انسانیت کی پوری تاریخ خدا مرکز ہے، انسانیت کی پوری تاریخ مذہب مرکز ہے، انسانیت کی پوری تاریخ وحی مرکز ہے، انسانیت کی پوری تاریخ نبی مرکز ہے، انسانیت کی پوری تاریخ آخرت مرکز ہے، انسانیت کی پوری تاریخ معروضی اخلاقیات کو اپنا مرکزی حوالہ بناتی ہے۔ انسانیت کی پوری تاریخ کا تصورِ انسان، تصورِ زندگی، تصورِ کامیابی، تصورِ ناکامی، یہاں تک کہ تصورِ تاریخ بھی یکساں ہے۔ جدید مغربی تہذیب کی ہولناکی کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ وہ انسانیت کی پوری تاریخ کی منکر اور اس کے خلاف ایک خوف ناک سازش ہے۔
مغربی تہذیب اپنے آغاز میں ایک مذہبی تہذیب تھی، اس لیے کہ اس تہذیب کی جڑیں عیسائیت میں پیوست تھیں۔ لیکن اس دور میں بھی مغربی تہذیب کئی حوالوں سے عدم توازن کا شکار اور اسلام دشمنی کا محور تھی۔ اس تہذیب کا داخلی عدم توازن یہ تھا کہ اس نے توحید کے تصور کو مسخ کرکے تثلیث کا عقیدہ ایجاد کرلیا تھا جس کی سند کہیں اور کیا، خود انجیل میں بھی موجود نہ تھی۔ مگر اس کے باوجود مغربی تہذیب نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا بنادیا تھا، اور حضرت عیسیٰؑ ہی نہیں، روح القدس بھی خدا کی خدائی میں شریک تھے۔ اس تہذیب کا ایک داخلی عدم توازن یہ تھا کہ اس تہذیب کے دائرے میں ہبوطِ آدم Original Sin کا شاخسانہ تھا اور اس کا سبب عورت تھی۔ اس تصور نے عیسائیت میں جنس کے تصور کو فی نفسہٖ گناہ بنادیا تھا اور عورت کی کوئی روحانی، اخلاقی اور تہذیبی حیثیت باقی نہیں رہ گئی تھی۔ چنانچہ کہنے والوں نے یہاں تک کہا ہے کہ اگر حضرت عیسیٰؑ شادی کرلیتے تو مغرب میں فرائیڈ پیدا نہ ہوتا، اور اگر حضرت عیسیٰؑ نے معاشی زندگی اختیار کی ہوتی تو مغرب میں کارل مارکس کا ظہور نہ ہوتا۔ ان تبصروں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ تک کہا گیا ہے کہ اگر حضرت عیسیٰؑ نے جہاد کرلیا ہوتا تو جدید مغربی تہذیب میں ہٹلر نہ پیدا ہوتا۔ بہرحال حقیقت جو بھی ہو، اس طرح کے تصورات اور مسائل نے عیسائیت کو ایک ایسا ملغوبہ بنادیا تھا کہ مارٹن لوتھر کو عیسائیت کی ’’اصلاح‘‘ کی ضرورت محسوس ہوئی۔ بدقسمتی سے اصلاحِ مغرب کی یہ تحریک مذہب کے انکار پر منتج ہوئی۔
مغربی تہذیب کے داخلی عدم توازن نے اسلام اور امتِ مسلمہ کے لیے بھی سنگین مسائل کھڑے کیے۔ پوپ اُربن دوئم نے 1095ء میں تقریر کرتے ہوئے اسلام کو شیطانی مذہب قرار دیا۔ پوپ اُربن نے صرف اتنا ہی نہیں کہا بلکہ اُس نے صاف کہا کہ میرے قلب پر یہ بات القا کی گئی ہے کہ عیسائی اٹھیں اور اسلام جیسے شیطانی مذہب اور اس کے گمراہ پیروکاروں کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیں۔ اس خیال کے تحت اُس نے پورے یورپ کو ایک صلیبی جھنڈے کے نیچے جمع ہونے کی تاکید کی۔ اور پورا یورپ 1099ء میں ایک صلیبی جھنڈے کے نیچے جمع ہوا اور ان صلیبی جنگوں کا آغاز ہوا جو وقفے وقفے سے دو سو سال تک جاری رہیں۔ بدقسمتی سے 1095ء میں پوپ اُربن نے جو بات کہی، اسی بات کو ایک اور پوپ نے جنہیں عیسائی پوپ بینی ڈکٹ شش دہم قرار دیتے ہیں، 12 ستمبر 2006ء کو ایک نئے انداز میں دہرایا۔ انہوں نے جرمنی کی Regensburg یونیورسٹی میں لیکچر دیتے ہوئے چودھویں صدی کے ایک بازنطینی عیسائی بادشاہ مینول دوئم (Manual II) کا ایک قول دہرایا۔ اس قول میں عیسائی بادشاہ نے کہا تھا:
’’مجھے دکھائو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کیا نیا لے کر آئے، ان کے پاس (معاذ اللہ) شیطانی اور غیر انسانی چیزوں کے سوا کچھ نہ تھا جیسا کہ ان کا حکم کہ ان کے عقیدے کو تلوار کے ذریعے پھیلا دو۔‘‘
یہ محض اتفاق ہے کہ مسلم دنیا میں کوئی صلاح الدین ایوبی نہ تھا۔ ہوتا تو پوپ بینی ڈکٹ کے توہین آمیز بیان کے بعد چار دن میں تیسری عالمی جنگ شروع ہوجاتی جو نہ جانے کب تک جاری رہتی۔ مغربی تہذیب کا عجیب پہلو یہ ہے کہ اس کے دائرے میں سب سے بڑی روحانی شخصیت یعنی پوپ اور جارج بش جیسے سیاست دان کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ پوپ اربن نے 1095ء میں اسلام کو شیطانی مذہب کہا اور 1099ء میں صلیبی جنگ شروع کی۔ پوپ اربن کی ضلالت کو پوپ بینی ڈکٹ نے 2006ء میں تقریباً 910 سال بعد دہرا دیا۔ یہ بھی اپنی اصل میں صلیبی جنگ کا اعلان ہی تھا۔ یہی ذہنیت نائن الیون کے بعد امریکہ کے صدر جارج بش کی اُس تقریر میں نظر آئی جس میں انہوں نے Crusade یا صلیبی جنگ کی اصطلاح استعمال کی۔ اس سے معلوم ہوا کہ مغربی تہذیب میں اسلام اور مسلمانوںکی دشمنی کے حوالے سے پوپ اور جارج بش میں کوئی فرق نہیں۔ مسلمانوں کے لیے یہ سوچنا بھی ناممکن ہے کہ ان کی تہذیب میں امام غزالیؒ اور نوازشریف کے قول و عمل میں کوئی فرق نہ ہوگا۔ اس طرح کی باتوں سے تہذیبوں کی روح پوری طرح آشکار ہوجاتی ہے۔
