پروفیسر ہارون رشید
اسی کمرے میں وہ دائمی استراحت کے لیے لٹائے جا چکے تھے جس میں ہم ایک دن قبل تک اُن کے ساتھ ناشتے کی چائے ہمیشہ پیا کرتے تھے۔ دائیں جانب ان کی چھوٹی صاحبزادی محوِ تلاوت تھی۔ بے تحاشا آنسوئوں کی بارش میں مَیں نے اُن کا چہرہ دیکھا۔ ہلکی سی مسکراہٹ، جس میں ان کا روایتی فاتحانہ طنز چھپا رہتا تھا۔ میں نے بھی ہمیشہ کی طرح انہیں شکست خوردگی کے احساس کے ساتھ دیکھا۔
جس شام انہیں ’ٹبا اسپتال‘ لے جایا گیا وہ صبح سے ہم تین دوستوں کے ساتھ قریب آٹھ گھنٹے بیٹھے رہے۔ عطا اللہ، منظور ہاشمی، مَیں اور ہاشمی صاحب گزشتہ کئی برسوں سے ہر اتوار یا کسی قومی تہوار کی چھٹی پر دن بھر پورے شہر میں مٹر گشت کیا کرتے تھے اور سہ پہر عصر سے پہلے گھروں میں لدے پھندے داخل ہوتے تھے۔ گزشتہ روز عیدالفطر کی چار روزہ چھٹیوں کا آخری دن تھا اور میں نے ہاشمی صاحب سے طے کرلیا تھا کہ ہم اس شام عصر کی نماز مسجد فاروق اعظم میں پڑھیں گے تاکہ سید خالد شاہ کی نماز جنازہ ایک ساتھ ادا کرسکیں جو دو دن قبل ایک اندوہناک حادثے میں ہلاک ہوگئے تھے۔ ایسا ہی ہوا، بعداز نماز ہم دونوں صحن میں ملے۔ وہ تھکن کا شکار تھے اور میں بھی۔
میں نے انہیں بتایا کہ میں رات ایک تقریبِ نکاح میں جائوں گا۔ اور بعد میں ہم دونوں جدا ہوگئے ہمیشہ کے لیے… اور اسی شب گیارہ بجے میرے موبائل نے بتایا کہ ہاشمی صاحب کو Taba اسپتال لے جایا گیا ہے۔ میں فوراً اٹھ کھڑا ہوا اور نہ جانے کس سرعت سے ڈرائیور نے مجھے اسپتال پہنچایا۔ وہ انتہائی نگہداشت کے کمرے میں وینٹی لیٹرپر تھے۔ سبھی موجود تھے اور بہت سارے پہنچ رہے تھے۔بھابھی (مسز ہاشمی)، دونوں صاحب زادیاں اور اکلوتا بیٹا علی ہاشمی مجسم غم تھے۔
رات ایک بجے ڈاکٹروں سے پتا چلا کہ ہاشمی صاحب کے جسم کے سارے عضو معطل ہوگئے ہیں، صرف مصنوعی سانس دی جارہی ہے۔ وہ سلسلہ بھی صبح چھے بجے حرکتِ قلب بند ہوجانے کے ختم کردیا اور مظفر ہاشمی کسی کو لحظہ بھر کی تکلیف دیے بغیر اپنے دائمی سفر پر روانہ ہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
زندگی کے مختلف گوشوں میں مظفر احمد ہاشمی کی شخصیت تقسیم ہوگئی تھی اور ہر گوشہ اس قدر مکمل اور جامع تھا کہ اس کی تشریح خود ہاشمی صاحب نہ کرسکتے تھے۔ ان سے وابستہ افراد انہیں اپنی زندگی کا ایک جزوِ لاینفک قرار دیتے تھے۔ انہیں ہر کسی سے محبت تھی اور کسی سے عناد نہ تھا۔ وہ اپنی شخصیت کے دائرے میں سب سے زیادہ جماعت کے قریب آئے اور اس معاملے میں دیگر ہر فرد کی حیثیت ثانوی تھی۔ اور یہ میرا موضوع بھی نہیں، انہیں محض چھیڑنے کی حد تک گرما دینے کی کوشش میں کوئی جملہ ہم سے سرزد ہوجاتا تھا، اور پھر وہ بے موسم برسات کی طرح برستے تھے۔
وہ میرے محلہ دار تھے، بلکہ میں اُن کے محلے کا رہائشی بلاک A نارتھ ناظم آباد میں بنا، کیونکہ وہ 1968ء سے یہاں کے معدودے چند رہائشیوں میں سے ایک تھے اور اس کا تذکرہ بڑے فخر سے کرتے تھے۔ ان کی کوششوں کے سبب میں بلاک A میں ان کے گروپ کا20واں ممبر بننے میں کامیاب ہوا۔ اس میں ان کی ہر طرح کی معاونت شامل تھی۔
وہ اے بلاک کے ورکنگ گروپ جسے چہل پہل پارٹی بھی کہا جاتا تھا، کے سرگرم رکن تھے۔ 20 افراد کا گروپ بختیاری یوتھ سینٹر کے میدان میں تیز قدموں سے طواف کرتا نظر آتا اور پھر سیڑھیوں میں بیٹھ کر گرما گرم بحث ہوتی۔ بڑے ہی نابغۂ روزگار افراد شامل تھے۔ ابومسلم صدیقی (مشہور افسانہ نگار ابوالفضل کے بھائی)، پروفیسر مکرم علی خان شیروانی، محبوب عالم لاری (افروز ٹیکسٹائل کے مالک)، پروفیسر مطاہر مصطفی، مشہور دانشور‘ مفکر‘ نقاد خورشید علی خان، کنور یونس علی خان، خاکسار اور مظفر ہاشمی اس گفتگو میں ایک مبصر کی حیثیت سے شریکِ گفتگو رہتے۔
