیں اور پانی پھیر نہیں رہے بلکہ اوندھا رہے ہیں۔ حالانکہ سوائے لاہور کے، پورے ملک میں پانی کی شدید قلت ہے۔ کراچی میں تو پانی کو ترسے عوام رہنمائوں پر خالی گھڑے پھوڑ رہے ہیں، حالانکہ محاورہ تو ہے ’’بادل دیکھ کر گھڑے پھوڑنا‘‘۔ بادل ہیں کہ کراچی کے ساحل سے اٹھ کر کہیں اور جا برستے ہیں، بقول شاعر:
دشتِ بے آب نے دیکھے ہیں وہ کالے بادل
جو کہیں اور برسنے کو اِدھر سے گزرے
لاہور کا پیرس تو ڈوب گیا لیکن بلدیہ کراچی والے خوش ہیں کہ یہاں بارش نہیں ہوئی، ورنہ کچرے سے اَٹے ہوئے نالوں کا پانی کہاں جاتا!
پانی پھیرنے کی بات ہم نے یوں کہی ہے کہ کب سے ’علاوہ‘ اور ’سوا‘ کا فرق سمجھا رہے ہیں لیکن 2 جولائی کے جسارت میں حضرتِ مفتی منیب الرحمن کا مضمون اردوان کی کامیابی پر شائع ہوا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں ’’ترکی میں تبدیلی کے آثار دیدہ کور کے ’علاوہ‘ سب کو نظر آتے ہیں‘‘۔ حضرتِ علامہ کو اردو کیا، عربی، فارسی پر بھی کامل عبور ہے، انہیں یہ فرق ضرور ملحوظ رکھنا چاہیے تھا۔ ان کے مذکورہ جملے کا مطلب ہے کہ دیدہ کور سمیت سب کو نظر آرہا ہے۔ اگر نظر آرہا ہے تو دیدہ کور یعنی اندھا کیسے ہوا؟ شاعر تو کہتا ہے کہ ’’دیدہ کور کو کیا آئے نظر کیا دیکھے‘‘۔ یہاں ’علاوہ‘ کی جگہ ’سوا‘ ہونا چاہیے تھا۔ لیکن بڑے بڑے علماء کے سامنے ہماری کیا بساط، ایک مفتی تو سند ہوتا ہے۔
جدہ کے اخبار ’اردو نیوز‘ میں ہمارے ایک ساتھی وحید الدین کا تعلق حیدرآباد دکن سے تھا۔ انہوں نے ایک جگہ ’’شیر قورمہ‘‘ کا ذکر کیا۔ ہم نے پوچھا ’’یہ کیا ہوتا ہے؟‘‘ کہنے لگے ’’آپ کو شاید معلوم نہ ہو، عید کے موقع پر ہمارے گھرانوں میں بنتا ہے اور اس سے مہمانوں کی تواضع کی جاتی ہے‘‘۔ عرض کیا ’’یہ شیر قورمہ نہیں، شیر خرما ہوتا ہے، اور خرما چھوارے کو کہتے ہیں‘‘۔ حیران ہوکر بولے ’’اچھا، ہم تو اب تک قورمہ ہی کہتے اور کھاتے رہے ہیں‘‘۔ خرما کے حوالے سے ایک محاورہ بھی ہے ’’ہم خرما و ہم ثواب‘‘ یعنی چھوارہ کھائو اور ثواب لوٹو۔
چلیے، وہ تو حیدرآبادی تھے لیکن محترم پروفیسر عنایت علی خان کا تعلق تو دور دور تک حیدرآباد دکن سے نہیں، ٹونک سے ہے، تاہم وہ حیدرآباد سندھ میں عرصے تک رہے ہیں۔ انہوں نے عید کے حوالے سے اپنے دو شعروں میں ’’شیر خورمہ‘‘ استعمال کیا ہے، ہمارے لیے تو وہ سند ہیں چنانچہ ہم بھی ’خرما‘ کی جگہ ’’خورمہ‘‘ ہی کہیں گے کہ اس میں ’’خور‘‘ بھی ہے ’’مہ‘‘ بھی۔
شاعری سے ہمارا تعلق بس اتنا ہی ہے کہ اچھا شعر اچھا لگتا ہے، اور اچھے شعر کا معیار ہر ایک کے نزدیک مختلف ہے۔ سہ ماہی ’لوح‘ کے تازہ شمارے میں ایک شاعر خورشید ربانی کی غزل پسند آئی لیکن اُن کے ایک شعر نے الجھن میں ڈال دیا۔ شعر ہے:
گزرا ہے اس طرف سے بھی شاید کوئی چراغ
پھوٹی پڑی ہے راہ گزاروں سے روشنی
’’پھوٹی پڑی‘‘ کا استعمال عجیب سا لگا جیسے روشنی نہ ہوئی پھوٹا مقدر ہو گیا، یا پھوٹی ہنڈیا۔ ایک مشہور گیت کے بول ہیں:
بھلا ہوا مری گگری پھوٹی
میں پنیا بھرن سے چھوٹی
مرے سر سے ٹلی بلا