بہرحال مغرب میں اصلاحِ مذہب کی تحریک مذہب کی تردید پر منتج ہوئی۔ جدید مغرب نے خدا، مذہب، آسمانی کتاب، وحی، ریاست کے ادارے اور معروضی اخلاق تک ہر چیز کا انکار کردیا۔ تمام مذہبی تہذیبوں کا مرکز خدا تھا، جدید مغربی تہذیب نے خدا کی جگہ مادے اور انسان کو لا بٹھایا۔ مذہبی تہذیبیں کہتی ہیں خدا کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ جدید مغربی تہذیب نے ایک سطح پر کہا کہ مادے کے سوا کوئی خدا نہیں، دوسری سطح پر کہا کہ انسان کے سوا کوئی خدا نہیں۔ مذہبی تہذیبوں کا برتر علم وحی سے نمودار ہونے والی ہدایت تھی۔ جدید مغرب نے کہا کہ انسان بالغ ہوگیا ہے، اب اسے کسی نام نہاد آسمانی علم اور آسمانی ہدایت کی ضرورت نہیں، انسان اب اپنی زندگی کا خود مالک ہے اور عقل سے حاصل ہونے والا علم اس کی رہنمائی کے لیے کافی ہے۔ جدید مغربی تہذیب نے عقل کے معنی کو بدل ڈالا۔ عسکری صاحب نے اپنی کتاب ’’جدیدیت یعنی مغربی فکر کی گمراہیوں کا خاکہ‘‘ میں لکھا ہے کہ مغرب عقلِِ کُلی یعنی Rationality اور عقلِ جزوی یعنی Reasonکا فرق بھول گیا۔ اس فرق کا مفہوم یہ ہے کہ عقلِ کُلی حقیقت کو بحیثیت کُل کے سمجھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس کے برعکس عقل جزوی یا Reason حقیقت کو ٹکڑوں میں بانٹ کر ہی کوئی رائے قائم کرنے کے قابل ہوتی ہے۔ اس طریقۂ کار سے، جسے عرفِ عام میں تجزیاتی طریقہ کار کہا جاتا ہے، عقل کو کسی چیز کے ایک جزو کا شعور تو حاصل ہو جاتا ہے مگراس کی کلیّت کا فہم اسے کبھی میسر نہیں آسکتا۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جدید مغربی تہذیب کے علم اور فہم کا کیا معاملہ ہے۔
وحی کے علم کا ایک پہلو یہ ہے کہ وہ ماورائے حواس تھا، اس کے برعکس اقبال نے صاف کہا ہے:
محسوس پر بِنا ہے علومِ جدید کی
اس دور میں ہے شیشہ عقاید کا پاش پاش
مطلب یہ کہ جدید مغربی تہذیب کا تصورِ علم اپنے فہم کے لیے حواس کا محتاج ہے، اور جو علم حواس سے فراہم نہیں ہوتا جدید مغربی تہذیب اس علم کو علم ہی تسلیم نہیں کرتی، اور اس کے نزدیک ایسے علم کی کوئی افادیت نہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ حواس کے علم کے ذریعے نہ خدا کو جانا جا سکتا ہے، نہ نبوت کے اور وحی کے تجربے کو سمجھا جا سکتا ہے، نہ حواس کے ذریعے دوزخ و جنت کا علم حاصل ہوسکتا ہے نہ آخرت کا، نہ فرشتوں اور جنوں کا۔ یہاں تک کہ خیر و شر اور حلال و حرام کا علم بھی حواس کے ذریعے مہیا نہیں ہوسکتا۔
تمام مذہبی تہذیبوں کا تصورِ انسان یہ ہے کہ انسان روح، نفس اور جسم کا مجموعہ ہے۔ جدید مغربی تہذیب روح اور نفس کی قائل ہی نہیں۔ اس کا اصرار ہے کہ انسان صرف جسمانی حقیقت ہے، اس کے سوا کچھ نہیں۔ مذہبی تہذیبوں میں کامیابی کا تصور اللہ تعالیٰ کی رضا اور نجات کے ساتھ منسلک ہے، اس کے برعکس جدید مغربی تہذیب کہتی ہے کہ کامیابی اپنی اصل میں صرف مادی ہے۔ مذہبی تہذیبیں اخلاقیات کو معروضی یا Objective سمجھتی ہیں، یعنی ان کا خیال ہے کہ اخلاقی اقدار کبھی تبدیل نہیں ہوتیں۔ جو چیز رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں حلال تھی وہ ہمیشہ حلال رہے گی، اور جو چیز رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں حرام تھی وہ قیامت تک حرام رہے گی۔ جدید مغربی تہذیب کہتی ہے: اخلاقیات معروضی یا Objective نہیں موضوعی یعنی Subjective ہوتی ہیں۔ چنانچہ زمانہ بدلتا ہے تو اخلاقی اقدار بدل جاتی ہیں۔ اسلام کا تصورِ تاریخ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشادِ مبارک کی روشنی میں یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد کے بعد خلافتِ راشدہ کا زمانہ ہوگا، پھر ملوکیت آئے گی، اس کے بعد کاٹ کھانے والی آمریت کا دور دورہ ہوگا، لیکن دنیا ایک بار پھر خلافت علی منہاج النبوۃ کے تجربے کی جانب لوٹے گی۔ یہ تاریخ کا دائروی یا Circular تصور ہے۔ اس تصور کے دائرے میں تاریخ اپنے آپ کو دہرانے پر مجبور ہے۔ ہندوازم میں چار زمانوں کا تصور موجود ہے۔ پہلا زمانہ سَت یُگ ہے، اس عہد میں روحانیت عروج پر ہوگی اور حق ہر طرف غالب ہوگا۔ دوسرا زمانہ دُواپر یُگ ہے، اس عہد میں روحانیت تھوڑی سی کم ہوجائے گی اور مادیت زندگی میں داخل ہوجائے گی، اور مذہب کا جو بیل پہلے دور میں چاروں پیروں پر کھڑا تھا اُس کا ایک پائوں غائب ہوجائے گا۔ تیسرا زمانہ ترتیتا یُگ ہے، اس دور میں آدھی روحانیت غائب ہوجائے گی اور دھرم کا بیل صرف دو ٹانگوں کا حامل رہ جائے گا۔ چوتھا دور کَل یُگ ہے۔ یہ تاریک دور ہے، اس دور میں حق 75 فیصد غائب ہوجائے گا۔ اس دور میں برہمن، برہمن نہ رہے گا، یعنی وہ متقی اور صاحبِ علم نہ رہے گا۔ شتریہ بہادر نہ رہے گا، اور ویش ایماندار تاجر نہ رہے گا، لیکن اس کے بعد ایک بار پھر ست یُگ یعنی پہلا زمانہ لوٹ کر آئے گا۔ عیسائیوں کا تصورِ تاریخ یہ ہے کہ بہترین زمانہ حضرت عیسیٰؑ کا تھا، اور ایک بار پھر بہترین زمانہ وہ ہوگا جب حضرت عیسیٰؑ آسمان سے زمین پر اتریں گے۔ اس کے برعکس جدید مغربی تہذہب کے ممتاز دانشور اور ماہر علم البشریات جیمز فریزر نے کہا ہے کہ انسانی تاریخ کا پست ترین دور جادو کا دور تھا۔ انسان کچھ سمجھ دار ہوا تو اس نے مذہب ’’ایجاد‘‘ کرلیا۔ انسانی ذہن نے مزید ترقی کی تو اس نے فلسفہ تخلیق کرلیا۔ انسان مزید آگے بڑھا تو اس نے سائنس پیدا کرلی اور سائنسی علم سب سے اعلیٰ، سب سے برتر اور سب سے قابلِ بھروسا علم ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جدید مغربی تہذیب نے انسانی وقار، انسانی علم، انسانی قدروقیمت اور انسان کے حسن و جمال کے جتنے خزانے تھے ان سب کو آگ لگا دی اور انسان کو ایسی روحانی، علمی، اخلاقی اور تہذیبی عسرت میں مبتلا کردیا جس کا پوری انسانی تاریخ میں کوئی وجود نہ تھا۔
