نام مجلہ : ششماہی ’’تحصیل‘‘ کراچی
(علمی و تحقیقی مجلہ شمارہ دوم)
جنوری ۔ جون 2018ء
مدیر : ڈاکٹر معین الدین عقیل 0300-2104681
نائب مدیران : جاوید احمد خورشید ۔خالد امین
صفحات : 314 قیمت 600 روپے فی شمارہ
پتہ : ادارہ معارف اسلامی کراچی
ڈی 35، بلاک 5، فیڈرل بی ایریا کراچی 75950
فون نمبر : 92-21-36349840
فیکس : 92-21-36361040
برقی پتا : tehseel.irak@gmail.com
ویب گاہ www.tehseel.com
ششماہی ’’تحصیل‘‘ کراچی علمی و تحقیقی مجلہ ہے جو دو حصوں اردو اور انگریزی پر مشتمل ہے۔ یہ پہلی جلد کا دوسرا شمارہ ہے۔ محتویات کے لحاظ سے بہت قوی ہے، گراں قدر مقالات اور تحقیقات سے مزین ہے۔ جناب مدیر اور نائب مدیران نے بڑی محنت سے مرتب کیا ہے۔ اس پر وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اداریے میں تحریر ہے:
’’تحصیل کا یہ دوسرا شمارہ آپ کے پیش نظر ہے۔ اس کے اولین شمارے کو قارئین کی جانب سے جو پذیرائی دی گئی اور جو پسندیدگی میسر آئی، یہ ہمارے لیے قابلِ اطمینان اور لائقِ شکر ہے۔ ہم رب ذوالجلال کی اس عنایت و سرپرستی پر حد درجہ ممنون و شکر گزار ہیں۔ ہماری کوشش رہے گی کہ ہم اسی طرح اہلِ ذوق اور صاحبانِ دانش و فکر قارئین کی توجہ اور حوصلہ افزائی کے خواہاں رہیں۔ ’’تحصیل‘‘ کے توسط سے ہماری خواہش اور کوشش یہی ہے کہ عمدہ اور نتیجہ خیز مطالعات اور تحقیقات سامنے آتی رہیں اور متعلقہ علم کے موضوعات و مباحث میں نہ صرف اضافہ ہو یا ان کی کمزوریاں دور ہوں بلکہ ممکنہ خلا بھی پُر ہوتے رہیں، اور ساتھ ہی اس میں پیش کردہ مقالات اہلِ ذوق و جستجو کے ممکنہ مطالعات و تحقیقات کے لیے مہمیز اور مصدر و مآخذ بھی ثابت ہوں۔ اس لیے تمام مطالعات اور تحقیقات کے ضمن میں ہماری ترجیحات میں ان کا معیار اوّلیت رکھتا ہے، اور دوسرے ان کے موضوعات بھی اہم ہیں کہ جن کا تعین علم و تہذیب کے تقاضوں اور ملک و معاشرے کی ضرورتوں کے پیش نظر ہو۔
ہم اس امر پر مُصر ہیں کہ موضوعات کو یکسر اچھوتا اور پُرکشش ہونا چاہیے، یا اگر موضوع پرانا ہو یا اچھوتا نہ بھی ہو تو وہ متعلقہ علمی خلا کو پُر کرنے اور موضوع سے متعلق تسامحات اور استدراکات کی تصحیح کرنے کے ساتھ ساتھ موضوع کے تعلق سے نئے عنوانات اور مباحث کی جانب بھی اہلِ تحقیق کو متوجہ کرتا رہے۔ پھر ہم یہ بھی اہم سمجھتے ہیں کہ موضوعات متعلقہ علم کے علاوہ تہذیب و معاشرے کی عصری ضرورتوں اور تقاضوں کو بھی پیش نظر رکھیں اور وہ اہلِ علم و فکر کو ایک دعوتِ مقابلہ (CHALLENGE) بھی دیں کہ جو علم و تہذیب اور انسانیت و اخلاق کے فروغ میں اپنا کردار بھی ادا کریں۔ جو موضوع اپنا ایسا مثبت کردار ادا نہ کرے، ہم سمجھتے ہیں کہ مطالعات اور تحقیقات کے لیے اسے زیر غور نہیں آنا چاہیے۔ ہماری دلی خواہش ہے کہ آج ہمارے ملک کی جامعات اور جس جس ادارے میں تحقیقات کا عمل جاری ہے، وہاں سب سے زیادہ اہمیت موضوعات کو دی جانی چاہیے اور ان کی اہمیت و افادیت اور ان کے علمی و تہذیبی سطح پر مفید و مؤثر ہونے کے امکانات کو ضرور پیش نظر رکھا جانا چاہیے۔‘‘