مصرع سے تو یوں لگتا ہے جیسے روشنی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر سرِ راہ پڑی ہوئی ہے۔ یہاں ضروری تھا کہ ’’پھوٹی پڑتی ہے‘‘ کہا جاتا کہ روزمرہ یہی ہے، اس طرح مصرع کا وزن تو ضرور ٹوٹ پھوٹ جاتا لیکن زبان بچ جاتی جس کا تحفظ کرنے کی ذمے داری شاعروں پر زیادہ عاید ہوتی ہے۔ ’’لبوں پر ہنسی پھوٹی پڑتی ہے‘‘، ’’آنکھوں میں چمک یا چہرے سے خوشی پھوٹی پڑتی ہے‘‘ یہ تو جائز ہے، یہاں ’پڑتی‘ نکال کر صرف پھوٹی کا استعمال اچھا نہیں لگے گا۔ اب کوڑیاں تو رہی نہیں لیکن ’’پھوٹی کوڑی‘‘ کا محاورہ ضرور رہ گیا۔ لغت کے مطابق ’پھوٹی‘ پھوٹا کی تانیث ہے جس کا مطلب ہے ٹوٹا ہوا، شکستہ۔ چنانچہ ’پھوٹی روشنی‘ کا مطلب ہوا ٹوٹی پھوٹی روشنی۔ ممکن ہے شاعر کے ذہن میں یہ ہو کہ بند دروازوں سے روشنی ٹوٹ ٹوٹ کر آرہی ہے۔ ’’پھوٹا پڑنا‘‘ اردو کا محاورہ ہے جس کا مطلب ہے: خودبخود ظاہر ہوجانا۔ درختوں پر کونپلیں پھوٹتی ہیں، پھوٹی آنکھ کا دیدہ بھی ہوتا ہے، اور پھوٹا مقدر بھی۔ پھوٹ پڑ بھی جاتی ہے، پھوٹ پھوٹ کر رویا بھی جاتا ہے۔ چلیے اس پر ایک شعر سن لیجیے اور منگل 3 جولائی کو پنجاب کے پیرس لاہور میں جو ہوا اسے مدنظر رکھیں:
کس نے ہاتھ سے ساغر پٹخا موسم کی بے کیفی پر
اتنا رویا پھوٹ کے بادل ڈوب چلا ’’وہ پیرس بھی‘‘
اس شعر میں ’’پٹخا‘‘ کچھ غیر شاعرانہ سا لگتا ہے جیسے کشتی میں مقابل کو زمین پر دے مارنا۔ لغت میں اس کا متبادل ’’پٹکنا‘‘ بھی ہے، یعنی ’’کس نے ہاتھ سے ساغر پٹکا‘‘۔ لیکن پٹکا کا مطلب تو پٹی، کمر بند، وہ دوپٹا یا رومال جس کو سپاہی یا سوار کمر سے لپیٹ لیتے ہیں۔ کسی امر کا تہیہ کرنے کے لیے پٹکا باندھا جاتا ہے جیسے بیڑا (بی ڑا) اٹھایا جاتا ہے۔ بہرحال ’’پھوٹی پڑی‘‘ میں مزا نہیں آیا۔ پھر واضح کردیںکہ ہمیں شعر و شاعری کے بارے میں کچھ نہیں معلوم، ابھی تو نثر ہی درست نہیں ہوئی۔
تو چلیے، نثر کے لیے کسی استاد کی مدد لیتے ہیں۔ گزشتہ شمارے میں حضرتِ آسی ضیائی اور اُن کی کتاب ’’درست اردو‘‘ کا تذکرہ کیا تھا۔ کتاب یقینا اچھی ہے لیکن اسے سمجھنے کے لیے خود ہمیں بہت وقت درکار ہے، اس لیے قارئین کے ذہن پر بوجھ نہیں ڈالیں گے، جو باتیں ہماری سمجھ میں آگئیں اُن کا حوالہ دے دیتے ہیں، مثلاً وہ لکھتے ہیں کہ ’’فارسی کی رو سے ’یہودی‘ اور عربی کی رو سے ’انکساری‘ اگرچہ بالکل غلط ہیں، مگر چونکہ اردو میں یہ دونوں الفاظ رائج ہوچکے ہیں اس لیے اردو کی رو سے یہ درست ہیں، تاہم فصحا ان کا استعمال پسند نہیں کرتے۔ ان کی صحیح شکل ’یہود‘ اور ’انکسار‘ ہے۔‘‘
انکساری کے غلط ہونے پر تو ہم پہلے لکھ چکے ہیں مگر آسی ضیائی اسے اردو کی رو سے درست قرار دے رہے ہیں تو کیا ہم اپنا مؤقف بدل لیں یا لکھا ہوا واپس لے لیں؟ ہم تو نہیں لیتے کہ جب انکسار صحیح ہے تو انکساری دکھانے کی کیا ضرورت ہے! آسی ضیائی لکھتے ہیں کہ ’عاجزی‘ درست ہے کیونکہ اس کی اصل عربی شکل ’عجز‘ اردو میں ثقیل ہے۔ اس لیے اسم فاعل عاجز میں ’ی‘ بڑھاکر ’عاجزی‘ بنا لیا گیا ہے۔ اسی طرح ’تعیناتی‘ بھی درست ہے حالانکہ اس کی شکل ’تعین‘ ہونا چاہیے، مگر اردو میں تعین کے معنی کسی شخص کو کسی عہدے پر مامور کردینے کے نہیں آتے، اس لیے ’تعیناتی‘ ہی صحیح ہے، مگر ٹی وی چینلز پر تو اس پر تشدید لگاکر تعیّناتی بولا جارہا ہے، یعنی ’’تعیوناتی‘‘… یہ کیا ہے؟