جدید مغربی تہذیب نے مذہب اور اس کے عقاید کو مسترد کرکے جو عقاید ایجاد کیے ان میں سے ایک آزادی ہے، دوسرا جمہوریت ہے، تیسرا مساوات ہے، چوتھا بھائی چارہ ہے۔ ان عقاید کی جو بھی معنویت ہو، مگر جدید مغرب کا اپنے جدید عقاید پر بھی مطلق اور کامل ایمان نہیں ہے، چنانچہ جدید مغرب اپنے لیے آزادی پسند کرتا ہے اور دوسری قوموں کے لیے غلامی، سیاسی غلامی، معاشی غلامی، تہذیبی غلامی، ابلاغی غلامی، تفریحی غلامی۔ مغرب جمہوریت کی بات کرتا ہے مگر مسلم دنیا میں جیسے ہی کوئی مذہبی تحریک انتخابات میں کامیابی حاصل کرتی ہے مغرب اپنے آلۂ کار جرنیلوں کے ذریعے اس کامیابی کو ناکامی میں بدل دیتا ہے۔ الجزائر میں یہی ہوا، مقبوضہ فلسطین میں یہی ہوا، ترکی میں نجم الدین اربکان کے ساتھ یہی ہوا، مصر میں مرسی کے ساتھ یہی ہوا۔ جمہوریت کے ذریعے مغرب کا آلۂ کار جنرل سیسی، جنرل پرویزمشرف، نوازشریف یا کوئی اور اقتدار میں آجائے تو مغرب جمہوریت زندہ باد کا نعرہ لگا دیتا ہے۔ مغرب ویسے بادشاہت کے خلاف ہے کیونکہ بادشاہت جمہوریت کی ضد ہے، مگر مشرق وسطیٰ میں مغرب بادشاہوں کا سب سے بڑا پشتیبان ہے۔ اقوام متحدہ جدید مغرب کی تخلیق ہے اور مغرب جمہوریت کا علَم بردار اور بادشاہت کا منکر ہے، مگر اُس نے اقوام متحدہ کی صورت گری جن خطوط پر کی ہے اُن سے مغرب کا تاریک باطن پوری طرح آشکار ہوجاتا ہے۔ دنیا کے تمام ملک اس ادارے کے رکن ہیں، جمہوریت کے اصول کی رو سے اس ادارے کو فیصلہ کن ادارہ ہونا چاہیے، مگر جنرل اسمبلی میں صرف تقریریں ہوتی ہیں اور اس کی قراردادوں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ اس کے برعکس اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ہے۔ اس کونسل کے پانچ مستقل اراکین ہیں۔ ان پانچ اراکین کے پاس ویٹو پاور ہے، جس طرح ’’وحی‘‘ کے ذریعے کسی بھی انسانی یا اکثریتی فیصلے کو مسترد کیا جا سکتا ہے اسی طرح ویٹو پاور کے ذریعے سلامتی کونسل کی کسی بھی قرارداد کو مسترد کیا جاسکتا ہے۔ جدید مغربی تہذیب وحی کو نہیں مانتی مگر اُس نے دنیا کے پانچ بڑے ملکوں کو دنیا کی تقدیر کا خدا بنایا ہوا ہے اور ان کی رائے کو وحی۔ دوسری سطح پر ویٹو پاور بادشاہت کی علامت ہے۔ جدید مغرب جمہوریت پسند اور بادشاہت کے سخت خلاف ہے، مگر سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین دنیا کے پانچ بادشاہوں کی حیثیت رکھتے ہیں، اور وہ 1945ء سے آج تک سلامتی کونسل میں جمہوریت کو Rape کررہے ہیں۔ سلامتی کونسل اگر کوئی عورت ہوتی تو وہ اب تک Me too مہم کا حصہ بن چکی ہوتی اور امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس اور چین کسی کو دنیا میں منہ دکھانے کے قابل نہ رہتے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ مغرب اپنے آزادی کے عقیدے کی بھی بے حرمتی کررہا ہے اور اس نے جمہوریت کو بھی ایک طوائف بناکر رکھ دیا ہے۔ جہاں تک مساوات اور بھائی چارے یا Fraternity کا تعلق ہے تو مغرب کی تخلیق کی ہوئی دنیا میں نہ کہیں مساوات ہے، نہ کہیں بھائی چارہ ہے۔
مغرب ہی کے ایک ادارے Oxfam کے مطابق دنیا کی ساری دولت کا 82 فیصد دنیا کے صرف ایک فیصد لوگوں کے پاس ہے۔ دنیا کے ایک فیصد لوگوں کے پاس اتنی دولت ہے کہ دنیا کی موجودہ غربت اگر لوٹ کر بار بار آجائے تو اسے سات مرتبہ ختم کیا جاسکتا ہے۔ (روزنامہ ڈان کراچی۔ 28 جنوری 2018ء)
ڈان میں شائع ہونے والے مذکورہ بالا اعداد و شمار 2018ء کے اعداد و شمار ہیں۔ اس بات کا تذکرہ اس لیے اہم ہے کہ 2015ء میں دنیا کی صرف 56 فیصد دولت ایک فیصد مال دار لوگوں کے ہاتھ میں تھی، مگر صرف تین برسوں میں ایک فیصد نے اتنی ترقی کی کہ وہ دنیا کی کُل دولت کے 82 فیصد کے مالک ہوگئے۔ 2015ء میں ایک فیصد لوگوں کے پاس صرف 125 ہزار ارب ڈالر تھے۔ ایک رپورٹ کے مطابق فوربس میگزین نے بتایا ہے کہ 2016ء میں ارب پتیوں کی تعداد صرف 1810 تھی جو 2017ء میں بڑھ کر 2043 ہوگئی۔ (دی نیوز کراچی۔ 19 ستمبر 2017ء)