حصہ اردو کی تفصیل درج ذیل ہے:
پہلا تحقیقی مقالہ جناب رشید حسن خان (2006-1938ء) کی تحقیق ہے جو ممتاز محقق و مصحح اور ماہر زبان کی حیثیت سے بلند مقام کے حامل تھے۔ تدوینِ متون میں ان کا کام مثالی تھا۔ ’’سحرالبیان‘‘، ’’فسانۂ عجائب‘‘، ’’مثنویاتِ شوق‘‘، ’’کلیاتِ جعفر زٹلی‘‘، ’’مصطلحاتِ ٹھگی‘‘ ان کے منفرد تحقیقی و تدوینی کارنامے ہیں۔ اپنی آخری عمر میں انہوں نے غالب کے کلام کا فنی و لسانی مطالعہ اس طور پر کیا تھا کہ جس سے الفاظ کے معانی و مفاہیم کی ممکنہ ساری صورتیں سامنے آجاتی ہیں اور غالب کے کلام کی نوعیت اور تہ در تہ معنویت نمایاں ہوتی ہے۔ یہ تحقیق بھارت میں زیر طبع ہے، اس کا مقدمہ ’’تحصیل‘‘ کے اس شمارے میں شائع ہورہا ہے۔ عنوان ہے:
’’گنجینۂ معنی کا طلسم: رنگا رنگ معنویت کی دریافت‘‘
دوسرا مقالہ جناب عارف نوشاہی کے قلم سے ہے ’’سید علی رضا نقوی: پاکستان کے ایک لائق فارسی تذکرہ شناس اور فائق نعت نگار‘‘ اس مقالے کا عنوان ہے۔ سید علی رضا نقوی جناب عارف نوشاہی کے استاد تھے۔ جامع مقالہ ہے۔
تیسرا مقالہ ڈاکٹر ابرار عبدالسلام شعبہ اردو گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج سول لائنز ملتان کی تحقیق بلکہ خوفناک تحقیق ہے۔ اردو زبان کے ان دلدلی منطقوں میں جن کی طرف کوئی نظر اٹھا کر نہیں دیکھتا موصوف اپنے آلاتِ تحقیق اٹھا کر بلا تکلف داخل ہوجاتے ہیں اور معلومات کے انبار لگادیتے ہیں، اور ایسے حواشی تحریر کرتے ہیں جو خود مختصر مقالات ہوتے ہیں۔ عنوانِ مقالہ ہے ’’انیسویں صدی میں اردو تاریخ گوئی: تاریخی ناموں کی روایت کا فروغ‘‘۔ کسی واقعے کے تاریخی وقوع کو الفاظ میں اس طرح بیان کرنا کہ ان الفاظ کے حروف کے متعینہ اعداد سے مطلوبہ واقعے کا سالِ وقوع ظاہر ہو، اصطلاح میں اسے تاریخ اور اس عمل کو تاریخ گوئی کہتے ہیں۔
چوتھا مقالہ حسن بیگ صاحب ممبر رائل ایشیاٹک سوسائٹی برطانیہ، مقیم اسکاٹ لینڈ کا ہے جس کا عنوان ہے ’’عبدالرحیم خانِ خاناں: ہندوتواکا پرچار‘‘۔ پانچواں مقالہ ایم خالد فیاض ایسوسی ایٹ پروفیسر گورنمنٹ زمیندار پوسٹ گریجویٹ کالج گجرات کی تحریر ہے۔ عنوان ہے ’’گیان چند جین کی اشک شناسی اور ناول گرتی دیواریں‘‘۔ اشک شناسی سے مراد اوپندرناتھ اشکؔ کا ادبی مقام ہے گیان چند جین کی نظر میں۔