مظفر ہاشمی نے تقریباً ساری دنیا دیکھ لی تھی۔ یورپ‘ مغربی‘ ایشیا‘ مشرق وسطیٰ کے تمام اہم شہروں پر ان کا زبانی سفرنامہ قابل شنید ہوتا تھا۔ بڑی بات یہ تھی کہ وہ اس کا تذکرہ کبھی بے موقع نہ کرتے۔ ایک بار غالباً 1996ء میں وہ حسنِ اتفاق سے دورانِ عمرہ مجھے مکہ میں مل گئے، وہیں عطا اللہ بھی تھے۔ زندگی کی یہ حسین ملاقاتیں یاد بن کر رہ گئیں۔
کراچی میں وہ پاکستان میں فلسطین فائونڈیشن کے چیئرمین تھے۔ ہمیشہ مجھے اور منظور ہاشمی کو ساتھ لے جاتے۔ آخری بار گزشتہ ماہ مہران ہوٹل میں انہوں نے جناب رضا ربانی سابق چیئرمین سینیٹ کو صدر کی حیثیت سے مدعو کیا تھا، اور ہر سال کی اس سال بھی وہ لبنان میں فلسطین سے متعلق عالمی کانفرنس میں شریک ہوئے تھے۔
وہ انڈس پینسل لمیٹڈ میں جنرل منیجر کے عہدے پر آخری دن تک کام کرتے رہے۔ اس ادارے سے طویل رفاقت انہوں نے خوب نبھائی اور اس کے شریف النفس مالکان نے بھی رواداری اور احترام کا رشتہ خوب نبھایا اور ان پر ریٹائرمنٹ کا قانون نافذ نہیں کیا۔ اس طرح کی کوئی مثال مجھے کسی پرائیویٹ ادارے میں نہیں دکھائی دیتی۔ آخری وقت ان ڈائریکٹر صاحبان نے بھی اُن کی جدوجہد‘ فرض شناسی اور مہارت کو مثالی قرار دیا۔
ہاشمی صاحب کی طبیعت ایک طرفہ تماشا تھی۔ انہوں نے انتہائی منظم انداز میں سیاست کی اور اپنی اس روش کو زندگی بھر کی مشقت قرار دیتے رہے۔ میں اس حقیقت کا گواہ ہوں کہ انہوں نے اپنی خرابیٔ صحت کے باوجود ادارۂ نورحق میں اپنی صبح کی ملازمت کے بعد شام سے رات گئے تک رضاکارانہ فرائض انجام دیے اور پھر بیرونی ممالک کے قونصل جنرل (قونصلیٹ) میں اپنی جماعت کی قومی سطح پر نمائندگی کی۔ گزشتہ رمضان وہ مجھے ایرانی قونصلیٹ میں افطار ڈنر پر لے گئے اور مسئلہ فلسطین پر انتہائی پُرعزم تقریر کی۔ (اس کی تقریب کی دعوت دینے ایرانی قونصل جنرل ان کی رہائش گاہ پر خود تشریف لائےتھے)
وہ اردو ادب کے بے حد دلدادہ اور وسیع المطالعہ شخص تھے، اس سلسلے میں انہوں نے ادارہ تعمیر ادب اور جمعیت الفلاح کی مسلسل آبیاری کی۔ مشاعرے‘ ادبی نشستیں‘ کتابوں کی رونمائی‘ شخصیات پر پروگرام‘ ہر سال یوم باب الاسلام، سالانہ مشاعرے‘ سلسلۂ چہار بیت اور ہر ماہ بے شمار ادبی نشستوں میں حاضر رہے اور کئی نشستون میں مہمان مقرر کی حیثیت سے شرکت کی۔ مظفر صاحب کو کتب بینی اور اچھی کتب کی خریداری کا بڑا شوق تھا۔ وہ ہر کتب میلے میں میرے ساتھ شرکت کرتے۔ تھک جاتے مگر وقفہ نہ لیتے۔ انہیں بے شمار کتابیں تحفے میں ملتیں۔ سب تو وہ نہ پڑھ پاتے، جستہ جستہ دیکھتے اور مجھ سے تبصرہ چاہتے۔
ان کی کئی کتابیں بطور مطالعہ میرے پاس رہ گئیں اور میں نے باوجود تقاضوں کے انہیں واپس نہ کیں۔ وہ اس سلسلے میں مجھے مور کا ہم قافیہ کہہ کر پکارتے تھے، اور میں اس پر راضی تھا کہ مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے۔ عشرت آفرین (امریکہ) کی کلیات ’’زرد پتوں کا بن‘‘ انہوں نے مجھ سے آخری ہفتے میں طلب کی جو میں نے فوراً دے دی۔
کور ہے چشم طلب گار یہ احسان تیرا
مظفر ہاشمی ایک بھرپور انسان تھے، احسان کرکے بھول جاتے تھے، کبھی زبان پر نہ لاتے۔ ان کی نظریاتی زندگی، ان کی عام زندگی کی آئینہ دار تھی۔ حق حلال کمایا، بچوں کو کھلایا، خاندانی وراثت زندگی میں ہی شریعت کے مطابق اپنے خاندان کے حوالے کردی۔
آخری دن وہ گھنٹوں میرے ساتھ رہے۔ اب زندگی بھر میرے ساتھ رہیں گے۔ دس برس قبل میں نے اپنا حقیقی بھائی قیصر خان کھو دیا تھا، اسے میں ہر شب خواب میں دیکھتا ہوں۔ اب مظفر! تمہیں بھی دیکھوں گا کیوںکہ تم میری مجلسی زندگی کے ’’ماہِ شب چار دہم تھے‘‘۔