ان حقائق سے صاف ظاہر ہے کہ مغرب کی تخلیق کی ہوئی دنیا میں کتنی ’’معاشی مساوات‘‘ موجود ہے۔ مغرب کی تخلیق کی ہوئی دنیا کی ’’ترجیحات‘‘ بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق دنیا کے تمام ممالک نے 2016ء میں 1600 ارب ڈالر دفاع پر خرچ کیے۔ یہ کام ایک ایسی دنیا میں ہوا جہاں دنیا کے 3 ارب لوگ 3 ڈالر یومیہ سے کم کی آمدنی کے حامل ہیں۔ فوربس میگزین کے مطابق بھارت 2014ء سے 2024ء تک اپنی مسلح افواج کو جدید بنانے کے لیے ہتھیاروں پر 250 ارب ڈالر خرچ کرے گا، حالانکہ بھارت میں 22 کروڑ افراد یومیہ ایک ڈالر یا اس سے کم کماتے ہیں اور مزید 80 کروڑ لوگوں کی یومیہ آمدنی 1.90 ڈالر کے آس پاس ہے۔ (دی نیوز کراچی۔ 19 ستمبر 2017ء)
مغرب کی تخلیق کردہ دنیا کی مساوات اور ترجیحات اس دنیا کے جنگی جنون اور ہتھیاروں کی محبت اور غربت و افلاس سے آنکھیں چار نہ کرنے کے رجحان سے بھی ظاہر ہے، لیکن اس کا ایک اور مظہر بھی ہے۔ نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق دنیا میں ایسے لوگوں کی تعداد ڈھائی ارب ہے جن کی بینائی کمزور ہے مگر یہ لوگ وسائل کی قلت کی وجہ سے اپنا علاج کرا سکتے ہیں نہ نظر کا چشمہ خرید سکتے ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق بینائی کی کمزوری انسانوں کی پیداواری صلاحیت پر منفی اثر ڈال رہی ہے اور دنیا کو اس سلسلے میں سالانہ 200 ارب ڈالر کے نقصان کا سامنا ہے۔ بینائی کی کمزوری کے مسئلے کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ یوگینڈا کی آبادی ساڑھے چار کروڑ ہے مگر یوگینڈا میں آنکھوں کے امراض کے صرف 45 ڈاکٹر ہیں۔ بھارت میں ہر سال ٹریفک حادثات میں 2 لاکھ افراد ہلاک ہوتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اکثر حادثات بینائی کی کمزوری کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں بینائی کی کمزوری میں مبتلا افراد کی تعداد ایک ارب ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ قریب کے چشمے پر 50 سینٹ اور دور کے چشمے پر صرف ڈیڑھ ڈالر خرچ ہوتے ہیں مگر مغرب کی تخلیق کی ہوئی دنیا میں اتنی معمولی سی رقم بھی کروڑوں لوگوں کے پاس موجود نہیں۔ (ڈیلی دنیا کراچی۔ 10 مئی 2018ء)
جدید مغرب خود کو امن، تہذیب اور انسانیت کا علَم بردار باور کراتا ہے۔ مغرب کے ممتاز ادیب رڈیارڈ کپلنگ نے کہا ہے کہ مشرق نصف شیطان ہے اور نصف بچہ۔ مگر مغرب کتنا رحمانی صفت کا حامل ہے، کتنا امن پسند ہے، کتنا مہذب ہے اور کتنا انسان دوست ہے اِس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ مغرب کے ممتاز ماہر نفسیات ایرک فرام نے اپنی تصنیف “The Anatomy of Human Destructivness” میں لکھا ہے کہ قدیم انسان صرف اُس وقت جارحیت پر آمادہ ہوتا تھا جب اُسے اپنے دفاع کا مرحلہ درپیش ہوتا تھا، مگر جدید (مغربی) انسان کھیل کے طور پر قتل کرتا ہے۔ چنانچہ انہوں نے اپنی کتاب میں 1480ء سے 1940ء تک ان جنگوں کی تفصیل درج کی ہے جو جدید یورپی یا مغربی طاقتوں نے آپس میں لڑی ہیں۔ ان جنگوں کا جدول یہ ہے:
سال جنگوںکی تعداد
1480-1499 9
1500-1599 87
1600-1699 239
1700-1799 781
1800-1899 651
1900-1940 892
ان اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو جدید مغربی انسان وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ جنگجو ہوتا چلا گیا ہے اور اس کی امن دشمنی، سفاکی، انسان دشمنی اور بدتہذیبی بڑھتی چلی گئی ہے، اور اس نے تقریباً 460 برسوں میں 2659 جنگیں لڑیں جن میں دو عالمی جنگیں بھی شامل ہیں۔ کیا یہی جدید مغرب کی امن پسندی ہے؟ کیا یہی جدید مغرب کی انسان دوستی ہے؟ کیا یہی مغرب کی تہذیب ہے؟
امریکہ جدید مغرب کا ’’رہنما‘‘ ہے، مگر اُس کی تاریخ جنگوں کی تاریخ ہے، قتلِ عام کی تاریخ ہے۔ مؤرخین کے مطابق امریکہ نے اپنے قیام کے بعد سے آج تک 223 بار مختلف ملکوں کے خلاف فوج کشی یا اُن کے جغرافیے میں مداخلت کی۔ یہاں تک کہ مؤرخین امریکہ کی معیشت کو جنگی معیشت کہتے ہیں۔ امریکہ نے اگرچہ پہلی جنگِ عظیم میں 1917ء تک مداخلت نہ کی، مگر اس دوران اُس کی معیشت تیزی سے آگے بڑھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ امریکہ اس جنگ میں اسلحہ فروخت کرنے والا سب سے بڑا ملک تھا۔ پہلی عالمی جنگ ختم ہوئی تو امریکہ کی معیشت بیٹھ گئی اور امریکہ میں بے روزگاری کی شرح 25 فیصد تک جا پہنچی۔ کوریا کی جنگ میں کوریا کے 30 لاکھ فوجی اور عام افراد ہلاک ہوئے مگر امریکہ کے مزے ہوگئے۔ اس جنگ کے دوران امریکہ کی معیشت نے 11.5 کی شرح سے ترقی کی۔ یہی صورتِ حال ویت نام کی جنگ کے دوران ہوئی۔ سرد جنگ نے بھی امریکی معیشت کو سہارا دیا۔
(مضمون ’’امریکہ کو جنگ کی ضرورت کیوں ہے‘‘ تحریر: عبدالستار۔ دی نیوز کراچی، 15 مئی 2018ء)
