پیشکش: ابوسعدی
یہ شریعت بزدلوں اور نامردوں کے لیے نہیں اتری ہے۔ نفس کے بندوں اور دنیا کے غلاموں کے لیے نہیں اُتری ہے۔ ہوا کے رخ پر اُڑنے والے خس و خاشاک اور پانی کے بہائو پر بہنے والے حشرات الارض اور ہر رنگ میں رنگ جانے والے بے رنگوں کے لیے نہیں اُتری ہے۔ یہ ان بہادروں اور شیروں کے لیے اتری ہے جو ہوا کا رخ بدل دینے کا عزم رکھتے ہیں، جو دریا کی روانی سے لڑنے اور اس کے بہائو کو پھیر دینے کی ہمت رکھتے ہیں، جو صبغۃ اللہ کو ہر رنگ سے زیادہ محبوب رکھتے ہیں۔ مسلمان جس کا نام ہے‘ وہ دریا کے بہائو پر بہنے کے لیے پیدا ہی نہیں کیا گیا ہے۔ اس کی آفرینش کا تو مقصد ہی یہ ہے کہ زندگی کے دریا کو اُس راستے پر رواں کردے جو اس کے ایمان و اعتقاد میں راہِ راست ہے، صراط مستقیم ہے۔ اگر دریا نے اپنا رُخ اس راستے سے پھیر دیا ہے تو اسلام کے دعویٰ میں وہ شخص جھوٹا ہے جو اس بدلے ہوئے رُخ پر بہنے کے لیے راضی ہو۔ حقیقت میں جو سچا مسلمان ہے وہ اس غلط رَو دریا کی رفتار سے لڑے گا۔ اس کا رُخ پھیرنے کی کوشش میں اپنی پوری قوت صرف کردے گا۔ کامیابی و ناکامی کی اس کو قطعاً پروا نہ ہوگی۔ وہ ہر اُس نقصان کو گوارا کرے گا جو اس لڑائی میں پہنچے یا پہنچ سکتا ہو۔ حتیٰ کہ اگر دریا کی روانی سے لڑتے لڑتے اس کے بازو ٹوٹ جائیں، اس کے جوڑ بند ڈھیلے ہوجائیں اور پانی کی موجیں اس کو نیم جان کرکے کسی کنارے پھینک دیں تب بھی اس کی روح ہرگز شکست نہ کھائے گی۔ ایک لمحے کے لیے بھی اس کے دل میں اپنی اس ظاہری نامرادی پر افسوس یا دریا کے اوپر بہنے والے کافروں اور منافقوں کی کامرانیوں پر رشک کا جذبہ راہ نہ پائے گا۔انقلاب یا ارتقا ہمیشہ قوت ہی کے اثر سے رونما ہوا ہے، اور قوت ڈھل جانے کا نام نہیں ہے، ڈھال دینے کا نام ہے۔ مُڑ جانے کو قوت نہیں کہتے، موڑ دینے کو کہتے ہیں۔ دنیا میں کبھی نامردوں اور بزدلوں نے کوئی انقلاب پیدا نہیں کیا۔ جو لوگ اپنا کوئی اصول، کوئی مقصدِ حیات، کوئی نصب العین نہ رکھتے ہوں، جو خطرات اور مشکلات کے مقابلے کی ہمت نہ رکھتے ہوں، جن کو دنیا میں محض آسائش اور سہولت ہی مطلوب ہو، جو ہر سانچے میں ڈھل جاتے اور ہر دبائو سے دب جانے والے ہوں… ایسے لوگوں کا کوئی قابلِ ذکر کارنامہ انسانی تاریخ میں نہیں پایا جاتا۔ تاریخ بنانا صرف بہادر مردوں کا کام ہے۔ انھی نے اپنے جہاد اور قربانیوں سے زندگی کے دریا کا رُخ پھیرا ہے، دنیا کے خیالات بدلے ہیں، مناہجِ عمل میں انقلاب برپا کیا ہے اور زمانے کے رنگ میں رنگ جانے کے بجائے زمانے کو خود اپنے رنگ میں رنگ دیاہے…
سید ابولااعلی مودودی
سلطانِ رحمت
لکھا ہے کہ ہارون الرشید (786۔ 809ء) کے ایک عالم (گورنر) نے بغاوت کردی۔ شاہی فوج سے اس کا مقابلہ ہوا اور پکڑا گیا۔ سپہ سالار نے اسے قتل کردیا۔ جب یہ خبر خلیفہ تک پہنچی تو کہنے لگا:
’’افسوس کہ ان لوگوں نے مجھے مجرم کو معاف کرنے کی لذت سے محروم کردیا‘‘۔
پھر فرمایا:
’’میں شاہِ قہر و غضب نہیں بلکہ سلطانِ رحمت ہوں‘‘۔
نشانِ پا
ایک شیر بیمار ہوگیا، شکار کے قابل نہ رہا، اس نے پیٹ بھرنے کا طریقہ یہ نکالا کہ جو جانور عیادت کے لیے جاتا، اسے محبت سے قریب بلاتا اور ہڑپ کر جاتا۔ ایک دن ایک لومڑی وہاں جا نکلی اور دور کھڑی ہوکر مزاج پوچھنے لگی۔ شیر نے کہا: پیاری بہن تمہیں دیکھ کر میری آدھی بیماری غائب ہوگئی، ذرا قریب آئو تاکہ میرے دل کو تسلکین حاصل ہو۔ کہنے لگی:
’’میں ضرور تمہارے قریب آتی لیکن ایک چیز سے ڈر گئی ہوں‘‘۔ شیر نے پوچھا: ’’وہ کیا؟‘‘