ترجمے کے باب میں ابو ریحان البیرونی کی کتاب الجماھر فی معرفۃ الجواھر سے ’’یاقوت‘‘ کے متعلق بحث کو جناب عطش درانی نے ترجمہ کرکے مقالے کی شکل دی ہے۔
تبصراتی مقالات میں پہلا مقالہ مجلسِ ادارت کا مرتبہ ہے، عنوان ہے ’’پاکستان میں فہرست نویسی نسخہ ہائے خطی فارسی کا ایک اختصاص‘‘۔ فہرست نویسی کے ضمن میں ڈاکٹر عارف نوشاہی کی جو کاوشیں مرتب و شائع ہوئی ہیں اور جنہوں نے ایک دنیائے علم و تحقیق کو اپنی جانب متوجہ ہی نہیں کیا، اپنے مطالعات اور تحقیقات کے لیے بطور ناگزیر مآخذ معاونت کی ہے ان کا ذکر اس مقالے میں کیاگیا ہے۔
دوسرا مقالہ جناب عطا خورشید ڈپٹی لائبریرین مولانا ابوالکلام آزاد لائبریری علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بھارت نے ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی گراں قدر تحقیق جامعات میں اردو تحقیق کے کچھ تسامحات اور آئندہ ایڈیشن کے لیے تجاویز دی ہیں۔
تیسرا تبصرانی مقالہ محمد عاصم قریشی کے قلم سے ہے، عنوان ہے ’’انیسویں صدی کا ہندوستان: جدید مؤثر اسلامی تحریکات، ایک عصری تناظر‘‘۔ اس میں افغانی نژاد امریکی مصنف تمیم انصاری کی انعام یافتہ کتاب Destiny Disrupted: A History Of The World Through Islamic Eyes برعظیم میں مسلمانوں کے دورِ زوال اور نوآبادیاتی ہندوستان میں اسلامی تحریکات کے حوالے سے اہمیت کی حامل ہے۔
گوشۂ نوادر میں تحفہ الہند: اردو زبان کی اوّلین نعت، از میرزا خان قسط دوم اس شمارے میں اصل کا عکس شائع کیا گیا ہے۔
انگلش سیکشن میں درج ذیل مقالات شامل ہیں:
Research Articles
1۔ Real Cause of Decline of Muslim Culture: Suspension of Hikmah: A Tentative Analysis
Anwar Moazzam
2-Dr Daud Rahbar: First Pakistani Urdu Teacher In Turkey (March 1956 to August 1959)
M.Ikram Chaghtai
3-شہداء بالقسط “Witnesses for Fair Play Repairing Historical Memory- the Case of Jerusalem
Muhammad Suheyl Umar
4-English and Pakistani Culture: Shibli, Iqbal And Arnold or Ambivalence Revisited
Iftikhar Shafi
Archival Annexure
5-Catalogue of Manuscripts in the Persic, Arabic And Sanskerrit Languages
James Frazer
مندرجہ بالا کیٹلاگ میں درجے مخطوطے جیمز فریزر آف ایسٹ انڈیا کمپنی نے سورت اور احمد آباد سے خریدے 200 کی تعداد میں، جن کی کیٹلاک 1742ء میں اے ملر کے لیے لندن سے طبع ہوئی۔ یہ مخطوطات ریڈکلف لائبریری لندن نے اس کی بیوہ سے خرید لیے تھے۔ اس کی مائیکروفلم اسٹین فورڈ یونیورسٹی لائبریری لندن میں بھی موجود ہے۔
http://researchworks.stanford.edu/view/580114
مجلہ سفید کاغذ پر عمدہ طبع ہوا ہے۔