جدید مغرب خود کو امن پسند، مہذب اور مساوات کا علَم بردار کہتا ہے۔ اس ڈھکوسلے کے پرخچے اڑانے کے لیے صرف یہ بتادینا بھی کافی ہے کہ مغرب کا اتحادی اسرائیل مشرق وسطیٰ کیا، دنیاکی دس بڑی فوجی قوتوں میں سے ایک ہے اور اس کا مقابلہ غلیلوں اور پتھروں سے لڑنے والے فلسطینیوں سے ہے۔ طاقت کے اس عدم توازن کا نتیجہ ہے کہ اسرائیلی دہشت گردی سے 17 سال میں ’’صرف‘‘ 3 ہزار فلسطینی بچے شہید ہوئے ہیں۔ تحریک انتفاضہ الاقصیٰ کے بعد سے 13 ہزار بچے زخمی ہوئے، اور اسرائیل نے ’’صرف‘‘ 12 ہزار بچوں کو حراست میں لیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق جیلوں میں 95 فیصد بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ (روزنامہ جسارت۔ 3 جون 2017ء)
اس کے باوجود امریکہ اور اُس کے مغربی اتحادی کہتے ہیں کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ یہ ایسا بیان ہے جو شاید شیطان بھی جاری نہ کرسکے۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کے زمانے میں کولکتہ، مدراس، بہار اور ممبئی سمیت کئی علاقوں میں خشک سالی اور قحط سے صورتِ حال سنگین ہوگئی۔ ولیم ڈگبی نے اس موقع پر قحط سے 2 کروڑ 28 لاکھ 25 ہزار انسانوں کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔ جاں بحق ہونے والوں میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ ہندوستان میں روٹی کا شور مچا ہوا تھا مگر برطانوی وزیراعظم چرچل نے ہندوستان کی صورتِ حال کی طرف سے آنکھیں بند کی ہوئی تھیں۔ وہ برطانیہ میں خوراک کے ڈھیر لگا رہے تھے۔ آسٹریلیا میں بھی زائد گندم موجود تھی مگر چرچل نے ہندوستان کے تجارتی جہاز بھی جنگ میں جھونک دیے۔ برطانوی حکومت گندم کے ذخائر اپنے فوجیوں کے لیے جمع کررہی تھی۔ فوجیوں کے لیے گندم جمع کرنے سے قحط کی صورت حال مزید سنگین ہوئی۔
(میگزین ڈیلی دنیا۔ یکم اپریل 2018ء)
جدید مغرب گزشتہ پچاس سال سے آزاد منڈی کی معیشت اور آزاد تجارت پر فخر کا اظہار کررہا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ ہر ملک کو آزاد منڈی کے اصول اور آزاد تجارت کے تجربے کو گلے لگانا ہوگا۔ مغرب یہ بات اس لیے کہہ رہا تھا کہ ان دونوں دائروں میں اُس کے مقابل کوئی نہ تھا۔ مغرب کے پاس سرمایہ تھا، جدید ٹیکنالوجی تھی، زائد پیداوار تھی۔ مگر پھر یہ ہوا کہ چین سمیت کئی ممالک بڑی اقتصادی قوت بن کر ابھر آئے۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ جدید مغربی تہذیب کا امام آزاد منڈی کی معیشت کے بجائے ’’محفوظ منڈی‘‘ کی معیشت کے تصور کو آگے بڑھا رہا ہے، اور آزاد تجارت کی جگہ ’’منصفانہ تجارت‘‘ کے تصور نے لے لی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ چین کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہوگیا ہے۔ اس صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے عبدالستار نے دی نیوز میں لکھا:
’’اس وقت جو منظرنامہ ہمارے سامنے ہے وہ دنیا کی اقتصادی تاریخ میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ سوشلسٹ چین محصولات اور ڈیوٹیز کے خاتمے کی وکالت کررہا ہے جب کہ آزاد دنیا کا چیمپئن امریکہ ایک ملک کے بعد دوسرے ملک کی درآمدات پر محصولات عائد کر رہا ہے۔‘‘
(دی نیوز کراچی۔ 5 جون 2018ء)
اس سے معلوم ہوا کہ جدید مغرب کا، آزاد منڈی اور آزاد تجارت کا تصور بھی دھوکے کے سوا کچھ نہ تھا۔ مغرب کے امام امریکہ کو آزاد منڈی اور آزادانہ تجارت اُس وقت تک عزیز تھی جب تک اس کے مقابل کمزور قومیں تھیں۔
مغربی بالخصوص امریکی ذہنیت کی ایک مثال الجزیرہ ڈاٹ کام پر موجود Donald Earl Collins کا مضمون ہے۔ مضمون کا عنوان ہے “Why America Lives Matter Most” اس مضمون میں ڈونلڈ کولنز نے امریکی عوام اور امریکی خواص دونوں کی ذہنیت پر روشنی ڈالی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے دوران 1942ء میں امریکہ میں ایک سروے میں 29 فیصد امریکیوں نے کہا کہ جاپان کو بحیثیت ایک قوم تباہ کردینا چاہیے۔ 1944ء میں ایسے ہی ایک سروے میں 33 فیصد امریکیوں نے جاپان کو مکمل طور پر تباہ کرنے کی تمنا ظاہر کی، جب کہ 13 فیصد امریکیوں نے کہا کہ جاپانیوں کو ہلاک کیا جانا چاہیے۔ اسی مضمون کے مطابق ویت نام میں امریکہ نے 38 لاکھ ویت نامیوں کو ہلاک کیا۔ جب ویت نام جنگ کے ایک نقشہ ساز جنرل ولیم ویسٹ مور لینڈ سے پوچھا گیا کہ انسانی جانوں کے اتنے بڑے اتلاف پر آپ کیا کہتے ہیں؟ تو امریکی جنرل نے بے نیازی سے فرمایا ’’مرنے والے ایشیائی ہیں اور ایشیائی موت کے بارے میں اس طرح نہیں سوچتے جس طرح ہم سوچتے ہیں۔‘‘ (دی نیوز کراچی۔ 11 اپریل 2018ء)
جدید مغرب کے اس تکبر کی وجہ اس کی نسل پرستی ہے۔ نسل پرستی کا ایک پہلو ’’رنگ پرستی‘‘ بھی ہے۔ مغرب سفید فام ہے اور باقی دنیا سیاہ فام یا کسی اور رنگ کی۔ اہم بات یہ ہے کہ سفید رنگ کے سوا ہر رنگ حقیر، معنویت اور جمال و جلال سے محروم ہے۔ مغربی ذہنیت میں یہ مسئلہ اتنا بڑا ہے کہ جدید مغرب نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی سفید فام بنا ڈالا ہے۔ اس سلسلے میں تبصرہ کرتے ہوئے شاد معارف نے ڈان میں “Unbearable whiteness of being ” کے عنوان سے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:
’’برصغیر میں انسان کی برتری اس کی حکمت، فہم اور انکسار سے ظاہر ہوتی تھی۔ صوفیہ کی عزت اُن کی کھال کے رنگ کی وجہ سے نہیں کسی اور وجہ سے کی جاتی تھی۔ مگر 19 ویں صدی کے آغاز کے ساتھ ہی برصغیر میں اس حوالے سے تغیرات رونما ہونے شروع ہوگئے اور یورپی باشندوں کی سفید رنگت انسانوں کی برتری کا پیمانہ بن گئی…… یورپ میں گزشتہ 600 سال سے یورپی یہی خیال کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے حواری سفید فام تھے (حالانکہ ان کا رنگ گندمی تھا)۔ عیسائیت کے بارے میں یہ عقیدہ عام ہوا کہ عیسائیت ایک سفید فام مذہب یا White Religion ہے۔‘‘ (ڈان کراچی۔ 11 جون 2018ء)
یہاں کہنے کی ایک اہم بات یہ ہے کہ سفید رنگ ہمارے یہاں اتنا اہم ہوگیا ہے کہ خوب صورتی، جمال، جلال، کشش، برتری غرضیکہ ہر چیز سفید رنگ کے ساتھ وابستہ ہوکر رہ گئی ہے۔ جنوبی ایشیا میں لاکھوں نہیں کروڑوں لڑکیاں کسی بھی قیمت پر گوری ہونا چاہتی ہیں، اس سلسلے میں فلم کی ہیروئن اور عام لڑکی میں کوئی فرق نہیں۔
جدید مغرب نے صنعتی انقلاب کے ذریعے دنیا میں مادی ترقی کا جو جنون تخلیق کیا ہے اُس نے روئے زمین اور اس پر موجود پوری انسانیت کے مستقبل کو دائو پر لگا دیا ہے۔ صنعتی ترقی کی دوڑ نے فضا کو زہریلی گیسوں سے بھر دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں عالمی حدت یا Global Warming نے ہولناک موسمی تغیرات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ پیدا کردیا ہے۔ ماہرین کہہ رہے ہیں کہ زمین پر گرمی بڑھنے سے گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں، سیلابوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ رفیق مانگٹ کی جنگ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سمندر کی سطح بلند ہورہی ہے، اور اگر سمندر کی سطح کے بلند ہونے کا سلسلہ جاری رہا تو 2060ء تک پورا کراچی زیرِ آب آسکتا ہے۔ یہ صرف کراچی کا مسئلہ نہیں بلکہ دنیا کے اکثر ساحلی شہر خطرات سے دوچار ہیں۔ ماہرین کے بقول آئندہ عشروں میں پاکستان کے شمالی اور جنوبی علاقوں میں درجۂ حرارت میں تین تا پانچ ڈگری اضافہ ہوسکتا ہے جس سے بڑی تباہی پھیل سکتی ہے۔ (روزنامہ جنگ کراچی۔ 28 مئی 2018ء)
فکری اور فلسفیانہ سطح پر دیکھا جائے تو جدید مغرب نے اپنی تمام نوآبادیات میں ’’نوآبادیاتی بیگانگی‘‘ یا Colonial Alienation پیدا کر دی ہے- اس مسئلے پر ناصر عباس نیر نے دی نیوز میں شائع ہونے والے مضمون میں روشنی ڈالی ہے۔ ناصر عباس نیر کے بقول نوآبادیاتی تجربے نے ہم سے ہماری حقیقی ذات یا Real Self چھین لیا ہے اور ہم پر ایک نوآبادیاتی تشخص تھوپ دیا ہے۔ اس نئے تشخص کا ایک تقاضا یہ ہوتا ہے کہ غلام اپنے ’’حال‘‘ تک محدود رہے، اور وہ کسی طرح ماضی سے زندہ رشتہ استوار نہ کرے۔ ناصر عباس نیر کے بقول آقا اپنے غلام کو یقین دلا دیتے ہیں کہ تمہارا ’’سیاسی ماضی‘‘ آمرانہ اور ’’ثقافتی ماضی‘‘ زوال آمادہ تھا۔ اس کے برعکس تمہارا حال روشن خیالی، ترقی، نئے سیاسی اور آئینی نظام، نئے تعلیمی بندوبست سے آراستہ ہے۔ آقا تاریخ کو ازسرِنو لکھ کر غلام کے حافظے کو تہ و بالا کردیتے ہیں، رہی سہی کسر تاریخی شخصیات اور تاریخی واقعات کی غلط تعبیر سے پوری کردی جاتی ہے۔ اس کی ایک مثال شبلی کی نظم کا یہ حصہ ہے جو انہوں نے انگریزوں سے مخاطب ہو کر لکھا۔ شبلی نے کہا:
تمہیں لے دے کے ساری داستان میں یاد اتنا ہے
کہ عالمگیر ہندو کُش تھا، ظالم تھا، ستم گر تھا
ناصر عباس نیر کے بقول جدیدیت غلاموں کو یقین دلاتی ہے کہ وہ جدید یا نئے انسان بننے ہی والے ہیں۔ ناصر عباس نیر کے بقول نوآبادیاتی تجربے کے اسیر اپنے آقائوں کے تخلیق کردہ بیانیے، علامتوں اور نشانات کی دنیا میں سانس لیتے ہیں، ان کی ساری محبت، نفرت اور دیگر جذبات اسی تخلیق کی ہوئی دنیا سے نمودار ہوتے ہیں۔ نوآبادیاتی تجربے کے اسیر سیاسی غلام سے ذہنی غلام بن جاتے ہیں، اُن سے اُن کی زبانیں چھین لی جاتی ہیں، آقا انہیں یقین دلا دیتے ہیں کہ انگریزی یا فرانسیسی ہی جدیدیت کی پیچیدگی کے اظہار کے قابل ہے، یہاں تک کہ ہماری اپنی زبان ہمارے لیے اجنبی بنا دی جاتی ہے۔ (دی نیوز۔ 8 اپریل 2018ء)
جدید مغرب سائنس اور ٹیکنالوجی کی بے مثال ترقی کا مظہر ہے۔ لیکن ٹیکنالوجی اور انسان کی زندگی کے باہمی تعلق کی معنویت کا شعور پاکستان کیا امریکہ اور یورپ میں بھی عام نہیں ہے۔ مغرب میں سائنس اور ٹیکنالوجی دونوں سرمایہ داروں کے ہاتھ میں جا چکی ہیں، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ سرمایہ داروں نے زیادہ سے زیادہ منافع کے حصول کے لیے ٹیکنالوجی کی ترقی کی رفتار کو بہت بڑھا دیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ٹیکنالوجی انسان کے ہاتھ سے نکل کر انسان پر حکم چلانے لگی ہے۔ اسے Dictate کرنے لگی ہے۔ یہ اتنا بڑا مسئلہ ہے کہ بیسویں صدی میں مغرب کے سب سے بڑے مؤرخ آرنلڈ ٹوائن بی نے ایک جگہ کہا ہے کہ اگر ہم نے جدید مغربی تہذیب میں کسی نہ کسی قسم کی روحانیت داخل نہ کی اور ہم نے اس تہذیب کو ٹیکنالوجی کے عشق سے نجات نہ دلائی تو مغربی تہذیب کی تباہی یقینی ہے۔ اسی سے ملتی جلتی بات امریکہ کے ممتاز ماہر عمرانیات ایلون ٹوفلر نے اپنی تصنیف “Future Shock” میں کہی ہے۔ اس کتاب کی اہمیت یہ ہے کہ یہ 1970ء میں پہلی بار شائع ہوئی اور اس کی مقبولیت کا یہ عالم ہوا کہ 1974ء تک اس کے 33 ایڈیشن شائع ہوچکے تھے۔ یہ کتاب 359 کتابوں اور مقالات کا نچوڑ ہے اور اس کتاب کے لیے سینکڑوں انٹرویوز کیے گئے ہیں۔ زیر بحث موضوع کے حوالے سے اس کتاب کی اہمیت یہ ہے کہ ٹوفلر نے صاف کہا ہے کہ ٹیکنالوجی انسان کے ہاتھ سے نکل گئی ہے اور وہ ایک ایسی ٹرین کی طرح ہے جس کا حادثے سے دوچار ہونا طے ہے۔ تاہم ٹوفلر نے کہیں کہا ہے کہ یہ بحران سائنس اور ٹیکنالوجی نے پیدا کیا ہے اور وہی ہمیں اس بحران سے نکالیں گے، اس سلسلے میں ہمیں مذہب کی مدد کی ضرورت نہیں۔
اس کتاب کی ایک بنیادی دلیل یہ ہے کہ ٹیکنالوجی نے تغیر کی رفتار کو بڑھا دیا ہے۔ یہ رفتار اتنی زیادہ ہے کہ انسانوں کی اکثریت اس رفتار اور اس سے پیدا ہونے والے تغیرات کو جذب کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تغیرات کی فراوانی اور رفتار جو مطالبات کرتی ہے انسان ان کا جواب دے ہی نہیں سکتا۔ چنانچہ ٹوفلر کے بقول انسانوں کی اکثریت مستقبل کے صدمے یا Future Shock سے دوچار ہوگی۔ یہ ’’شاک‘‘ جسمانی بھی ہوگا اور نفسیاتی بھی۔ لیکن رفتار اور تغیرات کی فراوانی سے نمٹ نہ پانے کے نتائج کیا ہیں؟ ٹوفلر نے اس سوال کا بھی جواب دیا ہے۔ اُس نے کہا ہے کہ فیوچر شاک کے سلسلے میں مختلف لوگوں کا ردعمل مختلف ہوتا ہے، مثلاً اس صورتِ حال سے لوگوں میں اضطراب یا Anxiety پیدا ہوتی ہے۔ مددگار شخص کے خلاف جارحانہ جذبات پیدا ہوتے ہیں، بے معنی تشدد جنم لیتا ہے، جسمانی بیماریاں نمودار ہوتی ہیں، یاسیت یا Depression پیدا ہوتا ہے، سنگ دلی جنم لیتی ہے۔ ایسی صورتِ حال میں بعض لوگ محسوس کرتے ہیں کہ انہیں ہراساں کیا جارہا ہے، انہیں Bugged کیا جارہا ہے۔ چنانچہ وہ زندگی میں کم سے کم فیصلے کرنے کی طرف چلے جاتے ہیں۔ (Future Shock-by Alvin Toffler- Page-326)
ٹوفلر کے یہ خیالات 1970ء میں ظاہر ہوئے تھے۔ اب 2018ء ہے۔ ہمارے سامنے امریکہ کے ممتاز رسالے ’ٹائم‘ 23 اپریل 2018ء کا شمارہ رکھا ہوا ہے۔ اس شمارے میں اسمارٹ فون پر ایک تحقیقی رپورٹ شائع کی گئی ہے۔ اس رپورٹ کے چند حقائق یہ ہیں:
اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے محقق بی جے فوگ نے کہا ہے کہ اگر بیس سال قبل میں نے یہ اعلان کیا ہوتا کہ میں ایسی مشین ایجاد کرنے والا ہوں تو ایک ہنگامہ کھڑا ہوجاتا، مگر اب کمپیوٹر اور اسمارٹ فون ایسا ہی کررہا ہے۔
ٹائم کی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں ایک شخص اوسطاً روزانہ پانچ گھنٹے فون پر صرف کرتا ہے۔ 89 فیصد لوگ نیند سے بیدار ہونے کے ایک گھنٹے کے اندر اندر فون استعمال کرنا شروع کردیتے ہیں۔ امریکہ کے 58 فیصد والدین کا خیال ہے کہ ان کی اولاد کمپیوٹر اور اسمارٹ فونز سے بہت زیادہ وابستگی کی حامل ہے۔ امریکہ میں ہر شخص دن میں اوسطاً 47 مرتبہ اپنا فون چیک کرتا ہے۔ دو بٹا تین فیصد امریکی خیال کرتے ہیں کہ فون سے دور رہنا ذہنی صحت کے لیے اچھا ہے، مگر یہ سمجھنے کے باوجود صرف ایک بٹا چار لوگ ہی فون سے کچھ وقت کے لیے دور رہ پاتے ہیں۔ انسانی رویّے کے بارے میں امریکہ کے ایک ماہر نے اس سلسلے میں یہ تک کہا ہے کہ لوگ مذاق میں کہتے ہیں کہ ہمیں ایک Diaper Product بنانی چاہیے۔ مطلب یہ کہ ایک ایسی مشین کہ لوگ اسے چھوڑ کر پیشاب کرنے کے لیے جانا بھی پسند نہ کریں۔
ٹوفلر نے اپنی کتاب میں ٹیکنالوجی کی رفتار اور اس سے پیدا ہونے والے تغیرات کی بات کی ہے اور کہا ہے کہ اس سے یاسیت یا Depression پیدا ہوتا ہے۔ ہمارے سامنے امریکہ کے ممتاز رسالے ’ٹائم‘ کا 9 اپریل 2018ء کا شمارہ پڑا ہے۔ اس شمارے میں “Depression On Campus” کے عنوان سے ایک مضمون شائع ہوا ہے۔ مضمون کے مطابق امریکی کالج کے 61 فیصد طلبہ نے کہا ہے کہ انہوں نے گزشتہ 12 ماہ میں بے انتہا اضطراب محسوس کیا، 30 فیصد طلبہ نے اضطراب اور یاسیت کے حوالے سے ڈاکٹر کی مدد لی، 39 فیصد طلبہ نے کہا کہ وہ اتنے Depress رہے ہیں کہ انہیں محسوس ہوا کہ وہ کوئی کام ہی نہیں کرسکیں گے،10 فیصد طلبہ نے کہا کہ انہوں نے اضطراب اور یاسیت کی وجہ سے خودکشی کے بارے میں سنجیدگی سے سوچا۔ بلاشبہ یہ امریکی معاشرے کے حقائق ہیں، مگر اب ان حوالوں سے ساری دنیا ہی امریکہ اور یورپ بن گئی ہے، اس لیے کہ مغرب کی ٹیکنالوجی اور اُس سے پیدا ہونے والے مسائل اب ہر جگہ نمودار ہوچکے ہیں۔ اس کو کہتے ہیں ’’گلوبل ولیج‘‘ کا مزا۔