کہا: ’’یہاں غار میں جانے والے جانوروں کے نشاناتِ پاتو بے شمار ہیں لیکن واپس آنے والوں کا کوئی نشان نہیں ملتا‘‘۔
محمد قطب
معروف مفکر اور اخوان المسلمون کے مرکزی مفکر سید محمد قطب شہید کے چھوٹے بھائی محمد قطب جمعہ 4اپریل کی شب جدہ کے انٹرنیشنل میڈیکل سینٹر میں انتقال کرگئے۔ ان کی عمر 95 سال تھی۔ 1965ء میں مصر کی سیکولر حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کے الزام میں سید قطب کے ساتھ محمد قطب کو بھی گرفتار کیا گیا تھا۔ سید قطب کو 1966ء میں پھانسی دے دی گئی۔ محمد قطب کی جاں بخشی کرکے انہیں جیل میں ڈال دیا گیا۔ 1972ء میں رہائی پانے پر محمد قطب نے اخوان سے فکری ہم آہنگی رکھنے والے احباب کی مدد سے سعودی عرب میں رہائش اختیار کی۔ انہوں نے سید قطب کی کتابیں شائع کرنے کے ساتھ ساتھ خود بھی لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا اور 35 کتابیں تصنیف کیں۔ ’’بیسویں صدی کی جہالت‘‘ ان کی مقبول ترین کتابوں میں سے ہے۔ محمد قطب نے اسلام کے بارے میں پائے جانے والے مغالطے دور کرنے کو اپنی تحریروں کا مرکزی موضوع بنایا۔ انہوں نے مکہ مکرمہ کی اُم القریٰ یونیورسٹی اور جدہ کی کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی میں اسلامی تعلیمات کے پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ 1988ء میں محمد قطب کو کنگ فیصل انٹرنیشنل پرائز دیا گیا۔ محمد قطب 1919ء میں مصر کے شہر اسیوت کے نزدیک موشا نام کے گائوں میں پیدا ہوئے۔ پانچ بہن بھائیوں میں وہ دوسرے نمبر پر تھے۔ محمد قطب کی کتابوں میں ’’مطالعہ نفس انسانی‘‘، ’’اسلام کے بارے میں مغالطے اور غلط فہمیاں‘‘، ’’کیا ہم مسلمان ہیں؟‘‘، ’’جدید جاہلیت‘‘، ’’مادہ پرستی اور اسلام کے درمیان معلق انسان‘‘، ’’اسلام کے بارے میں ہمارا تصور اور تفہیم‘‘،’’ اسلام اور دورِ جدید کا بحران‘‘ اور ’’اسلام کا مستقبل‘‘ نمایاں ہیں۔
پڑھیں ہیں پر گڑھے نہیں
علم تو ہے مگر تجربہ نہیں۔ جب پڑھا لکھا شخص اپنی تعلیم کے مقصد کو نہ سمجھے تو کہتے ہیں۔ اگر تعلیم یافتہ شخص عمل سے کورا ہے، تجربات نہیں رکھتا، یا اس کے مشاہدے میں خامی ہے تو بھی یہ مثل کہی جاتی ہے۔ اس مثل کے متعلق ایک کہانی بیان کی جاتی ہے، جو اس طرح ہے:
ایک نجومی نے اپنے بیٹے کو ایک سال تک علم نجوم کی تعلیم دی۔ جب اس نے علم نجوم میں مہارت حاصل کرلی تو اسے امتحان کے لیے ایک مال دار آدمی کے پاس بھیجا گیا۔ مال دار آدمی نے اپنی مٹھی میں سونے کی انگوٹھی کو بند کرکے اس سے پوچھا:
’’اپنے علم نجوم کے ذریعے بتائو کہ میری مٹھی میں کیا چیز ہے؟‘‘
اس نے حساب لگا کر کہا:
’’آپ کی مٹھی میں دھات کی بنی ہوئی کوئی چیز ہے، جس میں سوراخ ہے اور وہ گول گول ہے، اس میں پتھر بھی ہے‘‘۔
یہ تمام علامتیں بتانے کے بعد وہ خاموش ہوگیا تو مال دار شخص نے پوچھا:
’’مجھے تو صاف صاف اس چیز کا نام بتائو جو میری مٹھی میں بند ہے‘‘۔
اس نے کچھ غور کرنے کے بعد کہا:
’’آپ کے ہاتھ میں چکی کا پاٹ ہے‘‘۔
مال دار شخص نے نجومی کو بلاکر کہا:
’’تمہارا لڑکا علم نجوم میں ابھی ماہر نہیں ہے۔ اس نے میری مٹھی میں بند انگوٹھی کی نشانیاں تو ٹھیک ٹھیک بتائیں مگر جب اس سے نام پوچھا تو کہنے لگا کہ مٹھی میں چکی کا پاٹ ہے‘‘۔
نجومی نے جواب دیا:
’’حضور! یہ پڑھے تو ہیں پر گڑھے نہیں، یعنی یہ تعلیم یافتہ تو ہے مگر تجربہ کار نہیں۔ اس نے کبھی انگوٹھی نہیں دیکھی ہے، البتہ گھر کی چکی کا پاٹ ضرور دیکھا ہے۔ انگوٹھی اور چکی کے پاٹ کی بہت سی علامات ایک جیسی ہیں، اس لیے اس نے انگوٹھی کے بجائے چکی کا پاٹ، ناواقفیت کی بنا پر ہی کہا ہے‘‘۔