سیاسی جماعتوں میں توڑ پھوڑ

انتخابات 2018ء میں ایک ماہ سے بھی کم وقت رہ گیا ہے` لیکن انتخابی شیڈول کے اعلان سے قبل جن خدشات اور تحفظات کا اظہار کیا جارہا تھا وہ اب بھی موجود ہیں۔ یہ خدشہ تو اب بڑی حد تک ٹل گیا ہے کہ یہ انتخابات ہو بھی سکیں گے یا نہیں! لیکن یہ انتخابات کیسے ہوں گے، کتنے شفاف ہوں گے، کتنے نتائج آور ہوں گے، ان کے نتیجے میں جمہوری نظام کو کتنا استحکام ملے گا اور عوام کو کس قدر ریلیف مل سکے گا… یہ سوالات نہ صرف موجود ہیں بلکہ پوری شدت کے ساتھ سر اُٹھائے کھڑے ہیں۔ دوسری جانب نوازشریف کی نااہلی کے بعد سے سیاسی جماعتوں میں جو توڑپھوڑ شروع ہوئی تھی وہ اب نہ صرف بڑھی ہے بلکہ جمہوریت اور نظام کے لیے ایک خطرہ بن کر سامنے آئی ہے۔ تقریباً تمام سیاسی اتحادوں اور سیاسی جماعتوں کے درمیان یہ توڑپھوڑ دیکھنے میں آئی ہے جس کے بارے میں لاہور میں صحافیوں کو دی گئی عید ملن پارٹی میں امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ آنے والے انتخابات سے ڈیموکریسی نہیں لوٹا کریسی مضبوط ہوتی نظر آرہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) بھی اس کی تائید کرتے ہوئے بار بار کہہ رہی ہے کہ اس کے ارکان کا ہانکا لگایا جارہا ہے اور الیکٹ ایبلز کو ایک خاص جماعت کے پرچم تلے بکریوں کی طرح اکٹھا کیا جارہا ہے۔
انھی خدشات پر غور و فکر کے لیے لاہور کے ایک باوقار اور سنجیدہ تھنک ٹینک ’حمید نظامی پریس انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان‘ میں ’’انتخابات 2018ء… امکانات اور تحفظات‘‘ کے عنوان سے ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا، جس کی صدارت تحریک انصاف کی رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد نے کی، جب کہ مقررین میں پیپلز پارٹی کے رہنما بیرسٹر عامر حسن، شعبہ صحافت جامعہ پنجاب کی استاد ڈاکٹر لبنیٰ ظہیر، ممتاز صحافی تنویر شہزاد، پریس انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر جناب ابصار عبدالعلی اور راقم الحروف شامل تھے۔ تمام مقررین کا اس بات پر اتفاق تھا کہ جولائی 2018ء کے انتخابات کے بارے میں سب کو تحفظات ہیں بلکہ شدید خدشات ہیں جو دیوار پر لکھے ہوئے ہیں۔ یہ انتخابات ہو بھی جائیں گے، اپنے وقت پر بھی ہوں گے، لیکن ان کے نتیجے میں نہ جمہوری نظام مضبوط ہوگا اور نہ عوام کو کوئی ریلیف مل سکے گا، اور انتخابات کے فوری بعد سیاسی افراتفری اور بے یقینی بڑھے گی۔ مقررین کا کہنا تھا کہ امتحانات کی طرح انتخابات بھی ایک ایسا عمل ہے کہ جس کے اعلان کے بعد متعلقہ انتظامی اداروں کا سارا زور اس نکتہ پر لگ جاتا ہے کہ کسی بھی طرح امتحانات اور انتخابات اپنے وقت پر ہوجائیں۔ انہیں اس سے سروکار نہیں ہوتا کہ یہ کام کتنا معیاری اور قابلِ قبول ہو۔ اُن کی دردِ سری یہ ہوتی ہے کہ جیسے تیسے امتحانات اور انتخابات معین وقت پر ہوجائیں۔ امتحانات میں نقل ہوتی ہے یا شکایات پیدا ہوتی ہیں تو ان کو نظرانداز کرکے بس امتحانات کروا دیے جائیں۔ اسی طرح الیکشن کمیشن اور انتخابی عملہ اپنی ساری قوت اس بات پر صرف کرتا ہے کہ ہر صورت میں معین وقت پر انتخابات کرادیے جائیں۔ اس عمل کے دوران شکایات پیدا ہوں، دھاندلی کی اطلاعات آئیں، مؤثر گروہوں یا اداروں کی مداخلت سامنے آئے، یہ سب باتیں بعد میں دیکھی جائیں گی۔ سرِدست صرف پولنگ اور گنتی کرادی جائے۔ ماضی کے بیشتر انتخابات میں یہی ہوتا رہا ہے اور اِس بار بھی اسی عمل کے دُہرائے جانے کے زیادہ واضح امکانات موجود ہیں۔ مقررین کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگلے چند دنوں میں ہونے والے انتخابات جمہوری نظام کے استحکام یا جمہوری روایات کی مضبوطی کا باعث نہیں بن سکیں گے۔ یہ انتخابات بنیادی طور پر پیسے کے انتخابات ہوں گے، طاقت کے انتخابات ہوں گے، الیکٹ ایبلز کے انتخابات ہوں گے، اور اسٹیبلشمنٹ کے انتخابات ہوں گے۔ یہ سیاسی جماعتوں کے انتخابات نہیں ہوں گے بلکہ انہیں کمزور کرنے کا باعث بنیں گے۔ پولنگ کے دن تو شاید دھاندلی نہ ہوسکے، بیلٹ باکس تبدیل کرنے کی ضرورت نہ پڑے، لیکن پری پول رگنگ کے ذریعے مرضی کے نتائج حاصل کرلیے جائیں گے۔ جو جتنا پیسہ لگائے گا اُتنی کامیابی حاصل کرلے گا۔ نیب سے بھی مطلوب اور کرپشن میں ڈوبے ہوئے لوگوں کو الیکشن لڑنے کی اجازت مل گئی ہے۔ الیکٹ ایبلز بڑی تعداد میں اِدھر سے اُدھر ہورہے ہیں، آئین کی دفعات 62۔63 کو الیکشن کمیشن مکمل نظرانداز کررہا ہے، اقامہ رکھنے والوں کو انتخاب لڑنے کی اجازت مل گئی ہے، یہ لوگ انتخاب جیتنے کے بعد نہ صرف ایک بار پھر اقتدار پر مسلط ہوجائیں گے بلکہ کرپشن، اقربا پروری اور لوٹا کریسی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو بھی دور کردیں گے۔ مقررین کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن انتخابی اخراجات کی حد پر کوئی توجہ نہیں دے رہا، امیدوار تمام ضابطوں کو پامال کرتے ہوئے پیسے کے زور پر اسمبلیوں میں پہنچ جائیں گے، جبکہ اخراجات کی حد میں رہنے والے امیدوار شاید ہی کامیاب ہوسکیں گے کہ ووٹرز کے لیے بھی پیسہ ہی ترغیب ہوگا، اور جب الیکشن کمیشن اس کا نوٹس نہیں لے گا تو یہی ترغیب کامیابی کی ضمانت بن جائے گی۔ تاہم مقررین کا کہنا تھا کہ انتخابات کا بروقت ہوجانا بجائے خود ایک کامیابی ہوگی، اور جمہوری عمل کے تسلسل سے انتخابی عمل میں جو خرابیاں سامنے آئیں گی ان کا بعد میں ہی سہی، لیکن تدارک کیا جاسکے گا۔
دوسری جانب سیاسی جماعتوں کے اندر توڑ پھوڑ بلکہ سیاسی لوٹوں کی اِدھر سے اُدھر اڑانوں کا جو سلسلہ کراچی کے بعد بلوچستان اور جنوبی پنجاب سے شروع ہوا تھا وہ اب وسطی پنجاب اور خیبرپختون خوا کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ اگرچہ لوٹا کریسی کا یہ مرحلہ بڑی تعداد میں نہیں ہے، لیکن یہ اثرات کے اعتبار سے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ خیبرپختون خوا میں اس عمل سے تحریک انصاف کچھ متاثر ہوئی ہے لیکن وسطی پنجاب میں یہ لوٹا کریسی یا ٹکٹوں کی مبینہ غلط تقسیم کے بعد پارٹیاں چھوڑنے کے عمل سے سب سے زیادہ متاثر مسلم لیگ (ن) ہورہی ہے۔ چودھری نثار علی خان کی اپنی پارٹی سے بغاوت اور پانچ حلقوں سے بطور آزاد امیدوار میدان میں اُترنے کے بعد تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین بھی پارٹی کے اندر ایک دوسرے کے آمنے سامنے آگئے ہیں۔ چونکہ مسلم لیگ (ن) نے آخرکار چودھری نثار کے تمام حلقوں میں اپنے امیدوار فائنل کرکے میدان میں اتار دیے ہیں، اس لیے اب عملاً چودھری نثار اور مسلم لیگ (ن) کی سیاست اور راہیں بالکل جدا ہوگئی ہیں۔ شاید چودھری نثار ہی کی بغاوت سے شہ پاکر لاہور کے دو مسلم لیگی رہنمائوں اور سابق وزراء زعیم حسین قادری اور چودھری عبدالغفور اپنی ہی پارٹی کے خلاف میدان میں اُتر آئے ہیں۔ دونوں رہنمائوں نے الگ الگ پریس کانفرنس کرکے قیادت پر سنگین الزامات لگائے ہیں جن میں کارکنوں کو نظرانداز کرنا، پارٹی قیادت کا اپنے کارکنوں سے ملنے سے گریز، ٹکٹوں کی تقسیم کے وقت وفاداری اور قربانی کے بجائے مالی حیثیت کو پیش نظر رکھنا، پارٹی پر شریف خاندان کے بچوں کی گرفت اور ٹکٹوں کی خریدو فروخت جیسے الزامات شامل ہیں۔ زعیم قادری کا کہنا ہے کہ پنجاب اور خصوصاً لاہور میں ٹکٹوں کی تقسیم مکمل طور پر حمزہ شہباز کے ہاتھ میں ہے، انہوں نے نام لے کر کہا کہ ’’حمزہ شہباز لاہور تمہاری یا تمہارے باپ کی جاگیر نہیں‘‘۔ وہ قومی اسمبلی کا ٹکٹ چاہتے تھے، لیکن پارٹی نے انہیں اُن کے صوبائی حلقہ سے ایم پی اے کا ٹکٹ دے دیا اور ان کی اہلیہ عظمیٰ قادری کو خواتین کی مخصوص نشستوں پر پنجاب اسمبلی کا امیدوار نامزد کیا، مگر وہ وحید عالم کی جگہ قومی اسمبلی کا ٹکٹ چاہتے تھے اس لیے انہوں نے اور ان کی اہلیہ نے اپنے ٹکٹ واپس کردیے اور زعیم قادری نے حمزہ شہباز کے مقابلے میں بطور آزاد امیدوار الیکشن لڑنے کا اعلان کردیا۔ زعیم قادری پرانے مسلم لیگی کارکن ہیں، پارٹی کے لیے اُن کی خدمات اور قربانیاں ہیں، وہ دوبار ایم پی اے، صوبائی مشیر اور وزیر رہ چکے ہیں، مسلم لیگ (ن) پنجاب کے جنرل سیکرٹری اور نوازشریف کے، جلاوطنی کے دوران، ترجمان رہ چکے ہیں۔ پنجاب حکومت کے ترجمان رہنے کے علاوہ وہ نوازشریف کی جلاوطنی کے دوران پنجاب اسمبلی کے ایک ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف کے موجودہ رہنما عبدالعلیم خان کے خلاف پارٹی کے امیدوار تھے۔ لیکن قاضی حسین احمد کی مداخلت پر نوازشریف نے انہیں جناب امیرالعظیم کے حق میں دست بردار کرالیا تھا۔ وہ بنیادی طور پر اسکواش کے کھلاڑی اور ماریں کھانے والے کارکن ہیں، لیکن اُن کا تعارف یہ ہے کہ جب نوازشریف 1997ء میں دوبارہ وزیراعظم بننے کے بعد لاہور آکر باغ جناح میں کرکٹ کھیلنے جاتے تو زعیم قادری انہیں بولنگ کرایا کرتے تھے۔
چودھری عبدالغفور بھی لاہور کی میو برادری سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگی کارکن ہیں۔ مخالفین کا کہنا ہے کہ وہ ایک زمانے میں تھیٹر میں ناچا کرتے تھے۔ وہ رائے ونڈ کے رہائشی ہیں اور جاتی امرا کی زمینوں کی خریداری میں شریف خاندان کے معاون رہے ہیں، اس دوران انہوں نے خود بھی خاصی زمینیں خرید کر مدنی فارم بنالیا۔ وہ دو بار ایم پی اے اور وزیر رہ چکے ہیں، شریف خاندان میں ان کا آنا جانا ہے۔ جدہ اور لندن سے واپسی کے بعد جب نوازشریف جاتی امرا آکر رہائش پذیر ہوتے تو وہ ہر جمعہ کی نماز جاتی امرا کے اندر بنائی گئی مسجد میں ادا کرتے، اور نمازِ جمعہ کے بعد جاتی امرا میں والد کی قبر پر حاضری دیتے تھے۔ اس موقع پر نوازشریف کے ملاقاتی بھی ساتھ ہوتے۔ ہر بار ایسا ہوتا کہ جب نوازشریف ملاقاتیوں کے ساتھ والد اور بھائی عباس شریف کی قبر پر پہنچتے تو دور سے دھاڑیں مارتے ہوئے چودھری عبدالغفور آجاتے۔ وہ میاں شریف کی قبر سے لپٹ کر اتنی اونچی آواز میں روتے کہ نوازشریف اور شہبازشریف انہیں گلے لگاکر خاموش کراتے تھے۔
نوازشریف کو بولنگ کرانے والے اور میاں شریف کی قبر سے لپٹ کر آہ و زاری کرنے والے یہ دونوں کارکن اب باغی ہوگئے ہیں اور پارٹی قیادت پر سنگین الزامات لگارہے ہیں۔ اس سے لاہور میں ایک تماشا تو لگ گیا ہے لیکن سیاسی لوگوں کا خیال ہے کہ اس بغاوت کا پارٹی پر کوئی زیادہ اثر نہیں پڑے گا۔ اور شاید جلد یا بدیر انہیں منا لیا جائے۔