مغرب کی ٹیکنالوجی کا ایک تماشا یہ ہے کہ عالمی ادارۂ صحت نے بالآخر کہہ ہی دیا ہے کہ ویڈیو گیمز بچوں کے اذہان کو اس طرح بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جیسے منشیات اور شراب۔ یہ بات ایک سائنسی تحقیق کے نتیجے میں کہی گئی ہے۔ برطانیہ کے ممتاز اخبار ’دی ٹیلی گراف‘ کے مطابق تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ جو بچے ویڈیو گیمز یا سوشل میڈیا کے ’’نشے‘‘ کے عادی ہوجاتے ہیں وہ آگے جاکر مزید نشوں کے بھی عادی ہوسکتے ہیں۔ برطانیہ میں ایک ایسی بچی کا کیس رپورٹ ہوا جو گیم سے اٹھتی ہی نہیں تھی اور جہاں بیٹھی ہوتی تھی وہیں پیشاب کردیتی تھی۔ (دی نیوز کراچی۔ 14 جون 2018ء)
ایک اندازے کے مطابق دنیا میں تقریباً دو ارب لوگ وڈیو گیمز کھیلتے ہیں اور ان میں سے تقریباً 7 کروڑ افراد وڈیو گیم کے نشے میں مبتلا ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ گیمز چلتے رہیں گے تو نشے کے عادی افراد یعنی ذہنی و نفسیاتی بیماروں کی تعداد بڑھے گی۔ یہاں ناروے میں ہونے والی ایک تحقیق کا ذکر ضروری ہے۔ اس تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ نئی نسل کا آئی کیو لیول ماضی کی نسلوں کے مقابلے میں کم ہورہا ہے۔
جدید مغرب نے پوری انسانیت کے عقاید، آخرت، روحانیت، جذبات و احساسات، عقل و دانش اور علمیت ہی کو تباہ و برباد نہیں کیا، اس کے ایجاد کیے ہوئے کھانوں اور مشروبات نے بھی پوری دنیا میں تباہی پھیلا دی ہے۔
کراچی میں چوتھی بین الاقوامی ذیابیطس کانفرنس کے موقع پر نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انٹرنیشنل ڈائبٹیز فیڈریشن کے صدر پروفیسر Nam Han cho نے کئی اہم باتیں کہیں۔ مثلاً انہوں نے بتایا کہ اس وقت دنیا میں ذیابیطس کے 42 کروڑ 50 لاکھ مریض موجود ہیں، ان میں سے 65 فیصد کا تعلق ایشیا سے ہے۔ ذیابیطس کے اکثر مریضوں کا تعلق ایشیا سے کیوں ہے؟ اس مسئلے پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے انکشاف کیا کہ ایشیائی باشندوں کے جسم کم انسولین پیدا کرتے ہیں، چنانچہ جب تک وہ مقامی غذا کھاتے رہتے ہیں صحت مند رہتے ہیں، مگر جیسے ہی وہ مغربی کھانے استعمال کرنا شروع کرتے ہیں انہیں ذیابیطس کا مرض لاحق ہوجاتا ہے۔
پروفیسر نام نے، جن کا تعلق جنوبی کوریا سے ہے، کہا کہ مغربیت یا Westernization ایشیائی ممالک میں ذیابیطس کی بڑی وجہ بن کر ابھری ہے۔ انہوں نے کہا کہ مغربیت سے میری مراد ’’طرزِ زندگی‘‘ سے بھی ہے اور مغربی کھانوں سے بھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مغربی کھانوں میں گوشت ہی نہیں کاربوہائیڈریٹ بھی زیادہ ہوتا ہے، اس کے علاوہ “Coca-Colonistaion” اور ’’مشینی زندگی‘‘ بھی مغربی طرزِ زندگی کا حصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت دنیا میں ہر سیکنڈ کے بعد ایک شخص ذیابیطس سے ہلاک ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح ذیابیطس سے ہر سال 50 لاکھ افراد ہلاک ہورہے ہیں جو ملیریا، ایڈز اور کئی دیگر امراض سے ہلاک ہونے والوں کی مجموعی تعداد سے زیادہ ہیں۔ (دی نیوز کراچی۔ 9 اپریل 2018ء)
ہمیں یقین ہے کہ ایشیا بالخصوص اسلامی تہذیب کی غذائوں، مشروبات اور طرزِ حیات سے اگر سال میں صرف ایک لاکھ لوگ بھی ہلاک ہوتے تو مغرب پوری تہذیب کا مذاق اڑاتا اور کہتا کہ اس تہذیب کی تو غذائیں، مشروبات اور طرزِ زندگی ہی ’’انسان دشمن‘‘ ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ مغربی طرزِ حیات، مغربی غذائیں اور مشروبات کروڑوں انسانوں کو صرف ذیابیطس ہی میں مبتلا نہیں کررہے ہیں، بلکہ وہ کئی اور دیگر بیماریاں بھی پھیلا رہے ہیں۔ مغرب کے Fast Foods اور کوکا کولا 1970ء کی دہائی کے بعد پوری دنیا میں عام ہوئے، چنانچہ عالمی ادارۂ صحت کی رپورٹ کے مطابق 1975ء کے بعد موٹے افراد کی تعداد میں تین گنا اضافہ ہوا۔ اعداد و شمار کے مطابق 2016ء میں 18 سال سے زیادہ عمر کے ایک ارب 90 کروڑ افراد Over Weight اور 65 کروڑ افراد موٹاپے کے مرض میں مبتلا تھے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ موٹاپا خود ایک بیماری ہے اور اس سے ہارٹ اٹیک اور ہائی بلڈ پریشر سمیت کئی بھیانک امراض انسانوں کو لاحق ہوجاتے ہیں۔ مغربی غذائوں اور مشروبات کی ہولناکی کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ 5 سے 11 سال کی عمر کے بچے بھی مغربی کھانوں اور غذائوں سے موٹاپے کا شکار ہورہے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق 2016ء میں پانچ سے گیارہ سال کی عمر کے 34 کروڑ بچے یا تو موٹے تھے یا ان کا وزن معمول سے زیادہ تھا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو جدید مغرب کا فلسفہ، سیاست، اقتصادیات اور جنگ پرستی ہی انسانیت کے خلاف سازش نہیں بلکہ مغرب کا طرزِ حیات، یہاں تک کہ اُس کے کھانے اور مشروبات بھی پوری انسانیت کے خلاف سازش کا درجہ رکھتے ہیں۔ یہ جدید مغربی تہذیب کی ہولناکی اور خوفناکی کی ’’چند جھلکیاں‘‘ ہیں۔ یار زندہ صحبت باقی۔